پی ٹی آئی کے لیے وجیہہ اکرم کی محنتیں رنگ لے آئیں
وجیہہ اکرم صاحبہ اپنے بزرگ والد گرامی، چوہدری جاوید قمر، کے ساتھ گاؤں میں مجھے ملنے تشریف لائیں تویک گونہ حیرت ہُوئی۔
جناب عمران خان نے نہایت دانشمندی اور پی ٹی آئی کی محنتی کارکنوں سے محبت کا سلوک فراہم کرتے ہُوئے محترمہ وجیہہ اکرم کو بھی خواتین کی مخصوص نشستوں پر قومی اسمبلی کی رکن بنا دیا ہے۔ اِس فیصلے سے پی ٹی آئی کی ساکھ اور اکرام میں مزید اضافہ ہُوا ہے۔وجیہہ صاحبہ دولتمند ہیں نہ اُن کا کوئی تگڑا سیاسی خاندان ہے ۔ بس محنت اور کمٹمنٹ کی مالک اور حامل ہیں۔
یہ دونوں اوصاف انھوں نے عمران خان اور پی ٹی آئی کے لیے وقف کررکھے ہیں۔ کم وسائل مگر بلند حوصلوں کے ساتھ وہ اپنے حلقے میں ، گھر گھر، پی ٹی آئی کا پیغام پہنچاتی رہی ہیں۔
اُن کے ساتھ جو سیاسی کارکن عمران خان کا پیغام پھیلانے میں ہمقدم رہے، وہ بھی (مثال کے طور پر ریاض کتابوں والا)کم وسائل تھے لیکن خان صاحب کے مخلص اور سچے عاشق۔ اُن کے حلقے میں جن اصحاب(میاں محمد رشید اور ڈاکٹر نعمت علی جاوید) کو پی ٹی آئی کے صوبائی اور قومی ٹکٹ عطا کیے گئے ، کوئی بھی جیت سے ہمکنار نہ ہو سکا۔ان لوگوں کے پاس پیسہ تو تھا لیکن شائد ساکھ اور اعتبار نہیں تھا۔ واقعہ یہ ہے کہ جس ضلع اور ڈویژن سے وجیہہ اکرم کا تعلق ہے، 25 جولائی کے تازہ انتخابات میں وہاں بد قسمتی سے پی ٹی آئی کے سب اُمیدوار ہار گئے۔ پی ٹی آئی کو اِس پورے ڈویژن میں سخت دھچکا پہنچا ہے۔
وجیہہ اکرم صاحبہ اپنے بزرگ والد گرامی، چوہدری جاوید قمر، کے ساتھ گاؤں میں مجھے ملنے تشریف لائیں تویک گونہ حیرت ہُوئی۔ یہ نمازِ مغرب سے کچھ پہلے کا وقت تھا۔ گھر سے باہر ایک گاڑی رکی اور اُس میں سے چند لوگ بر آمد ہُوئے۔ تھوڑی دیر بعد اطلاع دی گئی کہ محترمہ وجیہہ آئی ہیں۔ اُس روز ہم نے گھر میں ایک چھوٹی سی تقریب کا اہتمام کررکھا تھا۔ گھر میں ابھی کئی مہمان جمع تھے۔ بیٹھک کو تھوڑا سا خالی کروایا گیا اور دراز قد وجیہہ اپنے والد کے ساتھ سامنے صوفے پر بیٹھ گئیں۔ میری کزنز بھی وہیں آگئیں۔ بیٹھک بھر گئی تھی۔
وجیہہ اکرم ضلع نارووال میں پی ٹی آئی کی سرگرم اور نہائیت متحرک کارکن ہیں۔ پچھلے قومی انتخابات (مئی 2013ء)میں آزاد اُمیدوار کی حیثیت میں اُن کی اچانک انٹری ہُوئی تھی۔ مقابلہ تو دلِ ناتواں نے خوب کیا۔ نَو وارد اور نَو آموز ہونے کے باوصف ووٹ بھی خاصے لیے مگر جیت نہ سکیں۔ اُن کا مقابلہ سیاسی اعتبار سے پرانے، شہ زور اور طاقتور مرد حریفوں سے تھا۔ ایک طرف چوہدری طارق انیس تھے جو کئی بار قومی وصوبائی اسمبلی کے رکن منتخب ہو چکے تھے ۔ دوسری طرف نون لیگ کے مشہورو معروف چوہدری دانیال عزیز تھے۔ اِن دونوں کے مقابل کھڑے ہوکر وجیہہ اکرم نے خاتون ہونے کے باوجود للکارا مارا تھا۔ اُن کے والد، جو پی آئی اے کے سینئر افسر رہ چکے ہیں، اُس وقت بھی اپنی بہادر بیٹی کے ہمقدم تھے۔
