قومی امیدوں کا مرکز میاں نواز شریف

خوش نصیبی کی کیا انتہا ہے کہ میاں محمد نواز شریف تیسری بار اسلامی جمہوریہ پاکستان کے وزیر اعظم بن رہے ہیں۔


Abdul Qadir Hassan May 21, 2013
[email protected]

خوش نصیبی کی کیا انتہا ہے کہ میاں محمد نواز شریف تیسری بار اسلامی جمہوریہ پاکستان کے وزیر اعظم بن رہے ہیں۔ ملک کے منتخب نمایندوں کی بھاری اکثریت ان کے ساتھ ہے، فوج ان کی حمایت کا پیشگی اعلان کر چکی ہے جو یک گونہ ایک یقین دہانی ہے ورنہ اس کی ضرورت نہیں تھی۔ سابقہ حکمران پارٹی کے ساتھ ان کے نہایت ہی قریبی تعلقات ہیں جو سیاسی ضرورتوں میں بھی قائم رہیں گے اور ان کی سب سے بڑی موثر اور خطر ناک اپوزیشن اسپتال میں پڑی ہے یہاں اس کا ریڑھ کی ہڈی ایسی خطر ناک خرابی کا علاج ہو رہا ہے۔ کھیل کے میدان کا شہسوار عمران خان اب ایک محتاط زندگی بسر کرے گا۔ دوسری سیاسی پارٹیاں بہت کمزور ہیں، اس طرح میاں نواز شریف کے اقتدار کو کوئی خطرہ نہیں سوائے ان کے اپنے۔ پاکستان ایک عام ملک نہیں ہے اور نہ ہی پاکستانی کوئی قدیمی چلی آنے والی قوم ہے۔

یہ ملک اور قوم بڑی تند و توانا دشمنی والی تاریخ رکھتے ہیں اور ان کی زندگی جوانی کی زندگی ہے صرف ساٹھ برس کی جو امیدوں اور امنگوں بھری زندگی ہے، اس کے پیچھے ایک مضبوط نظریے کی طاقت ہے جس سے وقت کی سپر پاورز بھی لرزاں رہتی ہیں اور ایک مردہ سپر پاور اس کی گواہ ہے اور نہ جانے تاریخ ایسی کتنی گواہیاں اپنے حافظے میں لیے پھرتی ہے۔ بہر حال میاں نواز شریف عہد حاضر کی تاریخ کی ایک غیر معمولی شخصیت ہیں اور ایسی نادر روز گار شخصیت کو اس کے نظریات روایات اور قومی تمنائوں سمیت سنبھال کر رکھنا میاں صاحب کی اپنی ہمت ہے اور یہ عرض کر دینا ضروری ہے کہ وہ اپنے چھپے دشمنوں سے خبردار رہیں، وہ وقت کبھی نہیں آ سکتا جب بھارت کے ساتھ ہم اچھا سلوک اپنی جگہ لیکن دوستی رکھیں، یہ نا ممکن ہے اور میاں صاحب اس نا ممکن کا زخم کھانے سے پہلے سنبھل جائیں، یہی ان کی ذات گرامی اور قوم کے لیے بہتر ہے۔

جناب میاں صاحب جن ساتھیوں کو اپنے ہمراہ لائے ہیں اور جن کی رونمائی اپنوں نے کرائی ہے، وہ سب اس قوم کے جانے بوجھے ہیں، کئی ایک تو شروع دن سے میاں صاحب کے ساتھ ہیں اور اونچے عہدوں پر رہے ہیں، قوم ان کی کارکردگی کو خوب جانتی ہے، میاں صاحب کی دوسری وزارت عظمیٰ میں بھی ان میں سے بعض دوسرے جو خواتین و حضرات رہے ہیں وہ بھی جانے پہچانے لوگ ہیں اور ان کی کارکردگی بھی قوم کے سامنے ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اب تیسری بار بھی انھی میں سے اکثر لوگ ان کے ساتھ ہوں گے لیکن یہ ملازم لوگ ہیں، ان سے کسی نئی بات کی توقع فضول ہے جو حکم سرکار کا وہی درست ہے قسم کے لوگ ہیں۔ یہاں مجھے چالاک لوگوں کی طرف سے میاں صاحب کی خوشامد کے بعض واقعات یاد آ رہے ہیں لیکن ان کا ذکر مناسب نہیں۔

