پیپلز پارٹی میں فتح کا جوش نظر نہیں آرہا

نادر مگسی اور فریال تالپور کے درمیان اختلافات کا سلسلہ دراز

نادر مگسی اور فریال تالپور کے درمیان اختلافات کا سلسلہ دراز۔ فوٹو : فائل

PESHAWAR:
عام انتخابات کئی تلخ و ترش حقائق لے کر ماضی کا حصہ بن چکے ہیں۔

ضلع قمبر شہداد کوٹ کی دو قومی اورچار صوبائی اسمبلی کی نشستوں کے نتائج پر بحث و مباحثہ جاری ہے کہ پیپلزپارٹی کے امیدواروں کے خلاف لوگوں میں اتنا سخت ردعمل تھا، لیکن نتائج سے سب ہی لوگ حیران وپریشان ہیں۔ اتنے ووٹ تو بینظیر بھٹو کی شہادت کے بعد ہونے والے انتخابات میں بھی نہیں ملے تھے، جتنے اس خراب صورت حال میں مل گئے۔ یہ بھی حیران کن بات ہے کہ بے نظیر بھٹو 1988ء سے 1997ء تک 4بار انتخابات میں حصہ لیا، مگر اتنی بڑی شخصیت کے بھی ہر الیکشن میں ووٹ بڑھنے کے بہ جائے کم ہوتے رہے۔

انہوں نے 1988ء میں پہلی بار یہاں سے انتخابات میں حصہ لیا تو وہ 82 ہزار 289 ووٹ لینے میں کام یاب ہوئیں اور 1997ء میں انہوں نے اپنی زندگی کے آخری انتخابات میں صرف 46 ہزار 992 ووٹ حاصل کیے۔ اس کے برعکس ان کی شہادت پر اپنے روایتی حلقہ انتخاب نواب شاہ سے ہجرت کرکے عارضی طورپر یہاں آنے والی فریال تالپور نے پیپلزپارٹی (ش ب)کی چیئرپرسن غنویٰ بھٹو اور 10جماعتی اتحاد کے مشترکہ امیدوار ڈاکٹر خالد محمود سومرو جیسے مضبوط امیدواروں کے مقابلے میں محترمہ بینظیر بھٹو سے بھی زیادہ 83 ہزار 918 ووٹ لے کر نیا ریکارڈ بنالیا! بہر حال پیپلزپارٹی نے 2008ء کی طرح 2013ء کے عام انتخابات میں بھی ضلع قمبر شہداد کوٹ کی دو قومی ا ور چار صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر کلین سوئپ کیا۔

این اے206 قمبر قبو سعید خان سے میر عامر علی مگسی کی دوسری بار اور این اے 207 شہداد کوٹ رتو ڈیرو سے فریال تالپور بھی دوسری بار مذکورہ حلقوں سے کامیابی حاصل کی۔ پیپلزپارٹی کی جانب سے مخالفین کے دھاندلی کے الزامات کے خلاف کوئی موقف سامنے نہیں آرہا جو خاصے اچنبھے کی بات ہے۔

سابق وزیر میر نادر مگسی اور فریال تالپور کے درمیان پیدا ہونے والے اختلافات صدر مملکت کی کوششوں سے بھی ختم نہیں ہوئے۔


اسی ناراضگی کے باعث وہ این اے 207 کی انتخابی سرگرمیوں سے مکمل طورپر لا تعلق رہے، ان کے اس رویے کو دیکھ کر نہ صرف حلقے کی تمام پولنگ اسٹیشنوں پر فریال تالپور کی ایجنٹ نوڈیرو ہاؤس سے نام زد کیے گئے، بلکہ ان کی عدم موجودگی میں ان کی ہدایت پر سابق اقلیتی ایم این اے رمیش لعل موٹوانی کی قیادت میں 8 رکنی کمیٹی نے الیکشن مہم چلائی، اس کمیٹی میں وہ شخصیات شامل تھیں، جو سیاسی طورپر میر نادر مگسی سے دور ہوئی تھیں، جب کہ ذاتی طورپر نواب سردار چانڈیو نے بھی ان کی بھرپور انتخابی مہم چلائی۔