شکست کے باوجود مگر وجیہہ اکرم نے دل نہ ہارا تھا۔ پھر انھوں نے پی ٹی آئی کا پرچم مضبوطی سے تھاما اور مسلسل میدانِ عمل میں رہیں ۔ عجب اتفاق ہے کہ دانیال عزیز، طارق انیس اور وجیہہ اکرم تینوں ہی گجر برادری سے تعلق رکھتے ہیں۔ تینوں ہی نالہ بئیں کے پار، بھارتی سرحد سے متصل، تین مختلف دیہاتوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ حلقہ مذکور میں گجر برادری اکثریت کی حامل ہے؛ چنانچہ جیتنے والے کو گجر وں کے ووٹ توڑ کر ہی اقتدار کے ایوانوں میں پہنچنا تھا۔ ایسے میں وجیہہ اکرم کے لیے راستہ کچھ آسان نہیں تھا۔ وجیہہ اکرم اپنے والد صاحب کے ساتھ بیٹھی اپنے سیاسی عزائم پر، سادہ اسلوب میں، گفتگو کر رہی تھیں۔
معاً وجیہہ کے بزرگ والد صاحب، جو سفید شلوار قمیض میں ملبوس تھے، مجھے براہ راست مخاطب کرتے ہُوئے کہنے لگے: ''یار، یہ جو ہمارے ساتھ بے بنیاد الزامی دُم چھلا منسلک کر دیا گیا ہے، اِس سے تو ہماری جان چھڑوائیں۔ یہ روائیت بھی غلط ہے اور ہمارے خلاف نہایت شرمناک پروپیگنڈہ بھی۔'' وہ اپنے والد صاحب مرحوم اور وجیہہ کے دادا، چوہدری عبدالغفور قمر، کے بارے میں اشارہ کر رہے تھے۔ غفور قمر صاحب قیامِ پاکستان سے پہلے معروف وکیل بھی تھے اور ابھرتے ہُوئے نوجوان سیاستدان بھی۔ کہا جاتا ہے کہ تقسیمِ ہند سے پہلے وہ ضلع سیالکوٹ اور ضلع گورداسپور کی سیاست کے شعلہ مستعجل ثابت ہُوئے۔ چوہدری عبدالغفور قمر نے، پاکستان بننے سے تھوڑا ہی عرصہ قبل، مسلمانوں کی مقبول ترین جماعت (مسلم لیگ) کے پلیٹ فارم سے شاندار سیاسی وانتخابی کامیابی حاصل کی تھی۔
وہ ایم ایل اے بن گئے تھے لیکن تشکیلِ پاکستان کے بعد بوجوہ گمنامی اور مستقل خاموشی غفور قمر صاحب کا مقدر بنی رہی۔ اُن کے کئی بیٹے اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے۔ ایک سینئر فوجی افسر بھی بنا مگر ضلع سیالکوٹ اور تحصیل شکر گڑھ کے گاؤں، پنڈی عمرا، کا فرزند چوہدری عبدالغفور قمر اپنی پُراسرار خاموشی کا قفل توڑنے پر کبھی تیار نہ ہُوا۔ اب اُن کی آل اولاد لاہور، امریکا اور کینیڈا میں آباد ہو چکی ہے۔
چوہدری جاوید اکرم اپنی صاحبزادی، وجیہہ اکرم، کے ایم این اے بننے پر نہایت خوش ہیں۔ کہتے ہیں کہ وہ اپنے ملک، پارٹی اور خاندان کا نام روشن کریں گی اور اسی طرح پی ٹی آئی کی متحرک کارکن ہونے کا ثبوت فراہم کرتی رہیں گی جیسا کہ وہ پچھلے کئی برسوں سے کرتی آ رہی ہیں۔ وجیہہ نے پُرجوش لہجے میں مجھے مخاطب کرتے ہوئے کہا:''کوشش کروں گی کہ اپنے پورے ڈویژن میں پی ٹی آئی کی بھرپور نمایندگی کرتی رہوں اور چیئرمین عمران خان کے آدرشوں پر پوری اتر سکوں۔'' انھیں ایسا کرنا بھی چاہیے کہ اُن پر پی ٹی آئی نے اعتماد کیا ہے۔ وہ ایسے خطے سے، پی ٹی آئی کی خواتین نشستوں پر، ایم این اے منتخب کی گئی ہیں جہاں پی ٹی آئی کا مکمل صفایا ہو چکا ہے۔
