عارضی اقتدار یا مستقل جاگیر

نوازے ہوئے لوگوں کو اپنے عارضی اقتدار میں ایسے نوازا جیسے یہ عارضی اقتدار ان کے باپ دادا کی جاگیر ہو۔


Muhammad Saeed Arain August 17, 2018

ISLAMABAD: بعض ایسے کیس بھی سامنے آئے ہیں کہ کچھ افراد پاکستان کی شہریت نہ رکھتے ہوئے بھی پندرہ لاکھ روپے ماہانہ کی بھاری تنخواہ پر کام کرتے رہے، جب کہ انھوں نے خود اعتراف کیا ہے کہ وہ پاکستانی شہریت نہیں رکھتے اور پیدائشی طور پر برطانیہ کے شہری ہیں۔ ایسے کیسز میں یہ عدالتی ریمارکس تھے کہ لوٹ کا مال نہیں ہے کہ پاکستان میں غیر ملکی شہری اہم عہدے پر کام کرتا رہے، ایسا نہیں ہوسکتا کہ غیر قانونی تقرری کسی کا منظور نظر بن کر حاصل کرلی جائے، کیوں نہ ان سے وصول کی گئی تنخواہ ان سے وصول کرکے ڈیمز فنڈ میں جمع کرادی جائے۔

یہ ایک کیس ہے جس میں کسی منظور نظر کو پاکستانی نہ ہونے کے باوجود اوورسیز کمشنر جیسا اہم عہدہ دیا گیا ، اسی طرح نہ جانے کتنی ہزاروں تقرریاں ہیں جو اقتدار میں آنے والے حکمرانوں نے کیں اور نوازے ہوئے لوگوں کو اپنے عارضی اقتدار میں ایسے نوازا جیسے یہ عارضی اقتدار ان کے باپ دادا کی جاگیر ہو، جس کے نتیجے میں میرٹ کا خیال رکھا گیا نہ کسی کی تعلیم اور قابلیت دیکھی گئی اور اسے لاکھوں روپے تنخواہ پر غیر قانونی طور رکھ کر صرف اس لیے نواز دیا گیا کہ وہ صاحب اقتدار کا یا ان کے کسی عزیز کا جاننے والا یا دور کا رشتے دار ہے۔

نوازتے وقت صرف یہ دیکھا گیا کہ وہ اس عہدے کا اہل بھی ہے یا نہیں، بس کسی کو خوش کرنے یا کسی وجہ سے نوازنے کے لیے اسے اہم عہدے پر بھاری تنخواہ پر ملازم رکھ کر نواز دیا جائے جس کو تنخواہ حکومت کے سرکاری فنڈ سے ملے اور وہ مزے کرے۔

مجھے وہ ایک تاجر یاد ہیں جن کے پاس کم رقم کی ذاتی کار ہوتی تھی اور وہ منتخب ہوکر ایک عوامی عہدے پر آئے تو انھوں نے ذاتی کار فروخت کرکے اپنے ڈرائیور کو فوراً سرکاری ملازمت دے دی اور وہ صاحب کی سرکاری گاڑی کا ڈرائیور بن گیا اور نجی ملازمت کے مقابلے میں اس کی تنخواہ اور سرکاری مراعات بھی بڑھ گئی تھی۔

یہ ایک مثال ہے اور اپنوں کے کہنے پر سرکاری عہدے پر اپنوں کو نوازنے کے لیے ٹھیکے دینے، نااہل افراد کو بھاری تنخواہ پر سرکاری ملازمتیں اس طرح دینے کہ جیسے وہ مستقل اقتدار میں رہیں گے اور اقتدار ان کی ذاتی جاگیر ہو اور وہ جسے چاہیں نوازیں۔ غیر قانونی تقرریاں اور ترقی و تبادلے کرائیں انھیں کوئی اس لیے نہیں پوچھے گا کہ وہ اقتدار میں ہیں۔

