صدر پیپلزپارٹی کے مستقبل سے پر امید ہیں

ان سے ملاقات کرنے والوں کا عمومی تاثر یہ ہے کہ وہ پارٹی کی شکست کے بعد بالکل بھی مایوسی کا شکار نہیں۔

صدر نے تین روزہ دورے کے دوران لاہور میں سینئر پارٹی رہنماؤں ، ٹکٹ ہولڈرز اور سینئر صحافیوں سے ملاقاتیں کیں۔ فوٹو : فائل

LONDON:
صدر آصف علی زرداری انتخابات میں پیپلزپارٹی کی شکست کے باوجود پارٹی اور اپنے مستقبل کے بارے میں بڑے پرامید ہیں اور آنے والے وقت میں پارٹی کا مستقبل تابناک دیکھتے ہیں۔

ان سے ملاقات کرنے والوں کا عمومی تاثر یہ ہے کہ وہ پارٹی کی شکست کے بعد بالکل بھی مایوسی کا شکار نہیں۔ صدر نے تین روزہ دورے کے دوران لاہور میں سینئر پارٹی رہنماؤں ، ٹکٹ ہولڈرز اور سینئر صحافیوں سے ملاقاتیں کیں۔ دھاندلی کی شکایات اور پارٹی کی تنظم سازی کیلئے سینیٹر چودھری اعتزاز احسن کی سر براہی میں کمیٹی قائم کر دی گئی ہے۔ صدر زرداری سمجھتے ہیں کہ انتخابات میں ٹیکنیکل طریقے سے پیپلزپارٹی کے خلاف ہوا چلائی گئی اور ریٹرننگ افسروں نے بھی پیپلزپارٹی کی شکست میں بڑا کردار ادا کیا ، یہ پیپلزپارٹی کے ساتھ پہلی بار نہیں ہوا۔

97ء میں اس کے پاس پورے ملک میں 17نشستیں تھیں۔ صدر صاحب سال کے آخر میں خود بھی میدان میں نکلیں گے ، پارٹی کی تنظیم سازی بھی دیکھیں گے اور اسے پنجاب میں دوبارہ واپس لائیں گے۔ صدر نے کہا کہ ہم 25 یا 26 نشستوں کیلئے ایک نئے بھٹو کی قربانی نہیں دے سکتے تھے، اگر بے نظیر بھٹو 2008ء کے الیکشن میں گھر بیٹھ جاتیں تو 10 سے 12 نشستوں کا فرق پڑنا تھا۔ بجلی کا بحران ختم نہیں کرسکے جس کا الیکشن میں نقصان ہوا۔ صدر زرداری کے مطابق الیکشن کے نتائج میں کچھ بین الاقوامی اور بعض قومی اداروں نے بھی کردار ادا کیا۔

زرداری صاحب کا خیال ہے کہ غیر مرئی طاقتیں الیکشن پر اثر انداز ہوئی ہیں۔ شریف جب بھی الیکشن جیتے غیر مرئی طاقتوں نے ہمیشہ ان کی مدد کی۔ 1988، 1990اور 1997ء میں بھی ان قوتوں نے اہم کردار ادا کیا تھا۔ صدر زرداری کا خیال ہے کہ انہوں نے 5سال عدلیہ، فوج اور میڈیا کے ساتھ بڑے ضبط سے گزارے ہیں ۔ پیپلزپارٹی کی تمام تر خامیوں اور کمزوریوں کے باوجود ان کا رویہ جمہوری تھا۔ صدر زرداری نے پریس کو مادر پدر آزادی دی، پرویز مشرف کی طرح کوئی غیر آئینی اقدام نہیں کیا۔


5سال تک کرپشن یا سیاسی انتقام کی بنیاد پر کوئی کیس نہیںبنایا، ملک میں کوئی سیاسی قیدی نہیں تھا۔ فوج کے ساتھ خوش اسلوبی سے معاملات چلائے۔ صدر زرداری کو مشورہ دیا گیاکہ وہ بلاول کو اپنے پروں سے کالیں تاہم وہ سمجھتے ہیں کہ ابھی انہیں پوری طرح میدان میں اتارنے کا وقت نہیں آیا۔ ذوالفقار علی بھٹو 25سال کی عمر میں پاکستان کے وزیر خارجہ تھے مگر بلاول 25سال میں ویسا کردار ادا نہیں کرسکتے۔ لوگ کہتے ہیں کہ زرداری ہی پیپلزپارٹی ہیں اورانہیں ہی پارٹی چلانی ہے، بچوں کو ابھی وقت لگے گا۔ صدر کا کہنا ہے کہ ہمارے خاندان میں لڑکا یا لڑکی ہونا میٹر نہیں کرتا،سب لیڈر ہیں صرف بلاول کا نام ہی کیوں لیتے ہیں ،آپ آصفہ کو بھول جاتے ہیں، بختاور نہیں ہے۔

