پیپلزپارٹی پر دھاندلی کے سنگین الزامات
15 برس بعد انتخاب لڑنے والے غوث علی شاہ بھی سرخرو نہ ہوسکے
خیرپور کی تین قومی اور چھ صوبائی حلقوں پر ہونے والے انتخابات میں غیر سرکاری نتائج کے مطابق قومی حلقہ 215 خیرپور پر پیپلزپارٹی کے حاجی نواب خان وسان ، دس جماعتی اتحاد کے نام زَد کردہ غوث علی شاہ کو شکست دے کر کام یاب ہوئے۔
قومی اسمبلی کے حلقہ 216 پر مسلم لیگ فنکشنل کے صوبائی صدر پیر سید صدر الدین شاہ نے پیپلزپارٹی کے امیدوار رئیس ساجد حسین بھانبھن کو شکست دی۔ قومی حلقہ 217 پر مسلم لیگ فنکشنل کے نام زَد امیدوار سید کاظم علی شاہ نے پیپلزپارٹی کے سید جاوید علی شاہ کو شکست دی۔ اس طرح چھ صوبائی حلقوں صوبائی حلقہ 29 پر پی پی سندھ کے صدر سابق وزیر اعلا سید قائم علی شاہ، مسلم لیگ ن کے غوث علی شاہ کو شکست دے کر کام یاب ہوئے۔
صوبائی حلقہ 30، کنگری پر مسلم لیگ فنکشنل کے پیر سید راشد شاہ نے پیپلزپارٹی کے پیر علی شاہ کو شکست دی۔ صوبائی حلقہ 31 پر مسلم لیگ فنکشنل کے ڈاکٹر رفیق بھابھنن نے پیپلزپارٹی کے امیدوار زاہد علی بھابھنن کو شکست دے کر کامیابی حاصل کی۔ صوبائی حلقہ 32 پر پیپلزپارٹی کے امیدوار منظور وسان مسلم لیگ فنکشنل کے میر شاہ نواز تالپور کو شکست دے کر کام یاب قرار پائے۔
صوبائی حلقہ 33 پر پیرآف رانی پور پیر فضل علی شاہ مسلم لیگ فنکشنل کے پیر معشوق شاہ کو شکست دے کر کام یاب قرار پائے۔ صوبائی حلقہ 34 پر پیپلزپارٹی کے نعیم احمد کھرل نے مسلم لیگ فنکشنل کے پیر اسماعیل شاہ کو شکست دے کر کام یاب قرار پائے۔ حالیہ انتخابات میں خیرپور ضلع میں مسلم لیگ فنکشنل قومی حلقہ 217 نشست پیپلزپارٹی سے لینے میں کام یاب رہی اس حلقے پر پی پی اور مسلم لیگ ن کے امیدواروں میں کانٹے دار مقابلہ ہوا اور مسلم لیگ ن بڑی جدوجہد کے بعد سالہا سال سے پی پی کی رہنے والی نشست لینے میں کام یاب ہوئی۔
اس طرح ضلع کی تین قومی سیٹوں میں مسلم لیگ ق اور پیپلزپارٹی کی ایک نشست ہے۔ اس طرح چھ صوبائی حلقوں میں مسلم لیگ فنکشنل کو سابقہ انتخابات میں بھی دو نشستیں ملتی رہیں اور اب بھی فیض گنج اور کنگری والی نشستیں مسلم لیگ فنکشنل کے حصے میں آئی ہیں۔ ان انتخابات میں تین نئے چہروں 217 پر مسلم لیگ فنکشنل کے سید کاظم حسین شاہ، صوبائی حلقہ 30 پر سید راشد شاہ اور خواتین کے لیے مخصوص نشست پر پیپلزپارٹی کی غزالہ سیال کے علاوہ باقی تمام پرانے کھلاڑی ہیں۔