غیر قانونی تقرریوں کے الزام میں دو سابق وزرائے اعظم کے خلاف ریفرنس عدالتوں میں زیر سماعت ہیں، کچھ سابق وزرا ماضی کے اعلیٰ افسر جیلوں میں ہیں، کچھ کی تحقیقات چل رہی ہیں اور بہت سے ملک کو لوٹ کر بیرون ملک فرار ہیں۔ غیر قانونی تعیناتیوں میں اکثر سیاسی بنیاد، اقربا پروری یا خوشامدی و من پسند پالیسی کے تحت کی اور ایک ڈپٹی کمشنر سے لے کر سب سے اعلیٰ سرکاری عہدے پر براجمان رہنے والوں نے ہی نہیں بلکہ عوامی عہدوں کے لیے منتخب ہونے والوں نے بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی اور جس کا جہاں بس چلا اس نے اس طرح من مانی کی جیسے وہ ہمیشہ اس عہدے پر برقرار رہے گا اور وہ جو کرے گا اسے پوچھا نہیں جائے گا کہ وہ اپنے عارضی اقتدار میں ایسا کیوں کر رہا ہے۔

خبریں ہیں کہ نئی حکومت آنے کے بعد دنیا کے مختلف ممالک میں تعینات متعدد سفیروں کو بھی فارغ کردیا جائے گا اور نئی حکومت اپنے لوگوں کا تقرر ان کی جگہ کرے گی، کیونکہ ان کی تقرریاں سابق حکومت نے اپنی مرضی سے کی تھیں اور اب وہ اپنے لوگ وہاں تعینات کرے گی۔ ایسا ہر دور میں ہوا ہے اور ہوتا آیا ہے، کیونکہ حکمرانوں نے اقتدار میں آکر اپنی پارٹی کے لوگوں کو فائدہ پہنچانا مقصود ہوتا ہے اور ایسے موقع پر صرف سفارش اہم ہوتی ہے۔ سیاست میں لوگ آتے ہی سیاسی فائدے کے لیے ہیں اور خاص طور پر سرکاری ملازمتیں سیاسی سفارش پر ہی ملتی ہیں۔

ہر سرکاری ادارے میں اندھا دھند بھرتی نہیں ہوتی بلکہ بجٹ کے مطابق ہی آسامیاں ہوتی ہیں مگر ہر سرکاری ادارے میں سیاسی سفارش پر اضافی تعیناتیاں کی گئی ہیں جس کی واضح مثال ملک بھر کے بلدیاتی ادارے ہیں جہاں ایک یوسی سے بلدیہ عظمیٰ تک اضافی عملہ بھر دیا گیا ہے، جس سے وہاں پرانے ملازموں کو بروقت تنخواہیں اور ریٹائرڈ ملازمین کو پنشن اور ان کے واجبات ملنا مسئلہ بنا ہوا ہے کیونکہ یہ وہ ادارے ہیں جنھیں حکومت سے مکمل تنخواہیں اور دفتری اخراجات کے لیے بجٹ نہیں ملتا بلکہ یہ سیمی گورنمنٹ ادارے عوام سے وصول ہونے والے ٹیکسوں سے چلتے ہیں مگر سیاسی بنیاد پر غیر ضروری بھرتیاں کرکے انھیں مالی بحران میں مبتلا کردیا گیا ہے۔

غیر سیاسی حکومتوں کے برعکس سیاسی حکومتوں میں وزیراعظم، وزرائے اعلیٰ نے اپنوں کو نوازنے کے لیے نئے نئے عہدے تخلیق کرکے کہیں ٹاسک فورس بناکر کہیں مانیٹرنگ کے نام پر بھاری تنخواہوں پر غیر قانونی بھرتیاں کرا رکھی ہیں اور حکومتوں پر مالی بوجھ بڑھا رکھا ہے جس کی وجہ سے بہت سے سرکاری ادارے مالی بحران کا شکار ہوچکے ہیں۔

پہلی بار سپریم کورٹ نے ایکشن لیا تو اعلیٰ عہدوں پر ماضی میں ہونے والی غیر قانونی تقرریاں منظر عام پر آئی ہیں جب کہ پہلے پتا ہی نہیں چلتا تھا کہ وفاق اور صوبوں میں غیر قانونی تقرریاں کرکے کس طرح اپنوں کو نوازا گیا اور حکومت پر کروڑوں روپے ماہانہ کا بوجھ ڈال کر عوام کے پیسوں سے جمع کی جانے والی رقم ذاتی خوشنودی کے لیے لٹائی گئی اور اختیارات کا غلط استعمال کرکے اپنوں کو فائدہ پہنچایا جاتا رہا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں