پروین رحمن کی پیروی کرنے والے
کراچی میں ایک اور استاد کو قتل کر دیا گیا۔ عبدالوحید کراچی کے مضافاتی پسماندہ علاقے منگھوپیر کی اسلامیہ کالونی۔۔۔
کراچی میں ایک اور استاد کو قتل کر دیا گیا۔ عبدالوحید کراچی کے مضافاتی پسماندہ علاقے منگھوپیر کی اسلامیہ کالونی میں ایک اسکول کے نگراں تھے۔ اس اسکول میں مخلوط تعلیم دی جاتی تھی۔ کراچی میں دو ماہ قبل بھی بلدیہ ٹاؤن کے ایک علاقے اتحاد ٹاؤن میں ایک اسکول پرنسپل کو اسکول کی سالانہ تقریب میں شہید کردیا گیا تھا۔ اس حملے میں تقریب میں شریک طالبات بھی جاں بحق ہوئی تھیں۔ عبدالوحید کراچی غربی میں سماجی سرگرمیوں کے لیے معروف تھے۔ وہ بچوں کو پولیو کی بیماری سے اپاہج ہونے سے بچانے کے لیے قطرے پلانے کی مہم کو منظم کرتے تھے۔ عبدالوحید ایک روشن خیال سیکیولر ذہن کے مالک تھے۔ انہوں نے مدارس میں جدید نصاب رائج کرنے کی کوششوں کو موثر بنانے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔
عبدالوحید ممتاز ریفارمر ڈاکٹر اختر حمید کے قائم کردہ ادارے اورنگی پائلٹ پروجیکٹ سے بھی منسلک تھے۔ اورنگی پائلٹ پروجیکٹ کی ڈائریکٹر پروین رحمن کو بھی نامعلوم قاتلوں نے گزشتہ ماہ شہید کردیا تھا۔ پروین رحمن بھی ملک میں سماجی تبدیلیوں کے لیے کوشاں تھیں۔ پروین رحمن اور عبدالوحید کی سرگرمیوں کا محورکراچی کا وہ علاقہ رہا جہاں پختون آبادی کی اکثریت ہے۔ یہ صوبہ پختون خواہ، افغانستان اور بلوچستان سے روزگار کے لیے ہجرت کر کے کراچی میں آباد ہوئے ہیں۔ان میں سے اکثریت کا تعلق بے زمین کسانوں کے خاندانوں سے ہے۔کچھ خاندانوں کی اپنے آبائی علاقوں میں چھوٹی موٹی اراضی بھی موجود ہے مگر ان زمینوں کی آمدنی نہ ہونے کے برابر ہے۔ ان علاقوں میں اسٹیبلشمنٹ نے ایک منصوبے کے تحت طالبان کو اپنی کمین گاہیں قائم کرنے کا موقع دیا۔ یہ انتہا پسند عناصر جدید طرزِ زندگی اپنانے کے مخالف ہیں۔
یوں ان لوگوں نے قبائلی علاقوں کی طرح ان علاقوں میں بھی پولیو کے قطرے پلانے کی مخالفت کی۔ کراچی کے ان علاقوں میں پولیو کے قطرے پلانے والی ٹیموں پر باقاعدہ حملے ہوئے۔ ان حملوں میں پیرا میڈیکل عملے سے تعلق رکھنے والی 20 خواتین اور ایک پاکستانی ڈاکٹر شہید اور یونیسیف کی طرف سے نگرانی کرنے والے ایک غیر ملکی ڈاکٹر شدید زخمی ہوئے تھے۔ طالبان کا دوسرا نشانہ جدید طرزِ تعلیم ہے۔ وہ اسکولوں کی عمارتیں تباہ کرنے کو کارنامہ سمجھتے ہیں۔ ان لوگوں نے قبائلی علاقوں اور پختون خواہ میں تو اسکولوں کی عمارتوں کو تباہ کیا ہی ہے مگر گزشتہ کئی برسوں سے یہ کراچی کے مضافاتی علاقوں میں بھی اسکولوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ ان عناصر کی سرگرمیوں کی بناء پر انگریزی تعلیم دینے والے نجی اسکول سمٹ رہے تھے۔ سرکاری اسکولوں میں اساتذہ فرائض انجام دینے نہیں آرہے، یوں بچوں کے لیے آوارہ گردی اور لڑکیوں کے لیے گھروں میں بند ہو کر رہنے کے علاوہ کوئی اور چارہ نہیں رہا۔
