جہاں گشت وہ کہنے لگیں ’’تُو مجھے سہیلی کہا کر‘‘
ایک دلّال نے مجھے ’’اُس بازار‘‘ سے نکلنے کا راستہ دکھایا
قسط نمبر 8
استاد جی نے کہا۔
نہیں استاد جی ہم سب سدا کے مہمان ہی ہیں، بس مہمان، آئے اور چلے گئے، خود کو مہمان ہی سمجھنا چاہیے ہمیں، لیکن ہم خود کو مہمان نہیں، مقیم سمجھنے لگے ہیں اور ہم نادان یہ سمجھتے ہیں کہ بس اب یہیں رہنا ہے، موج کرنا ہے، بُھول گئے ہیں ہم کہ بس جانا ہے یہاں سے۔
کیا مطلب استاد جی بولے۔
استاد جی، تین دن کا نہیں بس دو دن کا میلہ ہے یہ زندگی۔ مہمان، مالک بن بیٹھا ہے، اور مالک کوئی بن نہیں سکتا چاہے کچھ کرلے۔
سن لیا تُو نے! اس کی باتیں مجھے تو سمجھ نہیں آتیں، اس کی عمر دیکھ اور اس کی باتیں سُن۔ انہوں نے اپنی بیوی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا، یار سلطان! تُو اسے کس رشتے سے پکارے گا۔ عجیب سا سوال کردیا تھا انہوں نے، پھر خود ہی کہنے لگے۔ چل یار! یہ تیری بھابھی ہے۔ ہاں بھئی! تجھے منظور ہے۔ وہ اپنی بیوی سے مخاطب ہوئے۔ اس کی ''نہیں'' سے ہم دونوں چونکے۔ تو پھر کیا کہے یہ تجھے؟ ''سہیلی'' کہا کر مجھے تُو۔ وہ مجھ سے مخاطب ہوئیں۔
چل یار سلطان! اپنی تو کوئی سہیلی نہیں ہے، تیری تو بن گئی۔
لیکن تُو اسے اپنی سہیلی کیوں بنانا چاہتی ہے؟ اس کے بال تو دیکھ میری سہیلی کے، مجھ سے بس آدھے ہی ہوں گے۔ اس بات پر استاد جی ہنس ہنس کے دہرے ہوگئے۔ استاد جی کی بیوی کا نام ریحانہ تھا، میٹرک پاس تھی، بہت ہنس مُکھ اور زندہ دل۔ بچپن میں ہمارے محلے میں رہنے والی بلّو بھی مجھے یہی کہتی تھی۔ بلّوری آنکھوں والی، پَری جیسی بلّو جنہیں میں بلّو باجی کہا کرتا تھا۔ مُحرّم میں وہ مجھے اپنے ساتھ امام بارگاہ لے کر جایا کرتیں۔
اس وقت امام بارگاہوں میں سب ہی جناب حُسینؓ ذی وقار کا ذکر گرامی سنتے تھے۔ اس میں شیعہ سنی کی کوئی تخصیص نہیں تھی، سب کے سب غم حسین میں اشک بار۔ اس لیے کہ جناب حسینؓ تو سب کے ہیں۔ لیکن اس وقت بھی کچھ بے سروپا باتیں مشہور تھیں۔ ایک دن ہمارے پڑوس میں رہنے والی ایک خاتون جن کا نام اکبری تھا، اور وہ پورے محلے میں اکبری باجی کے نام سے مشہور تھیں، نے مجھے اپنے پاس بلایا اور بہت رازداری سے کہنے لگیں، دیکھو بیٹا! مجھے تم سے ایک بہت ضروری بات کرنی ہے، مگر پہلے تم مجھ سے وعدہ کرو کہ تم یہ بات کسی کو بھی نہیں بتاؤ گے۔
میں نے کہا ہاں صحیح ہے، آپ کہیے کیا بات ہے۔ تب انہوں نے کہا کہ دیکھو تم بلّو کے بہت چہیتے ہو، وہ بھی تمہارا بہت خیال رکھتی ہے، لیکن تم ایک بات نہیں جانتے۔ میں نے حیرت سے پوچھا کہ وہ کیا ؟ تو انہوں نے کہا کہ دیکھو وہ شیعہ ہیں اور تم ان کے ساتھ امام بارگاہ میں جاتے ہو بل کہ مُحرّم میں تو اکثر تم ان کے ساتھ ہی رہتے ہو، تم یہ بات نہیں جانتے کہ یہ لوگ مُحرّم میں ایک تقریب کرتے ہیں، اس میں ایک معصوم بچے کو بہلا پھسلا کر لے جاتے ہیں، پھر چاولوں کے ڈھیر کے اوپر اس بچے کو لٹکا دیتے ہیں اور اسے تیروں سے چھلنی کردیتے ہیںْ
اس بچے کا خون چاولوں پر گرتا رہتا ہے اور پھر یہ لوگ وہ چاول پکا کے کھا جاتے ہیں۔ میں نے حیرت سے ان کی بات سنی، لیکن میں بالکل نہیں گھبرایا، اس لیے کہ میں یہ بات ماننے کو تیار ہی نہیں تھا۔ پھر میں نے کہا اکبری باجی ایسا ہو ہی نہیں سکتا، اور۔۔۔۔۔۔ انہوں نے میری بات درمیان سے ہی کاٹ دی اور کہا ایسا ہی ہے لیکن تم ابھی بچے ہو، اس لیے نہیں سمجھ رہے۔