15سال کے بعد انتخابات میں حصہ لینے والے نواز لیگ سندھ کے صدر غوث علی شاہ کی قومی اورصوبائی نشست پر بری طرح شکست اس وقت سب سے زیادہ موضوع بحث ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق غوث علی شاہ کی شکست کے اسباب میں ان کی جانب سے بیک وقت قومی اور صوبائی نشست پر کھڑے ہونے کا فیصلہ بھی ہے۔ اگر وہ خود قومی اور صوبائی نشست پر فنکشنل لیگ کے امیدوار کو موقع دیتے تو اس سے مسلم لیگ فنکشنل بھی اس ضلع میں اپنی بھر پور انتخابی مہم چلاتی اور ان کے امیدوار کی انتخابی مہم کا فائدہ غوث علی شاہ کو بھی ہوتا، مگر ایسا نہ کیا گیا۔ ساتھ ہی عوام سے رابطے کا فقدان بھی اس ہار کی وجہ بنا۔
این اے215 پر کام یاب قرار پانے والے پی پی کے امید وار حاجی نواب خان وسان جب گورنمنٹ ممتاز کالج والی پولنگ اسٹیشن پر پہنچے تو پی پی اور مسلم لیگ فنکشنل کے کارکنوں میں جھگڑا ہوگیا۔ جس میں عینی شاہدین اور مقدمات میں نام زد ملزمان نو منتخب رکن قومی اسمبلی حاجی نواب خان وسان کے محافظوں نے گولیاں چلادیں، جس سے فنکشنل لیگ کے عبدالوہاب موریجو ہلاک جب کہ 4 دیگر افراد زخمی ہوگئے۔
شدید عوامی دباؤ احتجاج کے بعد طاہر امتیاز پھلوٹی کی مدعیت میں پی پی کے نو منتخب رکن قومی اسمبلی حاجی نواب خان وسان ٹی ایم او ٹھری میرواہ مختیار سولنگی سمیت دس افراد پر قتل وفائرنگ کا مقدمہ درج کر لیا گیا۔ انتخابات ہوجانے اور مبینہ دھاندلیوں کے خلاف مسلم لیگ فنکشنل سمیت دیگر پارٹیوں کی ہڑتال کی کال کے جواب میں 16مئی کو خیرپور سمیت سندھ بھر میں ہڑتال کی گئی۔
اس موقع پر خیرپور کے کنب شہر میں پی پی اور مسلم لیگ کے کارکنوں میں ہونے والے جھگڑے میں چار افراد ہلاک اور دس زخمی ہوگئے۔ حالات خراب ہونے پر رینجرز طلب کر لی گئی۔ بعد ازاں منظور وسان، فریال تالپور اور دیگر نے لوگوں کو پر امن رہنے کی تلقین کی اور حالات معمول پر لانے کے لیے اپنا اثر رسوخ استعمال کیا۔
انتخابات میں مبینہ دھاندلیوں کے خلاف ہڑتال کے موقع پر غوث علی شاہ، پیر معشوق اور دیگر نے الگ الگ پریس کانفرنسوں میں الزام عاید کیا کہ پیپلزپارٹی نے سندھ میں اپنی مرضی کی نگران حکومت بنا کر اس دن سے دھاندلیوں کی منصوبہ بندی کر لی تھی کیوں کہ پی پی پی کے سندھ دشمن اقدام کی وجہ سے عوام میں شدید نفرت اور اشتعال پایا جاتا تھا اور پی پی کی سندھ میں شکست یقینی بن چکی تھی، مگر نام نہاد جمہوریت کی عَلم بردار اور چیمپئن کہلوانے والی پیپلزپارٹی اپنی گرتی ساکھ اور شہرت کو بچانے کے لیے ریاستی مشینری کو استعمال کرتے ہوئے خیرپور سمیت سندھ بھر میں جب ریکارڈ دھاندلی کر کے اور پولنگ اسٹیشن پر عملے کو اسلحے کے زور پر یرغمال بناکر خود ٹھپے لگاتے رہے۔
ہمارے ایجنٹوں کو اغوا کیاگیا اور تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ رات گئے پولنگ اور رات کو بھی ٹھپے لگانا کا عمل جاری ہے۔ پی پی کی دھاندلیوں کی وجہ سے پرزائیڈنگ آفیسر وقت پر اپنے نتائج نہ دے سکے اور صرف خیرپور ضلع کے نتائج رد و بدل کر کے 48 گھنٹے کے بعد ظاہر کیے گئے۔ اس موقع پر انہوں نے اغوا کیے جانے والے کارکنوں کو بازیاب کرانے کا مطالبہ بھی کیا۔