ایسے میں وجیہہ اکرم صاحبہ کو پورے ڈویژن میں پی ٹی آئی کے کارکنوں کا خیال بھی رکھنا ہے اور پارٹی کے اجتماعی مفادات کا بھی۔اُن کے سامنے تو یہ ہدف ہونا چاہیے کہ اتنی محنت کریں کہ پانچ سال بعد خواتین کی مخصوص نشستوں پر نہیں بلکہ عام انتخابات میں حصہ لے کر فتح سے ہمکنار ہوں ۔ یہی اُن کا اصل امتحان ہے۔وہ جواں ہمت ہیں اور ایسا کر بھی سکتی ہیں۔
راقم نے وجیہہ اکرم صاحبہ کے دادا مرحوم، چوہدری عبدالغفور قمر، کا واقعہ اپنے ایک بزرگ جناب مقبول احمد سے بیان کیا تو وہ سُن کر یکدم خاموش ہو گئے۔ جناب مقبول احمد کی عمر اِس وقت ماشاء اللہ پچاسی سال کے لگ بھگ ہے۔ کہنے لگے: ''مَیں نے چوہدری غفور قمر کو بھی دیکھا ہے، پاکستان بننے سے قبل جو تاریخی انتخاب ہُوا تھا، اُن میں قمر صاحب کی الیکشن مہمات بھی دیکھی تھیں۔'' پھر وہ یاد کے نہاں خانہ سے کچھ ٹٹولتے ہُوئے بولے: ''مَیں پاکستان بننے سے قبل،غالباً اُس وقت پانچویں چھٹی کا طالبعلم تھا۔
اسکول سے چھُٹی ہُوئی تو مَیں (شکر گڑھ)شہر کے چھمال روڈ پر چڑھ گیا۔ چند منٹ ہی گزرے ہوں گے۔ مَیں نے دیکھا کہ بائیں جانب سڑک کنارے واقع تیلیوں والی مسجد کے سامنے خاصا بڑا مجمع لگا ہے۔ مسجد سے متصل ہی چھوٹا سا میدان تھا۔ اِس کے ارد گرد چار فٹ اونچی پکی چار دیواری تھی۔اندر سامنے ایک دو تین فٹ بلند اسٹیج بنا تھا۔ اس پرسات آٹھ لوگ کرسیوں پر بیٹھے تھے۔
درمیان میں ایک نسبتاً اونچی کرسی پر معروف صوفی بزرگ علی پور شریف کے پِیر جماعت علی شاہ صاحب تشریف فرما تھے۔ پیر جماعت علی شاہ صاحب کابے حد احترام پایا جاتا تھا ۔ اُن کے بے شمار مریدین تھے۔ انھوں نے قائد اعظم کے حکم پر تحریکِ پاکستان میں شاندار کردار ادا کیا تھا۔ اسٹیج پر اُن کے بالکل دائیں جانب عبدالغفور قمر بیٹھے تھے۔ مَیں اُچک کر چار دیواری کے ایک ایسے کونے پر بیٹھ گیا جہاں سے اسٹیج، اس کے مقررین اور سامنے مجمع صاف دکھائی اور سنائی دے رہا تھا۔ قمر صاحب مسلم لیگ کے امیدوار تھے۔
الیکشن قریب تھے اور اِنہی الیکشنوں نے پاکستان کے بارے میں فیصلہ کرنا تھا۔ مَیں نے اپنی آنکھوں سے خود دیکھا اور اپنے کانوں سے سُنا کہ علی پور شریف والے پیر صاحب اسٹیج پر کھڑے ہُوئے۔ ہاتھ بلند کیا تو سارا مجمع ساکت اور کامل خاموش ہو گیا۔ پیر صاحب نے مختصر سی تقریر کی اور فرمایا: بھئی سب بھائیوں نے مسلم لیگ کے امیدوار چوہدری عبدالغفور قمر صاحب کو ووٹ دینا ہے اور پاکستان کو جتوانا ہے۔ سب حاضر سامعین نے بیک زبان ہاں میں جواب دیا۔ قائد اعظم کی وجہ سے قمر صاحب بھاری اکثریت سے جیت گئے تھے۔'' محترمہ وجیہہ اکرم انھی چوہدری عبدالغفور قمر مرحوم کی پوتی ہیں۔
