ہونہار۔۔۔ چکنے چکنے پات

انتخابات سے چند ماہ پیشتر کے اخبارات اٹھا کر دیکھیں تو کبھی یہ ناممکن اور کبھی عین ممکن لگتا تھا۔

najmalam.jafri@gmail.com

گزشتہ ماہ کی 25 تاریخ کو ہونے والے انتخابات کو مکمل ہوئے 23 دن ہوچکے ہیں اور آج ملک کے وزیر اعظم کے طور پر پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان پہلی بار (ہوسکتا ہے کہ آیندہ کئی بار) حلف اٹھا کر نئے پاکستان کی بنیاد رکھ رہے ہیں۔ انتخابات سے چند ماہ پیشتر کے اخبارات اٹھا کر دیکھیں تو کبھی یہ ناممکن اور کبھی عین ممکن لگتا تھا۔

عمران خان کے مخالفین ان کی طرز سیاست، انداز گفتگو، الزام تراشیوں، غیر مہذب الفاظ کے استعمال، اپنے سے سینئر سیاستدانوں کو بلا لحاظ غیر مناسب خطابات سے نوازنے جیسے کردار پر تنقید کرتے ہوئے ان کے ناکام ہونے کے لیے دعاگو اور پرامید تھے۔ مگر تمام خدشات، تحفظات اور الزامات کے باوجود آج عمران خان اپنی آنکھوں میں بسائے برسوں پرانے خواب کی عملی تعبیر پا رہے ہیں۔

ملکی ذرایع ابلاغ میں دونوں بیانیے (عمران مخالف و موافق) ساتھ ساتھ چل رہے ہیں۔ ایک طرف یہ نقطہ نظر ہے کہ ایک سیٹ سے کامیابی کا سفر شروع کرنے والا اپنی شکستوں سے مایوس ہونے کے باوجود میدان سیاست سے فرار ہوکر گوشہ نشین نہیں ہوا (اصغر خان کی طرح) بلکہ آگے اور آگے ہی بڑھنے کی فکر کرتا رہا اس کی انتھک کوشش اور ثابت قدمی نے آج اس کے خواب کو حقیقت میں ڈھال دیا۔ اس بیانیے کے حامی دعا گو ہیں کہ اب عمران خان بطور وزیر اعظم کامیاب اور اپنے وعدوں، ارادوں اور دعوؤں میں بھی سچے اور کامیاب ثابت ہوں۔

جب کہ مخالف بیانیے والے اپنی آنکھوں سے دیکھ کر بھی اس حقیقت کو تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں کہ واقعی وہ ہوچکا ہے جس کا وہ تصور بھی نہیں کرتے تھے۔ اپنے موقف کو وہ دھاندلی، جانبداری، کھلی سازش اور سب سے بڑھ کر ہارس ٹریڈنگ کا نتیجہ قرار دے رہے ہیں۔ جب کہ ایسے کچھ واقعات رونما بھی ہوئے اور کچھ ثبوت بھی ملے جن کو جواز بناکر خان صاحب کے مخالفین اقتدار کی پوری مدت ان کے لیے درد سر بنے رہیں گے (خود پاکستان صاحب کے گزشتہ رویے کے مطابق)

تمام تر اعتراضات و الزامات بلکہ خدشات کے باوجود یہ حقیقت ہے کہ پی ٹی آئی سربراہ آج ملک کے وزیر اعظم قرار پاچکے ہیں اور پی ٹی آئی ملک کی سب سے بڑی جماعت، مخالفین کی جانب سے کہا جاتا ہے کہ کچھ عناصر پی ٹی آئی کی پشت پر رہے اور یہ کامیابی سو فیصد عوامی مینڈیٹ کی عطا کردہ نہیں ہے (ہمیشہ کی طرح حقائق آہستہ آہستہ سامنے آتے جائیں گے مگر کبھی پہلے کچھ ہوا جو اب ہوگا) مگر ہمیں اس پہلو سے بھی تو سوچنا چاہیے کہ اگر یہ صورتحال پیدا نہ ہوتی تو پھر آخر عوام کے پاس بطور متبادل اور کیا تھا؟

کیا وہی گھسی پٹی، بار بار آزمائی ہوئی، باری باری اقتدار کی مسند پر عوام کی فرضی نمایندگی کرتی دو پارٹیاں؟ کیا ان دونوں کے کئی ادوار کی کارکردگی ہم سب کے سامنے نہیں؟ ایک جماعت کا سربراہ تین باریاں لے کر بالآخر اپنے انجام سے دوچار ہوچکا دوسرے کے گرد بھی گھیرا تنگ ہو رہا ہے دیکھیے قدرت کی طرف سے دی گئی مہلت کب ختم ہوتی ہے۔


