پیپلز پارٹی کی شکست کا ایک پہلو یہ بھی ہے
پنجابی زبان کی بے بدل گائیکہ سرنیدر کور نے تو رومانی ترنگ میں یہ دل موہ لینے والا لوک گیت گایا تھا...
پنجابی زبان کی بے بدل گائیکہ سرنیدر کور نے تو رومانی ترنگ میں یہ دل موہ لینے والا لوک گیت گایا تھا ''نی اک میری اکھ کاسنی دوجا رات دے اُنیندرے نے ماریا (ایک تو میری آنکھ ویسے ہی کاسنی رنگ کی ہے، اوپر سے رات کے جگراتے نے مار ڈالا ہے) یہ تو محبت کا رت جگا تھا۔ لیکن آجکل بجلی کی لوڈشیڈنگ کی وجہ سے ہر خاص وعام کو ''رات دے اُنیندرے نے مار رکھا ہے۔ لاہور میں مئی جون میں اگر دن قیامت کے ہوتے ہیں تو رات بھی کچھ کم نہیں ہوتی ہے۔
ایسے میں بجلی نہ ہو تو کون کمبخت سو سکتا ہے۔ اس گرمی کے موسم میں اتوار کی شب سیفما والے امتیاز عالم صحافیوں کا ایک جتھہ لے کر لاہور کے بلاول ہائوس میں صدر آصف علی زرداری سے ملنے جا رہے تھے۔ میرے دوست ایاز خان اور انجم رشید کے اصرار پر میں بھی اس وفد کا حصہ بن گیا۔ گاڑیوں پر مشتمل یہ قافلہ جب منزل پر پہنچا تو سیکیورٹی والے پریشان ہو گئے کیونکہ انھیں دس بارہ لوگوںکا بتایا گیا تھا' بہر حال جیسے تیسے یہ معاملہ حل ہوگیا اور سارے لوگ بلاول ہائوس کے اندر چلے گئے۔
صدر آصف علی زرداری نے جو کچھ کہا اور ان سے جو سوالات پوچھے گئے' وہ حالیہ انتخابات میں پیپلز پارٹی کی شکست کے بارے میں تھے۔ سوال و جواب کی اس نشست میں صدر صاحب نے بڑے صبر و تحمل سے سخت باتیں سنیں اور عام انتخابات میں پیپلز پارٹی کی شکست کی وجوہات بھی بیان کیں۔ انھوں نے یہ بھی مانا کہ لوڈشیڈنگ بھی ان کی پارٹی کی شکست کی وجہ بنی' ان کے اپنے الفاظ کچھ یوں تھے کہ جب لوگوں کو چھ یا آٹھ گھنٹے بجلی نہیں ملے گی تو وہ ہمیں ووٹ کیوں دیں گے۔یہ ان کی حقیقت پسندی تھی۔ میں نے تو اپنے کالم کے آغاز میں ہی اس نامراد لوڈشیڈنگ کا رونا رویا ہے' اس نے تو انسان کے رومانی جذبات کو قتل کر کے غصے' نفرت اور بیچارگی جیسے منحوس جذبوں کو پروان چڑھا دیا ہے۔
صدر صاحب کی بات سے ظاہر ہوا ہے کہ انھیں لوڈشیڈنگ کے اثرات کا اندازہ تو ہے لیکن انھیں اس کی شدت اور سنگینی کا اندازہ نہیں ہے۔ جناب عالیٰ! پنجاب میں چھ یا آٹھ گھنٹے نہیں بلکہ 12گھنٹے سے 16 گھنٹے تک لوڈ شیڈنگ ہوتی رہی ہے' لوگوں کے کاروبار تباہ ہوگئے اور مزدور بے کار۔ اگر ان کے مطابق لوڈشیڈنگ چھ یا آٹھ گھنٹے تک محدود رہتی ہے تو پنجاب کے عوام لڈیاں ڈالتے لیکن ایسا نہیں تھا۔لوڈ شیڈنگ نے پیپلز پارٹی کے اچھے کاموں پر بھی سیاہی پھیر دی۔ سچی بات ہے، مجھے تو ایسا محسوس ہوا کہ آصف علی زرداری کو پنجاب کے حوالے سے ''ستے خیراں'' کی رپورٹ دی جاتی رہی ' اس ''ستے خیراں'' رپورٹ کو سامنے رکھ کر پنجاب کے بارے میں جو انتخابی حکمت عملی تیار کی گئی' وہ 11 مئی کی رات اپنے منطقی انجام کو پہنچ گئی۔