ان عناصر نے سماجی سرگرمیوں کی ترویج کرنے والی غیر سرکاری تنظیموں کو خاص طور پر نشانہ بنایا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بنیادی صحت اور خاندانی منصوبہ بندی کے اصولوں کی آگہی کے لیے بچوں کے علاج کے معروف ڈاکٹر غفاربلو کی قائم کردہ این جی او کے چار کارکنوں کو کراچی ہاکس بے کے ساحل سے اغواء کیا گیا تھا جنہیں شاید بھاری تاوان دے کر بازیاب کرایا گیا۔ پختون خواہ کے صحافیوں کا کہنا ہے کہ ان انتہاپسندوں نے کے پی اور قبائلی علاقوں میں این جو اوز کو خاص طور پر نشانہ بنایا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ سال پختون خواہ میں چھ خواتین اساتذہ ایک حملے میں جاں بحق ہوئی تھیں۔ لہٰذا امدادی تنظیموں کے حوالے سے پاکستان کا شمار دنیا کے خطرناک ترین ممالک میں ہونے لگا ہے۔ پختون خواہ کی صورتحال کے اثرات اب کراچی تک پہنچ گئے ہیں۔ کراچی میں اساتذہ، پیرا میڈیکل اسٹاف اور سماجی کارکنوں کے قتل نے ایک خطرناک صورتحال پیدا کردی ہے۔
ان علاقوں میں اس صورتحال میں خواتین کی ووٹ ڈالنے کی شرح بھی انتہائی کم رہی۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ کراچی میں ٹارگٹ کلنگ، اغواء برائے تاوان، بینکوں میں ڈکیتیوں اورکاریں چھیننے والے گروہوں کے اڈے بھی ان علاقوں میں قائم ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کراچی ویسٹ اور ایسٹ کے علاقوں میں رینجرز کی گاڑیوں اور عوامی نیشنل پارٹی کے رہنماؤں پر مسلسل خودکش حملے ہوتے ہیں۔ گزشتہ ہفتے انتخاب والے دن بھی مظفرکالونی لانڈھی اور کنواری کالونی منگھوپیر میں این پی کے کارکن اور رینجرز کے اہلکار ان حملوں میں جاں بحق ہوئے۔ انتخابات کے دوران دہشت گردی ایک بنیادی موضوع رہا۔ پیپلز پارٹی، عوامی نیشنل پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ کے لوگ براہِ راست دہشت گردی کا نشانہ بنے۔ مسلم لیگ ن، تحریک انصاف ، مذہبی اور دائیں بازو کی جماعتوں نے دہشت گردی کی ذمے داری پیپلز پارٹی اور اے این پی کی حکومتوں کی پالیسیوں پر عائد کی۔ ان جماعتوں کا کہنا تھا کہ امریکی پالیسی کے خلاف مزاحمت کر کے ہی دہشت گردوں کو روکا جاسکتا ہے۔
