ن لیگ کو غیر معمولی چیلنجوں کا سامنا
آزاد ارکان اسمبلی کی اکثریت تازہ ترین اطلاعات کے مطابق حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) میں شامل ہو چکی ہے۔
مرکز اور چاروں صوبوں میں حکومت سازی کیلئے سیاسی جماعتوں کے قائدین کے درمیان رابطوں کا سلسلہ جاری ہے، سیاسی جوڑ توڑ نقطۂ عروج پر ہے۔
آزاد ارکان اسمبلی کی اکثریت تازہ ترین اطلاعات کے مطابق حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) میں شامل ہو چکی ہے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے آزاد ارکان اسمبلی کو سیاسی جماعتوں کے ساتھ وابستگی اختیار کرنے یا نہ کرنے کیلئے 25 مئی کی ڈیڈ لائن دے رکھی ہے، 25 مئی تک جن آزاد ارکان اسمبلی نے کسی سیاسی جماعت کے ساتھ وابستگی کا سرٹیفکیٹ الیکشن کمیشن آف پاکستان میں جمع نہ کرایا وہ 5 سال تک کسی سیاسی جماعت میں شامل نہیں ہو سکیں گے۔
انتخابی نتائج کو تسلیم کرنے میں سیاسی جماعتوں نے لیت و لعل سے کام لیا ہے، بعض جماعتوں نے انتخابات میں شکست کو تسلیم کرنے کے بجائے ملک کے اکثر شہروں میں دھرنوں کا سلسلہ شروع کر دیا ہے اور ان دھرنوں کی شدت میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ جمہوری اقدار کو فروغ دینے کا تقاضا تو یہ تھا کہ تمام سیاسی جماعتیں کھلے دل سے ایک دوسرے کے مینڈیٹ کو تسلیم کرتیں اور ایک صحت مند جمہوری روایت کی بنیاد ڈالی جاتی، تاہم ایسا نہیں ہو سکا۔
مسلم لیگ (ن) کے قائد اور نامزد وزیر اعظم میاں نواز شریف نے ایک صحت مند جمہوری روایت کا آغاز کرتے ہوئے صوبہ خیبر پختونخوا میں اپنی حریف سیاسی جماعت تحریک انصاف کے مینڈیٹ کو نہ صرف تسلیم کیا بلکہ جمعیت علماء اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کی صوبہ خیبر پختونخوا میں مسلم لیگ (ن) کے ساتھ ملکر حکومت بنانے کی پیشکش کو قبول نہیں کیا اور تحریک انصاف کو صوبہ خیبر پختونخوا میں حکومت سازی کا موقع فراہم کر کے سیاسی برد باری اور افہام و تفہیم کا ثبوت فراہم کیا۔
میاں نواز شریف کے سیاسی مخالفین نے بھی اس اقدام کو لائق تحسین قرام دیا ہے۔ مولانا فضل الرحمن نے تحریک انصاف کے مینڈیٹ کو تسلیم نہ کر کے سیاسی ناپختگی کا ثبوت دیا۔ اسلام آباد سے مسلم لیگ (ن) کے رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر طارق فضل چوہدری کی رہائش گاہ پر مولانا فضل الرحمن اور میاں شہباز شریف کے درمیان مذاکرات ہوئے، مولانا فضل الرحمن انہیں صوبہ خیبر پختونخوا میں حکومت سازی پر آمادہ کرنے کیلئے ٹھوس دلائل دیتے رہے تاہم مولانا فضل الرحمن تمام تر کوششوں کے باوجود شہباز شریف کو حکومت سازی پر آمادہ نہ کر سکے۔
سیاسی مبصرین کی یہ رائے ہے کہ اگر صوبہ خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کے مینڈیٹ تسلیم نہ کیا جاتا اور مسلم لیگ (ن) دیگر جماعتوں کے ساتھ صوبے میں حکومت بنا لیتی تو اس سے یقیناً سیاسی محاذ آرائی اور تصادم میں اضافہ ہو جاتا۔
مسلم لیگ (ن) کے سربراہ میاں نواز شریف نے صوبہ سندھ میں پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے مینڈیٹ کو بھی تسلیم کرتے ہوئے یہ عزم دہرایا ہے کہ وفاقی حکومت صوبائی حکومتوں کیساتھ مکمل تعاون کیا جائے گا۔ وفاق میں حکومت سازی کا عمل جون کے پہلے ہفتہ کے دوران امکانی طور پر مکمل ہو جائے گا آئندہ چند روز کے اندر وفاقی دارالحکومت اسلام آباد سیاسی سرگرمیوں کا محور و مرکز بن جائے گا۔ نو منتخب ارکان اسمبلی قومی اسمبلی کے پہلے اجلاس میں حلف اٹھائیں گے رواں ماہ کے آخر میں قومی اسمبلی کا پہلا اجلاس طلب کیا جا رہا ہے۔