ٹھیک ہے جب ایسا ہوگا تب دیکھا جائے گا، کہہ کر میں وہاں سے نکل آیا۔ میں پریشان نہیں، بے چین ضرور تھا۔ آخر میں بلّو باجی کے گھر جا پہنچا جو اس وقت بھنڈی کاٹ رہی تھیں۔ کہاں سے آرہے ہو تم آوارہ گردی کرکے۔ انہوں نے پوچھا۔ میں تو جہاں سے بھی آرہا ہوں لیکن آج مجھے آپ کی حقیقت معلوم ہوگئی ہے، لیکن یاد رکھیے کہ میں کون ہوں، ہمارے خاندان میں لوگ صدیوں تک اپنے خون کو نہیں بھولتے اور بدلہ لیے بغیر چین سے نہیں سوتے۔ انہوں نے میری طرف حیرت سے دیکھا اور میرے قریب آکر پوچھا، کیا ہوا ہے، کیا حقیقت، کیسی باتیں کر رہے ہو تم۔ میں نے انہیں اکبری باجی کی کہی ہوئی بات بتا دی۔ مجھے یاد ہے مجھے سینے سے لگا کر وہ بہت روئیں اور پھر مجھے لے کر اکبری باجی کے پاس پہنچیں۔
اکبری باجی ہمیں دیکھ کر بہت پریشان ہوئیں لیکن بلّو باجی نے انہیں کہا پریشان نہ ہوں اکبری باجی ایسا ہرگز نہیں ہے جیسا آپ نے سلطان کو بتایا ہے، آپ جانتی ہیں کہ اگر اسے چھوٹی سی پھانس بھی چُبھ جائے تو میرا کلیجہ چھلنی ہوجاتا ہے، لیکن چلیں کوئی بات نہیں ، بس اتنا کہنے آئی ہوں کہ آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے، اور یہ بھی کہنا ہے کہ یہ بات بس اب یہیں تک رہے گی۔
اکبری باجی نے بلّو باجی سے معذرت کی اور ہم گھر چلے آئے۔ پھر میں نے وہ دن بھی دیکھا کہ اکبری باجی بلّو باجی کے ساتھ امام بارگاہ جاتی تھیں اور یہ بھی انہی کی زبانی سنا کہ سلطان مجھے بھی بچپن میں کسی نے یہ بات بتائی تھی، کتنی غلط بات تھی، شکر ہے کہ میں نے تجھ سے بات کی اور تو نے بلو سے، اس سے مجھے سچائی کا علم تو ہوگیا ناں۔ آج بھی کچھ بے سروپا اور لایعنی باتیں پھیلائی جاتی ہیں اور امت مسلمہ میں انتشار پیدا کرکے اپنے ناپاک عزائم کو عملی جامہ پہنایا جاتا ہے، لیکن اگر ہم تحقیق کرلیں تو غلط فہمیوں کے بادل چھٹ سکتے اور ہم امت واحد بن سکتے ہیں۔
بلّو کے بعد مجھے گڈّو نے بھی یہی کہنا شروع کردیا تھا اور اب ریحانہ میری سہیلی بن گئی تھی لیکن میں سہیلی کا مفہوم نہیں جانتا تھا۔ کھانا کھانے کے بعد ہم نے چائے پی۔ دو ہی کمرے تھے گھر میں، جس میں سے ایک مجھے دے دیا گیا۔ لوہے کے پائپ کی چارپائی تھی۔ بستر پر سفید چادر جس کے کناروں پر ہاتھ سے سرخ دھاگے سے کڑھائی کی گئی تھی، بچھی ہوئی تھی۔ چل یار یہ کمرہ اب تیرا ہے جو چاہے کر، جیسا چاہے رہنا۔ یہ کمرہ اس کا نہیں ہے، یہ پورا گھر اس کا ہے۔ ریحانہ نے استاد جی کی بات کاٹ دی۔ ہاں یار سلطان یہ سارا گھر تیرا ہے۔ میں تو سو رہا ہوں تو اپنی سہیلی سے گپ شپ کرنا چاہے تو کر، کہہ کر استاد جی اپنے کمرے میں چلے گئے۔
ہاں میری سہیلی سلطان! اب بتا کیا رام کہانی ہے تیری، اچھا ذرا ٹھہر، میں تیرے استاد جی کو گرم دودھ کا گلاس دے دوں، ویسے ہی سو جائے گا اور بچیوں کو بھی یہاں لے آؤں۔ میری کوئی رام کہانی ہے ہی نہیں، اور میں بھی سو رہا ہوں، کہہ کر بستر پر دراز ہوگیا۔ تھوڑی دیر بعد میری سہیلی میرے سر پر کھڑی تھی۔ یہ لے دودھ پی لے، سارا دن کام کرتا ہے۔ مجھے نہیں پینا۔ میری اس نے ایک نہیں سنی۔ تیرا تو اچّھا بھی پیے گا، چل اٹھ، کہہ کر اس نے میری چادر کھینچ کر پَرے پھینک دی۔ کان کھول کے سُن لے، جیسا میں کہوں گی ویسا ہی کرے گا تُو۔ اس گھر میں تو تیرے استاد کی نہیں چلنے دی میں نے، تیری کیا چلنے دوں گی۔
مجھے اس گھر میں آئے ہوئے دو گھنٹے بھی نہیں ہوئے تھے اور ایسا لگ رہا تھا جیسے ہم سب سدا سے اکٹھے رہ رہے ہوں، ذرا سی بھی اجنبیت نہیں تھی۔ کون سا بندھن ہوتا ہے یہ، جو دلوں کو جوڑے رکھتا ہے۔ زندگی کتنی خوب صورت ہوگئی تھی۔ صبح اٹھ کر نماز ادا کرتا پھر ناشتا اور گپ شپ۔ صبح جب میں اپنے استاد جی کے ساتھ دکان کے لیے نکلتا تو ایک ٹفن ہمارے ساتھ ہوتا اور وہ دروازے سے ہمیں اس وقت تک دیکھتی رہتی جب تک ہم اس کی نگاہوں سے اوجھل نہ ہوجاتے۔
