زرداری اور عمران ایک پیج پر آچکے

اب ن لیگ کو سمجھنا چاہیے کہ زرداری ان کے ساتھ کبھی نہیں آئیں گے۔ وہ عمران خان کے ساتھ ہونگے۔

msuherwardy@gmail.com

آصف زرداری نے شہباز شریف کو ووٹ نہیں دیے۔ یہ کوئی خبر ہے۔ ایسا کوئی پہلی دفعہ ہوا ہے۔ جب سے آصف زرداری اینٹ سے اینٹ بجانے کی تقریر کے بعد خود ساختہ جلا وطنی کاٹ کر واپس آئے ہیں تب سے ہی وہ اسٹبلشمنٹ کے ساتھ ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ انھیں اسٹبلشمنٹ سے دوستی پر شدید تحفظات ہیں۔ لیکن وہ اسے قائم رکھنا چاہتے ہیں۔

دل پر جبر رکھ کر بھی اس کو قائم رکھنا چاہتے ہیں۔ اسی دوستی کو نبھانے کے لیے انھوں نے ن لیگ سے غیر فطری فاصلہ برقرار رکھا ہوا ہے۔ وہ دوستوں کے کہنے پر ہر وہ کام کر رہے ہیں جو انھیں کرنے کے لیے کہا جا رہا ہے۔ان کی نئی اسائنمنٹ اپوزیشن میں بیٹھ کر نئی حکومت کو مضبوط کرنا اور دھاندلی کے شور کو کم کرنا ہے۔ انھیں اپوزیشن کو کمزور کرنا ہے۔ وہ یہ کام بخوبی انجام دے رہے ہیں۔ اس لیے پریشانی کی کوئی بات نہیں۔

آصف زرداری بلاول کو نہ تو بھٹو بنانا چاہتے ہیں اور نہ ہی بلاول کو بے نظیر بنانا چاہتے ہیں۔ بلکہ بات کو زیادہ سادہ الفاظ میں بیان کیا جائے تو وہ بلاول کو اسٹبلشمنٹ کا دوست بنانا چاہتے ہیں۔ وہ بلاول کو سمجھا رہے ہیں کہ دیکھو بھٹو اور بے نظیر نے اسٹبلشمنٹ مخالف سیاست کر کے کیا حاصل کر لیا۔ ان کا حشر دیکھو۔ تم نے بھٹو یا بے نظیر نہیں بننا۔ تم نے عمران خان بننا ہے۔ تم نے آج کا نہیں نوے کی دہائی کا نواز شریف بننا ہے۔ تم نے اسٹبلشمنٹ کا اعتماد جیتنا ہے۔ان کے کہنے پر کڑوے اور غیر سیاسی فیصلے بھی کرنے ہے۔ عوامی امنگوں کے خلاف فیصلے بھی کرنے ہیں۔

قربانی بھی دینی ہے۔ جب انھیں ہم پر مکمل اعتماد ہو جائے گا تو پھل بھی ملے گا۔ہم نے لڑ کر دیکھ لیا ہے۔ کیا حاصل ہوا ہے۔ جو غلطی بھٹو اور بے نظیر کی تھی وہ اب نواز شریف کر رہے ہیں۔ اسے کرنے دیں۔ اگر نواز شریف بھٹو بننا چاہتا ہے تو اسے بننے دیں ہمیں کوئی شوق نہیں۔ ہماری بس ہے۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ یہ کوئی بری بات نہیں ہے۔ یہ کوئی بری پالیسی نہیں ہے۔صرف برائی کی اتنی بات ہے کہ وہ اس کا اقرار نہیں کر رہے۔ زرداری کو چاہیے کہ وہ برملا کہیں کہ ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ بلاول بھٹو اور بے نظیر نہیں بنیں گے۔ ہم اسٹبلشمنٹ مخالف سیاست ختم کر رہے ہیں اور آج سے ہماری سیاست اسٹبلشمنٹ دوست سیاست ہو گی۔ ہم اس جمہوریت کو مضبوط کر رہے ہیں جس میں اسٹبلشمنٹ سے محاذ آرائی نہیں ہو گی۔لیکن وہ کہیں گے کہ اعلا ن کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ نظر نہیں آرہا۔

