حکومت کی رٹ قائم رہے
عمران خان نے ڈرون حملوں کی مخالفت کی، افغانستان میں امریکی مداخلت کو غلط قرار دیا، طالبان کے نظام کو سراہا۔
ملک میں تبدیلی آگئی۔ بالغ رائے دہی کی بنیاد پر منعقد ہونے والے انتخابات کے بعد 11 ویں منتخب حکومت قائم ہوگئی۔ دنیا میں پہلی دفعہ کرکٹ کے مایہ ناز کھلاڑی ملک کے وزیراعظم بن گئے۔
عمران خان نے اقتدار میں آنے کے لیے 22 سال جدوجہد کی۔ جنرل حمید گل نے 90 کی دہائی کے آخری عشرے میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے متبادل قیادت کے لیے عمران خان اور عبدالستار ایدھی کو ریفارمر کے طور پر سیاسی میدان میں پیش کرنے کی کوشش کی تھی مگر عبدالستار ایدھی فوری طور پر میدان سے ہٹ گئے۔ عمران خان جنرل حمید گل سے دور ہوگئے مگر سیاست جاری رکھی۔ ایک زمانے میں بائیں بازو کے رہنما پیپلز پارٹی کے ایک بانی رکن معراج محمد خان عمران خان سے متاثر ہوئے اور تحریک انصاف کے سیکریٹری جنرل بن گئے۔
معراج محمد خان کچھ عرصے بعد مایوس ہوگئے، یوں اپنے ساتھیوں سمیت تحریک انصاف سے رخصت ہوئے۔ عمران خان نے جنرل پرویز مشرف کے صدارتی ریفرنڈم کی حمایت کی، مگر پھر چوہدری شجاعت حسین کی حمایت نہ کرنے کا فیصلہ کیا اور جنرل مشرف کی مخالفت شروع کردی۔ عمران خان نے مسلسل کرپشن کے مسئلے پر مہم چلائی۔ ان کا یہ نعرہ کہ ''زرداری اور نواز شریف کب تک باریاں لیتے رہیں گے'' نوجوانوں کے دلوں میں سرائیت کرگیا اور نئے نظریہ کے مطابق پاپولرازم کا ایسا ماڈل وجود میں آیا جس ماڈل کی کراچی، پنجاب اور خیبرپختونخوا میں جڑیں گہری ہوگئیں۔
عمران خان نے ڈرون حملوں کی مخالفت کی، افغانستان میں امریکی مداخلت کو غلط قرار دیا، طالبان کے نظام کو سراہا، نیٹو فورسز کو سپلائی کی فراہمی کو روکنے کے لیے موٹروے پر دھرنے دیے اور اچھی طرز حکومت کے لیے خیبرپختونخواہ میں کچھ کوشش کی۔ بیرون ممالک سے پاکستانیوں کی دولت کی واپسی پر زور دیا۔ ایک کروڑ لوگوں کو ملازمتیں دینے کا وعدہ بھی کرلیا، مگر عمران خان نے ایک ایسے موڑ پر حکومت سنبھالی جب پاکستان دنیا میں تنہائی کا شکار ہے۔ صرف چین پاکستان کی حمایت کرتا ہے۔ ملک کا اقتصادی ڈھانچہ بگڑ چکا ہے۔
امریکا نے پاکستانی فوج کی امداد کم کردی ہے۔ امریکا کے دباؤ پر آئی ایم ایف نے پاکستان کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کے لیے قرضہ دینے سے انکار کردیا ہے۔ یوں اب انحصار سعودی عرب کے اسلامک انویسٹمنٹ بینک پر ہوگیا ہے جس کی قرضہ دینے کی شرائط کیا ہیں، اس بارے میں خاموشی ہے۔
