سندھ میں قیام امن کی تمام ذمہ داری پیپلزپارٹی پر ہوگی
مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نوازشریف نے اگرچہ یہ واضح کردیا ہے کہ سندھ میں پیپلزپارٹی اورایم کیوایم کو مینڈیٹ ملا ہے...
عام انتخابات 2013کے تمام مراحل مکمل ہوچکے ہیں ۔ انتخابی نتائج بھی سامنے آچکے ہیں لیکن انتخابات کی شفافیت پر تمام سیاسی پارٹیوں نے اعتراضات کیے ہیں ۔
پاکستان مسلم لیگ (ن) کومرکز میں حکومت بنانے کے لیے سادہ اکثریت سے بھی زیادہ نشستیں مل چکی ہیں ، اس کے باوجود مسلم لیگ (ن) نے سندھ میں احتجاج کیا ہے اور الزام لگایا ہے کہ انتخابات شفاف نہیں ہوئے ۔ صدرمملکت آصف علی زرداری نے بھی انتخابات کی شفافیت پر شکوک وشبہات کا اظہار کیا ہے ۔ اس سے زیادہ انتخابات کے متنازع ہونے کا اور کیا ثبوت ہوگا ۔
پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت بھی انتخابات کوایک ڈرامہ قراردے رہی ہے ۔ پاکستان مسلم لیگ فنکشنل ، مسلم لیگ (ق) تحریک انصاف ، جماعت اسلامی ، متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیوایم ) ،جمعیت علمائے اسلام (ف)، عوامی نیشنل پارٹی(اے این پی) ، مجلس وحدت المسلمین ، متحدہ دینی محاذ ، سنی تحریک ، بلوچستان کی تمام قوم پرست جماعتوں اور انتخابات میں حصہ لینے والی دیگرجماعتوں نے انتخابات کو نہ صرف غیرشفاف قراردیا ہے بلکہ احتجاجی مظاہرے بھی کیے ہیں ۔کوئی سیاسی جماعت ان انتخابات کو منصفانہ غیر جانبدارانہ اور شفاف ماننے کے لیے تیار نہیں۔
پاکستان کو سیاسی استحکام عطاء کرنے کے سیاسی قوتوں کے جذبے کو نہ صرف سمجھناچاہیے بلکہ اسے سراہا جانا چاہیے ۔ انتخابات کے غیرشفاف ہونے کی سب کے پاس ایک ٹھوس دلیل ہے اور وہ یہ ہے کہ انتخابی نتائج پولنگ اسٹیشنوں پر نہیں تیارہوئے اور پریزائڈنگ افسروں نے دستخط شدہ رزلٹ شیٹس سیاسی جماعتوں کو نہیں دیں ۔
نتائج ریٹرننگ افسروں یا ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسروں کے آفس میں تیار ہوئے ۔ پورے ملک سے یہ شکایت ملی اور صدر آصف علی زرداری نے بھی اسی بنیاد پر انتخابات کی شفافیت پر تحفظات کا اظہار کیا ۔ سیاسی قوتیں اگر ملک میں افراتفری اور انتشار نہیں چاہتی تو اس جذبے کا احترام خاص طور پر مسلم لیگ (ن) پر لازم ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نوازشریف کو چاہیے کہ وہ سندھ میں پیپلزپارٹی کو نہ صرف حکومت بنانے دیں بلکہ حکومت سازی میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے میں بھی مدد دیں ۔
مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نوازشریف نے اگرچہ یہ واضح کردیا ہے کہ سندھ میں پیپلزپارٹی اورایم کیوایم کو مینڈیٹ ملا ہے لہٰذا وہ سندھ میں ان دونوں جماعتوں کی حکومت بنانے کے حق میں ہیں اور مسلم لیگ سندھ میں اپوزیشن کا کردار اداکرے گی۔ اس طرح انہوں نے بین السطور یہ پیغام دے دیا ہے کہ وہ مرکز میں ایم کیوایم اور پیپلزپارٹی کو حکومت میں شمولیت کی دعوت نہیں دے رہے اور انہوں نے یہ بھی فیصلہ سنا دیا ہے کہ پیپلزپارٹی ہی سندھ میں ایم کیوایم کواپنے ساتھ شامل کرے ۔