آصف زرداری کو برملا کہنا چاہیے کہ جب میری اسٹبلشمنٹ سے لڑائی ہوئی تھی ن لیگ نے میرا ساتھ نہیں دیا تھا۔ اس لیے آج جب ن لیگ کی اسٹبلشمنٹ سے لڑائی ہے تو ہم ان کا ساتھ نہیں دیں گے۔ اس میں ناراض ہونے والی کوئی بات نہیں ہے۔ جس طرح ہم نے لڑائی کے بعد خود ہی صلح کی تھی۔ اسی طرح ن لیگ بھی خود ہی اپنے بل بوتے پر صلح کرے۔ ہمیں استعمال کرنے کی کوشش نہ کرے۔

اب بھی دیکھ لیں۔ آصف زرداری کیا کر رہے ہیں۔ کیا کسی کو سمجھ آرہی ہے۔ ایک طرف ن لیگ سے خورشید شاہ کے لیے ووٹ لے رہے ہیں۔ لیکن جواب میں ووٹ دینے کے لیے تیار نہیں۔ اس کو کیا کہیں گے۔ سب کو پتہ ہے کہ زرداری کی جانب سے شہباز شریف کو ووٹ نہ دینے سے عمران خان کو فائدہ ہو گا۔ اس وقت اپوزیشن اور حکومت کے درمیان ووٹوں کا فرق بہت کم ہے۔ اگر عمران خان بہت کم ووٹوں کے مارجن سے جیتتے تو ایک تاثر رہتا کہ یہ ایک کمزور حکومت ہے۔ عمران خان کو بہت کمزور اکثریت حاصل ہے۔ اس لیے عمران خان کو مضبوطی کا تاثر دینے کے لیے زرداری نے شہباز شریف کو ووٹ دینے سے انکار کیا ہے۔ اس میں شہباز شریف سے اختلاف کا کوئی تعلق نہیں ہے۔


یہ وہی شہباز شریف ہیں جن کے ساتھ زرداری کی دھرنوں میں جاتی عمرہ میں صلح ہو گئی تھی۔ جس طرح ایک ضرب المثل ہے کہ لڑنا ہو تو کوئی بھی بہانہ بنایا جا سکتا ہے۔ اس بات پر بھی لڑائی ہو سکتی ہے کہ آٹا گوندھتے ہلتے کیوں ہو۔اسی طرح اب شہباز شریف کے بھی پرانے بیانات کا حوالہ دیا جا رہا ہے۔ اگر شہباز شریف اتنے ہی برے تھے تو پیپلزپارٹی کا اعلیٰ سطح کا وفد شہباز شریف کو ملنے ان کے گھر کیوں گیا۔ متحدہ اپوزیشن کے ان اجلاسوں میں کیوں شرکت کی جن میں شہباز شریف موجود تھے۔ کیا تب انھیں معلوم نہیں تھا کہ شہباز شریف اب مسلم لیگ (ن) کے صدر ہیں۔ انھیں پارٹی نے وزیر اعظم کا امیدوار انتخابات سے قبل ہی نامزد کر دیا ہوا تھا۔

زرداری اپنی قیمت بڑھا رہے تھے۔اور ایسا ہی ہوا اور پھر یہ اشارہ بعد میں آیا ہے کہ ووٹ نہیں دینا۔ یہ حکمت عملی بعد میں بنی ہے کہ فرق بہت کم ہے اس لیے شہباز شریف کے ووٹ کم کیے جائیں۔ میری رائے میں زرداری کو عمران خان کو ووٹ دینے میں کوئی اعتراض نہیں تھا۔ یہ اعتراض عمران خان کو تھا۔ وہ وقتی طور پر زرداری کے ووٹ نہیں لینا چاہتے تھے۔ اس لیے یہی کہا گیا ہے کہ بس شہباز کو ووٹ نہیں دینا تاکہ فرق بڑھ جائے۔