صدر صاحب نے ریٹرننگ افسروں کو بھی پیپلز پارٹی کی شکست کا ذمے دار قرار دیا اور طالبان کو بھی۔ اس میں بھی سچائی ہو گی لیکن سب کچھ یہی نہ تھا۔ اسٹیبلشمنٹ اور رجعت پسندوں سے پیپلز پارٹی کی پرانی نظریاتی عداوت ہے۔ ذرا وہ وقت یاد کریں' جب سارا دایاں بازو ایک طرف ہوتا اور پیپلز پارٹی تنہا ان کا مقابلہ کرتی تھی۔ وہ جیتتی بھی رہی اور ہارتی بھی رہی' اس بار تو نام نہاد اتحادی بھی اس کے ساتھ تھے لیکن نتیجہ سب کے سامنے ہے۔ میں نے صدر صاحب کی باڈی لینگوئج سے اندازہ لگایا ہے کہ انھیں پیپلز پارٹی کی ایسی شکست کی توقع نہیں تھی۔ وہ الیکشن میں پارٹی کی ناکامی پر خاصے دبائو میں نظر آئے۔ وسطی پنجاب میں تو انھیں کسی حد تک ہارنے کا اندازہ تھا لیکن جنوبی پنجاب میں پارٹی کا جو حشر ہوا' وہ شاید ان کی توقعات کے برعکس تھا' یہاں ن لیگ کی کامیابی نے پیپلز پارٹی کے سرائیکی صوبے کے نعرے کا بولو رام کردیا ہے۔
زرداری صاحب کا خیال ہے کہ شاید لوڈشیڈنگ'طالبان یا ریٹرننگ افسران کا فیکٹر پیپلزپارٹی کی ناکامی کا باعث بنے ہیں لیکن پنجاب میں شکست کی کچھ اور وجوہات بھی ہیں۔میرا خیال ہے کہ پیپلز پارٹی کے بارے میں پہلی بار اینٹی پنجاب ہونے کا تاثر ابھرا۔ جس کے نتیجے میں اس صوبے کی اشرافیہ خصوصاً کاروباری طبقہ پیپلز پارٹی سے مکمل طور پر مایوس ہو گیا اور اس کے پاس نواز شریف کا ساتھ دینے کے سوا کوئی آپشن نہیں بچا۔ ذرا یاد کریں' پیپلز پارٹی کی حکومت نے اقتدار سنبھالتے ہی کالا باغ ڈیم منصوبے کو ہمیشہ کے لیے دفن کرنے کا باضابطہ اعلان کیا تھا' کالا باغ ڈیم پہلے کسی حکومت نے بنایا نہ شاید اب بنے گا لیکن پیپلز پارٹی اگر اس پر روایتی موقف کہ چاروں صوبے متفق ہو جائیں تو اسے بنا دیا جائے گا رکھتی تو کچھ نہیں ہونا تھا۔
محترمہ بے نظیر بھٹو نے بھی یہی موقف اختیار کیے رکھا' پھر نجانے کیوں پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت نے اے این پی کے جوتوں میں پائوں رکھ دیے۔ پھر کچھ عرصے بعد سرائیکی صوبے کا شوشا چھوڑ دیا گیا' پنجاب کو تقسیم کرنے کے لیے اے این پی اور ایم کیو ایم بھی میدان میں کود پڑیں' جب ہزارہ صوبے کی بات کی جاتی تو اس کی بھرپور مخالفت کی جاتی'قارئین آپ خود ہی سوچ لیں، اس قسم کی دوغلی سیاست کے پنجاب کے ووٹر پر کیا اثرات ہونے تھے۔
مئی 2013 کی الیکشن مہم میں پنجاب میں پیپلز پارٹی ورکر مایوس ہو چکا تھا' اسے محسوس ہوا کہ پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت نے پنجاب خصوصاً وسطی اور شمالی پنجاب کو اپنی سیاست سے خارج کردیا ہے۔ پیپلز پارٹی کی لیڈر شپ اس بات پر خوش ہو رہی تھی کہ عمران خان' میاں نواز شریف پر بڑھ چڑھ کر حملے کر رہے ہیں لیکن قیادت کے اس رویے کو پارٹی ورکر بے حسی اور لڑنے سے پہلے شکست تسلیم کرنے سے تعبیر کر رہا تھا۔ رہی سہی کسر پیپلز پارٹی کے امیدواروں نے پوری کردی۔ انھوں نے انتخابی مہم میں پارٹی ورکروں سے رابطہ ہی نہیں کیا، وہ تو گھروں میں بیٹھ سکتے تھے لیکن تھڑوں پر بیٹھے والا ورکر گھر کی چار دیواری میں قید نہیں ہوسکتا۔