عمران خان نے 26 جولائی کو انتخابات میں کامیابی کے بعد قوم سے خطاب کیا۔ انھوں نے بھارت سمیت پڑوسی ممالک سے اچھے تعلقات کی پیشکش کی۔ سعودی عرب اور ایران میں مفاہمت کرنے کا فریضہ ادا کرنے کا اعلان کیا۔ تحریک انصاف کے ترجمان نے کہا کہ منتخب وزیراعظم کی حلف برداری کی تقریب میں عالمی رہنماؤں، کھلاڑیوں اور فنکاروں کو مدعو کیا جائے گا۔
عمران خان کرکٹر کی حیثیت سے بھارت میں ہمیشہ مقبول رہے۔ وہ نہ صرف کھلاڑیوں بلکہ ممبئی کی فلمی صنعت میں بھی ہیرو کے طور پر پہچان رکھتے ہیں۔ ایک وقت تھا کہ شوکت خانم کینسر اسپتال کی تعمیر کے لیے فنڈ جمع کرنے میں بھارتی کھلاڑیوں اور اداکاروں نے خصوصی دلچسپی لی تھی۔ اسی طرح عمران خان برطانیہ کے امراء میں بھی بہت مقبول رہے۔ ایک وقت تھا کہ شہزادی ڈیانا اور ان کے شوہر عمران خان کے دوستوں کے حلقے میں شامل تھے۔ ان کا سابق سسرال برطانیہ کا ایک بااثر خاندان سمجھا جاتا ہے، یوں اگر حلف برداری کی تقریب میں غیر ملکی سربراہوں، فنکاروں اور کھلاڑیوں کو مدعو کیا جاتا تو خودبخود ڈپلومیسی کا ایک نیا دور شروع ہوتا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ملک کے اقتصادی بحران کا حل پڑوسی ممالک، امریکا اور یورپی ممالک سے اچھے تعلقات میں مضمر ہے۔ محض چین پر انحصار کرکے یہ بحران ختم نہیں ہوسکتا۔ پھر سی پیک کے پروجیکٹ ابھی شروع ہی نہیں ہوئے، وزیراعظم عمران خان کو خارجہ امور پر خصوصی توجہ دینی ہوگی۔ بھارت اور افغانستان سے اچھے تعلقات کے بغیر اب امریکا سے بہتر تعلقات قائم نہیں ہوسکتے، نئی حکومت کو ان ممالک کے تحفظات دور کرنے پر حتمی فیصلہ کرنا ہوگا۔ ثابت ہوچکا ہے کہ گزشتہ پانچ برسوں میں مختلف امور پر سابقہ دور میں جو موقف دنیا نے تسلیم نہیں کیا، یوں اب نئی خارجہ پالیسی اس ملک کے مفاد میں ضروری ہے۔
اس وقت ایک اہم معاملہ پارلیمنٹ کی تمام ریاستی اداروں پر بالادستی ہے۔ گزشتہ پانچ سال بھی عجیب گزرے۔ وفاقی حکومت کا کام دیگر اداروں نے سنبھال لیا۔ خارجہ امور، داخلہ اور ترقیاتی منصوبے حکومت کے علاوہ دیگر اداروں کی فیصلہ سازی سے ہونے لگے۔ ایک وقت تو یہ تھا کہ اس ملک میں آنے والے غیر ملکی وزراء نے اہم معاملات پر وزیراعظم سے مشاورت کے بجائے کہیں اور وقت صرف کیا۔ اب وفاقی حکومت کی تمام اداروں پر بالادستی بحال ہونی چاہیے۔
اقتصادی بحران کے حل کے لیے اچھی طرز حکومت ضروری ہے۔ مستقبل کے وزیراعظم عمران خان نے سادگی اور کفایت شعاری کا فیصلہ کیا ہے۔ جب پیپلز پارٹی کی پہلی حکومت قائم ہوئی تھی تو صدر ذوالفقار علی بھٹو نے اسی طرح کے اقدامات کیے تھے۔ بھٹو حکومت کے دو اہم وزراء شیخ رشید اور ڈاکٹر مبشر حسن نے وزراء کالونی میں بنگلہ لینے سے انکار کیا۔ یہ دونوں رہنما اپنے دوستوں کے گھروں میں رہے۔ شیخ محمد رشید ایک چھوٹے سرکاری کوارٹر میں منتقل ہوگئے تھے۔ پھر وزیراعظم محمد خان جونیجو نے 800 سی سی کاریں استعمال کرنے کی پالیسی بنائی۔ اس پالیسی کا اطلاق سول بیوروکریسی کے ساتھ مسلح افواج پر بھی ہوا تھا۔ ایک اور وزیراعظم شاہد خاقان عباسی بھی وزیراعظم ہاؤس میں نہیں رہے۔