میاں نواز شریف نے ملک کو درپیش گھمبیر چیلنجز اور بحرانوں سے نبرد آزما ہونے کیلئے پارٹی قائدین کے ساتھ مشاورت کا آغاز کر دیا ہے۔ میاں نواز شریف کی حکومت کو بدترین لوڈشیڈنگ، دہشت گردی، انتہا پسندی، اقتصادی بدحالی، مہنگائی، بے روز گاری لاقانونیت سمیت ان گنت مسائل کا سامنا ہے اور ان چیلنجز سے نبرد آزما ہونا بذات خود انکی حکومت کیلئے ایک بڑا چیلنج کی حیثیت رکھتا ہے، بلا مبالغہ پاکستانی تاریخ میں تیسری مرتبہ وزیر اعظم بننے والے میاں نواز شریف اس ملک کیلئے کچھ عملی طور پر کرنے کا جذبہ رکھتے ہیں، یہ راستہ کٹھن ہے مگر ناممکن نہیں، پوری قوم کی نظریں میاں نواز شریف پر مرکوز ہیں اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ اپنے پہلے 100 دنوں میں کیا انقلابی پروگرام قوم کے سامنے رکھتے ہیں۔
اقتصادی اور توانائی کا بحران اس قدر شدید ہو چکا ہے کہ پوری ملکی معیشت کا اس بحران کے باعث پہیہ جام ہو چکا ہے، بدترین لوڈشیڈنگ نے کاروبار زندگی مکمل طور پر مفلوج کر رکھا ہے اور ملک بھر میں کروڑوں لوگ سراپا احتجاج ہیں۔ نگراں حکومت نے اہم عہدوں پر تعینات افسران کی اکھاڑ پچھاڑ کر کے اپنے اختیارات سے تجاوز کیا ہے جس کی وجہ سے بیورو کریسی میں تشویش پیدا ہو گئی ہے اور بعض افسران نے عدالتوں سے بھی رجوع کر لیا ہے۔
مسلم لیگ (ن) کے نامزد وزیر اعظم میاں نواز شریف کیلئے کابینہ کی تشکیل ایک اہم مرحلہ ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے مرکزی قائدین کابینہ میں شامل ہونے اور پُرکشش وزارتوں کے حصول کیلئے اِن دنوں سرگرداں ہیں، پارٹی کے مرکزی قائدین کے درمیان اہم وزارتوں کے حصول کیلئے زبردست رسہ کشی کا سلسلہ جاری ہے، لیگی ذرائع بالخصوص میاں نواز شریف کے قریبی حلقے یہ کہہ رہے ہیں کہ 18 ویں ترمیم کی روح کے مطابق وفاقی کابینہ کا حجم کم سے کم رکھا جائے گا، غیر ضروری اخراجات کو کم کرنے کیلئے میاں نواز شریف ایک مختصر کابینہ کے ساتھ کچھ عملی اقدامات کرنا چاہتے ہیں۔
چھوٹے صوبوں کو مرکز میں نمائندگی دینے پر سنجیدگی کے ساتھ غور جاری ہے، سرکردہ رہنما محمود خان اچکزئی کو سپیکر قومی اسمبلی بنانے کی تجویز زیر غور ہے اور اگر محمود خان اچکزئی کو یہ اہم عہدہ دیا جاتا ہے تو محرومیوں کے شکار بلوچستان کے عوام کو مرکز کی طرف سے ایک مثبت پیغام جائے گا۔
سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ ایک طویل عرصہ کے بعد اقتدار حاصل کرنے والے نواز شریف ریاستی اداروں کے ساتھ غیر ضروری ٹکراؤ پالیسی سے گریز کریں گے اور مفاہمتی پالیسی کو اختیار کر کے تصادم کا راستہ نہیں اپنائیں گے، زمینی حقائق ریاستی اداروں کے درمیان محاذ آرائی کی قطعی طور پر اجازت نہیں دیتے اور حالات کا تقاضا تو یہ ہے کہ ایک منتخب جمہوری حکومت کو 5 سالہ آئینی مدت پوری کرنے دی جائے تاکہ جمہوریت پر آئندہ کوئی بھی طالع آزما شب خون نہ مار سکے۔
بدھ کے روز پہلی مرتبہ چینی وزیر اعظم کے اعزاز میں صدر آصف علی زرداری کے ظہرانہ میں تمام سیاسی قیادت ایک ساتھ شریک ہو گی۔ صدر آصف علی زرداری نے سیاسی اختلافات کو پس پشت ڈالتے ہوئے تمام حریف اور حلیف قائدین کو مدعو کر کے ایک اچھا اور مثبت قدم اٹھایا ہے اور تمام سیاستدانوں نے دعوت قبول کر کے چین کے ساتھ حقیقی دوستی کا بے نظیر ثبوت دیا ہے۔