قومی اسمبلی کے حلقہ 216 پر مسلم لیگ فنکشنل کے صوبائی صدر پیر سید صدر الدین شاہ نے پیپلزپارٹی کے امیدوار رئیس ساجد حسین بھانبھن کو شکست دی۔ قومی حلقہ 217 پر مسلم لیگ فنکشنل کے نام زَد امیدوار سید کاظم علی شاہ نے پیپلزپارٹی کے سید جاوید علی شاہ کو شکست دی۔ اس طرح چھ صوبائی حلقوں صوبائی حلقہ 29 پر پی پی سندھ کے صدر سابق وزیر اعلا سید قائم علی شاہ، مسلم لیگ ن کے غوث علی شاہ کو شکست دے کر کام یاب ہوئے۔
صوبائی حلقہ 30، کنگری پر مسلم لیگ فنکشنل کے پیر سید راشد شاہ نے پیپلزپارٹی کے پیر علی شاہ کو شکست دی۔ صوبائی حلقہ 31 پر مسلم لیگ فنکشنل کے ڈاکٹر رفیق بھابھنن نے پیپلزپارٹی کے امیدوار زاہد علی بھابھنن کو شکست دے کر کامیابی حاصل کی۔ صوبائی حلقہ 32 پر پیپلزپارٹی کے امیدوار منظور وسان مسلم لیگ فنکشنل کے میر شاہ نواز تالپور کو شکست دے کر کام یاب قرار پائے۔
صوبائی حلقہ 33 پر پیرآف رانی پور پیر فضل علی شاہ مسلم لیگ فنکشنل کے پیر معشوق شاہ کو شکست دے کر کام یاب قرار پائے۔ صوبائی حلقہ 34 پر پیپلزپارٹی کے نعیم احمد کھرل نے مسلم لیگ فنکشنل کے پیر اسماعیل شاہ کو شکست دے کر کام یاب قرار پائے۔ حالیہ انتخابات میں خیرپور ضلع میں مسلم لیگ فنکشنل قومی حلقہ 217 نشست پیپلزپارٹی سے لینے میں کام یاب رہی اس حلقے پر پی پی اور مسلم لیگ ن کے امیدواروں میں کانٹے دار مقابلہ ہوا اور مسلم لیگ ن بڑی جدوجہد کے بعد سالہا سال سے پی پی کی رہنے والی نشست لینے میں کام یاب ہوئی۔
اس طرح ضلع کی تین قومی سیٹوں میں مسلم لیگ ق اور پیپلزپارٹی کی ایک نشست ہے۔ اس طرح چھ صوبائی حلقوں میں مسلم لیگ فنکشنل کو سابقہ انتخابات میں بھی دو نشستیں ملتی رہیں اور اب بھی فیض گنج اور کنگری والی نشستیں مسلم لیگ فنکشنل کے حصے میں آئی ہیں۔ ان انتخابات میں تین نئے چہروں 217 پر مسلم لیگ فنکشنل کے سید کاظم حسین شاہ، صوبائی حلقہ 30 پر سید راشد شاہ اور خواتین کے لیے مخصوص نشست پر پیپلزپارٹی کی غزالہ سیال کے علاوہ باقی تمام پرانے کھلاڑی ہیں۔
15سال کے بعد انتخابات میں حصہ لینے والے نواز لیگ سندھ کے صدر غوث علی شاہ کی قومی اورصوبائی نشست پر بری طرح شکست اس وقت سب سے زیادہ موضوع بحث ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق غوث علی شاہ کی شکست کے اسباب میں ان کی جانب سے بیک وقت قومی اور صوبائی نشست پر کھڑے ہونے کا فیصلہ بھی ہے۔ اگر وہ خود قومی اور صوبائی نشست پر فنکشنل لیگ کے امیدوار کو موقع دیتے تو اس سے مسلم لیگ فنکشنل بھی اس ضلع میں اپنی بھر پور انتخابی مہم چلاتی اور ان کے امیدوار کی انتخابی مہم کا فائدہ غوث علی شاہ کو بھی ہوتا، مگر ایسا نہ کیا گیا۔ ساتھ ہی عوام سے رابطے کا فقدان بھی اس ہار کی وجہ بنا۔