میاں نوازشریف نے یوں ایم کیوایم سے اپنے راستے الگ کرلیے ہیں ۔ 2008 کے عام انتخابات میں کامیابی کے بعد پیپلزپارٹی کی قیادت نے اپنی قومی مفاہمت کی پالیسی کے تحت مسلم لیگ (ن) سمیت تمام جماعتوں کو وفاق کی حکومت میں شامل دعوت دی تھی بلکہ انہیں شامل بھی کیا تھا ۔ پیپلز پارٹی نے سندھ میں بھی تمام سیاسی جماعتوں کو اپنے گلے لگایا ۔ پیپلز پارٹی کی قیادت کو یہ احساس بھی ہے کہ مفاہمت کی اس پالیسی کا دیگرسیاسی جماعتوں نے توقع کے مطابق مثبت رد عمل کا اظہار نہیں کیا اور کراچی کو پُر امن بنانے میں معاونت نہیں کی ۔
لیکن اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتاکہ اگر پیپلز پارٹی مفاہمت کی پالیسی اختیار نہ کرتی توعام انتخابات2013 کا مرحلہ شاید نہ آتا ۔ کیونکہ غیر جمہوری قوتیں اس طاق میں بیٹھی ہوئی ہیں کہ ملک میں سیاسی تصادم بڑھے اور انہیں مداخلت کا موقع ملے ۔ مسلم لیگ (ن)کی قیادت کو یہ بات فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ غیرجمہوری قوتیں اب بھی کسی بھی موقع کی طاق میں بیٹھی ہیں ۔
سندھ انتہائی حساس صوبہ ہے ۔ یہاں گزشتہ تین عشروں سے خوں ریزی اور بے گناہ انسانوں کا قتل عام جاری ہے ۔ صرف پیپلزپارٹی ہی نہیں بلکہ 1985سے اب تک آنے والی تمام حکومتیں یہاں امن قائم کرنے میں ناکام رہی ہیں ۔ 1998میں خود میاں نوازشریف میں اپنے ہی وزیراعلیٰ لیاقت علی جتوئی کی حکومت کو برطرف کرکے صوبے میں گورنر راج نافذکردیا تھا ۔ یہی گورنر راج مرکز میں مسلم لیگ حکومت کے انہدام کا سبب بن گیا تھا ۔
مسلم لیگ (ن)کے قائد میاں نوازشریف کے بیان سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ وہ کراچی میں قیام امن کی تمام تر ذمہ داری پیپلز پارٹی کی حکومت پر ڈال کرخود بری الذمہ ہونا چاہتے ہیں اور پیپلزپارٹی کی قیادت کو خدشہ ہے وہ بعد میں سندھ حکومت کو ناکام قراردے کرکہیں گورنر راج نہ نافذکردیں ۔ اگر انہوں نے 1998کی تاریخ دہرائی تو یہ ان کا انتہائی خطرناک فیصلہ ہوگا ۔ مسلم لیگ (ن) کے قائد یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ کراچی کی بدامنی کے تانے بانے کہیں اور جاکرملتے ہیں ۔ ریاست کے طاقتور ادارے بھی یہاں امن قائم نہیں کرسکے ہیں اور وہ خاموش تماشائی بنے رہے ہیں ۔
اب وقت آگیا ہے کہ میاں نوازشریف کراچی میں قیام امن کے لیے گہرے پانیوں میں اتریں۔ پیپلز پارٹی نے کراچی کی بدامنی کا بہت خمیازہ بھگت لیا ہے ۔ اس کے متعدد رہنما اور ہزاروں کارکنان دہشت گردی کا شکار ہوچکے ہیں ۔ دہشت گردی کے خلاف پیپلزپارٹی جس حد تک آگے گئی ، اس حد تک کوئی بھی نہیں گیا ۔ اب یہ وقت نہیں ہے کہ کراچی کی بدامنی پر سیاست کی جائے۔
پیپلز پارٹی سندھ میں حکومت سازی کے حوالے سے بہت سوچ بچار کر رہی ہے اور اس کی قیادت کو یہ بھی اندازہ ہے کہ مرکز میں مخالف حکومت ہونے کی وجہ سے اسے سندھ میں کن مسائل سے دوچار ہونا پڑسکتا ہے ۔ ان حالات میں پیپلز پارٹی کی قیادت کے لیے سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ سندھ میں وزیراعلیٰ کون ہو ۔
پیپلزپارٹی کے زیادہ تر حلقے اس بات پر متفق ہیں کہ سندھ میں پیپلزپارٹی کو دوبارہ جو مینڈیٹ ملا ہے ، وہ سید قائم علی شاہ کی سابقہ حکومت پر سندھ کے عوام کا اظہار اعتماد ہے ۔ سید قائم علی شاہ کی شخصیت ایسی ہے ، جسے پارٹی میں غیر متنازع قراردیا جاسکتا ہے ۔ اس بات کا قوی امکان ہے کہ سید قائم علی شاہ اس منصب پر فائز ہوسکتے ہیں ، دو لاکھ افراد کو ملازمتیں ، بے نظیر یوتھ ڈیولپمنٹ پروگرام کے تحت ٹریننگز ، بے زمین خواتین کسانوں کو نہ صرف مفت زمین کی فراہمی بلکہ مفت کھاد ، بیج کی فراہمی جیسے منصوبے قائم علی شاہ کیے کریڈٹ پر ہیں۔اس بات کا فیصلہ آئندہ چند دنوں میں ہونے والا ہے۔