آزاد ارکان اسمبلی کی اکثریت تازہ ترین اطلاعات کے مطابق حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) میں شامل ہو چکی ہے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے آزاد ارکان اسمبلی کو سیاسی جماعتوں کے ساتھ وابستگی اختیار کرنے یا نہ کرنے کیلئے 25 مئی کی ڈیڈ لائن دے رکھی ہے، 25 مئی تک جن آزاد ارکان اسمبلی نے کسی سیاسی جماعت کے ساتھ وابستگی کا سرٹیفکیٹ الیکشن کمیشن آف پاکستان میں جمع نہ کرایا وہ 5 سال تک کسی سیاسی جماعت میں شامل نہیں ہو سکیں گے۔
انتخابی نتائج کو تسلیم کرنے میں سیاسی جماعتوں نے لیت و لعل سے کام لیا ہے، بعض جماعتوں نے انتخابات میں شکست کو تسلیم کرنے کے بجائے ملک کے اکثر شہروں میں دھرنوں کا سلسلہ شروع کر دیا ہے اور ان دھرنوں کی شدت میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ جمہوری اقدار کو فروغ دینے کا تقاضا تو یہ تھا کہ تمام سیاسی جماعتیں کھلے دل سے ایک دوسرے کے مینڈیٹ کو تسلیم کرتیں اور ایک صحت مند جمہوری روایت کی بنیاد ڈالی جاتی، تاہم ایسا نہیں ہو سکا۔
مسلم لیگ (ن) کے قائد اور نامزد وزیر اعظم میاں نواز شریف نے ایک صحت مند جمہوری روایت کا آغاز کرتے ہوئے صوبہ خیبر پختونخوا میں اپنی حریف سیاسی جماعت تحریک انصاف کے مینڈیٹ کو نہ صرف تسلیم کیا بلکہ جمعیت علماء اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کی صوبہ خیبر پختونخوا میں مسلم لیگ (ن) کے ساتھ ملکر حکومت بنانے کی پیشکش کو قبول نہیں کیا اور تحریک انصاف کو صوبہ خیبر پختونخوا میں حکومت سازی کا موقع فراہم کر کے سیاسی برد باری اور افہام و تفہیم کا ثبوت فراہم کیا۔
میاں نواز شریف کے سیاسی مخالفین نے بھی اس اقدام کو لائق تحسین قرام دیا ہے۔ مولانا فضل الرحمن نے تحریک انصاف کے مینڈیٹ کو تسلیم نہ کر کے سیاسی ناپختگی کا ثبوت دیا۔ اسلام آباد سے مسلم لیگ (ن) کے رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر طارق فضل چوہدری کی رہائش گاہ پر مولانا فضل الرحمن اور میاں شہباز شریف کے درمیان مذاکرات ہوئے، مولانا فضل الرحمن انہیں صوبہ خیبر پختونخوا میں حکومت سازی پر آمادہ کرنے کیلئے ٹھوس دلائل دیتے رہے تاہم مولانا فضل الرحمن تمام تر کوششوں کے باوجود شہباز شریف کو حکومت سازی پر آمادہ نہ کر سکے۔
سیاسی مبصرین کی یہ رائے ہے کہ اگر صوبہ خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کے مینڈیٹ تسلیم نہ کیا جاتا اور مسلم لیگ (ن) دیگر جماعتوں کے ساتھ صوبے میں حکومت بنا لیتی تو اس سے یقیناً سیاسی محاذ آرائی اور تصادم میں اضافہ ہو جاتا۔
مسلم لیگ (ن) کے سربراہ میاں نواز شریف نے صوبہ سندھ میں پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے مینڈیٹ کو بھی تسلیم کرتے ہوئے یہ عزم دہرایا ہے کہ وفاقی حکومت صوبائی حکومتوں کیساتھ مکمل تعاون کیا جائے گا۔ وفاق میں حکومت سازی کا عمل جون کے پہلے ہفتہ کے دوران امکانی طور پر مکمل ہو جائے گا آئندہ چند روز کے اندر وفاقی دارالحکومت اسلام آباد سیاسی سرگرمیوں کا محور و مرکز بن جائے گا۔ نو منتخب ارکان اسمبلی قومی اسمبلی کے پہلے اجلاس میں حلف اٹھائیں گے رواں ماہ کے آخر میں قومی اسمبلی کا پہلا اجلاس طلب کیا جا رہا ہے۔
