بلوچستان بڑے مسائل نئی حکومت کے منتظر

انتخابات میں نگراں وزیراعظم اور وزیراعلیٰ کے رشتہ داروں کو شکست

الیکشن 2013ء میں بھی حسب روایت جمالی گروپ کے سیاسی قائد میر ظفراﷲ خان جمالی اور ان کے حریف کھوسہ گروپ سے تعلق رکھنے والے میر سلیم خان کھوسہ نے بطور آزاد امیدوار الیکشن میں حصہ لیا۔ فوٹو : فائل

دھاندلی کے الزامات اور احتجاج کے سلسلے سے ملک بھر کی طرح نگراں وزیراعظم میر ہزار خان کھوسہ کا آبائی ضلع بھی محفوظ نہیں اور یہ عجیب تماشا ہے کہ قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 266جعفر آباد نصیر آباد کی نشست پر دھاندلی کے الزامات عاید کرنے والے ''غیر'' نہیں بلکہ نگراں وزیراعظم میر ہزار خان کھوسہ کے قریبی عزیز ہیں۔

ملک کے دیگر صوبوں سے قطع نظر بلوچستان میں حالیہ الیکشن کس حد تک صاف و شفاف ہوئے ہیں، اس کا اندازہ نگراں وزیراعظم میر ہزار خان کھوسہ اور نگراں وزیراعلا نواب غوث بخش خان باروزئی کے قریبی رشتہ داروں کی شکست سے واضح طور پر لگایا جا سکتا ہے۔ حلقہ این اے 266 سے میر سلیم خان کھوسہ تو سبی سے وزیراعلا کے بھائی باروخان باروزئی کو شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

اب یہ صاف شفاف الیکشن کا نتیجہ ہے یا پھر حالات کی ستم ظریفی ہے کہ نگراں وزیراعظم اور نگراں وزیر اعلا کے انتہائی قریبی عزیز کام یابی حاصل نہ کر سکے۔ بعض ستم ظریف حلقوں کا تو یہاں تک کہنا ہے کہ بلوچستان جیسے حساس صوبے میں الیکشن کی شفافیت کو ظاہر کرنے کے لیے ہی نگراں وزیراعظم اور نگراں وزیر اعلا کے قریبی رشتہ داروں کو دانستہ قربانی کی بھینٹ چڑھایا گیا ہے۔

نگراں وزیراعظم میر ہزار خان کھوسہ کے قریبی عزیز اور سابق صوبائی وزیر میر سلیم خان کھوسہ سابق وزیراعظم میر ظفراﷲ خان جمالی کے مد مقابل تھے۔ قومی اسمبلی کے اس حلقے 266 سے ظفراﷲ جمالی کے علاوہ سابق وفاقی وزیر میر چنگیز خان جمالی بھی پیپلزپارٹی کی ٹکٹ پر الیکشن میں حصہ لے رہے تھے، جس کے باعث عمومی رائے یہ تھی کہ یہ نشست کھوسہ گروپ کے امیدوار سے سلیم خان کھوسہ جیت لیں گے، لیکن نتیجہ اس کے برعکس رہا۔


الیکشن 2013ء میں بھی حسب روایت جمالی گروپ کے سیاسی قائد میر ظفراﷲ خان جمالی اور ان کے حریف کھوسہ گروپ سے تعلق رکھنے والے میر سلیم خان کھوسہ نے بطور آزاد امیدوار الیکشن میں حصہ لیا۔ جعفر آباد، نصیر آباد کے اضلاع قومی اسمبلی کے ایک، جب کہ صوبائی اسمبلی کی پانچ نشستوں پر مشتمل ہیں۔ حالیہ الیکشن میں حلقہ این اے 266 کی نشست پر سابق وزیراعظم میر ظفراﷲ خان جمالی 41 ہزار سات سو چھ ووٹ لے کر کام یاب قرار پائے، جب کہ ان کے روایتی سیاسی حریف کھوسہ گروپ سے تعلق رکھنے والے میر سلیم خان کھوسہ 37 ہزار سات سو تین ووٹوں کے ساتھ دوسرے اور پیپلزپارٹی کے چنگیز خان جمالی 17 ہزار 392 ہزار ووٹوں کے ساتھ تیسرے نمبر پر رہے۔