زندگی میں بہار کا موسم شروع ہوگیا تھا۔ ہم لُڈّو کھیلتے، گپ شپ کرتے، رات کو سوتے وقت وہ میرے بالوں میں تیل لگاکر سر کی مالش کرتی۔ جب استاد جی اس سے پوچھتے یہ کیا کر رہی ہے، تو وہ ہنس کر کہتی میرا اور میری سہیلی کا مقابلہ ہے دیکھیں کس کے بال زیادہ لمبے ہوتے ہیں اور نہ جانے کیا کیا۔ استاد جی ہمیں فلم دکھانے بھی لے کر جاتے، کبھی کلفٹن میں غازی سرکار کے مزار پر، کبھی کیماڑی میں حاجی غائب شاہ کے مزار پر اور پھر وہاں سے منوڑا۔ یہ تھا گھر اور یہ تھی زندگی، واقعی جینا کہیں جسے۔ وقت پَر لگا کر اڑتا رہتا ہے اور ہمیں بھی ساتھ اُڑائے رکھتا ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ بس اب ہم ہنستے کھیلتے اڑتے رہیں گے۔ لیکن پھر پَر کٹ جاتے ہیں، بازو شل ہوجاتے ہیں اور ہم زمین پر دھڑام سے آگرتے ہیں، کٹی ہوئی پتنگ کی طرح۔ درد اتنا ہی زیادہ ہوتا ہے جتنی اونچائی سے ہم گرتے ہیں۔
استاد جی اور میری سہیلی مجھ پر اندھا اعتماد کرتے تھے۔ میں گانا گاتا تو میری سہیلی کھانے کی پلیٹ کو ساز بناتی۔ استاد جی کو رفیع جی، کشور جی، شمشاد بیگم کے گیت بہت پسند تھے اور مجھے بھی۔ پھر ایک ایسا حادثہ ہوگیا جس نے میری اور استاد جی کی دنیا اجاڑ دی۔ میری سہیلی امید سے تھی، ہم روز اس کے لیے پھل لے کر جاتے، پھر نہ جانے کیا ہوا اس شوخ و چنچل معصوم کو نہ جانے کس کی نظر کھا گئی۔
بالکل گُم صُم ہوگئی تھی وہ۔ پھر مجھے معلوم ہوگیا کہ اسے کیا ہوگیا تھا، زندگی کے دن جب پورے ہوجائیں تو پھر یہی ہوتا ہے یا تو بندہ بالکل خاموش ہوجاتا ہے، بہت بولنے لگتا ہے یا پھر ہر بات پر ہنسنے لگتا ہے۔ تیسری بچی کی پیدائش پر وہ خود بھی اپنی بچی کے ساتھ وہاں چلی گئی جہاں سب کو جانا ہے۔ سب ہی کو جانا ہے اُس اصل، کھری اور سچی دنیائے پائے دار میں۔ مجھے آج بھی اس کا چہرہ یاد ہے جب ہم نے اسے دھرتی ماں کے سپرد کیا تھا اور استاد جی دھاڑیں مار کر روتے ہوئے کہہ رہے تھے، سلطان! تیری بات مجھے اب سمجھ میں آگئی۔ ہم سب مہمان ہیں یار! تُو سچ کہتا تھا، ہم مہمان ہیں اور مالک بن بیٹھے ہیں، تُو صحیح کہتا تھا یار۔
زندگی ایک دم سے بدل گئی تھی۔ بہار روٹھ گئی تھی اور خزاں نے ڈیرے ڈال لیے تھے۔ بہ ظاہر تو اک فرد ہی کم ہوگیا تھا لیکن گھر کا مرکز تو وہی تھا ہم تو بس اس کے گرد گھوم رہے تھے اور جب مرکز نہ رہے تو دائرہ بھی ٹوٹ جاتا ہے۔ بنا روح کے جسم جیسا، جو جلد ہی سڑنے گلنے لگتا اور پھر اس کی سڑاند سے جینا دُوبھر ہوجاتا ہے۔ دکان کئی روز سے بند تھی اور ہم دونوں دو چھوٹی بچیوں کو سنبھالنے میں لگے ہوئے تھے۔
ریحانہ کی ماں اور بہنیں بھی ہمارے ساتھ تھیں لیکن انہیں اپنا ہوش نہیں تھا۔ زندگی کی حقیقتیں بہت تلخ ہوتی ہیں۔ اس کا زہر بھرا جام پینا ہی پڑتا ہے۔ مرنے والے کے ساتھ کچھ لوگ مر بھی جاتے ہیں لیکن سب نہیں۔ کیا آپ اتنا بھی نہیں جانتے کہ کچھ لوگ زندگی ہی میں آپ کا ساتھ چھوڑ دیتے ہیں اور کچھ مرنے کے بعد بھی آپ کے سنگ رہتے ہیں، آپ کو گُدگُداتے ہیں، دکھوں میں آپ اپنا سر ان کے شانے پر رکھ کر کھل کر رو سکتے ہیں، خیر جانے دیں، وقت ہر زخم کا مرہم ہے۔
میرے لیے قبرستان میں ایک نئی سہیلی کا اضافہ ہوگیا تھا۔ صبح و شام میں وہاں جاتا اور گھنٹوں اس سے باتیں کرتا۔ تم نے مجھے کہا تھا تیرا ساتھ نہیں چھوڑوں گی، کیوں چھوڑ دیا میرا ساتھ، کیوں خراب کیں میری عادتیں، کون لگائے گا میرے بالوں میں تیل، کون کرے گا میرے لیے استاد جی سے لڑائی، کون کھیلے گا میرے ساتھ لُڈّو اور پھر میں جب گانا گاؤں گا تو پیتل کی پلیٹ کون بجائے گا، کیسی سہیلی تھی تُو میری، اتنی جلدی میرا ساتھ چھوڑ دیا تُونے۔ اور وہ خاموش رہتی، مسکراتی رہتی۔ لوگ اچھے ہیں بہت دل میں اتر جاتے ہیں، ایک بُرائی ہے تو بس یہ کہ مر جاتے ہیں۔ کیا ہے یہ، کیوں ہے، کیسا المیہ ہے، کیا نام دیں اسے۔ وہ تو مجھے بھی اپنے ساتھ ہی لے گئی تھی۔ گھر پر رہنا عذاب بن گیا تھا۔