میاں نواز شریف نے ملک کو درپیش گھمبیر چیلنجز اور بحرانوں سے نبرد آزما ہونے کیلئے پارٹی قائدین کے ساتھ مشاورت کا آغاز کر دیا ہے۔ میاں نواز شریف کی حکومت کو بدترین لوڈشیڈنگ، دہشت گردی، انتہا پسندی، اقتصادی بدحالی، مہنگائی، بے روز گاری لاقانونیت سمیت ان گنت مسائل کا سامنا ہے اور ان چیلنجز سے نبرد آزما ہونا بذات خود انکی حکومت کیلئے ایک بڑا چیلنج کی حیثیت رکھتا ہے، بلا مبالغہ پاکستانی تاریخ میں تیسری مرتبہ وزیر اعظم بننے والے میاں نواز شریف اس ملک کیلئے کچھ عملی طور پر کرنے کا جذبہ رکھتے ہیں، یہ راستہ کٹھن ہے مگر ناممکن نہیں، پوری قوم کی نظریں میاں نواز شریف پر مرکوز ہیں اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ اپنے پہلے 100 دنوں میں کیا انقلابی پروگرام قوم کے سامنے رکھتے ہیں۔
اقتصادی اور توانائی کا بحران اس قدر شدید ہو چکا ہے کہ پوری ملکی معیشت کا اس بحران کے باعث پہیہ جام ہو چکا ہے، بدترین لوڈشیڈنگ نے کاروبار زندگی مکمل طور پر مفلوج کر رکھا ہے اور ملک بھر میں کروڑوں لوگ سراپا احتجاج ہیں۔ نگراں حکومت نے اہم عہدوں پر تعینات افسران کی اکھاڑ پچھاڑ کر کے اپنے اختیارات سے تجاوز کیا ہے جس کی وجہ سے بیورو کریسی میں تشویش پیدا ہو گئی ہے اور بعض افسران نے عدالتوں سے بھی رجوع کر لیا ہے۔
مسلم لیگ (ن) کے نامزد وزیر اعظم میاں نواز شریف کیلئے کابینہ کی تشکیل ایک اہم مرحلہ ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے مرکزی قائدین کابینہ میں شامل ہونے اور پُرکشش وزارتوں کے حصول کیلئے اِن دنوں سرگرداں ہیں، پارٹی کے مرکزی قائدین کے درمیان اہم وزارتوں کے حصول کیلئے زبردست رسہ کشی کا سلسلہ جاری ہے، لیگی ذرائع بالخصوص میاں نواز شریف کے قریبی حلقے یہ کہہ رہے ہیں کہ 18 ویں ترمیم کی روح کے مطابق وفاقی کابینہ کا حجم کم سے کم رکھا جائے گا، غیر ضروری اخراجات کو کم کرنے کیلئے میاں نواز شریف ایک مختصر کابینہ کے ساتھ کچھ عملی اقدامات کرنا چاہتے ہیں۔
چھوٹے صوبوں کو مرکز میں نمائندگی دینے پر سنجیدگی کے ساتھ غور جاری ہے، سرکردہ رہنما محمود خان اچکزئی کو سپیکر قومی اسمبلی بنانے کی تجویز زیر غور ہے اور اگر محمود خان اچکزئی کو یہ اہم عہدہ دیا جاتا ہے تو محرومیوں کے شکار بلوچستان کے عوام کو مرکز کی طرف سے ایک مثبت پیغام جائے گا۔
سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ ایک طویل عرصہ کے بعد اقتدار حاصل کرنے والے نواز شریف ریاستی اداروں کے ساتھ غیر ضروری ٹکراؤ پالیسی سے گریز کریں گے اور مفاہمتی پالیسی کو اختیار کر کے تصادم کا راستہ نہیں اپنائیں گے، زمینی حقائق ریاستی اداروں کے درمیان محاذ آرائی کی قطعی طور پر اجازت نہیں دیتے اور حالات کا تقاضا تو یہ ہے کہ ایک منتخب جمہوری حکومت کو 5 سالہ آئینی مدت پوری کرنے دی جائے تاکہ جمہوریت پر آئندہ کوئی بھی طالع آزما شب خون نہ مار سکے۔
بدھ کے روز پہلی مرتبہ چینی وزیر اعظم کے اعزاز میں صدر آصف علی زرداری کے ظہرانہ میں تمام سیاسی قیادت ایک ساتھ شریک ہو گی۔ صدر آصف علی زرداری نے سیاسی اختلافات کو پس پشت ڈالتے ہوئے تمام حریف اور حلیف قائدین کو مدعو کر کے ایک اچھا اور مثبت قدم اٹھایا ہے اور تمام سیاستدانوں نے دعوت قبول کر کے چین کے ساتھ حقیقی دوستی کا بے نظیر ثبوت دیا ہے۔