جب خبر ملی کہ ہمارا بجٹ کون صاحب بنا رہے ہیں تو دل دہل گیا کہ پھر وہی اور معاملہ اس قدر نازک۔ میاں صاحب کے نئے اور پرانے ساتھیوں میں اکثریت انتخابی لوگوں کی ہے جن کی قابلیت صرف یہ ہے کہ وہ الیکشن لڑنے کا گر جانتے ہیں اور ان کی خاندانی حیثیت الیکشن میں اثر دکھاتی ہے۔ وہ کوئی نیا آئیڈیا اور نیا ویژن لے کر نہیں آئے زیادہ سے زیادہ مکھی پر مکھی مار سکتے ہیں۔ میاں صاحب کا سیاسی اور انتظامی اثاثہ ان کا بھائی میاں محمد شہباز شریف ہے۔ ملک کو جو گوناگوں بحران درپیش ہیں، ان میں ایک بڑا بحران انتظامیہ کا بحران ہے۔ ملک انتظامی صلاحیتوں والے لوگوں اور افسروں سے محروم ہو رہا ہے۔ گزشتہ دور اور اس سے پہلے کی کرپشن نے انتظامیہ کو مفلوج کر دیا ہے۔

سول بیورو کریسی جو کسی سیاسی حکمرانی کا دست و بازو ہوتی ہے، اب شاید موجود نہیں ہے، زیادہ سے زیادہ حکم ماننے والے لوگ ہیں اور وہ لوگ اب موجود نہیں جو کسی حکم سے اختلاف کرتے تھے، اس کی وجوہات رکھتے تھے اور دلیل سے اپنی بات منواتے یا مانتے تھے۔ انگریز ایک انتظامیہ چھوڑ گئے تھے، اس نے نئے لوگوں کی تربیت کی، یہ سلسلہ چلتا رہا تا آنکہ آمریتوں نے انتظامیہ کو بے کار کر دیا، صرف حکم کا پابند کر دیا۔ میاں شہباز شریف اپنے وسیع تجربے اور آزادانہ رائے سے اپنے بھائی کی خدمت کر سکتے ہیں لیکن بھائی جان کو اپنی معصومیت اور بھولپن سے نجات پانی چاہیے۔ کون نہیں جانتا کہ کون کس بیرونی ملک کا ایجنٹ ہے، ایسے لوگوں کی باریابی باعث عزت نہیں ہے، یہ مسئلہ تو حل ہوتا رہتا ہے اور من موہن سنگھ پاکستان کی سرزمین پر قدم نہیں رکھتا لیکن ایک ملک کے وزیراعظم کا رویہ بہت اونچا ہونا چاہیے۔ وہ نہیں جو غیر ملکی ایجنٹ بناتے رہیں۔

جناب میاں نواز شریف ایک بڑے ہی طاقت ور وزیر اعظم کے طور پر اپنا دور شروع کرنے والے ہیں جس میں پوری قوم کی عزت ہے اور اسی عزت کی حفاظت پوری قوم کی ذمے داری ہے، ابھی تو انھوں نے حلف لینا ہے جب وہ کام شروع کریں گے تو پوری قوم ان کے ساتھ ہو گی۔

پس نوشت: کئی دنوں سے میرے ایک دوست کے کالم میں میرے بارے میں دو ایک باتیں کہی گئیں جن کی وضاحت ضروری ہے، فرصت نہیں ملی اب پیش ہے۔ میرے کسی بھائی نے پیپلز پارٹی سے الیکشن کی ٹکٹ لینے کی وجہ سے الیکشن ہارا جیتا نہیں بلکہ جیتا ہے۔ میرے مرحوم بھائی میاں سلطان اعوان اپنے حلقے سے پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑے اور کامیاب رہے۔ میرے ایک کزن ملک سیف اللہ خان بہاولنگر کے ضلع سے صوبائی اسمبلی کا الیکشن لڑے اور کامیاب رہے، ان دونوں میں سے کالم نگار کے بقول کوئی ناکام نہیں ہوا۔ رہا میرے بیٹے کی نوکری کا معاملہ تو وہ بے نظیر صاحبہ کے دور میں اپنے میرٹ پر پی آئی اے میں ملازم ہوا۔ وہ حکومت کا ملازم تھا اور ہے ،کسی بے نظیر کا نہیں۔ میری زندگی پر کئی الزامات لگائے جا سکتے ہیں مگر جو بھی ہو وہ سچا ہو۔ جن لوگوں نے یہ کالم لکھوایا ان کو میرے بھائیوں کے الیکشن کا علم ہے اور انھوں نے غلط بیانی کی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