میں بے خیالی میں اسے آواز دے بیٹھتا۔ سہیلی چل لُڈّو کھیلیں اور پھر استاد جی کے آنسو مجھے دیکھنے پڑتے، چہلم کے بعد میں نے استاد جی سے رخصت کی اجازت چاہی۔ گھر میں استاد جی کی سالی اور ساس نے ڈیرا ڈال لیا تھا، کبھی مجھے ایسا لگتا میں ان پر بوجھ بن گیا ہوں۔ میری سہیلی کے دَم سے تھا سب کچھ، اب وہ نہیں تھی تو میں نے کیا کرنا تھا یہاں۔ آخر استاد جی نے میری مان لی ایک شرط پر کہ وہ یہیں محلے میں کوئی کمرہ مجھے لے دیں گے، پھر اگلے ہی دن میں کمرے میں تھا۔ ایک کمرا جس کی چھت ٹن کی تھی، آگے چھوٹا سا برآمدہ، تین سو روپے کرائے میں بُرا نہیں تھا، زندگی کا نیا دور شروع ہوگیا تھا، استاد جی کا کام میں جی نہیں لگتا تھا۔ آہستہ آہستہ کام ٹھپ ہوتا چلا گیا۔
پھر ایک دن انہوں نے دکان اور مکان بیچ دیا اور خود فیصل آباد چلے گئے، انہوں نے مجھے بھی اپنے ساتھ چلنے پر اصرار کیا، لیکن میں نے صاف انکار کردیا تھا۔ بعد میں انہوں نے اپنی سالی سے شادی کرلی تھی۔ لیکن میں خوش تھا کہ میری سہیلی میرے پاس تھی، جس نے اتنا پیار دیا، پورا اعتماد کیا۔ ادھورا اعتماد اور ادھوری سچائی زندگی کا رس نچوڑ لیتے اور اسے زہریلا بنادیتے ہیں۔ دکان بند ہوگئی تو مجھے نیا کام تلاش کرنا پڑا۔ ایک ٹیکسٹائل مل میں مجھے کپڑا تہہ کرنے کی مزدوری مل گئی تھی۔ میں صبح سویرے کام پر چلا جاتا اور پانچ بجے چُھٹی ہوجاتی۔
تن خواہ بھی اچھی تھی۔ کھانے پینے کا مجھے شوق نہیں تھا۔ لنڈے بازار کا راستہ مجھے استاد جی نے سمجھا دیا تھا، پھر اس وقت سے جینز اور ٹی شرٹ میرا پہناوا بن گیا۔ اس لیے نہیں کہ یہ فیشن تھا، اس لیے کہ اسے دھونے کی ضرورت نہیں تھی، میں اسے اب بھی صوفیوں کا پہناوا کہتا ہوں اس لیے کہ اسے پہن کر چاہے کتنی میلی ہو آپ کہیں بھی جاسکتے ہیں، اور آپ کا بھرم بھی قائم رہتا ہے۔ چھٹی کے بعد میرے پاس کوئی کام نہیں تھا، پھر سڑکیں تھیں، سینما گھر تھا یا پھر قبرستان اور ہر طرح کے لوگ، اور بازار۔ میں ایک دن آوارگی کرتا ہوا لی مارکیٹ پہنچ گیا۔
مجھے ایک کتاب کی ضرورت تھی۔ میں نے ایک بہت اچھے، نیک صورت باریش انسان سے کتابوں کی دکان کا پتا معلوم کیا۔ یہ سامنے والی گلی میں چلے جاؤ، کتابیں ہی کتابیں ہیں وہاں۔ یہ کہہ کر وہ مسکرانے لگا اور میں اُس بازار میں داخل ہوگیا۔ اس سے پہلے میں نے ایسا بازار کہیں نہیں دیکھا تھا۔ کتاب کا تو نام و نشان نہیں تھا۔ بنی، سنوری اور سجی عورتیں ہی عورتیں تھیں۔
یہ کیسا بازار تھا؟ میں اس بازار میں داخل تو ہوگیا تھا، مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ یہ کیا ہے؟ کیوں ہے؟ کچھ عورتیں مجھے دیکھ کر عجیب سے اشارے کر رہی تھیں اور میں حیران کھڑا انہیں دیکھ رہا تھا اور وہ مسکرا رہی تھیں، اتنے میں ایک بھاری بھرکم آدمی نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔
بابو جی! نیا مال دکھاؤں؟ اسپیشل کمرا بھی ہے ہمارے پاس۔ بھائی صاحب! مجھے کمرا نہیں چاہیے۔ تو ساتھ لے کر جانا چاہو تو اس کا بھی انتظام کردیتے ہیں، آپ حکم تو کرو بابو جی! کس کو ساتھ لے کر جاؤں میں۔ میرا سوال سن کر وہ سٹپٹا گیا۔ یار! تمہیں کیا کرنا ہے یہاں۔ مجھے تو کتاب خریدنی ہے۔ میرے منہ سے اچانک نکل گیا۔ اس نے مجھے بازو سے پکڑ کر گھسیٹنا شروع کیا۔ بازار ختم ہوا تو وہ بولا۔ دیکھو یہ گندا بازار ہے، تم مجھے شریف لڑکے لگتے ہو۔ آیندہ مجھے یہاں نظر آئے تو اچھا نہیں ہوگا۔ وہ دیکھو
سامنے ہے کتابوں کی دکان اور اس کا راستہ دوسری طرف سے ہے، جاؤ اب۔ ایک بہ ظاہر نیک اور اچھے انسان نے مجھے اُس بازار کا راستہ دکھایا تھا اور ایک بُرے اور بدکار دلّال نے مجھے وہاں سے نکلنے کا۔ یہی ہے دنیا، جو جیسا نظر آتا ہے وہ ویسا ہوتا نہیں ہے۔