وہ اسلام آباد میں اپنے گھر میں رہتے تھے۔ نئی حکومت کی کفایت شعاری برطانوی دور کے پروٹوکول سے انحراف کی پالیسی صحیح سمت میں صحیح قدم ہے۔ نئی حکومت نے بلوچستان کے حالات کو بہتر بنانے کے لیے بلوچستان نیشنل پارٹی کے صدر سردار اختر مینگل سے معاہدہ کیا ہے اور اس معاہدہ میں شامل 9 نکات پر عملدرآمد کا عہد کیا ہے۔ ان نکات میں سب سے اہم معاملہ لاپتہ افراد کا ہے۔
مسخ شدہ لاشوں کے مسئلہ نے بلوچستان کے حالات کو پیچیدہ کیا۔ سردار اختر مینگل سی پیک منصوبے کے حق میں نہیں، ان کے کچھ بنیادی تحفظات ہیں۔ بلوچ جنگجو مزاحمت کے ذریعے اپنے مقاصد حاصل کرنے کے خواہاں ہیں۔ نیشنل پارٹی کے رہنما اور سابق وزیراعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کی حکومت کی ناکامی کی بنیادی وجہ بھی لاپتہ افراد کے مسئلے پر پالیسی کو تبدیل نہ کرنا تھا۔ اب یہ نئی حکومت کا امتحان ہے۔ وزیراعظم عمران خان بین الاقوامی حالات اور بلوچ عوام کی محرومیوں کے تناظر میں اس مسئلے کا حل تلاش کریں گے تو یہ نہ صرف بلوچستان بلکہ پاکستان کے مفاد میں بھی ہوگا۔
نوجوانوں کی جس اکثریت نے عمران خان کو ووٹ دیا ہے وہ مایوس ہے۔ اس وقت ہر شخص کو یقین ہے کہ قانونی راستہ اختیار کرنے کے بجائے کوئی دوسرا راستہ ملے گا تو ہی اس کا مسئلہ حل ہوگا، ریاستی اداروں کی تعمیر نو اور بیوروکریسی کے ذہنوں کو تبدیل کرنے کا کام بھی اہمیت کا حامل ہے۔ نئی حکومت میں کچھ تو اسد عمر، ڈاکٹر عارف علوی جیسے ٹیکنوکریٹس ہیں جن کا ماضی شفاف ہے مگر اکثریت ان الیکٹیبلز کی ہے جو تمام جماعتوں کا سفر طے کرکے اب عمران خان کے دامن میں آئے ہیں۔ ان کے ماضی پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں ۔
بعض لوگ یہ سوال کررہے ہیں کہ یہ کیسی تبدیلی ہے کہ عمران خان 2002 میں چوہدری برادران کی حمایت نہ کرنے کی بناء پر جنرل پرویز مشرف کی مخالفت کرتے ہیں اور اب چوہدری پرویز الٰہی ہی ان کے پنجاب کے اسپیکر ہوں گے۔ ان کے لیے ریاست کا شفاف نظام ایک چیلنج ہوگا۔ تحریک انصاف کو قومی اسمبلی میں سادہ اکثریت حاصل ہے۔ وہ دوسری جماعتوں اور آزاد امیدواروں کے ساتھ حکومت بنارہی ہے۔ سینیٹ میں تحریک انصاف اقلیت میں ہے۔
نئی حکومت کو انسانی حقوق کی بالادستی اور میڈیا کی آزادی کو بھی یقینی بنانا ہے۔ اس مجموعی صورتحال میں عمران خان زندگی کا خطرناک چیلنج قبول کررہے ہیں۔ عمران خان کی حکومت نے اپنی مدت پوری کرلی اور آخری وقت تک ان کی حکوت کی رٹ قائم رہی تو یقیناً بہت سے مسائل حل ہوں گے۔