میاں نواز شریف نے امریکا سے بات چیت کر کے ڈرون حملوں کو رکوانے اور عمران خان نے امریکی حملوں کا جواب دینے کے نعرے لگائے۔ پختون خواہ اور پنجاب کے عوام نے ان نعروں پر خصوصی توجہ دی۔ اب تحریکِ انصاف کے خیبر پختون خواہ سے نامزد وزیر اعلیٰ پرویز خٹک نے طالبان سے اپیل کی ہے کہ دہشت گردی چھوڑ دیں اور مذاکرات کی میز پر جمع ہوجائیں مگر گزشتہ ہفتے مالاکنڈ میں مسجد میں جمعے کی نماز کے دوران ہونے والے دھماکوں اور فوجی دستوں پر حملوں سے کچھ اور حقائق ہی سامنے آرہے ہیں۔ مسلم لیگ ن اور تحریکِ انصاف کی طالبان سے بات چیت کی پیشکش کے اثرات سمجھا جاسکتا ہے مگر بنیادی معاملہ یہ ہے کہ انتہاپسند اور مسلم لیگ ن 1973کے آئین کی پاسدار ہے۔ عمران خان نے 2002 کے انتخابات میں کامیابی کے بعد اسی آئین پر حلف اٹھایا ہے۔ اب وہ بھی نئی قومی اسمبلی میں حزبِ اختلاف میں شامل ہو کر آئین کی پاسداری کے لیے آواز بلند کریں گے۔
اس صورتحال میں ان عناصر کو سب سے پہلے 1973 کے آئین کے تحت قائم جمہوری حکومت کے ڈھانچے کو تسلیم کرنا پڑے گا۔ ان لوگوں نے انتخابات کے خلاف فتوے تقسیم کیے تھے اور شریعت کے نفاذ کا مطالبہ کیا تھا۔ اب صورتحال کو واضح کرنا ہوگا۔ اسی طرح جدید طرزِ تعلیم اور صحت کے اصولوں پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوسکتا۔ یوں خواتین کو گھروں میں مقید کر کے کسی مخصوص فرقے کی شریعت نافذ نہیں کی جاسکتی۔ پھر امریکی ڈرون حملوں کو روکنے کے لیے ضروری ہے کہ پاکستان کی سرزمین انتہاپسندوں کے اڈوں کے طور پر استعمال ہونے سے روکا جائے۔ میاں نواز شریف کے پہلے اور دوسرے دور میں اسٹیبلشمنٹ کی زیر نگرانی انتہاپسندوں کی عسکری تربیت کے کیمپوں کا ذکر اب بھی ہوتا ہے۔ یوں ان جماعتوں کے لیے طالبان کے مطالبات تسلیم کرنا اتنا آسان نہیں ہوگا۔ نئی حکومتوں کو ان عناصر کی سرگرمیوں کے تدارک کے لیے انتظامی اقدامات کا سہارا لینا ہوگا۔ سندھ میں پیپلز پارٹی حکومت بنائے گی، اس بات کا امکان ہے کہ ایم کیو ایم بھی سندھ حکومت میں حصے دار ہو، وفاق میں مسلم لیگ ن راج کرے گی۔
اس سیاسی تناظر میں کراچی میں انتہا پسندوں کی کمین گاہوں کے خاتمے کے لیے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو مشترکہ حکمت عملی اپنانی ہوگی۔ اس حکمت عملی کی کامیابی سے کراچی میں امن قائم ہوسکتا ہے۔ اس ملک کے مستقبل کے لیے ضروری ہے کہ کراچی کو انتہاپسندوں سے صاف کیا جائے، یوں کراچی میں امن قائم ہوگا جس کے نتیجے میں ترقی کا عمل تیز ہوگا، جس کا فائدہ پورے ملک کو ہوگا۔ کراچی میں اساتذہ اور غیر سرکاری تنظیموں کے کارکنوں کا قتل نہ صرف عوام کے حالاتِ کار کو متاثر کررہا ہے بلکہ ملک کی ترقی کے ساتھ ساتھ دنیا بھر میں پاکستان کا امیج بھی بری طرح برباد ہورہا ہے۔ کراچی کے عوام یہ توقع کرتے ہیں کہ اقتدار میں آنے والی آئندہ کی حکومتیں ایسے اقدامات کریں گی کہ آئندہ کوئی استاد قتل نہیں ہو۔اس کے بعد ہی عبدالوحید اور پروین رحمن کی پیروی کرنے والے سرخرو ہونگے اور شہر میں انتہاپسندی کا خاتمہ اور رواداری کا آغاز ہوگا۔