abdul.latif@express.com.pk
استاد جی نے کہا۔
نہیں استاد جی ہم سب سدا کے مہمان ہی ہیں، بس مہمان، آئے اور چلے گئے، خود کو مہمان ہی سمجھنا چاہیے ہمیں، لیکن ہم خود کو مہمان نہیں، مقیم سمجھنے لگے ہیں اور ہم نادان یہ سمجھتے ہیں کہ بس اب یہیں رہنا ہے، موج کرنا ہے، بُھول گئے ہیں ہم کہ بس جانا ہے یہاں سے۔
کیا مطلب استاد جی بولے۔
استاد جی، تین دن کا نہیں بس دو دن کا میلہ ہے یہ زندگی۔ مہمان، مالک بن بیٹھا ہے، اور مالک کوئی بن نہیں سکتا چاہے کچھ کرلے۔
سن لیا تُو نے! اس کی باتیں مجھے تو سمجھ نہیں آتیں، اس کی عمر دیکھ اور اس کی باتیں سُن۔ انہوں نے اپنی بیوی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا، یار سلطان! تُو اسے کس رشتے سے پکارے گا۔ عجیب سا سوال کردیا تھا انہوں نے، پھر خود ہی کہنے لگے۔ چل یار! یہ تیری بھابھی ہے۔ ہاں بھئی! تجھے منظور ہے۔ وہ اپنی بیوی سے مخاطب ہوئے۔ اس کی ''نہیں'' سے ہم دونوں چونکے۔ تو پھر کیا کہے یہ تجھے؟ ''سہیلی'' کہا کر مجھے تُو۔ وہ مجھ سے مخاطب ہوئیں۔
چل یار سلطان! اپنی تو کوئی سہیلی نہیں ہے، تیری تو بن گئی۔
لیکن تُو اسے اپنی سہیلی کیوں بنانا چاہتی ہے؟ اس کے بال تو دیکھ میری سہیلی کے، مجھ سے بس آدھے ہی ہوں گے۔ اس بات پر استاد جی ہنس ہنس کے دہرے ہوگئے۔ استاد جی کی بیوی کا نام ریحانہ تھا، میٹرک پاس تھی، بہت ہنس مُکھ اور زندہ دل۔ بچپن میں ہمارے محلے میں رہنے والی بلّو بھی مجھے یہی کہتی تھی۔ بلّوری آنکھوں والی، پَری جیسی بلّو جنہیں میں بلّو باجی کہا کرتا تھا۔ مُحرّم میں وہ مجھے اپنے ساتھ امام بارگاہ لے کر جایا کرتیں۔
اس وقت امام بارگاہوں میں سب ہی جناب حُسینؓ ذی وقار کا ذکر گرامی سنتے تھے۔ اس میں شیعہ سنی کی کوئی تخصیص نہیں تھی، سب کے سب غم حسین میں اشک بار۔ اس لیے کہ جناب حسینؓ تو سب کے ہیں۔ لیکن اس وقت بھی کچھ بے سروپا باتیں مشہور تھیں۔ ایک دن ہمارے پڑوس میں رہنے والی ایک خاتون جن کا نام اکبری تھا، اور وہ پورے محلے میں اکبری باجی کے نام سے مشہور تھیں، نے مجھے اپنے پاس بلایا اور بہت رازداری سے کہنے لگیں، دیکھو بیٹا! مجھے تم سے ایک بہت ضروری بات کرنی ہے، مگر پہلے تم مجھ سے وعدہ کرو کہ تم یہ بات کسی کو بھی نہیں بتاؤ گے۔
میں نے کہا ہاں صحیح ہے، آپ کہیے کیا بات ہے۔ تب انہوں نے کہا کہ دیکھو تم بلّو کے بہت چہیتے ہو، وہ بھی تمہارا بہت خیال رکھتی ہے، لیکن تم ایک بات نہیں جانتے۔ میں نے حیرت سے پوچھا کہ وہ کیا ؟ تو انہوں نے کہا کہ دیکھو وہ شیعہ ہیں اور تم ان کے ساتھ امام بارگاہ میں جاتے ہو بل کہ مُحرّم میں تو اکثر تم ان کے ساتھ ہی رہتے ہو، تم یہ بات نہیں جانتے کہ یہ لوگ مُحرّم میں ایک تقریب کرتے ہیں، اس میں ایک معصوم بچے کو بہلا پھسلا کر لے جاتے ہیں، پھر چاولوں کے ڈھیر کے اوپر اس بچے کو لٹکا دیتے ہیں اور اسے تیروں سے چھلنی کردیتے ہیںْ
اس بچے کا خون چاولوں پر گرتا رہتا ہے اور پھر یہ لوگ وہ چاول پکا کے کھا جاتے ہیں۔ میں نے حیرت سے ان کی بات سنی، لیکن میں بالکل نہیں گھبرایا، اس لیے کہ میں یہ بات ماننے کو تیار ہی نہیں تھا۔ پھر میں نے کہا اکبری باجی ایسا ہو ہی نہیں سکتا، اور۔۔۔۔۔۔ انہوں نے میری بات درمیان سے ہی کاٹ دی اور کہا ایسا ہی ہے لیکن تم ابھی بچے ہو، اس لیے نہیں سمجھ رہے۔