وہ احتساب جس کا آغاز ہوچکا ہے اس کے محتسب واقعی مخلص ہیں تو بہت ممکن ہے سست روی ہی سے سہی مگر کبھی نہ کبھی ہمارا معاشرہ، وطن عزیز تمام گندگی اور گندی ذہنیت سے پاک ہوجائے، ہم نے جہاں ستر برس مشکل حالات کو برداشت کیا، اب اگر اکہترویں برس کے بعد تسلسل سے صفائی کا کام ہوتا رہا تو ایک دن میری ارض پاک پر وہ سورج بھی طلوع ہوجائے گا جس کی کرنیں ارض وطن کو ہر گندگی اور آلودگی سے نجات دلا دیں گی۔ بہرحال آج ایک شخص پہلی بار اپنے کاندھوں پر بار وزارت عظمیٰ اٹھا کر ایک نئے دور کا آغاز کرنے کا دعویدار ہے اور ببانگ دہل اعلان کر رہا ہے کہ نہ میں کرپشن کروں گا نہ کسی اور کو کرنے دوں گا یہ دعویٰ اس سے پہلے کسی نے نہ زبانی نہ عملی طور پر کیا تھا۔

اب سوال یہ ہے کہ آخر ''کرپشن'' ہے کیا؟ کیا واضح اکثریت نہ ہونے پر مخالفین اور آزاد کامیاب امیدواروں کو محض ایک گلاس ٹھنڈے پانی کے وعدے پر ساتھ ملایا گیا ہے؟ کیا انتخابات سے بھی قبل دوسری جماعتوں کے چھ اور آٹھ بار منتخب ہونے والے ارکان اسمبلی کو بلا کسی وعدے، بلا کسی مفاد کے اپنی طرف متوجہ آپ کی پرجوش تقاریر نے یا آپ کی ذاتی وجاہت نے کیا؟

یہ ممکن ہے کہ (مگر سینیٹ کے انتخابات میں جو کچھ ہوا تھا اس کے باعث یہ عجیب و غریب سوال ذہن میں آیا) آپ کے حلیفوں کا کہنا ہے کہ نئے پاکستان اور کرپشن کے خلاف آپ کا بیانیہ دراصل لوگوں کے لیے کشش کا باعث بنا، یقینا یہ ممکن ہے کہ عوام ستر برسوں سے ایک ہی روش پر حکومت کرنے والوں سے بے زار ہوچکے تھے، پھر آپ کا اہم نعرہ ''تبدیلی آ نہیں رہی، تبدیلی آگئی ہے'' بھی بے حد پرکشش تھا۔

آپ اپنے باقی تمام وعدوں پر تو یقینا عمل کریں گے ہی کیونکہ آپ کا دامن اب تک صاف ہے اسی لیے عوام کا اعتماد بھی بحال ہے مگر آپ کا یہ آخری وعدہ یا نعرہ ''تبدیلی والا'' تو نافذ العمل بھی ہوچکا ہے آپ کے باضابطہ اقتدار سنبھالنے سے کئی روز قبل آپ کے جاں نثار، عاشق صادق منتخب رکن سندھ اسمبلی نے ایک معاملے سے لاتعلق شخص پر گھونسوں اور تھپڑوں کی بارش کردی یہ ''کار خیر و تبدیلی'' انجام دے کر وہ اپنے مسلح گارڈز کے ہمراہ وہاں سے روانہ ہوگئے، خیال کیا ہوگا کہ حلف اٹھانے سے قبل ہی کراچی والوں پر پی ٹی آئی کا کیا ''رعب'' ڈالا ہے۔

اب ان کی مجال جو یہ ہمارے اشاروں پر نہ چلیں یعنی کراچی تو واقعی فتح کر ہی لیا (شرم کریں خود کو وارث کراچی کہنے والے جو آپس ہی میں سر پھوڑتے رہیے) ڈاکٹر (مسیحا) عمران علی شاہ اپنے اس فعل پر مطمئن تھے کہ بات ختم ہوگئی مگر برا ہو اس کم بخت سوشل میڈیا کا کہ ہر شخص ہاتھ میں جام جمشید لیے پھرتا ہے۔ چلو اگر سارا کارنامہ (ڈاکٹر صاحب کا) محفوظ کر ہی لیا تھا تو اب اس کو وائرل کرنے کی کیا ضرورت تھی (شاید کوئی عوام کو انسان سمجھنے والا یا ان کے حقوق کا حامی سر پھرا ہوگا) دیکھتے ہی دیکھتے آپ کے اس ہونہار کا کارنامہ عظیم کراچی ہی نہیں پورے ملک بلکہ شاید پوری دنیا میں پہنچ گیا۔ مقامی قیادت نے اگرچہ اس ہونہار کارکن کو شوکاز نوٹس دیا۔

جواب طلب ہوا، تحقیقات کا سلسلہ بھی چلا۔ بالآخر موصوف اپنے مقامی صدر کے ساتھ متاثرہ شخص کے گھر جاکر ان سے معافی بھی حاصل کر آئے اور متاثرہ شخص نے بڑے پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان کو معاف بھی کردیا (ایک عام شہری اور کر بھی کیا سکتا ہے؟) ادھر عمران اسماعیل صاحب نے بلاول ہاؤس کی حفاظتی دیوار گرانے کا عندیہ دیا تو جواب ملا کہ دیوار گرانے والوں کی پگڑیاں بھی سلامت نہ رہیں گی۔
Load Next Story