یہ دونوں اوصاف انھوں نے عمران خان اور پی ٹی آئی کے لیے وقف کررکھے ہیں۔ کم وسائل مگر بلند حوصلوں کے ساتھ وہ اپنے حلقے میں ، گھر گھر، پی ٹی آئی کا پیغام پہنچاتی رہی ہیں۔
اُن کے ساتھ جو سیاسی کارکن عمران خان کا پیغام پھیلانے میں ہمقدم رہے، وہ بھی (مثال کے طور پر ریاض کتابوں والا)کم وسائل تھے لیکن خان صاحب کے مخلص اور سچے عاشق۔ اُن کے حلقے میں جن اصحاب(میاں محمد رشید اور ڈاکٹر نعمت علی جاوید) کو پی ٹی آئی کے صوبائی اور قومی ٹکٹ عطا کیے گئے ، کوئی بھی جیت سے ہمکنار نہ ہو سکا۔ان لوگوں کے پاس پیسہ تو تھا لیکن شائد ساکھ اور اعتبار نہیں تھا۔ واقعہ یہ ہے کہ جس ضلع اور ڈویژن سے وجیہہ اکرم کا تعلق ہے، 25 جولائی کے تازہ انتخابات میں وہاں بد قسمتی سے پی ٹی آئی کے سب اُمیدوار ہار گئے۔ پی ٹی آئی کو اِس پورے ڈویژن میں سخت دھچکا پہنچا ہے۔
وجیہہ اکرم صاحبہ اپنے بزرگ والد گرامی، چوہدری جاوید قمر، کے ساتھ گاؤں میں مجھے ملنے تشریف لائیں تویک گونہ حیرت ہُوئی۔ یہ نمازِ مغرب سے کچھ پہلے کا وقت تھا۔ گھر سے باہر ایک گاڑی رکی اور اُس میں سے چند لوگ بر آمد ہُوئے۔ تھوڑی دیر بعد اطلاع دی گئی کہ محترمہ وجیہہ آئی ہیں۔ اُس روز ہم نے گھر میں ایک چھوٹی سی تقریب کا اہتمام کررکھا تھا۔ گھر میں ابھی کئی مہمان جمع تھے۔ بیٹھک کو تھوڑا سا خالی کروایا گیا اور دراز قد وجیہہ اپنے والد کے ساتھ سامنے صوفے پر بیٹھ گئیں۔ میری کزنز بھی وہیں آگئیں۔ بیٹھک بھر گئی تھی۔
وجیہہ اکرم ضلع نارووال میں پی ٹی آئی کی سرگرم اور نہائیت متحرک کارکن ہیں۔ پچھلے قومی انتخابات (مئی 2013ء)میں آزاد اُمیدوار کی حیثیت میں اُن کی اچانک انٹری ہُوئی تھی۔ مقابلہ تو دلِ ناتواں نے خوب کیا۔ نَو وارد اور نَو آموز ہونے کے باوصف ووٹ بھی خاصے لیے مگر جیت نہ سکیں۔ اُن کا مقابلہ سیاسی اعتبار سے پرانے، شہ زور اور طاقتور مرد حریفوں سے تھا۔ ایک طرف چوہدری طارق انیس تھے جو کئی بار قومی وصوبائی اسمبلی کے رکن منتخب ہو چکے تھے ۔ دوسری طرف نون لیگ کے مشہورو معروف چوہدری دانیال عزیز تھے۔ اِن دونوں کے مقابل کھڑے ہوکر وجیہہ اکرم نے خاتون ہونے کے باوجود للکارا مارا تھا۔ اُن کے والد، جو پی آئی اے کے سینئر افسر رہ چکے ہیں، اُس وقت بھی اپنی بہادر بیٹی کے ہمقدم تھے۔