ٹھیک ہے جب ایسا ہوگا تب دیکھا جائے گا، کہہ کر میں وہاں سے نکل آیا۔ میں پریشان نہیں، بے چین ضرور تھا۔ آخر میں بلّو باجی کے گھر جا پہنچا جو اس وقت بھنڈی کاٹ رہی تھیں۔ کہاں سے آرہے ہو تم آوارہ گردی کرکے۔ انہوں نے پوچھا۔ میں تو جہاں سے بھی آرہا ہوں لیکن آج مجھے آپ کی حقیقت معلوم ہوگئی ہے، لیکن یاد رکھیے کہ میں کون ہوں، ہمارے خاندان میں لوگ صدیوں تک اپنے خون کو نہیں بھولتے اور بدلہ لیے بغیر چین سے نہیں سوتے۔ انہوں نے میری طرف حیرت سے دیکھا اور میرے قریب آکر پوچھا، کیا ہوا ہے، کیا حقیقت، کیسی باتیں کر رہے ہو تم۔ میں نے انہیں اکبری باجی کی کہی ہوئی بات بتا دی۔ مجھے یاد ہے مجھے سینے سے لگا کر وہ بہت روئیں اور پھر مجھے لے کر اکبری باجی کے پاس پہنچیں۔
اکبری باجی ہمیں دیکھ کر بہت پریشان ہوئیں لیکن بلّو باجی نے انہیں کہا پریشان نہ ہوں اکبری باجی ایسا ہرگز نہیں ہے جیسا آپ نے سلطان کو بتایا ہے، آپ جانتی ہیں کہ اگر اسے چھوٹی سی پھانس بھی چُبھ جائے تو میرا کلیجہ چھلنی ہوجاتا ہے، لیکن چلیں کوئی بات نہیں ، بس اتنا کہنے آئی ہوں کہ آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے، اور یہ بھی کہنا ہے کہ یہ بات بس اب یہیں تک رہے گی۔
اکبری باجی نے بلّو باجی سے معذرت کی اور ہم گھر چلے آئے۔ پھر میں نے وہ دن بھی دیکھا کہ اکبری باجی بلّو باجی کے ساتھ امام بارگاہ جاتی تھیں اور یہ بھی انہی کی زبانی سنا کہ سلطان مجھے بھی بچپن میں کسی نے یہ بات بتائی تھی، کتنی غلط بات تھی، شکر ہے کہ میں نے تجھ سے بات کی اور تو نے بلو سے، اس سے مجھے سچائی کا علم تو ہوگیا ناں۔ آج بھی کچھ بے سروپا اور لایعنی باتیں پھیلائی جاتی ہیں اور امت مسلمہ میں انتشار پیدا کرکے اپنے ناپاک عزائم کو عملی جامہ پہنایا جاتا ہے، لیکن اگر ہم تحقیق کرلیں تو غلط فہمیوں کے بادل چھٹ سکتے اور ہم امت واحد بن سکتے ہیں۔
بلّو کے بعد مجھے گڈّو نے بھی یہی کہنا شروع کردیا تھا اور اب ریحانہ میری سہیلی بن گئی تھی لیکن میں سہیلی کا مفہوم نہیں جانتا تھا۔ کھانا کھانے کے بعد ہم نے چائے پی۔ دو ہی کمرے تھے گھر میں، جس میں سے ایک مجھے دے دیا گیا۔ لوہے کے پائپ کی چارپائی تھی۔ بستر پر سفید چادر جس کے کناروں پر ہاتھ سے سرخ دھاگے سے کڑھائی کی گئی تھی، بچھی ہوئی تھی۔ چل یار یہ کمرہ اب تیرا ہے جو چاہے کر، جیسا چاہے رہنا۔ یہ کمرہ اس کا نہیں ہے، یہ پورا گھر اس کا ہے۔ ریحانہ نے استاد جی کی بات کاٹ دی۔ ہاں یار سلطان یہ سارا گھر تیرا ہے۔ میں تو سو رہا ہوں تو اپنی سہیلی سے گپ شپ کرنا چاہے تو کر، کہہ کر استاد جی اپنے کمرے میں چلے گئے۔
ہاں میری سہیلی سلطان! اب بتا کیا رام کہانی ہے تیری، اچھا ذرا ٹھہر، میں تیرے استاد جی کو گرم دودھ کا گلاس دے دوں، ویسے ہی سو جائے گا اور بچیوں کو بھی یہاں لے آؤں۔ میری کوئی رام کہانی ہے ہی نہیں، اور میں بھی سو رہا ہوں، کہہ کر بستر پر دراز ہوگیا۔ تھوڑی دیر بعد میری سہیلی میرے سر پر کھڑی تھی۔ یہ لے دودھ پی لے، سارا دن کام کرتا ہے۔ مجھے نہیں پینا۔ میری اس نے ایک نہیں سنی۔ تیرا تو اچّھا بھی پیے گا، چل اٹھ، کہہ کر اس نے میری چادر کھینچ کر پَرے پھینک دی۔ کان کھول کے سُن لے، جیسا میں کہوں گی ویسا ہی کرے گا تُو۔ اس گھر میں تو تیرے استاد کی نہیں چلنے دی میں نے، تیری کیا چلنے دوں گی۔
مجھے اس گھر میں آئے ہوئے دو گھنٹے بھی نہیں ہوئے تھے اور ایسا لگ رہا تھا جیسے ہم سب سدا سے اکٹھے رہ رہے ہوں، ذرا سی بھی اجنبیت نہیں تھی۔ کون سا بندھن ہوتا ہے یہ، جو دلوں کو جوڑے رکھتا ہے۔ زندگی کتنی خوب صورت ہوگئی تھی۔ صبح اٹھ کر نماز ادا کرتا پھر ناشتا اور گپ شپ۔ صبح جب میں اپنے استاد جی کے ساتھ دکان کے لیے نکلتا تو ایک ٹفن ہمارے ساتھ ہوتا اور وہ دروازے سے ہمیں اس وقت تک دیکھتی رہتی جب تک ہم اس کی نگاہوں سے اوجھل نہ ہوجاتے۔
