صدر زرداری کے سرگرم ہونے سے سیاسی درجہ حرارت بڑھے گا
شہباز شریف ، زرداری کے خلاف زیر التوا انکوائریاں کھولنے کے موڈ میں دکھائی دیتے ہیں
صدر مملکت آصف زرداری کے کھلے عام سیاسی سرگرمیاں شروع کر دینے سے سیاسی درجہ حرارت ایک بار پھر بلند ہونے کا امکان ہے۔
صدر پر سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے پر لاہور ہائیکورٹ نے پابندی لگا رکھی ہے ، صدر اس حکم پر عملدرآمد کرتے ہوئے کم ازکم کاغذی حد تک سیاسی سرگرمیوں سے دور رہے۔ لیکن اب انھوں نے لاہور ہائیکورٹ کے حکم کی پروا نہ کرتے ہوئے لاہور سے سیاسی سرگرمیوں کا آغاز کر دیا ہے، جس سے نئے تنازعات کھڑے ہو سکتے ہیں، عام انتخابات کے نتیجے میں بڑی سیاسی جماعت کے طور پر سامنے آنیوالے مسلم لیگ ن جہاں اسے اچھا محسوس نہیں کرے گی وہیں صدر کیخلاف لاہور ہائیکورٹ میں توہین عدالت کی درخواست دائر ہوسکتی ہے۔
صدر زرداری نے اتوار کو لاہور میں اپنی خاموشی عام انتخابات میں دھاندلی کے الزامات سے توڑی، انھوں نے خاص طور پر پنجاب کے ریٹرننگ آفیسر کو نشانہ بنایا، انہوں نے الزام لگایا کہ پیپلزپارٹی کو کم از کم 45 سیٹوں سے محروم کیا گیا، جب ایک اخبار نویس نے ان سے سوال کیاکہ وہ ستمبر میں دوسری مدت کیلیے صدارتی الیکشن لڑیں گے ، انھوں نے جواب دیا اگر پنجاب جیسے ریٹرننگ آفیسرز مل جائیں تو وہ دوبارہ صدارتی الیکشن لڑنے کیلئے تیار ہوں گے، صدر زرداری کے اس بیان سے یہ بات تو سامنے آگئی ہے کہ وہ دوسری بار صدارتی الیکشن نہیں لڑیں گے۔
کیونکہ انہیں پتہ ہے کہ ان کے اور ان کے اتحادیوں کے پاس کافی سیٹیں نہیں ہیں، تاہم اگر اگلے تین ماہ میں صورتحال بہتر رہی تو ہو سکتاہے زرداری ، نواز شریف کو بلامقابلہ وزیر اعظم منتخب ہونے کا گرین سگنل دے دیں، بلکہ نواز شریف کو اپنی پسند کا صدارتی امیدوار نامزد کرنے پر بھی رضامندی ظاہر کردیں بشرطیکہ ان کا نامزد امیدوار غیرجانبدار ہو، ان سب باتوں کا انحصار شہباز شریف کے رویہ پر ہے جو نہ صرف زرداری پر تنقید کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے بلکہ ان کے خلاف زیر التوا انکوائریاں کھولنے کے موڈ میں بھی دکھائی دیتے ہیں، صدر زرداری نے سیاسی سرگرمیوں کا آغاز کرنے کا فیصلہ بھی شہباز شریف کے ان کیخلاف ایک سخت بیان کے بعد ہی کیا ہے ، انتخابی مہم کے دوران بھی شریف برادران نے زرداری کر سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔
تاہم اس وقت انہوں نے اپنے آپ کو فاصلے پر ہی رکھا اور ردعمل نہ دیا، اب لگتا ہے کہ صدر زرداری نے کھل کر سامنے آنے کا فیصلہ کر لیا ہے، جس سے چاہے کشیدگی میں ایسے وقت اضافہ ہو جب ایوان صدرمیں چینی وزیر اعظم کو استقبالیہ(23 مئی) دیا جا رہا ہے اور اس میں نواز شریف سمیت بڑی سیاسی جماعتوں کے سربراہاںکو شرکت کی دعوت دی گئی ہے، نواز شریف نے دعوت قبول کر لی ہے اور ان کا صدر زرداری سے سامنا بلکہ مصافحہ بھی ہو سکتا ہے، نواز، زرداری دوسرا آمنا سامنا اس وقت ہو گا جب نواز شریف وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھانے ایوان صدر جائیں گے، یاد رہے کہ الیکشن سے قبل نواز شریف نے عمران خان کے برعکس یہ بیان دیا تھا کہ اگر وہ وزیراعظم منتخب ہو گئے تو انہیں زرداری سے حلف لینے میں کوئی پریشانی نہیں ہوگی کیونکہ وہ ایک منتخب صدر ہیں۔