حالات سے دل برداشتہ ہوکر یہ ورکر تحریک انصاف کے کیمپ میں چلے گئے۔ میں پیپلز پارٹی کے ایسے ورکروں کو ذاتی طور پر جانتا ہوں جو مایوس ہو کر تحریک انصاف کے امیدواروں کی انتخابی مہم چلاتے رہے۔ سیانے کہتے ہیں کہ بچہ ایک بار گھر چھوڑ کر نکل جائے تو پھر اسے واپس لانابہت مشکل ہوجاتا ہے' اسی طرح جو سیاسی ورکر ایک بار اپنی پارٹی چھوڑ کر دوسرے کے انتخابی دفتر میں بیٹھ گیا' اسے واپس لاناآسان نہیں ہوتاہے۔ پیپلز پارٹی کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ اسے اپنی جنگ خود لڑنی ہے، کوئی عمران خان ان کے لیے نہیں لڑ سکتا۔
ایسے میں بجلی نہ ہو تو کون کمبخت سو سکتا ہے۔ اس گرمی کے موسم میں اتوار کی شب سیفما والے امتیاز عالم صحافیوں کا ایک جتھہ لے کر لاہور کے بلاول ہائوس میں صدر آصف علی زرداری سے ملنے جا رہے تھے۔ میرے دوست ایاز خان اور انجم رشید کے اصرار پر میں بھی اس وفد کا حصہ بن گیا۔ گاڑیوں پر مشتمل یہ قافلہ جب منزل پر پہنچا تو سیکیورٹی والے پریشان ہو گئے کیونکہ انھیں دس بارہ لوگوںکا بتایا گیا تھا' بہر حال جیسے تیسے یہ معاملہ حل ہوگیا اور سارے لوگ بلاول ہائوس کے اندر چلے گئے۔
صدر آصف علی زرداری نے جو کچھ کہا اور ان سے جو سوالات پوچھے گئے' وہ حالیہ انتخابات میں پیپلز پارٹی کی شکست کے بارے میں تھے۔ سوال و جواب کی اس نشست میں صدر صاحب نے بڑے صبر و تحمل سے سخت باتیں سنیں اور عام انتخابات میں پیپلز پارٹی کی شکست کی وجوہات بھی بیان کیں۔ انھوں نے یہ بھی مانا کہ لوڈشیڈنگ بھی ان کی پارٹی کی شکست کی وجہ بنی' ان کے اپنے الفاظ کچھ یوں تھے کہ جب لوگوں کو چھ یا آٹھ گھنٹے بجلی نہیں ملے گی تو وہ ہمیں ووٹ کیوں دیں گے۔یہ ان کی حقیقت پسندی تھی۔ میں نے تو اپنے کالم کے آغاز میں ہی اس نامراد لوڈشیڈنگ کا رونا رویا ہے' اس نے تو انسان کے رومانی جذبات کو قتل کر کے غصے' نفرت اور بیچارگی جیسے منحوس جذبوں کو پروان چڑھا دیا ہے۔
صدر صاحب کی بات سے ظاہر ہوا ہے کہ انھیں لوڈشیڈنگ کے اثرات کا اندازہ تو ہے لیکن انھیں اس کی شدت اور سنگینی کا اندازہ نہیں ہے۔ جناب عالیٰ! پنجاب میں چھ یا آٹھ گھنٹے نہیں بلکہ 12گھنٹے سے 16 گھنٹے تک لوڈ شیڈنگ ہوتی رہی ہے' لوگوں کے کاروبار تباہ ہوگئے اور مزدور بے کار۔ اگر ان کے مطابق لوڈشیڈنگ چھ یا آٹھ گھنٹے تک محدود رہتی ہے تو پنجاب کے عوام لڈیاں ڈالتے لیکن ایسا نہیں تھا۔لوڈ شیڈنگ نے پیپلز پارٹی کے اچھے کاموں پر بھی سیاہی پھیر دی۔ سچی بات ہے، مجھے تو ایسا محسوس ہوا کہ آصف علی زرداری کو پنجاب کے حوالے سے ''ستے خیراں'' کی رپورٹ دی جاتی رہی ' اس ''ستے خیراں'' رپورٹ کو سامنے رکھ کر پنجاب کے بارے میں جو انتخابی حکمت عملی تیار کی گئی' وہ 11 مئی کی رات اپنے منطقی انجام کو پہنچ گئی۔
صدر صاحب نے ریٹرننگ افسروں کو بھی پیپلز پارٹی کی شکست کا ذمے دار قرار دیا اور طالبان کو بھی۔ اس میں بھی سچائی ہو گی لیکن سب کچھ یہی نہ تھا۔ اسٹیبلشمنٹ اور رجعت پسندوں سے پیپلز پارٹی کی پرانی نظریاتی عداوت ہے۔ ذرا وہ وقت یاد کریں' جب سارا دایاں بازو ایک طرف ہوتا اور پیپلز پارٹی تنہا ان کا مقابلہ کرتی تھی۔ وہ جیتتی بھی رہی اور ہارتی بھی رہی' اس بار تو نام نہاد اتحادی بھی اس کے ساتھ تھے لیکن نتیجہ سب کے سامنے ہے۔ میں نے صدر صاحب کی باڈی لینگوئج سے اندازہ لگایا ہے کہ انھیں پیپلز پارٹی کی ایسی شکست کی توقع نہیں تھی۔ وہ الیکشن میں پارٹی کی ناکامی پر خاصے دبائو میں نظر آئے۔ وسطی پنجاب میں تو انھیں کسی حد تک ہارنے کا اندازہ تھا لیکن جنوبی پنجاب میں پارٹی کا جو حشر ہوا' وہ شاید ان کی توقعات کے برعکس تھا' یہاں ن لیگ کی کامیابی نے پیپلز پارٹی کے سرائیکی صوبے کے نعرے کا بولو رام کردیا ہے۔
