امید صبح جمال رکھنا
عزم و استقلال کا یہ سفر جاری رہے گا۔ ہم ناامید تو نہیں، ناکام ہی تو ہیں۔
ماہ اگست ہم پاکستانیوں کے لیے قومی تہوار کا مہینہ ہے، ہر محب وطن کو اس ماہ آزاد ملک کی خوشی کے ساتھ جدوجہد آزادی کے گمنام سپاہی بھی ضرور یاد آتے ہیں، جو تاریک راہوں میں مارے گئے مگر ہمیں ایک روشن مستقبل دے گئے۔
میں بھی اس آٹھ سالہ بچی کے بارے میں سوچنا چاہتی ہوں جو اپنے لمبے سفر کی کہانی سناتی ہوئی خود وہاں پہنچ جاتی ہیں جہاں سے اس نے اپنی حیرت زدہ آنکھوں سے اپنے والد کو علیحدہ وطن کے لیے جدوجہد اور منزل کی جانب قدم رکھتے دیکھا تھا۔ وہ چھوٹی بچی جو اب ایک اسی بیاسی سال کی باوقار اماں جی ہیں، جنھیں اپنی نئی نسل سے امید صبح کی توقع ہے کہ وہ اس مادر وطن کے جمال کو سنوارے گی، اس کا خیال رکھے گی۔
اپنے پوتے پوتیوں سے بڑی چاؤ ومحبت سے کہتی ہیں، بیٹا ہمیں آج وہ اپنا پرانا والا پاکستان دکھا دو، وہ آرام باغ و برنس روڈ کی صاف ستھری گلیاں، کیماڑی کا نیلا پانی، اس میں لنگر انداز کشتیاں، میری ویدر ٹاور کی شان و شوکت، پارسی و مشنری درسگاہیں، جو ایک روشن پاکستان کی امید بن کر نمایاں تھیں۔ لیپ ٹاپ کی اسکرین پر نظریں جمائے، ماضی کی دھندلی یادوں کو سمیٹتی درجنوں بار کی سنائی ہوئی کہانی وہ ہمیں پھر سناتی ہیں کہ ان کے ابا مسلم لیگ کے کار کن تھے، انھیں معلوم ہوچکا تھا کہ اب پاکستان بننے میں بس کچھ ہی ماہ باقی ہیں تو انھوں نے کلکتہ سے کراچی کا سفر کیا اور ایک گھر خرید کر واپس کلکتہ آگئے۔
پاکستان بننے کے چند دن بعد ان کا پورا خاندان چچا، تایا، پھوپھیاں، سب نے اپنا سامان جو محض چند صندوقوں کے سوا کچھ نہ تھا، سمیٹا، بڑی بوڑھیاں اپنی بنی بنائی حویلی، اس میں سجا سامان دیکھ کر دل مسوس رہی تھیں، ایک سجا سجایا گھر، اس میں موجود گرہستی کو یوں اک پل میں چھوڑ کر جانا کس قدر کربناک رہا ہوگا، یہ ہم سب نئی نسل کے لوگ نہیں محسوس کرسکتے۔ خاندان کے تمام بچے ہمراہ لیے یہ قافلہ پانی کے جہاز سے کراچی کے ساحل پر ٹھہرا تو ہراساں بچی نے باپ کے ہاتھ کو مضبوطی سے تھام لیا۔ ایک نئی انجان جگہ لیکن انسانوں کا ہجوم تھا، آنے والے کچھ حیراں و پریشان، بے سر و سامان تھے، محض چند کپڑوں کی گٹھڑیاں تھامے۔ اکثریت ان لوگوں کی تھی جنھوں نے اپنے پیاروں کو کھو دیا، ان کے نوجوان بیٹے بھائی شہید ہوئے، بہنوں بیٹیوں کی عصمت دری کی گئی تھی، ظالم معصوم بچوں کو قتل کرنے سے باز نہیں آئے تھے۔
ان میں بے شمار ایسے تھے جنھیں کبھی پتہ ہی نہ چل سکا ان کے پیارے زندہ بھی ہیں یا ان پر کیا گزری؟ برصغیر کی وہ خونریز تقسیم تھی، جس میں سات لاکھ سے زائد انسانوں کا قتل عام کیا گیا تھا۔ اس بچی نے دیکھا کہ آنے والوں کا استقبال کرنے والے ایک بلوچ شیدی ساربان نے ہاتھ بڑھا کر ابا سے سلام کیا، ننگے پاؤں پرانے کپڑے پہنے اس ساربان نے ان سب کو اپنی اونٹ گاڑی میں عزت سے سوار کرایا۔ بچی نے دیکھا کہ اس جیسے کئی ساربان اور دیگر گدھا گاڑی لیے آنے والے مسافروں کی مدد کو لپک رہے تھے، انھوں نے بنا اجرت لیے سب مسافروں کو شہر میں جگہ جگہ لگائے گئے خیمے تک پہنچایا، ان کی یہ خدمت وہ ایثار تھا جو وہ غریب مزدور اپنے طور پر کرنے کی استطاعت رکھتے تھے۔