شکست کے باوجود مگر وجیہہ اکرم نے دل نہ ہارا تھا۔ پھر انھوں نے پی ٹی آئی کا پرچم مضبوطی سے تھاما اور مسلسل میدانِ عمل میں رہیں ۔ عجب اتفاق ہے کہ دانیال عزیز، طارق انیس اور وجیہہ اکرم تینوں ہی گجر برادری سے تعلق رکھتے ہیں۔ تینوں ہی نالہ بئیں کے پار، بھارتی سرحد سے متصل، تین مختلف دیہاتوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ حلقہ مذکور میں گجر برادری اکثریت کی حامل ہے؛ چنانچہ جیتنے والے کو گجر وں کے ووٹ توڑ کر ہی اقتدار کے ایوانوں میں پہنچنا تھا۔ ایسے میں وجیہہ اکرم کے لیے راستہ کچھ آسان نہیں تھا۔ وجیہہ اکرم اپنے والد صاحب کے ساتھ بیٹھی اپنے سیاسی عزائم پر، سادہ اسلوب میں، گفتگو کر رہی تھیں۔
معاً وجیہہ کے بزرگ والد صاحب، جو سفید شلوار قمیض میں ملبوس تھے، مجھے براہ راست مخاطب کرتے ہُوئے کہنے لگے: ''یار، یہ جو ہمارے ساتھ بے بنیاد الزامی دُم چھلا منسلک کر دیا گیا ہے، اِس سے تو ہماری جان چھڑوائیں۔ یہ روائیت بھی غلط ہے اور ہمارے خلاف نہایت شرمناک پروپیگنڈہ بھی۔'' وہ اپنے والد صاحب مرحوم اور وجیہہ کے دادا، چوہدری عبدالغفور قمر، کے بارے میں اشارہ کر رہے تھے۔ غفور قمر صاحب قیامِ پاکستان سے پہلے معروف وکیل بھی تھے اور ابھرتے ہُوئے نوجوان سیاستدان بھی۔ کہا جاتا ہے کہ تقسیمِ ہند سے پہلے وہ ضلع سیالکوٹ اور ضلع گورداسپور کی سیاست کے شعلہ مستعجل ثابت ہُوئے۔ چوہدری عبدالغفور قمر نے، پاکستان بننے سے تھوڑا ہی عرصہ قبل، مسلمانوں کی مقبول ترین جماعت (مسلم لیگ) کے پلیٹ فارم سے شاندار سیاسی وانتخابی کامیابی حاصل کی تھی۔
وہ ایم ایل اے بن گئے تھے لیکن تشکیلِ پاکستان کے بعد بوجوہ گمنامی اور مستقل خاموشی غفور قمر صاحب کا مقدر بنی رہی۔ اُن کے کئی بیٹے اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے۔ ایک سینئر فوجی افسر بھی بنا مگر ضلع سیالکوٹ اور تحصیل شکر گڑھ کے گاؤں، پنڈی عمرا، کا فرزند چوہدری عبدالغفور قمر اپنی پُراسرار خاموشی کا قفل توڑنے پر کبھی تیار نہ ہُوا۔ اب اُن کی آل اولاد لاہور، امریکا اور کینیڈا میں آباد ہو چکی ہے۔
چوہدری جاوید اکرم اپنی صاحبزادی، وجیہہ اکرم، کے ایم این اے بننے پر نہایت خوش ہیں۔ کہتے ہیں کہ وہ اپنے ملک، پارٹی اور خاندان کا نام روشن کریں گی اور اسی طرح پی ٹی آئی کی متحرک کارکن ہونے کا ثبوت فراہم کرتی رہیں گی جیسا کہ وہ پچھلے کئی برسوں سے کرتی آ رہی ہیں۔ وجیہہ نے پُرجوش لہجے میں مجھے مخاطب کرتے ہوئے کہا:''کوشش کروں گی کہ اپنے پورے ڈویژن میں پی ٹی آئی کی بھرپور نمایندگی کرتی رہوں اور چیئرمین عمران خان کے آدرشوں پر پوری اتر سکوں۔'' انھیں ایسا کرنا بھی چاہیے کہ اُن پر پی ٹی آئی نے اعتماد کیا ہے۔ وہ ایسے خطے سے، پی ٹی آئی کی خواتین نشستوں پر، ایم این اے منتخب کی گئی ہیں جہاں پی ٹی آئی کا مکمل صفایا ہو چکا ہے۔