ہارنے والے امیدواروں نے آفیسر ڈپٹی کمشنر جعفرآباد کے آفس کے سامنے احتجاجی دھرنا دیا، جو جعفرآباد کی تاریخ کا طویل ترین دھرنا تھا۔ احتجاجی دھرنے سے آزاد امیدوار سلیم خان کھوسہ، صوبائی اسمبلی کے نو منتخب رکن میر اظہار حسین خان کھوسہ، سابق تحصیل ناظم حاجی اختیار خان کھوسہ، سندھ بلوچستان رائس ملز ایسوسی ایشن کے جنرل سیکریٹری خیر بخش خان کھوسہ، میر احمد نواز کھوسہ، میر آفتاب خان کھوسہ، میر سرفراز خان کھوسہ و دیگر مقررین نے خطاب کرتے ہوئے الزام عاید کیا کہ اوستا محمد و دیگر کی تحصیلوں میں کھلی دھاندلی کی گئی ہے۔

انہوں نے مطالبہ کیا کہ نادرا کے ذریعے بیلٹ پیپر اور انتخابی فہرستوں پر ثبت انگوٹھوں کی تصدیق کروائی جائے، بعد ازاں ڈپٹی کمشنر جعفر آباد سید ظفر علی بخاری اور آزاد امیدوار میر سلیم خان کھوسہ کے درمیان کام یاب مذاکرات کے بعد تین روز تک جاری رہنے والے دھرنے کو پرامن طور پر ختم کر دیا گیا۔

صوبائی اسمبلی کے حلقہ پی پی 25 اوستا محمد سے مسلم لیگ ن کی ٹکٹ پر سابق ڈپٹی چیئرمین سینٹ سرجان محمد خان جمالی، جب کہ حلقہ 26 ڈیرہ الہ یار کی نشست پر ان کی ہمشیرہ محترمہ راحت بی بی نے مسلم لیگ ن کی ٹکٹ پر کام یابی حاصل کی اور جعفر آباد نصیر آباد میں براہ راست الیکشن کے ذریعے کام یاب ہو کر پارلیمان پہنچنے والی پہلی خاتون کا اعزاز حاصل کر لیا ہے، لیکن ان کی یہ کام یابی جمالی خاندان میں الزامات کی خلیج کو مزید وسیع کرنے کی باعث بھی ہے، عام تاثر یہ تھا کہ انہیں شکست کا سامنا کرنا پڑے گا اور آزاد امیدوار میر محمد خان کھوسہ اس حلقے سے کام یابی حاصل کرلیں گے،

لیکن ایسا نہ ہوسکا، جب کہ پانچویں حلقے پی پی 29 سے مسلم لیگ ن کے امیدوار میر عبدالغفور لہڑی نے کام یابی حاصل کی، الیکشن کمیشن کی جانب سے تمام آزاد امیدواروں کو 25 مئی تک کسی نہ کسی سیاسی جماعت میں شمولیت کی مہلت ملنے کے بعد صوبے کی عمومی روایات کے مطابق آزاد امیدواروں کی دھڑا دھڑ مسلم لیگ ن میں شمولیت کا سلسلہ جاری ہے۔ ماضی کی روایات کے پیش نظر اس مرتبہ بھی صوبے کی وزارت اعلا کا قرعہ فال کسی نواب یا سردار کے نام ہی نکلنے کا قوی امکان ہے۔ پیپلز پارٹی کے بعد اب نواز لیگ کی حکومت کو صوبے کے حوالے سے خاصے بڑے بڑے مسائل سے نبردآزما ہونا ہے۔ دیکھیں کیا گزرے ہے قطرے پہ گُہر ہونے تک!
Load Next Story