پاکستان مسلم لیگ (ن) کومرکز میں حکومت بنانے کے لیے سادہ اکثریت سے بھی زیادہ نشستیں مل چکی ہیں ، اس کے باوجود مسلم لیگ (ن) نے سندھ میں احتجاج کیا ہے اور الزام لگایا ہے کہ انتخابات شفاف نہیں ہوئے ۔ صدرمملکت آصف علی زرداری نے بھی انتخابات کی شفافیت پر شکوک وشبہات کا اظہار کیا ہے ۔ اس سے زیادہ انتخابات کے متنازع ہونے کا اور کیا ثبوت ہوگا ۔
پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت بھی انتخابات کوایک ڈرامہ قراردے رہی ہے ۔ پاکستان مسلم لیگ فنکشنل ، مسلم لیگ (ق) تحریک انصاف ، جماعت اسلامی ، متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیوایم ) ،جمعیت علمائے اسلام (ف)، عوامی نیشنل پارٹی(اے این پی) ، مجلس وحدت المسلمین ، متحدہ دینی محاذ ، سنی تحریک ، بلوچستان کی تمام قوم پرست جماعتوں اور انتخابات میں حصہ لینے والی دیگرجماعتوں نے انتخابات کو نہ صرف غیرشفاف قراردیا ہے بلکہ احتجاجی مظاہرے بھی کیے ہیں ۔کوئی سیاسی جماعت ان انتخابات کو منصفانہ غیر جانبدارانہ اور شفاف ماننے کے لیے تیار نہیں۔
پاکستان کو سیاسی استحکام عطاء کرنے کے سیاسی قوتوں کے جذبے کو نہ صرف سمجھناچاہیے بلکہ اسے سراہا جانا چاہیے ۔ انتخابات کے غیرشفاف ہونے کی سب کے پاس ایک ٹھوس دلیل ہے اور وہ یہ ہے کہ انتخابی نتائج پولنگ اسٹیشنوں پر نہیں تیارہوئے اور پریزائڈنگ افسروں نے دستخط شدہ رزلٹ شیٹس سیاسی جماعتوں کو نہیں دیں ۔
نتائج ریٹرننگ افسروں یا ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسروں کے آفس میں تیار ہوئے ۔ پورے ملک سے یہ شکایت ملی اور صدر آصف علی زرداری نے بھی اسی بنیاد پر انتخابات کی شفافیت پر تحفظات کا اظہار کیا ۔ سیاسی قوتیں اگر ملک میں افراتفری اور انتشار نہیں چاہتی تو اس جذبے کا احترام خاص طور پر مسلم لیگ (ن) پر لازم ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نوازشریف کو چاہیے کہ وہ سندھ میں پیپلزپارٹی کو نہ صرف حکومت بنانے دیں بلکہ حکومت سازی میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے میں بھی مدد دیں ۔
مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نوازشریف نے اگرچہ یہ واضح کردیا ہے کہ سندھ میں پیپلزپارٹی اورایم کیوایم کو مینڈیٹ ملا ہے لہٰذا وہ سندھ میں ان دونوں جماعتوں کی حکومت بنانے کے حق میں ہیں اور مسلم لیگ سندھ میں اپوزیشن کا کردار اداکرے گی۔ اس طرح انہوں نے بین السطور یہ پیغام دے دیا ہے کہ وہ مرکز میں ایم کیوایم اور پیپلزپارٹی کو حکومت میں شمولیت کی دعوت نہیں دے رہے اور انہوں نے یہ بھی فیصلہ سنا دیا ہے کہ پیپلزپارٹی ہی سندھ میں ایم کیوایم کواپنے ساتھ شامل کرے ۔
میاں نوازشریف نے یوں ایم کیوایم سے اپنے راستے الگ کرلیے ہیں ۔ 2008 کے عام انتخابات میں کامیابی کے بعد پیپلزپارٹی کی قیادت نے اپنی قومی مفاہمت کی پالیسی کے تحت مسلم لیگ (ن) سمیت تمام جماعتوں کو وفاق کی حکومت میں شامل دعوت دی تھی بلکہ انہیں شامل بھی کیا تھا ۔ پیپلز پارٹی نے سندھ میں بھی تمام سیاسی جماعتوں کو اپنے گلے لگایا ۔ پیپلز پارٹی کی قیادت کو یہ احساس بھی ہے کہ مفاہمت کی اس پالیسی کا دیگرسیاسی جماعتوں نے توقع کے مطابق مثبت رد عمل کا اظہار نہیں کیا اور کراچی کو پُر امن بنانے میں معاونت نہیں کی ۔