برصغیر کے مسلمان قائداعظم کی قیادت میں عزم و ہمت سے بھرپور آزاد صبح کی چمک آنکھوں میں لیے کچھ کر گزرنے کا جذبہ رکھتے تھے، عوام پرجوش تھے کہ پاکستان کو جلد بحرانوں سے نکال کر تیزی سے ترقی کرتی معیشت میں لاکر دم لیں گے۔ نوزائیدہ وطن کی مٹی میں اپنائیت محسوس کرنے کی اس عقیدت کو ہر کوئی سر آنکھوں پر لیے پھرتا تھا۔ کس قدر دشوار ناسازگار حالات کا سامنا رہا ہوگا نوزائیدہ پاکستان کو، جہاں ہر طرف مسائل کا پہاڑ تھا، کوئی محکمہ کسی ادارے کی کوئی منصوبہ بندی نہ تھی، کام کہاں سے شروع کیا جائے، کسی قسم کی پلاننگ کے کوئی خدوخال واضح نہ تھے، پھر بھی ہر فرد ایک پرخلوص کوشش، ایک جذبہ صادق کے تحت اپنی بساط بھر کوشش میں مصروف تھا کہ ہم سب کو مل کر ملک سنبھالنا ہے۔
پرانے باسیوں نے آنے والوں کے لیے اپنے دل کشادہ کیے، خندہ پیشانی سے استقبال کیا اور خاص کر سرزمین سندھ نے جس مہمان نوازی اور اخوت کا مظاہرہ کیا، وہ ہماری تاریخ کا ایک سنہری باب ہے، جسے کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ سب نے ایک قوم بن کر پاکستان کی تعمیر میں حصہ لیا، ہر کوئی اس جذبے سے سرشار تھا کہ اب آزاد وطن حاصل کرلیا ہے تو زندگی سہل ہوگی، کوئی ثقافتی، مذہبی اور معاشی بیڑیاں نہ ہوں گی، لیکن افسوس! جوں جوں وقت گزرتا گیا، پاکستان بنانے کا وہ جنون، جذبہ، حب الوطنی اور ہم آہنگی ماند پڑنے لگی۔
قوم کو درست راہ پر متعین کرنے والے ایک کے بعد ایک گزر چکے تھے، نئے آنے والوں نے جو راہ منتخب کی وہ خودغرضی، بنیاد پرستی، تعصب اور اقربا پروری کے گھنے جنگل کی جانب جاتی تھی، جہاں سے قوم کا مسائل و آلام کے خارداروں سے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں۔ لہٰذا آج تک عوام اسی بھول بھلیوں میں بھٹک رہے ہیں۔ ایک ایسے صحرا میں ہمارا قافلہ رخت سفر ہے جہاں سے سفر شروع کرتے ہیں دوبارہ وہیں پہنچ جاتے ہیں۔ انرجی سکیٹر، شعبہ تعلیم، صحت، روزگار اور امن و امان کی صورتحال گو تسلی بخش نہیں، مسائل تو بہت ہیں۔
لیکن! یہ مہینہ محاسبہ کے ساتھ شکر گزاری کا بھی ہے کہ پاکستان نے بہت کچھ حاصل بھی کیا ہے، جب بھی ضرورت ہوئی ہم پاکستانی قوم کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے۔ 1906 سے لے کر 1947 تک کا طویل جدوجہد سفر کا ثمر ہماری آزادی کا دن، جس کی کھلی فضا میں ہم سانس لیتے ہیں، یہ سب ہمارے ان قائدین کی مرہون منت ہے جنھوں نے پاکستان بنانے میں کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کیا۔
عزم و استقلال کا یہ سفر جاری رہے گا۔ ہم ناامید تو نہیں، ناکام ہی تو ہیں۔ آزدی کا خواب جسے غلامی میں دیکھا گیا اور اب قافلہ جمہوریت کی جانب گامزن ہے۔ جمہوریت ایسا نظام ہے جس میں عوامی نمایندوں کا سخت ترین احتساب ہوتا ہے۔ جولائی میں انتخابات ہوئے، اب اسمبلیاں نئی قیادت سے آباد ہوں گی۔ دعاگو ہیں کہ امید صبح کے ساتھ نئے نمایندے مادر وطن کے جمال کا خیال رکھنے کی پرعزم سعی کریں گے۔