دوسری طرف شہباز شریف کے موڈ سے لگتا ہے کہ اگلے تین ماہ کے دوران سیاسی درجہ حرارت بلند ہوگا، اگر زرداری نے عدالت کیطرف سے انتخابی سرگرمیوں میں حصہ لینے کی پابندی کو نظرانداز کردیا، دونوں راہنماؤں ( شہباز، زرداری) میں تصادم ہو گیا، تو صورتحال ایسا خطرناک موڑ لے سکتی ہے ،نواز شریف کم از کم صدارتی الیکشن تک ایسی صورتحال نہیں چاہتے، صدر زرداری نے فیصلہ کر لیا ہے کہ وہ شہباز شریف کے کسے بھی حملے کا بھر پور جواب دیں گے، اگر ایسا ہوتا ہے تو مسلم لیگ ن کی حکومت کے آغاز سے ہی سیاسی غیر یقینی جیسی صورتحال پیدا ہوجائے گی، اگر صدرزرداری کیخلاف توہین عدالت کی کوئی درخواست آتی ہے تو لاہور ہائیکورٹ کا ردعمل دلچسپ ہو گا، اس دفعہ صدر کے وکلاء موقف لے سکتے ہیں کہ انتخابی مہم کے دوران جب صدر خاموش تھے تو مسلم لیگ ن کی قیادت نے ان پر حملے کیئے لیکن عدالت نے کوئی نوٹس نہ لیا، تاہم ایسٹیبلشمنٹ، صدر زرداری کی بقیہ صدارتی مدت میں ایسی صورتحال کا پیدا ہونا پسند نہیں کرے گی، دوسری طرف صدر زرداری دباؤ میں لگتے ہیں۔
کیونکہ ان کیخلاف زیرالتواء انکوائریز کھلنے کا قوی امکان دکھائی دیتا ہے، اس لئے ابھی انہوں نے بقیہ مدت پاکستان میں ہی رہ کر پوری کرنے یا اگست ، ستمبر میں بیرون ملک چلے جانے کا کوئی فیصلہ نہیں کیا، زرداری نے ماضی میں مقدمات کا سامنا کیا اور گیارہ سال جیل میں گزارے، اس وقت تو انہیں یقین تھا کہ ان کی اہلیہ بینظیر بھٹو حالات سے نمٹ لے گی، اور بینظیر بے جگری سے لڑی بھی،لیکن اب صورتحال مختلف ہے اب پارٹی شدید بحران میں ہے کارکن بددل ہیں، صرف سندھ ہی ہے جہاں پارٹی مضبوط دکھائی دیتی ہے۔ اگلے ایک دو ہفتے میں صدر زرداری ، ایم کیو ایم کے قائدالطاف حسین سے مستقبل کی حکومت بارے تبادلہ خیال کریں گے، ایم کیو ایم کو مسلم لیگ سے کوئی گرین سگنل ملنے والا نہیں البتہ وہ سندھ میں پیپلزپارٹی سے'' داخلہ '' جیسی اہم وزارت کا مطالبہ کر سکتی ہے، صدر زرداری کو پنجاب میں پارٹی کی شرمناک شکست پر پارٹی کے اندر سے بھی تنقید کا سامنا ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ پنجاب میں شکست کی وجوہات معلوم کرنے کیلئے جو کمیٹی تشکیل دی گئی ہے اس کے سربراہ اعتزاز احسن ہیں جن کا انتخابات میں اپنا کردرار متنازع رہا ہے کیونکہ انہوں نے الیکشن کے دوران صرف اپنی اہلیہ کی انتخابی مہم پر نظر رکھی، اس لئے لگتا نہیں کہ پارٹی کی شکست کی وجوہات کا منصفانہ تعین کیا جا سکے گا، پھر اس شکست میں زرداری کے اپنے رول اور سابق وزراء اعظم یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف کی بری حکمرانی کا کتنا عمل دخل ہے، دلچسپ بات یہ ہے کہ ٹکٹ ہولڈرز کے اجلاس کے دوران صدر زرداری نے پنجاب کے صدر منظور وٹو کااستعفیٰ منظور کیا نہ چوہدری اعتزاز کی طرف سے سینیٹ کی نشست چھوڑنے کی پیشکش پر توجہ دی، یہی لگتا ہے کہ انتخابات کے باوجود گرمیوں کے موسم میں ملک کا سیاسی درجہ حرارت بھی بلند رہے گا۔
