فلموں میں اچھے ملبوسات اہم کردار ادا کرتے ہیں مہرین سید
ہالی وڈ اوربالی وڈ فلموں کے کرداروں کی ڈریسنگ پرخاص توجہ دی جاتی ہے،کردارکی اپنی ایک منفرد جھلک دکھائی دیتی ہے،اداکارہ
اداکارہ وماڈل مہرین سید نے کہا ہے کہ فلموں میں حقیقت کے رنگ بھرنے کیلیے جس طرح کہانی اور کردار کا مضبوط ہونا ضروری ہوتا ہے اسی طرح ان کرداروں کے مطابق اگر ان کے ملبوسات بھی تیار کیے جائیں تو وہ 'سونے پہ سہاگہ ' کا کام کرتے ہیں۔
مہرین سید نے ''ایکسپریس'' سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ بات سمجھنے کی ہے کہ فنون لطیفہ کے مختلف شعبے کسی بھی ملک و قوم کے عکاس ہوتے ہیں جس طرح فلم اور ٹی وی ڈراموں کیلیے بہترین کہانی ضروری ہوتی ہے، اسی طرح کہانی کے مطابق کرداروں اور لوکیشنز کا انتخاب بھی بے حد ضروری ہوتا ہے۔ پھر ان کرداروں کے ملبوسات بھی اس علاقے کی بہترین عکاسی کرتے ہیں۔
اداکارہ نے کہا کہ ہمارے چاروں صوبے اپنی رسم و رواج، میوزک ، بولیوں اور ملبوسات کی وجہ سے اپنی ایک الگ پہچان رکھتے ہیں۔ جب ہم اپنے ملک یا دنیا کے کسی بھی خطے کی کہانی کو اپنی فلم یا ڈرامے میں پیش کرتے ہیں توضروری ہوجاتاہے کہ ہم وہاں کا کلچر بھی دکھائیں۔ جو صرف اورصرف ملبوسات کے ذریعے سامنے آسکتاہے۔
مہرین سید نے کہا کہ مغربی ممالک ہوں یا مشرقی ممالک ان کے ملبوسات میں فرق نمایاں ہے لیکن ان کی اپنی اپنی خوبصورتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب ہم فلموں اور ڈراموں میں کسی بھی ملک یا قوم کی عکاسی کرتے ڈریس دیکھتے ہیں تو ہمیں ان کے بارے میں جاننے کا موقع ملتا ہے۔ لیکن پاکستان فلم انڈسٹری میں اس پرکبھی توجہ نہیں دی گئی۔
اداکارہ نے کہا کہ ہمارے ہاں کردار کی ڈیمانڈ کوپورا ہی نہیں کیا جاتا۔ یہاں کام کرنیوالے لوگوں نے خود کوسب سے ''قابل'' سمجھ لیا ہے، اس لیے وہ کسی دوسرے کوکام کرنے کا موقع ہی نہیں دیتے۔ یہی وجہ ہے کہ لوگوں کو انٹرٹین کرنے والا شعبے سے وابستہ لوگ خود پریشان ہیں۔ کئی برسوں تک فلم انڈسٹری شدیدبحران کا شکاررہی، لیکن اب بہتری آرہی ہے۔ اس حوالے سے اگران چیزوں پر بھی کام کیا جائے تو معاملات بہتر ہوں گے اور شائقین فلم کوبھی بہترین تفریح فراہم ہوسکے گی۔
مہرین سید نے ''ایکسپریس'' سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ بات سمجھنے کی ہے کہ فنون لطیفہ کے مختلف شعبے کسی بھی ملک و قوم کے عکاس ہوتے ہیں جس طرح فلم اور ٹی وی ڈراموں کیلیے بہترین کہانی ضروری ہوتی ہے، اسی طرح کہانی کے مطابق کرداروں اور لوکیشنز کا انتخاب بھی بے حد ضروری ہوتا ہے۔ پھر ان کرداروں کے ملبوسات بھی اس علاقے کی بہترین عکاسی کرتے ہیں۔
اداکارہ نے کہا کہ ہمارے چاروں صوبے اپنی رسم و رواج، میوزک ، بولیوں اور ملبوسات کی وجہ سے اپنی ایک الگ پہچان رکھتے ہیں۔ جب ہم اپنے ملک یا دنیا کے کسی بھی خطے کی کہانی کو اپنی فلم یا ڈرامے میں پیش کرتے ہیں توضروری ہوجاتاہے کہ ہم وہاں کا کلچر بھی دکھائیں۔ جو صرف اورصرف ملبوسات کے ذریعے سامنے آسکتاہے۔
مہرین سید نے کہا کہ مغربی ممالک ہوں یا مشرقی ممالک ان کے ملبوسات میں فرق نمایاں ہے لیکن ان کی اپنی اپنی خوبصورتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب ہم فلموں اور ڈراموں میں کسی بھی ملک یا قوم کی عکاسی کرتے ڈریس دیکھتے ہیں تو ہمیں ان کے بارے میں جاننے کا موقع ملتا ہے۔ لیکن پاکستان فلم انڈسٹری میں اس پرکبھی توجہ نہیں دی گئی۔
اداکارہ نے کہا کہ ہمارے ہاں کردار کی ڈیمانڈ کوپورا ہی نہیں کیا جاتا۔ یہاں کام کرنیوالے لوگوں نے خود کوسب سے ''قابل'' سمجھ لیا ہے، اس لیے وہ کسی دوسرے کوکام کرنے کا موقع ہی نہیں دیتے۔ یہی وجہ ہے کہ لوگوں کو انٹرٹین کرنے والا شعبے سے وابستہ لوگ خود پریشان ہیں۔ کئی برسوں تک فلم انڈسٹری شدیدبحران کا شکاررہی، لیکن اب بہتری آرہی ہے۔ اس حوالے سے اگران چیزوں پر بھی کام کیا جائے تو معاملات بہتر ہوں گے اور شائقین فلم کوبھی بہترین تفریح فراہم ہوسکے گی۔