میں بھی اس آٹھ سالہ بچی کے بارے میں سوچنا چاہتی ہوں جو اپنے لمبے سفر کی کہانی سناتی ہوئی خود وہاں پہنچ جاتی ہیں جہاں سے اس نے اپنی حیرت زدہ آنکھوں سے اپنے والد کو علیحدہ وطن کے لیے جدوجہد اور منزل کی جانب قدم رکھتے دیکھا تھا۔ وہ چھوٹی بچی جو اب ایک اسی بیاسی سال کی باوقار اماں جی ہیں، جنھیں اپنی نئی نسل سے امید صبح کی توقع ہے کہ وہ اس مادر وطن کے جمال کو سنوارے گی، اس کا خیال رکھے گی۔
اپنے پوتے پوتیوں سے بڑی چاؤ ومحبت سے کہتی ہیں، بیٹا ہمیں آج وہ اپنا پرانا والا پاکستان دکھا دو، وہ آرام باغ و برنس روڈ کی صاف ستھری گلیاں، کیماڑی کا نیلا پانی، اس میں لنگر انداز کشتیاں، میری ویدر ٹاور کی شان و شوکت، پارسی و مشنری درسگاہیں، جو ایک روشن پاکستان کی امید بن کر نمایاں تھیں۔ لیپ ٹاپ کی اسکرین پر نظریں جمائے، ماضی کی دھندلی یادوں کو سمیٹتی درجنوں بار کی سنائی ہوئی کہانی وہ ہمیں پھر سناتی ہیں کہ ان کے ابا مسلم لیگ کے کار کن تھے، انھیں معلوم ہوچکا تھا کہ اب پاکستان بننے میں بس کچھ ہی ماہ باقی ہیں تو انھوں نے کلکتہ سے کراچی کا سفر کیا اور ایک گھر خرید کر واپس کلکتہ آگئے۔
پاکستان بننے کے چند دن بعد ان کا پورا خاندان چچا، تایا، پھوپھیاں، سب نے اپنا سامان جو محض چند صندوقوں کے سوا کچھ نہ تھا، سمیٹا، بڑی بوڑھیاں اپنی بنی بنائی حویلی، اس میں سجا سامان دیکھ کر دل مسوس رہی تھیں، ایک سجا سجایا گھر، اس میں موجود گرہستی کو یوں اک پل میں چھوڑ کر جانا کس قدر کربناک رہا ہوگا، یہ ہم سب نئی نسل کے لوگ نہیں محسوس کرسکتے۔ خاندان کے تمام بچے ہمراہ لیے یہ قافلہ پانی کے جہاز سے کراچی کے ساحل پر ٹھہرا تو ہراساں بچی نے باپ کے ہاتھ کو مضبوطی سے تھام لیا۔ ایک نئی انجان جگہ لیکن انسانوں کا ہجوم تھا، آنے والے کچھ حیراں و پریشان، بے سر و سامان تھے، محض چند کپڑوں کی گٹھڑیاں تھامے۔ اکثریت ان لوگوں کی تھی جنھوں نے اپنے پیاروں کو کھو دیا، ان کے نوجوان بیٹے بھائی شہید ہوئے، بہنوں بیٹیوں کی عصمت دری کی گئی تھی، ظالم معصوم بچوں کو قتل کرنے سے باز نہیں آئے تھے۔
ان میں بے شمار ایسے تھے جنھیں کبھی پتہ ہی نہ چل سکا ان کے پیارے زندہ بھی ہیں یا ان پر کیا گزری؟ برصغیر کی وہ خونریز تقسیم تھی، جس میں سات لاکھ سے زائد انسانوں کا قتل عام کیا گیا تھا۔ اس بچی نے دیکھا کہ آنے والوں کا استقبال کرنے والے ایک بلوچ شیدی ساربان نے ہاتھ بڑھا کر ابا سے سلام کیا، ننگے پاؤں پرانے کپڑے پہنے اس ساربان نے ان سب کو اپنی اونٹ گاڑی میں عزت سے سوار کرایا۔ بچی نے دیکھا کہ اس جیسے کئی ساربان اور دیگر گدھا گاڑی لیے آنے والے مسافروں کی مدد کو لپک رہے تھے، انھوں نے بنا اجرت لیے سب مسافروں کو شہر میں جگہ جگہ لگائے گئے خیمے تک پہنچایا، ان کی یہ خدمت وہ ایثار تھا جو وہ غریب مزدور اپنے طور پر کرنے کی استطاعت رکھتے تھے۔