ایسے میں وجیہہ اکرم صاحبہ کو پورے ڈویژن میں پی ٹی آئی کے کارکنوں کا خیال بھی رکھنا ہے اور پارٹی کے اجتماعی مفادات کا بھی۔اُن کے سامنے تو یہ ہدف ہونا چاہیے کہ اتنی محنت کریں کہ پانچ سال بعد خواتین کی مخصوص نشستوں پر نہیں بلکہ عام انتخابات میں حصہ لے کر فتح سے ہمکنار ہوں ۔ یہی اُن کا اصل امتحان ہے۔وہ جواں ہمت ہیں اور ایسا کر بھی سکتی ہیں۔
راقم نے وجیہہ اکرم صاحبہ کے دادا مرحوم، چوہدری عبدالغفور قمر، کا واقعہ اپنے ایک بزرگ جناب مقبول احمد سے بیان کیا تو وہ سُن کر یکدم خاموش ہو گئے۔ جناب مقبول احمد کی عمر اِس وقت ماشاء اللہ پچاسی سال کے لگ بھگ ہے۔ کہنے لگے: ''مَیں نے چوہدری غفور قمر کو بھی دیکھا ہے، پاکستان بننے سے قبل جو تاریخی انتخاب ہُوا تھا، اُن میں قمر صاحب کی الیکشن مہمات بھی دیکھی تھیں۔'' پھر وہ یاد کے نہاں خانہ سے کچھ ٹٹولتے ہُوئے بولے: ''مَیں پاکستان بننے سے قبل،غالباً اُس وقت پانچویں چھٹی کا طالبعلم تھا۔
اسکول سے چھُٹی ہُوئی تو مَیں (شکر گڑھ)شہر کے چھمال روڈ پر چڑھ گیا۔ چند منٹ ہی گزرے ہوں گے۔ مَیں نے دیکھا کہ بائیں جانب سڑک کنارے واقع تیلیوں والی مسجد کے سامنے خاصا بڑا مجمع لگا ہے۔ مسجد سے متصل ہی چھوٹا سا میدان تھا۔ اِس کے ارد گرد چار فٹ اونچی پکی چار دیواری تھی۔اندر سامنے ایک دو تین فٹ بلند اسٹیج بنا تھا۔ اس پرسات آٹھ لوگ کرسیوں پر بیٹھے تھے۔
درمیان میں ایک نسبتاً اونچی کرسی پر معروف صوفی بزرگ علی پور شریف کے پِیر جماعت علی شاہ صاحب تشریف فرما تھے۔ پیر جماعت علی شاہ صاحب کابے حد احترام پایا جاتا تھا ۔ اُن کے بے شمار مریدین تھے۔ انھوں نے قائد اعظم کے حکم پر تحریکِ پاکستان میں شاندار کردار ادا کیا تھا۔ اسٹیج پر اُن کے بالکل دائیں جانب عبدالغفور قمر بیٹھے تھے۔ مَیں اُچک کر چار دیواری کے ایک ایسے کونے پر بیٹھ گیا جہاں سے اسٹیج، اس کے مقررین اور سامنے مجمع صاف دکھائی اور سنائی دے رہا تھا۔ قمر صاحب مسلم لیگ کے امیدوار تھے۔
الیکشن قریب تھے اور اِنہی الیکشنوں نے پاکستان کے بارے میں فیصلہ کرنا تھا۔ مَیں نے اپنی آنکھوں سے خود دیکھا اور اپنے کانوں سے سُنا کہ علی پور شریف والے پیر صاحب اسٹیج پر کھڑے ہُوئے۔ ہاتھ بلند کیا تو سارا مجمع ساکت اور کامل خاموش ہو گیا۔ پیر صاحب نے مختصر سی تقریر کی اور فرمایا: بھئی سب بھائیوں نے مسلم لیگ کے امیدوار چوہدری عبدالغفور قمر صاحب کو ووٹ دینا ہے اور پاکستان کو جتوانا ہے۔ سب حاضر سامعین نے بیک زبان ہاں میں جواب دیا۔ قائد اعظم کی وجہ سے قمر صاحب بھاری اکثریت سے جیت گئے تھے۔'' محترمہ وجیہہ اکرم انھی چوہدری عبدالغفور قمر مرحوم کی پوتی ہیں۔