زرداری صاحب کا خیال ہے کہ شاید لوڈشیڈنگ'طالبان یا ریٹرننگ افسران کا فیکٹر پیپلزپارٹی کی ناکامی کا باعث بنے ہیں لیکن پنجاب میں شکست کی کچھ اور وجوہات بھی ہیں۔میرا خیال ہے کہ پیپلز پارٹی کے بارے میں پہلی بار اینٹی پنجاب ہونے کا تاثر ابھرا۔ جس کے نتیجے میں اس صوبے کی اشرافیہ خصوصاً کاروباری طبقہ پیپلز پارٹی سے مکمل طور پر مایوس ہو گیا اور اس کے پاس نواز شریف کا ساتھ دینے کے سوا کوئی آپشن نہیں بچا۔ ذرا یاد کریں' پیپلز پارٹی کی حکومت نے اقتدار سنبھالتے ہی کالا باغ ڈیم منصوبے کو ہمیشہ کے لیے دفن کرنے کا باضابطہ اعلان کیا تھا' کالا باغ ڈیم پہلے کسی حکومت نے بنایا نہ شاید اب بنے گا لیکن پیپلز پارٹی اگر اس پر روایتی موقف کہ چاروں صوبے متفق ہو جائیں تو اسے بنا دیا جائے گا رکھتی تو کچھ نہیں ہونا تھا۔
محترمہ بے نظیر بھٹو نے بھی یہی موقف اختیار کیے رکھا' پھر نجانے کیوں پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت نے اے این پی کے جوتوں میں پائوں رکھ دیے۔ پھر کچھ عرصے بعد سرائیکی صوبے کا شوشا چھوڑ دیا گیا' پنجاب کو تقسیم کرنے کے لیے اے این پی اور ایم کیو ایم بھی میدان میں کود پڑیں' جب ہزارہ صوبے کی بات کی جاتی تو اس کی بھرپور مخالفت کی جاتی'قارئین آپ خود ہی سوچ لیں، اس قسم کی دوغلی سیاست کے پنجاب کے ووٹر پر کیا اثرات ہونے تھے۔
مئی 2013 کی الیکشن مہم میں پنجاب میں پیپلز پارٹی ورکر مایوس ہو چکا تھا' اسے محسوس ہوا کہ پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت نے پنجاب خصوصاً وسطی اور شمالی پنجاب کو اپنی سیاست سے خارج کردیا ہے۔ پیپلز پارٹی کی لیڈر شپ اس بات پر خوش ہو رہی تھی کہ عمران خان' میاں نواز شریف پر بڑھ چڑھ کر حملے کر رہے ہیں لیکن قیادت کے اس رویے کو پارٹی ورکر بے حسی اور لڑنے سے پہلے شکست تسلیم کرنے سے تعبیر کر رہا تھا۔ رہی سہی کسر پیپلز پارٹی کے امیدواروں نے پوری کردی۔ انھوں نے انتخابی مہم میں پارٹی ورکروں سے رابطہ ہی نہیں کیا، وہ تو گھروں میں بیٹھ سکتے تھے لیکن تھڑوں پر بیٹھے والا ورکر گھر کی چار دیواری میں قید نہیں ہوسکتا۔
حالات سے دل برداشتہ ہوکر یہ ورکر تحریک انصاف کے کیمپ میں چلے گئے۔ میں پیپلز پارٹی کے ایسے ورکروں کو ذاتی طور پر جانتا ہوں جو مایوس ہو کر تحریک انصاف کے امیدواروں کی انتخابی مہم چلاتے رہے۔ سیانے کہتے ہیں کہ بچہ ایک بار گھر چھوڑ کر نکل جائے تو پھر اسے واپس لانابہت مشکل ہوجاتا ہے' اسی طرح جو سیاسی ورکر ایک بار اپنی پارٹی چھوڑ کر دوسرے کے انتخابی دفتر میں بیٹھ گیا' اسے واپس لاناآسان نہیں ہوتاہے۔ پیپلز پارٹی کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ اسے اپنی جنگ خود لڑنی ہے، کوئی عمران خان ان کے لیے نہیں لڑ سکتا۔