صدر پر سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے پر لاہور ہائیکورٹ نے پابندی لگا رکھی ہے ، صدر اس حکم پر عملدرآمد کرتے ہوئے کم ازکم کاغذی حد تک سیاسی سرگرمیوں سے دور رہے۔ لیکن اب انھوں نے لاہور ہائیکورٹ کے حکم کی پروا نہ کرتے ہوئے لاہور سے سیاسی سرگرمیوں کا آغاز کر دیا ہے، جس سے نئے تنازعات کھڑے ہو سکتے ہیں، عام انتخابات کے نتیجے میں بڑی سیاسی جماعت کے طور پر سامنے آنیوالے مسلم لیگ ن جہاں اسے اچھا محسوس نہیں کرے گی وہیں صدر کیخلاف لاہور ہائیکورٹ میں توہین عدالت کی درخواست دائر ہوسکتی ہے۔
صدر زرداری نے اتوار کو لاہور میں اپنی خاموشی عام انتخابات میں دھاندلی کے الزامات سے توڑی، انھوں نے خاص طور پر پنجاب کے ریٹرننگ آفیسر کو نشانہ بنایا، انہوں نے الزام لگایا کہ پیپلزپارٹی کو کم از کم 45 سیٹوں سے محروم کیا گیا، جب ایک اخبار نویس نے ان سے سوال کیاکہ وہ ستمبر میں دوسری مدت کیلیے صدارتی الیکشن لڑیں گے ، انھوں نے جواب دیا اگر پنجاب جیسے ریٹرننگ آفیسرز مل جائیں تو وہ دوبارہ صدارتی الیکشن لڑنے کیلئے تیار ہوں گے، صدر زرداری کے اس بیان سے یہ بات تو سامنے آگئی ہے کہ وہ دوسری بار صدارتی الیکشن نہیں لڑیں گے۔
کیونکہ انہیں پتہ ہے کہ ان کے اور ان کے اتحادیوں کے پاس کافی سیٹیں نہیں ہیں، تاہم اگر اگلے تین ماہ میں صورتحال بہتر رہی تو ہو سکتاہے زرداری ، نواز شریف کو بلامقابلہ وزیر اعظم منتخب ہونے کا گرین سگنل دے دیں، بلکہ نواز شریف کو اپنی پسند کا صدارتی امیدوار نامزد کرنے پر بھی رضامندی ظاہر کردیں بشرطیکہ ان کا نامزد امیدوار غیرجانبدار ہو، ان سب باتوں کا انحصار شہباز شریف کے رویہ پر ہے جو نہ صرف زرداری پر تنقید کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے بلکہ ان کے خلاف زیر التوا انکوائریاں کھولنے کے موڈ میں بھی دکھائی دیتے ہیں، صدر زرداری نے سیاسی سرگرمیوں کا آغاز کرنے کا فیصلہ بھی شہباز شریف کے ان کیخلاف ایک سخت بیان کے بعد ہی کیا ہے ، انتخابی مہم کے دوران بھی شریف برادران نے زرداری کر سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔
تاہم اس وقت انہوں نے اپنے آپ کو فاصلے پر ہی رکھا اور ردعمل نہ دیا، اب لگتا ہے کہ صدر زرداری نے کھل کر سامنے آنے کا فیصلہ کر لیا ہے، جس سے چاہے کشیدگی میں ایسے وقت اضافہ ہو جب ایوان صدرمیں چینی وزیر اعظم کو استقبالیہ(23 مئی) دیا جا رہا ہے اور اس میں نواز شریف سمیت بڑی سیاسی جماعتوں کے سربراہاںکو شرکت کی دعوت دی گئی ہے، نواز شریف نے دعوت قبول کر لی ہے اور ان کا صدر زرداری سے سامنا بلکہ مصافحہ بھی ہو سکتا ہے، نواز، زرداری دوسرا آمنا سامنا اس وقت ہو گا جب نواز شریف وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھانے ایوان صدر جائیں گے، یاد رہے کہ الیکشن سے قبل نواز شریف نے عمران خان کے برعکس یہ بیان دیا تھا کہ اگر وہ وزیراعظم منتخب ہو گئے تو انہیں زرداری سے حلف لینے میں کوئی پریشانی نہیں ہوگی کیونکہ وہ ایک منتخب صدر ہیں۔