برصغیر کے مسلمان قائداعظم کی قیادت میں عزم و ہمت سے بھرپور آزاد صبح کی چمک آنکھوں میں لیے کچھ کر گزرنے کا جذبہ رکھتے تھے، عوام پرجوش تھے کہ پاکستان کو جلد بحرانوں سے نکال کر تیزی سے ترقی کرتی معیشت میں لاکر دم لیں گے۔ نوزائیدہ وطن کی مٹی میں اپنائیت محسوس کرنے کی اس عقیدت کو ہر کوئی سر آنکھوں پر لیے پھرتا تھا۔ کس قدر دشوار ناسازگار حالات کا سامنا رہا ہوگا نوزائیدہ پاکستان کو، جہاں ہر طرف مسائل کا پہاڑ تھا، کوئی محکمہ کسی ادارے کی کوئی منصوبہ بندی نہ تھی، کام کہاں سے شروع کیا جائے، کسی قسم کی پلاننگ کے کوئی خدوخال واضح نہ تھے، پھر بھی ہر فرد ایک پرخلوص کوشش، ایک جذبہ صادق کے تحت اپنی بساط بھر کوشش میں مصروف تھا کہ ہم سب کو مل کر ملک سنبھالنا ہے۔
پرانے باسیوں نے آنے والوں کے لیے اپنے دل کشادہ کیے، خندہ پیشانی سے استقبال کیا اور خاص کر سرزمین سندھ نے جس مہمان نوازی اور اخوت کا مظاہرہ کیا، وہ ہماری تاریخ کا ایک سنہری باب ہے، جسے کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ سب نے ایک قوم بن کر پاکستان کی تعمیر میں حصہ لیا، ہر کوئی اس جذبے سے سرشار تھا کہ اب آزاد وطن حاصل کرلیا ہے تو زندگی سہل ہوگی، کوئی ثقافتی، مذہبی اور معاشی بیڑیاں نہ ہوں گی، لیکن افسوس! جوں جوں وقت گزرتا گیا، پاکستان بنانے کا وہ جنون، جذبہ، حب الوطنی اور ہم آہنگی ماند پڑنے لگی۔
قوم کو درست راہ پر متعین کرنے والے ایک کے بعد ایک گزر چکے تھے، نئے آنے والوں نے جو راہ منتخب کی وہ خودغرضی، بنیاد پرستی، تعصب اور اقربا پروری کے گھنے جنگل کی جانب جاتی تھی، جہاں سے قوم کا مسائل و آلام کے خارداروں سے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں۔ لہٰذا آج تک عوام اسی بھول بھلیوں میں بھٹک رہے ہیں۔ ایک ایسے صحرا میں ہمارا قافلہ رخت سفر ہے جہاں سے سفر شروع کرتے ہیں دوبارہ وہیں پہنچ جاتے ہیں۔ انرجی سکیٹر، شعبہ تعلیم، صحت، روزگار اور امن و امان کی صورتحال گو تسلی بخش نہیں، مسائل تو بہت ہیں۔
لیکن! یہ مہینہ محاسبہ کے ساتھ شکر گزاری کا بھی ہے کہ پاکستان نے بہت کچھ حاصل بھی کیا ہے، جب بھی ضرورت ہوئی ہم پاکستانی قوم کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے۔ 1906 سے لے کر 1947 تک کا طویل جدوجہد سفر کا ثمر ہماری آزادی کا دن، جس کی کھلی فضا میں ہم سانس لیتے ہیں، یہ سب ہمارے ان قائدین کی مرہون منت ہے جنھوں نے پاکستان بنانے میں کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کیا۔
عزم و استقلال کا یہ سفر جاری رہے گا۔ ہم ناامید تو نہیں، ناکام ہی تو ہیں۔ آزدی کا خواب جسے غلامی میں دیکھا گیا اور اب قافلہ جمہوریت کی جانب گامزن ہے۔ جمہوریت ایسا نظام ہے جس میں عوامی نمایندوں کا سخت ترین احتساب ہوتا ہے۔ جولائی میں انتخابات ہوئے، اب اسمبلیاں نئی قیادت سے آباد ہوں گی۔ دعاگو ہیں کہ امید صبح کے ساتھ نئے نمایندے مادر وطن کے جمال کا خیال رکھنے کی پرعزم سعی کریں گے۔