زندگی میں بہار کا موسم شروع ہوگیا تھا۔ ہم لُڈّو کھیلتے، گپ شپ کرتے، رات کو سوتے وقت وہ میرے بالوں میں تیل لگاکر سر کی مالش کرتی۔ جب استاد جی اس سے پوچھتے یہ کیا کر رہی ہے، تو وہ ہنس کر کہتی میرا اور میری سہیلی کا مقابلہ ہے دیکھیں کس کے بال زیادہ لمبے ہوتے ہیں اور نہ جانے کیا کیا۔ استاد جی ہمیں فلم دکھانے بھی لے کر جاتے، کبھی کلفٹن میں غازی سرکار کے مزار پر، کبھی کیماڑی میں حاجی غائب شاہ کے مزار پر اور پھر وہاں سے منوڑا۔ یہ تھا گھر اور یہ تھی زندگی، واقعی جینا کہیں جسے۔ وقت پَر لگا کر اڑتا رہتا ہے اور ہمیں بھی ساتھ اُڑائے رکھتا ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ بس اب ہم ہنستے کھیلتے اڑتے رہیں گے۔ لیکن پھر پَر کٹ جاتے ہیں، بازو شل ہوجاتے ہیں اور ہم زمین پر دھڑام سے آگرتے ہیں، کٹی ہوئی پتنگ کی طرح۔ درد اتنا ہی زیادہ ہوتا ہے جتنی اونچائی سے ہم گرتے ہیں۔
استاد جی اور میری سہیلی مجھ پر اندھا اعتماد کرتے تھے۔ میں گانا گاتا تو میری سہیلی کھانے کی پلیٹ کو ساز بناتی۔ استاد جی کو رفیع جی، کشور جی، شمشاد بیگم کے گیت بہت پسند تھے اور مجھے بھی۔ پھر ایک ایسا حادثہ ہوگیا جس نے میری اور استاد جی کی دنیا اجاڑ دی۔ میری سہیلی امید سے تھی، ہم روز اس کے لیے پھل لے کر جاتے، پھر نہ جانے کیا ہوا اس شوخ و چنچل معصوم کو نہ جانے کس کی نظر کھا گئی۔
بالکل گُم صُم ہوگئی تھی وہ۔ پھر مجھے معلوم ہوگیا کہ اسے کیا ہوگیا تھا، زندگی کے دن جب پورے ہوجائیں تو پھر یہی ہوتا ہے یا تو بندہ بالکل خاموش ہوجاتا ہے، بہت بولنے لگتا ہے یا پھر ہر بات پر ہنسنے لگتا ہے۔ تیسری بچی کی پیدائش پر وہ خود بھی اپنی بچی کے ساتھ وہاں چلی گئی جہاں سب کو جانا ہے۔ سب ہی کو جانا ہے اُس اصل، کھری اور سچی دنیائے پائے دار میں۔ مجھے آج بھی اس کا چہرہ یاد ہے جب ہم نے اسے دھرتی ماں کے سپرد کیا تھا اور استاد جی دھاڑیں مار کر روتے ہوئے کہہ رہے تھے، سلطان! تیری بات مجھے اب سمجھ میں آگئی۔ ہم سب مہمان ہیں یار! تُو سچ کہتا تھا، ہم مہمان ہیں اور مالک بن بیٹھے ہیں، تُو صحیح کہتا تھا یار۔
زندگی ایک دم سے بدل گئی تھی۔ بہار روٹھ گئی تھی اور خزاں نے ڈیرے ڈال لیے تھے۔ بہ ظاہر تو اک فرد ہی کم ہوگیا تھا لیکن گھر کا مرکز تو وہی تھا ہم تو بس اس کے گرد گھوم رہے تھے اور جب مرکز نہ رہے تو دائرہ بھی ٹوٹ جاتا ہے۔ بنا روح کے جسم جیسا، جو جلد ہی سڑنے گلنے لگتا اور پھر اس کی سڑاند سے جینا دُوبھر ہوجاتا ہے۔ دکان کئی روز سے بند تھی اور ہم دونوں دو چھوٹی بچیوں کو سنبھالنے میں لگے ہوئے تھے۔
ریحانہ کی ماں اور بہنیں بھی ہمارے ساتھ تھیں لیکن انہیں اپنا ہوش نہیں تھا۔ زندگی کی حقیقتیں بہت تلخ ہوتی ہیں۔ اس کا زہر بھرا جام پینا ہی پڑتا ہے۔ مرنے والے کے ساتھ کچھ لوگ مر بھی جاتے ہیں لیکن سب نہیں۔ کیا آپ اتنا بھی نہیں جانتے کہ کچھ لوگ زندگی ہی میں آپ کا ساتھ چھوڑ دیتے ہیں اور کچھ مرنے کے بعد بھی آپ کے سنگ رہتے ہیں، آپ کو گُدگُداتے ہیں، دکھوں میں آپ اپنا سر ان کے شانے پر رکھ کر کھل کر رو سکتے ہیں، خیر جانے دیں، وقت ہر زخم کا مرہم ہے۔
میرے لیے قبرستان میں ایک نئی سہیلی کا اضافہ ہوگیا تھا۔ صبح و شام میں وہاں جاتا اور گھنٹوں اس سے باتیں کرتا۔ تم نے مجھے کہا تھا تیرا ساتھ نہیں چھوڑوں گی، کیوں چھوڑ دیا میرا ساتھ، کیوں خراب کیں میری عادتیں، کون لگائے گا میرے بالوں میں تیل، کون کرے گا میرے لیے استاد جی سے لڑائی، کون کھیلے گا میرے ساتھ لُڈّو اور پھر میں جب گانا گاؤں گا تو پیتل کی پلیٹ کون بجائے گا، کیسی سہیلی تھی تُو میری، اتنی جلدی میرا ساتھ چھوڑ دیا تُونے۔ اور وہ خاموش رہتی، مسکراتی رہتی۔ لوگ اچھے ہیں بہت دل میں اتر جاتے ہیں، ایک بُرائی ہے تو بس یہ کہ مر جاتے ہیں۔ کیا ہے یہ، کیوں ہے، کیسا المیہ ہے، کیا نام دیں اسے۔ وہ تو مجھے بھی اپنے ساتھ ہی لے گئی تھی۔ گھر پر رہنا عذاب بن گیا تھا۔