این اے215 پر کام یاب قرار پانے والے پی پی کے امید وار حاجی نواب خان وسان جب گورنمنٹ ممتاز کالج والی پولنگ اسٹیشن پر پہنچے تو پی پی اور مسلم لیگ فنکشنل کے کارکنوں میں جھگڑا ہوگیا۔ جس میں عینی شاہدین اور مقدمات میں نام زد ملزمان نو منتخب رکن قومی اسمبلی حاجی نواب خان وسان کے محافظوں نے گولیاں چلادیں، جس سے فنکشنل لیگ کے عبدالوہاب موریجو ہلاک جب کہ 4 دیگر افراد زخمی ہوگئے۔
شدید عوامی دباؤ احتجاج کے بعد طاہر امتیاز پھلوٹی کی مدعیت میں پی پی کے نو منتخب رکن قومی اسمبلی حاجی نواب خان وسان ٹی ایم او ٹھری میرواہ مختیار سولنگی سمیت دس افراد پر قتل وفائرنگ کا مقدمہ درج کر لیا گیا۔ انتخابات ہوجانے اور مبینہ دھاندلیوں کے خلاف مسلم لیگ فنکشنل سمیت دیگر پارٹیوں کی ہڑتال کی کال کے جواب میں 16مئی کو خیرپور سمیت سندھ بھر میں ہڑتال کی گئی۔
اس موقع پر خیرپور کے کنب شہر میں پی پی اور مسلم لیگ کے کارکنوں میں ہونے والے جھگڑے میں چار افراد ہلاک اور دس زخمی ہوگئے۔ حالات خراب ہونے پر رینجرز طلب کر لی گئی۔ بعد ازاں منظور وسان، فریال تالپور اور دیگر نے لوگوں کو پر امن رہنے کی تلقین کی اور حالات معمول پر لانے کے لیے اپنا اثر رسوخ استعمال کیا۔
انتخابات میں مبینہ دھاندلیوں کے خلاف ہڑتال کے موقع پر غوث علی شاہ، پیر معشوق اور دیگر نے الگ الگ پریس کانفرنسوں میں الزام عاید کیا کہ پیپلزپارٹی نے سندھ میں اپنی مرضی کی نگران حکومت بنا کر اس دن سے دھاندلیوں کی منصوبہ بندی کر لی تھی کیوں کہ پی پی پی کے سندھ دشمن اقدام کی وجہ سے عوام میں شدید نفرت اور اشتعال پایا جاتا تھا اور پی پی کی سندھ میں شکست یقینی بن چکی تھی، مگر نام نہاد جمہوریت کی عَلم بردار اور چیمپئن کہلوانے والی پیپلزپارٹی اپنی گرتی ساکھ اور شہرت کو بچانے کے لیے ریاستی مشینری کو استعمال کرتے ہوئے خیرپور سمیت سندھ بھر میں جب ریکارڈ دھاندلی کر کے اور پولنگ اسٹیشن پر عملے کو اسلحے کے زور پر یرغمال بناکر خود ٹھپے لگاتے رہے۔
ہمارے ایجنٹوں کو اغوا کیاگیا اور تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ رات گئے پولنگ اور رات کو بھی ٹھپے لگانا کا عمل جاری ہے۔ پی پی کی دھاندلیوں کی وجہ سے پرزائیڈنگ آفیسر وقت پر اپنے نتائج نہ دے سکے اور صرف خیرپور ضلع کے نتائج رد و بدل کر کے 48 گھنٹے کے بعد ظاہر کیے گئے۔ اس موقع پر انہوں نے اغوا کیے جانے والے کارکنوں کو بازیاب کرانے کا مطالبہ بھی کیا۔