لیکن میں سمجھتا ہوں کہ دھاندلی پر بھی زرداری ن لیگ اور مولانا فضل الر حمٰن کا ساتھ نہیں دیں گے۔ و ہ دھاندلی پر بھی عمران خان کا ساتھ دیں گے۔ وہ نئے موقف کے ساتھ سامنے آئیں گے کہ ہم نے ماضی میں بھی دھاندلی پر احتجاج کی مخالفت کی تھی۔ ہم آج بھی دھاندلی پر احتجاج کی مخالفت کرتے ہیں۔ کہا جائے گا کہ دھاندلی کے احتجاجوں نے پاکستان کو کچھ نہیں دیا۔1977میں مارشل لا لگ گیا۔ 2014میں بھی جمہوریت خطرہ میں آگئی تھی۔ اس لیے ہم دھاندلی کی کسی تحریک میں حصہ نہیں لیں گے۔ بس جو ہوگیا ہے اس کو قبول کر لیں۔ خدا کا شکر ادا کریں کہ جمہوری نظام چل رہاہے۔

یہ بھی حقیقت ہے کہ پیپلزپارٹی کو موجودہ انتخابی نتائج سے کوئی زیادہ مسئلہ نہیں ہے۔ یہ ان کے من چاہے نتائج ہیں۔ انھیں سندھ مل گیا ہے۔ قومی اسمبلی میں بھی نشستوں میں اضافہ ہو گیا ہے۔ اس لیے پیپلزپارٹی کا ایسا کوئی نقصان نہیں ہوا۔ جس کی بنا پر پیپلزپارٹی کسی بھی قسم کا کوئی احتجاج کرنے کا موڈ رکھتی ہو۔

جہاں تک مولانا فضل الرحمٰن اور زرداری کی ملاقات کی بات ہے تو زرداری بلاول کو قائد حزب اختلاف بنانا چاہتے ہیں۔ لیکن یہ تب تک ممکن نہیں جب تک متحدہ مجلس عمل بلاول کی حمایت کا اعلان نہ کر دے۔ اس کے بعد ہی بلاول کے قائد حزب اختلافات بننے کے امکانات پیدا ہو سکتے ہیں۔ اسی لیے زرداری نے آج شہباز شریف کے خلاف جو محاذ گرم کیا ہے وہ دراصل شہباز شریف کو قائد حزب اختلاف بننے سے روکنے یا ہٹانے کے لیے ہے۔ اس سلسلے میں زرداری کو عمران خان کی حمایت بھی حاصل ہے۔ عمران خان بھی چاہتے ہیں کہ شہباز شریف کی جگہ بلاول قائد حزب اختلاف بن جائیں ۔

ایک رائے یہ بھی ہے کہ زرداری اس وقت شدید مسائل کا شکار ہیں۔ منی لانڈرنگ کیس میں پھنس چکے ہیں۔ ان کی بہن فریال تالپور نے ضمانت قبل از وقت گرفتاری حاصل کی ہوئی ہے جو منسوخ بھی ہو سکتی ہے۔ زرداری کے دست راست گرفتار ہو چکے ہیں۔جے آئی ٹی بنانے کی باتیں ہو رہی ہیں۔ وہ شدید دباؤ میں ہیں۔ وہ سخت اپوزیشن کرنے کے متحمل ہی نہیں ہو سکتے۔ اس لیے درمیانی راستے کی تلاش میں ہیں۔

ن لیگ کے دوستوں کا خیال ہے کہ ہمیں اس وقت زرداری کی مشکلات کا احساس کرنا چاہیے۔ ان کی مدد کرنی چاہیے۔ زرداری سے محاذ آرائی نہیں کرنی چاہیے۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ یہ خواب خیالی ہے۔ اب ن لیگ کو سمجھنا چاہیے کہ زرداری ان کے ساتھ کبھی نہیں آئیں گے۔ وہ عمران خان کے ساتھ ہونگے۔ ابھی یہ ساتھ بالواسطہ ہے آگے جا کر براہ راست بھی ہو سکتا ہے۔ ویسے بھی عمران خان نے قومی اسمبلی کے پہلے اجلاس میں زرداری سے ہاتھ ملا لیا ہوا ہے۔ یہ مصافحہ کوئی عام مصافحہ نہیں تھا۔
Load Next Story