دوسری طرف شہباز شریف کے موڈ سے لگتا ہے کہ اگلے تین ماہ کے دوران سیاسی درجہ حرارت بلند ہوگا، اگر زرداری نے عدالت کیطرف سے انتخابی سرگرمیوں میں حصہ لینے کی پابندی کو نظرانداز کردیا، دونوں راہنماؤں ( شہباز، زرداری) میں تصادم ہو گیا، تو صورتحال ایسا خطرناک موڑ لے سکتی ہے ،نواز شریف کم از کم صدارتی الیکشن تک ایسی صورتحال نہیں چاہتے، صدر زرداری نے فیصلہ کر لیا ہے کہ وہ شہباز شریف کے کسے بھی حملے کا بھر پور جواب دیں گے، اگر ایسا ہوتا ہے تو مسلم لیگ ن کی حکومت کے آغاز سے ہی سیاسی غیر یقینی جیسی صورتحال پیدا ہوجائے گی، اگر صدرزرداری کیخلاف توہین عدالت کی کوئی درخواست آتی ہے تو لاہور ہائیکورٹ کا ردعمل دلچسپ ہو گا، اس دفعہ صدر کے وکلاء موقف لے سکتے ہیں کہ انتخابی مہم کے دوران جب صدر خاموش تھے تو مسلم لیگ ن کی قیادت نے ان پر حملے کیئے لیکن عدالت نے کوئی نوٹس نہ لیا، تاہم ایسٹیبلشمنٹ، صدر زرداری کی بقیہ صدارتی مدت میں ایسی صورتحال کا پیدا ہونا پسند نہیں کرے گی، دوسری طرف صدر زرداری دباؤ میں لگتے ہیں۔
کیونکہ ان کیخلاف زیرالتواء انکوائریز کھلنے کا قوی امکان دکھائی دیتا ہے، اس لئے ابھی انہوں نے بقیہ مدت پاکستان میں ہی رہ کر پوری کرنے یا اگست ، ستمبر میں بیرون ملک چلے جانے کا کوئی فیصلہ نہیں کیا، زرداری نے ماضی میں مقدمات کا سامنا کیا اور گیارہ سال جیل میں گزارے، اس وقت تو انہیں یقین تھا کہ ان کی اہلیہ بینظیر بھٹو حالات سے نمٹ لے گی، اور بینظیر بے جگری سے لڑی بھی،لیکن اب صورتحال مختلف ہے اب پارٹی شدید بحران میں ہے کارکن بددل ہیں، صرف سندھ ہی ہے جہاں پارٹی مضبوط دکھائی دیتی ہے۔ اگلے ایک دو ہفتے میں صدر زرداری ، ایم کیو ایم کے قائدالطاف حسین سے مستقبل کی حکومت بارے تبادلہ خیال کریں گے، ایم کیو ایم کو مسلم لیگ سے کوئی گرین سگنل ملنے والا نہیں البتہ وہ سندھ میں پیپلزپارٹی سے'' داخلہ '' جیسی اہم وزارت کا مطالبہ کر سکتی ہے، صدر زرداری کو پنجاب میں پارٹی کی شرمناک شکست پر پارٹی کے اندر سے بھی تنقید کا سامنا ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ پنجاب میں شکست کی وجوہات معلوم کرنے کیلئے جو کمیٹی تشکیل دی گئی ہے اس کے سربراہ اعتزاز احسن ہیں جن کا انتخابات میں اپنا کردرار متنازع رہا ہے کیونکہ انہوں نے الیکشن کے دوران صرف اپنی اہلیہ کی انتخابی مہم پر نظر رکھی، اس لئے لگتا نہیں کہ پارٹی کی شکست کی وجوہات کا منصفانہ تعین کیا جا سکے گا، پھر اس شکست میں زرداری کے اپنے رول اور سابق وزراء اعظم یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف کی بری حکمرانی کا کتنا عمل دخل ہے، دلچسپ بات یہ ہے کہ ٹکٹ ہولڈرز کے اجلاس کے دوران صدر زرداری نے پنجاب کے صدر منظور وٹو کااستعفیٰ منظور کیا نہ چوہدری اعتزاز کی طرف سے سینیٹ کی نشست چھوڑنے کی پیشکش پر توجہ دی، یہی لگتا ہے کہ انتخابات کے باوجود گرمیوں کے موسم میں ملک کا سیاسی درجہ حرارت بھی بلند رہے گا۔