میں بے خیالی میں اسے آواز دے بیٹھتا۔ سہیلی چل لُڈّو کھیلیں اور پھر استاد جی کے آنسو مجھے دیکھنے پڑتے، چہلم کے بعد میں نے استاد جی سے رخصت کی اجازت چاہی۔ گھر میں استاد جی کی سالی اور ساس نے ڈیرا ڈال لیا تھا، کبھی مجھے ایسا لگتا میں ان پر بوجھ بن گیا ہوں۔ میری سہیلی کے دَم سے تھا سب کچھ، اب وہ نہیں تھی تو میں نے کیا کرنا تھا یہاں۔ آخر استاد جی نے میری مان لی ایک شرط پر کہ وہ یہیں محلے میں کوئی کمرہ مجھے لے دیں گے، پھر اگلے ہی دن میں کمرے میں تھا۔ ایک کمرا جس کی چھت ٹن کی تھی، آگے چھوٹا سا برآمدہ، تین سو روپے کرائے میں بُرا نہیں تھا، زندگی کا نیا دور شروع ہوگیا تھا، استاد جی کا کام میں جی نہیں لگتا تھا۔ آہستہ آہستہ کام ٹھپ ہوتا چلا گیا۔
پھر ایک دن انہوں نے دکان اور مکان بیچ دیا اور خود فیصل آباد چلے گئے، انہوں نے مجھے بھی اپنے ساتھ چلنے پر اصرار کیا، لیکن میں نے صاف انکار کردیا تھا۔ بعد میں انہوں نے اپنی سالی سے شادی کرلی تھی۔ لیکن میں خوش تھا کہ میری سہیلی میرے پاس تھی، جس نے اتنا پیار دیا، پورا اعتماد کیا۔ ادھورا اعتماد اور ادھوری سچائی زندگی کا رس نچوڑ لیتے اور اسے زہریلا بنادیتے ہیں۔ دکان بند ہوگئی تو مجھے نیا کام تلاش کرنا پڑا۔ ایک ٹیکسٹائل مل میں مجھے کپڑا تہہ کرنے کی مزدوری مل گئی تھی۔ میں صبح سویرے کام پر چلا جاتا اور پانچ بجے چُھٹی ہوجاتی۔
تن خواہ بھی اچھی تھی۔ کھانے پینے کا مجھے شوق نہیں تھا۔ لنڈے بازار کا راستہ مجھے استاد جی نے سمجھا دیا تھا، پھر اس وقت سے جینز اور ٹی شرٹ میرا پہناوا بن گیا۔ اس لیے نہیں کہ یہ فیشن تھا، اس لیے کہ اسے دھونے کی ضرورت نہیں تھی، میں اسے اب بھی صوفیوں کا پہناوا کہتا ہوں اس لیے کہ اسے پہن کر چاہے کتنی میلی ہو آپ کہیں بھی جاسکتے ہیں، اور آپ کا بھرم بھی قائم رہتا ہے۔ چھٹی کے بعد میرے پاس کوئی کام نہیں تھا، پھر سڑکیں تھیں، سینما گھر تھا یا پھر قبرستان اور ہر طرح کے لوگ، اور بازار۔ میں ایک دن آوارگی کرتا ہوا لی مارکیٹ پہنچ گیا۔
مجھے ایک کتاب کی ضرورت تھی۔ میں نے ایک بہت اچھے، نیک صورت باریش انسان سے کتابوں کی دکان کا پتا معلوم کیا۔ یہ سامنے والی گلی میں چلے جاؤ، کتابیں ہی کتابیں ہیں وہاں۔ یہ کہہ کر وہ مسکرانے لگا اور میں اُس بازار میں داخل ہوگیا۔ اس سے پہلے میں نے ایسا بازار کہیں نہیں دیکھا تھا۔ کتاب کا تو نام و نشان نہیں تھا۔ بنی، سنوری اور سجی عورتیں ہی عورتیں تھیں۔
یہ کیسا بازار تھا؟ میں اس بازار میں داخل تو ہوگیا تھا، مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ یہ کیا ہے؟ کیوں ہے؟ کچھ عورتیں مجھے دیکھ کر عجیب سے اشارے کر رہی تھیں اور میں حیران کھڑا انہیں دیکھ رہا تھا اور وہ مسکرا رہی تھیں، اتنے میں ایک بھاری بھرکم آدمی نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔
بابو جی! نیا مال دکھاؤں؟ اسپیشل کمرا بھی ہے ہمارے پاس۔ بھائی صاحب! مجھے کمرا نہیں چاہیے۔ تو ساتھ لے کر جانا چاہو تو اس کا بھی انتظام کردیتے ہیں، آپ حکم تو کرو بابو جی! کس کو ساتھ لے کر جاؤں میں۔ میرا سوال سن کر وہ سٹپٹا گیا۔ یار! تمہیں کیا کرنا ہے یہاں۔ مجھے تو کتاب خریدنی ہے۔ میرے منہ سے اچانک نکل گیا۔ اس نے مجھے بازو سے پکڑ کر گھسیٹنا شروع کیا۔ بازار ختم ہوا تو وہ بولا۔ دیکھو یہ گندا بازار ہے، تم مجھے شریف لڑکے لگتے ہو۔ آیندہ مجھے یہاں نظر آئے تو اچھا نہیں ہوگا۔ وہ دیکھو
سامنے ہے کتابوں کی دکان اور اس کا راستہ دوسری طرف سے ہے، جاؤ اب۔ ایک بہ ظاہر نیک اور اچھے انسان نے مجھے اُس بازار کا راستہ دکھایا تھا اور ایک بُرے اور بدکار دلّال نے مجھے وہاں سے نکلنے کا۔ یہی ہے دنیا، جو جیسا نظر آتا ہے وہ ویسا ہوتا نہیں ہے۔
abdul.latif@express.com.pk