مختلف حلقوں پر ان اختلافات کے باعث مخالف امیدوروں کی بھی حمایت کا سلسلہ جاری رہا، تاکہ دوسروں پر اپنی طاقت دکھائی جاسکے، جب کہ شہداد کوٹ سے دوبارہ منتخب ہونے والے سابق تعلقہ ناظم سردار علی جروار نے عوام کو اعتماد میں لینے کے باوجود فریال تالپور سے سمجھوتا کر کے پی ایس 40 سے دست بردار ہو کر اپنا سیاسی مستقبل داؤ پر لگا دیا ہے۔ لوگوں کو توقع تھی کہ اگر وہ پیپلزپارٹی کے مقابلے میں آئے تو نہ صرف پارٹی کو مشکلات سے دو چار کریں گے، بلکہ ان کی کام یابی بھی یقینی تھی۔

ماضی میں پیپلزپارٹی سے 2002ء کے عام انتخابات میں صوبائی اسمبلی کی نشست چھنوانے کے ساتھ 2005ء میں تعلقہ ناظم کا عہدہ حاصل کرنے اور میر عامر مگسی کو مرحوم نواب شبیر احمد خان چانڈیو سے ضلعی نظامت پر شکست دلانے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ اس بار بھی ماضی کے تجربات کو مد نظر رکھ کر لوگوں نے ان پر اعتماد کیا اور انھوں نے لوگوں کو ہر طرح سے یقین دلایا۔ ماتھے پر سیاہ پٹیاں باندھ کر میر نادر مگسی، اس کے سیکریٹریوں اور خاص بندوں کے خلاف پریس کانفرنس تک کر ڈالی مگر اس کے بعد پیچھے ہٹ گئے، جس سے ان کی ساکھ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا۔ یہاں کے عوام باشعور ہیں جس طرح انہوں نے تین عشروں سے سیاست کی۔

میر نادر علی مگسی کے مقابلے میں سیاسی داؤ پیچ سے عاری، تمام تر سیاسی وڈیرہ شاہی اور سرمایہ داروں کے مقابلے میں میر غیبی خان مغیری کو ووٹ دے کر اپنی نفرت کا اظہار کیا۔ ڈٹ کر کھڑے رہنے کے باعث میر غیبی کے قد کاٹھ میں بھی خاطر خواہ اضافہ ہوا۔ بہرحال اب منتخب نمایندوں پر منحصر ہے کہ وہ عوام کی کس طرح خدمت کرتے ہیں، کیوں کہ گزشتہ 5 سالہ دور اقتدار میں ضلع قمبر شہداد کوٹ میں کرپشن، لوٹ مار، اقربا پروری کا بازار عروج پر تھا۔ اس دوران صورت حال بہت خراب رہی، بے روزگار آج بھی ملازمتوں کے حصول کے لیے دھکے کھا رہے ہیں۔

ترقیاتی کام صرف فائلوں تک محدود رہے۔ افسران کی اکھاڑ پچھاڑ سے عوام کو انصاف کم اور خاص لوگوں کی جیبوں کو فائدہ زیادہ ہوا، ضلع کی سات تعلقہ کونسلوں کو ملنے والے کروڑوں روپے شہریوں کی فلاح وبہبود پر خرچ نہ ہو سکے، بہرحال پیپلزپارٹی کے 5 سالہ اقتدار سے بد ظن ہونے کے باوجود دوبارہ وہی جماعت برسر اقتدار آرہی ہے۔ تاہم اب عوام منتخب نمائندوں کی کارکردگی پر خاموش نہیں بیٹھیں گے۔ وہ اپنا حق اور حصہ چھین کرلیں گے۔

اس لیے ضروری ہے کہ ہر نمایندہ اپنے اپنے حلقے کے لوگوں کی خدمت کریں، دوسری طرف مخالفین دھاندلی کے الزامات لگا رہے ہیں تو پیپلزپارٹی بھی جیت پر کھُل کر جشن مناتی نظر نہیں آرہی اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنی جیت پر افسردہ ہے۔ تاہم اب پیپلزپارٹی کے منتخب نمایندوں پر یہ بھاری ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے ذاتی اختلافات کو ختم کرکے اپنے پانچ سالوں کے برعکس بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کریں۔
Load Next Story