لیکن اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتاکہ اگر پیپلز پارٹی مفاہمت کی پالیسی اختیار نہ کرتی توعام انتخابات2013 کا مرحلہ شاید نہ آتا ۔ کیونکہ غیر جمہوری قوتیں اس طاق میں بیٹھی ہوئی ہیں کہ ملک میں سیاسی تصادم بڑھے اور انہیں مداخلت کا موقع ملے ۔ مسلم لیگ (ن)کی قیادت کو یہ بات فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ غیرجمہوری قوتیں اب بھی کسی بھی موقع کی طاق میں بیٹھی ہیں ۔
سندھ انتہائی حساس صوبہ ہے ۔ یہاں گزشتہ تین عشروں سے خوں ریزی اور بے گناہ انسانوں کا قتل عام جاری ہے ۔ صرف پیپلزپارٹی ہی نہیں بلکہ 1985سے اب تک آنے والی تمام حکومتیں یہاں امن قائم کرنے میں ناکام رہی ہیں ۔ 1998میں خود میاں نوازشریف میں اپنے ہی وزیراعلیٰ لیاقت علی جتوئی کی حکومت کو برطرف کرکے صوبے میں گورنر راج نافذکردیا تھا ۔ یہی گورنر راج مرکز میں مسلم لیگ حکومت کے انہدام کا سبب بن گیا تھا ۔
مسلم لیگ (ن)کے قائد میاں نوازشریف کے بیان سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ وہ کراچی میں قیام امن کی تمام تر ذمہ داری پیپلز پارٹی کی حکومت پر ڈال کرخود بری الذمہ ہونا چاہتے ہیں اور پیپلزپارٹی کی قیادت کو خدشہ ہے وہ بعد میں سندھ حکومت کو ناکام قراردے کرکہیں گورنر راج نہ نافذکردیں ۔ اگر انہوں نے 1998کی تاریخ دہرائی تو یہ ان کا انتہائی خطرناک فیصلہ ہوگا ۔ مسلم لیگ (ن) کے قائد یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ کراچی کی بدامنی کے تانے بانے کہیں اور جاکرملتے ہیں ۔ ریاست کے طاقتور ادارے بھی یہاں امن قائم نہیں کرسکے ہیں اور وہ خاموش تماشائی بنے رہے ہیں ۔
اب وقت آگیا ہے کہ میاں نوازشریف کراچی میں قیام امن کے لیے گہرے پانیوں میں اتریں۔ پیپلز پارٹی نے کراچی کی بدامنی کا بہت خمیازہ بھگت لیا ہے ۔ اس کے متعدد رہنما اور ہزاروں کارکنان دہشت گردی کا شکار ہوچکے ہیں ۔ دہشت گردی کے خلاف پیپلزپارٹی جس حد تک آگے گئی ، اس حد تک کوئی بھی نہیں گیا ۔ اب یہ وقت نہیں ہے کہ کراچی کی بدامنی پر سیاست کی جائے۔
پیپلز پارٹی سندھ میں حکومت سازی کے حوالے سے بہت سوچ بچار کر رہی ہے اور اس کی قیادت کو یہ بھی اندازہ ہے کہ مرکز میں مخالف حکومت ہونے کی وجہ سے اسے سندھ میں کن مسائل سے دوچار ہونا پڑسکتا ہے ۔ ان حالات میں پیپلز پارٹی کی قیادت کے لیے سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ سندھ میں وزیراعلیٰ کون ہو ۔
پیپلزپارٹی کے زیادہ تر حلقے اس بات پر متفق ہیں کہ سندھ میں پیپلزپارٹی کو دوبارہ جو مینڈیٹ ملا ہے ، وہ سید قائم علی شاہ کی سابقہ حکومت پر سندھ کے عوام کا اظہار اعتماد ہے ۔ سید قائم علی شاہ کی شخصیت ایسی ہے ، جسے پارٹی میں غیر متنازع قراردیا جاسکتا ہے ۔ اس بات کا قوی امکان ہے کہ سید قائم علی شاہ اس منصب پر فائز ہوسکتے ہیں ، دو لاکھ افراد کو ملازمتیں ، بے نظیر یوتھ ڈیولپمنٹ پروگرام کے تحت ٹریننگز ، بے زمین خواتین کسانوں کو نہ صرف مفت زمین کی فراہمی بلکہ مفت کھاد ، بیج کی فراہمی جیسے منصوبے قائم علی شاہ کیے کریڈٹ پر ہیں۔اس بات کا فیصلہ آئندہ چند دنوں میں ہونے والا ہے۔