صدر کا کہنا ہے کہ جس طرح جمہوری حکومت نے پہلی بار 5سال پورے کئے ہیں اسی طرح وہ بطور صدر بھی اپنی 5سال کی آئینی مدت پوری کریں گے۔ وہ پر عزم ہیں کہ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے اپنا چھٹا خطاب کرکے جائیں گے اور دیکھیں گے کہ خطاب کے دوران حکومت کا کیا رویہ ہوتا ہے۔ انہوں نے فریال تالپور اور اویس مظفر کو پارٹی رول دے دیا ہے۔ سندھ کے معاملات اویس مظفر ٹپی کی نگرانی میں چل رہے ہیں۔ صدر زرداری ایک دانشمندانہ فیصلے کی طرف جارہے ہیںکہ سندھ میں دوبارہ قائم علی شاہ کو وزیراعلیٰ بنایا جائے۔

دراصل سندھ میں پیپلزپارٹی کی دوبارہ جیت قائم علی شاہ کیلئے اعتماد کا ووٹ ہے۔ پہلے اطلاعات تھیں کہ صدر سندھ میں چھوٹے بھائی اویس مظفر ٹپی کو وزارت اعلیٰ دے دیں، اب اطلاعات کے مطابق قائم علی شاہ کو وزارت اعلیٰ کا عہدہ دیں گے اور اویس مظفر ٹپی بطور نوجوان پارٹی کو توانا بنائیں گے اور پیچھے رہتے ہوئے حکومت سندھ اور پارٹی کیلئے کام کریں گے ۔پیپلزپارٹی کو یہ کریڈٹ دیا جاسکتا ہے کہ اس نے پانچ سال میں جمہوریت بحال رکھی اور بم دھماکوں کے دوران بھی الیکشن کرادیئے۔ پیپلزپارٹی کو نظرآرہا تھا کہ انکے حالات اچھے نہیں ہیں پھر بھی کوئی بہانہ نہ بنایا اور نہ دھاندلی کی اور ایسا کوئی اقدام نہیں کیا جس سے الیکشن التواء کا شکار ہوجائیں۔ حکومت پانچ سال تک عدالتی معاملات میں اُلجھی رہی۔ ایک منتخب وزیراعظم کو گھربھجوایا گیا لیکن انہیں برداشت کرنا پڑا۔

اسٹیبلشمنٹ، عدلیہ اور میڈیا صدر زرداری کے خلاف آخری حد تک گئے، میموگیٹ سکینڈل میں نوازشریف اور فوج عدالت میں اکٹھے ہوگئے، صدر زرداری نے بڑی برداشت دکھائی۔ اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب نوازشریف کو اقتدار ملا ہے تو کیا وہ صدر زرداری کی طرح صبر وتحمل کا مظاہرہ کرینگے۔ وہ اداروں کے ساتھ محاذ آرائی کی تاریخ تو نہیں دھرائیں گے، عدلیہ کے ساتھ سجاد علی شاہ جیساسلوک تو نہیں ہوگا۔ وہ میڈیا کی تنقید کو کس حد تک برداشت کرینگے، صحافیوں کی لسٹیں تو تیار نہیں ہونگی اور نیوز پرنٹ تو بند نہیں ہوگا۔ سابق وزیراعلیٰ شہبازشریف انہیں کہہ رہے ہیں کہ وہ مسلسل کڑے احتساب کیلئے تیار ہوجائیں۔کیا اس سے سیف الرحمن اور جسٹس ملک قیوم والا احتساب دوبارہ تو نہیں آئے گا۔ اب نوازشریف کا امتحان ہے، وہ اپنے ایجنڈے اور نعرے پر کیسے عمل کرتے ہیں ۔

صدر زرداری نے اپنے اتحادیوں کو کامیابی سے چلایا ہے۔ اب دیکھنا ہے کہ نوازشریف اپنے اتحادیوں کو کیسے ساتھ لے کر چلتے ہیں۔کیا مولانا فضل الرحمنٰ پانچ برس میاں صاحب کے ساتھ چل سکیں گے۔ اس وقت یہ بحث چل رہی ہے کہ نوازشریف سے عدلیہ، افواج، میڈیا اور چھوٹے صوبوں کی قیادت سے تعلقات کیسے ہونگے۔سندھ اور خیبر پختونخوا میں عوام کے مینڈیٹ کا کیسے احترام کیا جاتا ہے،میاں صاحب کی شہرت تو یہ ہے کہ وہ ادھورے نہیں مکمل اقتدار پر یقین رکھتے ہیں، ابھی تو ان کا ہنی مون پریڈ ہے ، سو دن بعد دیکھئے کیا ہوتاہے، سب کو اصل میاں صاحب نظر آجائیں گے۔
Load Next Story