اسلام اور عورت آخری حصہ
عریانی اور فواحش کا سیلاب پھوٹ پڑتا ہے اور اس سیلاب کی زد میں آکر پورا معاشرہ خس و خاشاک کی طرح بہہ جاتا ہے۔
جو لوگ کھیتوں اور کھلیانوں میں مرد کے ساتھ عورت کے کام کرنے کی مثال دیتے ہیں وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ وہاں کی روحانی اور اخلاقی آب و ہوا اتنی بگڑی ہوئی نہیں ہے جتنی کہ بڑے بڑے روشنیوں کے شہروں کی۔ وہاں اب بھی بہن، بھائی، باپ بیٹی کے مقدس دینی رشتہ سے ایک دوسرے کو دیکھا جاتا ہے۔
گاؤں کی بیٹی سب کی بیٹی اور سب کی عزت ہوتی ہے۔ ابھی وہاں اخلاقی حس زندہ ہے، بڑے شہروں کی طرح موت کی آغوش میں فنا کی نیند سو نہیں گئی ہے، وہاں اگر عورت کو چھیڑنے کے لیے دو ہاتھ موجود ہوں تو پچاس غیرت مند ہاتھ ان کو توڑ دینے کے لیے بھی موجود ہوتے ہیں۔
بڑے شہروں کی طرح نہیں کہ ہر بس اسٹاپ پر لڑکیوں کے اسکول جانے اور آنے کے اوقات پر بے غیرت نوجوانوں کی ٹولیاں بچیوں کو گھور رہی ہیں آوازیں کس رہی ہیں، لیکن کوئی غیرت مند ہاتھ ان کی عصمت کی حفاظت کے لیے موجود نہیں۔ ایسے مواقع پر بھی پولیس کی مدد طلب کرنی پڑتی ہے، یہ تو ہے شہروں کی اخلاقی حالت۔ اے شہر والو! کیوں کھیتوں اور کھلیانوں کی مقدس مثالیں دیتے ہو، اخلاقی پستی کے بلند کرنے کے سامان تو کرو۔
تاج مل بھی جاتے ہیں تاج کھو بھی جاتے ہیں
تاج ڈھونڈنے والے پہلے اپنے سر دیکھیں
مخلوط معاشرہ کی قوم کی ہلاکت کا پہلا اور بنیادی سبب ہے جب عورت آفتاب بن کر بازار میں نکلے اور مرد سیارے بن کر اس کے گرد گھومنے لگیں تو صنفی میلان، مردوں اور عورتوں کے آزادانہ میل جول کی صورت میں خطرے کے نشان کو جا پہنچتا ہے۔ معاشرہ میں شہوانیت کی آگ جنگل کی آگ کی طرح پھیل جاتی ہے۔ عریانی اور فواحش کا سیلاب پھوٹ پڑتا ہے اور اس سیلاب کی زد میں آکر پورا معاشرہ خس و خاشاک کی طرح بہہ جاتا ہے۔ تاریخ کی تو یہی شہادت ہے کہ بہیمی خواہشات سے مغلوب زدہ مخلوط معاشرہ کا آخری انجام ہلاکت و تباہی کے سوا کچھ نہیں ہوا۔
جدید مغربی تہذیب قدیم یونان و روم کی ہی آوازِ باز گشت ہے۔ اس وقت ریاست ہائے متحدہ امریکا میں مخلوط معاشرت کا آفتاب نصف النہار پر ہے وہاں تہذیب کے نام پر وحشیت اور بربریت کا کیا عالم ہے اگر انھی کے لوگوں کی کتابوں سے اقتباسات پیش کروں تو خیالِ اخلاق و ادب روک دیتا ہے۔ وہاں اسکولوں، کالجوں، یونی ورسٹیوں، ہوٹلوں، پارکوں، کلبوں اور ساحلوں غرض جدھر نظر گھماؤ ادھر عصمت عورت چیختی اور شہوتِ نفس قہقہہ لگاتی نظر آتی ہے دور کے ڈھول سہانے لگتے ہیں۔
ہوس پرست انسان نما حیوانوں نے عورت کو اس کے اصل وظیفہ حیات سے غافل کرکے اپنی ہوس کی آہنی زنجیروں میں سختی سے جکڑ رکھا ہے۔ وہاں عورت آزاد نہیں شہوت مرد کی لونڈی اور اس کی تسکین ہوس کا سامان ہے۔ ہر قوم کا اپنا اپنا نظریۂ حیات ہوتا ہے وہ جو کچھ کررہے ہیں اپنے نظریہ کے مطابق کررہے ہیں۔ ان کا ضمیر گو فطرتاً نہیں مجبوراً مطمئن ہے۔ لیکن ہمارا نظریہ کچھ اور ہے اس کے تقاضے اور مطالبے کچھ اور ہیں:
اپنی ملت پر قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمی
پاکستان میں آزادی کے نام پر شوق آوارگی کی قطعاً گنجائش نہیں۔ قیام پاکستان کے بعد کافی عرصہ تک مغربی طرز معاشرت کی بنیادوں کی راہیں تلاش کی جاتی رہیں اور اس کو عملی صورت میں ڈھالا بھی جاتا رہا۔ یہی وجہ ہے کہ مغربی بادِ سموم کے جھونکے ہمارے ہاں بھی صاف محسوس کیے جاتے ہیں۔ حالانکہ ان میں ابھی اتنی شدتِ حدت تو نہیں کہ معاشرے کے چہرے کو بالکل جھلساکر مسخ کردیں لیکن اتنا ضرور ہے کہ اگر مغرب بد اخلاقی، عریانی، فحاشی، جنسی بے راہ روی کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر ہے تو حقائق پر پردہ پوشی کے باوجود یہ لکھتے ہوئے قلم نہیں رک سکتا کہ ہماری مخلوط معاشرتی بداخلاقی کا بہتا ہوا دریا ضرور ہے۔
دریا نہیں تو نہر ضرور ہے، نہر نہیں تو بہتا ہوا نالہ ضرور ہے، اس سے کم کہنے سے ذرہ برابر ایمان کے ضایع ہونے کا ڈر لگتا ہے۔ ہمارے روشنیوں کے شہروں میں مخلوط معاشرت کے اخلاق سوز مناظر دیکھ کر مردوں کا عورتوں پر سے بتدریج اعتبار اٹھتا جارہا ہے۔ عورت کے روپ میں کون کون زلیخا ہے، کون قلوپطرہ، پہچان مشکل ہوگئی ہے، شک کی بنیاد پر مرد کسی قسم کا خطرہ مول لینے کو تیار نہیں، یہی وجہ ہے کہ شریک حیات کی تلاش میں بڑے شہروں کے مرد، قصبوں، دیہاتوں اور پہاڑی علاقوں کا رخ کررہے ہیں، کیونکہ ابھی یہ مقامات مخلوط معاشرت کی لعنت سے پاک ہیں۔
مردوں کی اس ذہنی حالت کی ضرب ان معصوم بچیوں پر پڑ رہی ہے جو ہر طرف پھیلے ہوئے کانٹوں کے باوجود اپنی دامن عفت کی خوشبو کو محفوظ کیے ہوئے ہیں، لیکن عورت کی ذات سے اعتبار اٹھ جانے کی وجہ سے زندگی کے ساتھی سے محروم ہیں۔ منافق مرد و زن کی موجودگی نے مومن مرد و عورت کی زندگی میں زہر گھول دیا ہے۔
اسلام کا مقصود صالح افراد ہی نہیں، صالح معاشرہ بھی اس کا مطلوب ہے اور اس مقصد کے حصول میں مخلوط معاشرہ سب سے بڑی رکاوٹ ہے، خصوصاً جب کہ معاشرے کے افراد صرف زبان سے کلمہ طیبہ کہنے والے رہ گئے ہوں۔ ان کی دل و نگاہ مسلمان نہ ہوں۔ خوفِ خدا، اطاعت رسالت اور اندیشہ آخرت یعنی آفتاب ایمان کی روشنی کو نفس پرستی کا گرہن لگ گیا ہو اور اس کی روشنی سکڑتی سکڑتی چراغ کی روشنی بن کر رہ گئی ہو۔
جب تک آفتاب ایمان اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ معاشرہ میں روشن نہ ہو عورت کو اپنی عزت اور عصمت کی حفاظت کی خاطر چادر اور چہار دیواری میں پناہ لے لینی چاہیے جس طرح جنگ کے دوران خطرے کا سائرن سنتے ہی جان کی حفاظت کی خاطر محفوظ پناہ گاہ میں چلے جانا عقلمندی اور ہوش مندی کی نشانی سمجھی جاتی ہے، اسی طرح کیونکہ ابھی بد اخلاقی کی جنگ خصوصاً بڑے بڑے شہروں کی گلیوں، سڑکوں، بازاروں، تفریح گاہوں اور درس گاہوں میں جاری ہے اس لیے جب تک جنگ ، امن میں نہ بدل جائے مرد کی مکاری، عیاشی اور عیاری کے بچھائے ہوئے جالوں میں پھنسنے کے بجائے جوش کے بجائے ہوش سے کام لیتے ہوئے معاشرے کی صالحیت کی خاطر، اخلاقی بناؤ کی خاطر اور اپنی عصمت کی حفاظت کی خاطر گھر اور پردہ کی محفوظ پناہ گاہوں میں، جب تک کہ ایمان کی فضا بحال نہ ہوجائے پناہ لے لینی چاہیے۔
یہی عورت سے خدا، رسول، اخلاق، وقت اور حالات کا تقاضا اور مطالبہ ہے۔ گھر کی طرف مراجعت ہی میں آخرت میں اس کی سعادت ہے کیونکہ رب سے ملاقات کے وقت وہ فخر کے ساتھ کہہ سکتی ہے کہ اس کی ذات معاشرے میں فحاشی، بدکاری اور بد اخلاقی کی اشاعت کا ذریعہ نہیں بنی۔