امریکا کی نئی نسل دماغی خلل کا شکار…
دنیا میں ہر شے کے دو پہلو ہوتے ہیں، ایک خیر کا پہلو اور ایک شرکا پہلو… میڈیا کے بھی دونوں پہلو ہیں۔
دنیا میں ہر شے کے دو پہلو ہوتے ہیں، ایک خیر کا پہلو اور ایک شرکا پہلو... میڈیا کے بھی دونوں پہلو ہیں۔ اسی میڈیا سے ہم تعلیم و تربیت کا اور درست سمت میں رہنمائی کا تعمیری کام لے سکتے ہیں، اور اسی میڈیا سے ہم انسانوں کے بڑے مجمعے کو گمراہ کر سکتے ہیں۔ اس وقت میڈیا خصوصاً انٹرنیشنل میڈیا پر شر کا پہلو غالب ہے۔ انٹرنیشنل میڈیا تعمیری کردار ادا کرنے کی بجائے ایک ہتھیار بن چکا ہے، ایک ایسا ہتھیار جو دو بدو جنگ کیے بغیر ایک فریق کو جتوا سکتا ہے، جو میدان میں نکلے بغیر ہزاروں لاکھوں لوگوں کو بھڑکا کر خون کی ندیاں بہا سکتا ہے۔ اس پروپیگنڈا ہتھیار کے لیے اب میڈیا وار کی اصطلاح وضع ہو چکی ہے۔
سب سے پہلے امریکا نے میڈیا کے دور رس اثرات کو سمجھتے ہوئے اسے انتہائی پر اثر ہتھیار میں تبدیل کیا۔ وہ ہتھیار جس کے ذریعے کروڑوں بلکہ اربوں انسانوں کی مخصوص ذہن سازی کر کے اپنا مطلب بخوبی نکال لیا جاتا ہے، اور وہ اربوں انسان اس ذہنی افیون کے اثرات اس طرح قبول کرتے ہیں کہ بے انتہا ظلم دیکھتے ہوئے بھی خاموش تو کیا رہتے، اس کے برعکس مظلوم کو ظالم سمجھ لیتے ہیں، یوں اس میڈیا نے بلامبالغہ بموں اور میزائلوں سے زیادہ ہلاکت پھیلائی۔ عراق میں مبینہ خطرناک ہتھیاروں کا جھوٹا دعویٰ ہو یا پاکستانی ایٹم بم کا دہشت گردوں کے ہاتھوں میں جانے کا واویلا ہو ۔ یہ سب اسی میڈیا کی کارستانی ہے جس نے صبح شام جھوٹ کی کاشت کی اور وہ اپنے مذموم مقاصد میں اس حد تک کامیاب ہو گئے کہ سچ ، سچ ہوتے ہوئے بھی دفاعی پوزیشن پر آ گیا۔
معاشرے پر اثر انگیزی کے حوالے سے فلم سب سے پراثر میڈیا ہے۔ فلم کا اثر ناظرین پر بہت جلد اور گہرا پڑتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے حکومتوں نے فلم کے میڈیا کو بھی بھرپور استعمال کیا۔ خصوصاً امریکا نے ہالی ووڈ کے ذریعے اپنے نظریات مثلاً نیوورلڈ آرڈر اور اپنی ثقافت کو پوری دنیا پر مسلط کیا۔ مثال کے طور پر روسیوں کے خلاف جہادِ افغانستان سے چونکہ امریکیوں کا مفاد بھی وابستہ تھا، اس لیے اس نے اس وقت کی مقبول ترین فلم سیریز کے کردار ''ریمبو'' کو ایک فلم میں جہاد افغانستان کا ہیرو بنا کر پوری دنیا کو اپنے مقصد سے ہم آہنگ کر لیا۔
اسی طرح یہودیوں نے بھی ہٹلر کو دنیا کا ظالم ترین آدمی باور کرانے اور اپنے اوپر ڈھائے جانے والے فرضی ظلم کی داستان 'ہولوکاسٹ' کو عالمگیر طور پر منوانے کے لیے پرنٹ میڈیا کو استعمال کیا اور اس میں جان ڈالی فلم کے ذریعے سے۔ جب یورپ میں ناظرین ہولو کاسٹ پر بننے والی فلموں کو دیکھ کر سینما سے باہر آتے تو ان کے چہرے آنسوؤں سے بھیگے ہوئے ہوتے اور ان کے د ل میں یہود کی مظلومیت کا نقشہ اچھی طرح جم چکا ہوتا۔
اس کے علاوہ بھی سنیما نے گزشتہ چار دہائیوں میں نفرت، بدلہ، طاقت کے زور پر کچھ بھی کر لینے کا تصور، اسمگلنگ اور منشیات، مافیا کی طاقت، عریانیت، فحاشی، ذو معنی جملے، گالی گلوچ اور بیہودہ مکالموں تک کا سفر طے کر کے پوری دنیا کی تین نسلوں کو متاثر کیا اور ان کی اخلاقیات کو تباہ کر دیا۔ جرائم پر بننے والی فلمیں جرائم کی بیخ کنی کی بجائے جرائم کی نرسری بن گئیں۔ نوجوانوں نے ان فلموں سے عصمت دری، قتل، تاوان اور اغوا کے نت نئے طریقے سیکھے۔ انھوں نے ان فلموں سے انسپائر ہو کر جلد دولت مند بننے کے لیے ڈکیتی، چوری، دن دہاڑے قتل اور لوٹ مار کو اپنا مقصد زندگی بنایا۔
اسی طرح محبت جیسے آفاقی جذبے کے نام پر بننے والی فلموں نے جوان لڑکیوں اور لڑکوں کو آوارگی، عیاشی، عیش کوشی، عصمت فروشی اور عزت لوٹنے کی جانب راغب کیا، جس کے نتیجے میں آج صرف امریکا میں ہر منٹ میں اوسطاً تین عورتین عصمت فروشی کرتی ہیں جب کہ زنا بالجبر کا شکار ہونے والیوں کی تعداد کہیں زیادہ ہے۔ سینما کی شرانگیزی کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ سینما دماغ پر افیون جیسا اثر کرتا ہے۔ اور اس کے اسی غیر معمولی تاثر کی وجہ سے تشدد، ڈکیتی، عصمت دری، خودکشی اور قتل و غارت یہ سب جرائم اتنے پرکشش ہو جاتے ہیں کہ پھر کچے ذہن کے نوجوان حقیقی زندگی میں اس کی نقل کرنے لگتے ہیں، یوں جیمز بانڈ جیسے قاتل اور عیش پرست کردار کو اپنا ہیرو سمجھنے والے نوجوان المیوں کو جنم دیتے ہیں۔
ایسے ہی المیے پچھلے دو سالوں سے تواتر کے ساتھ امریکا اور دیگر ممالک میں جنم لے رہے ہیں۔ دوسروں کے آشیانوں کو پھونک کر تماشا دیکھنے والے خود اپنے ہی ہتھیار کا شکار ہو گئے ہیں۔ جی ہاں امریکا میں کسی عام شہری کی طرف سے فلمی تشدد ، قتل و غارت سے متاثر ہو کر عوامی مقامات پر فائرنگ کر کے معصوم لوگوں کی جان لینے کے گزشتہ دو سال میں دس بڑے واقعات ہوئے ہیں۔ قابل عبرت بات یہ ہے کہ اس طرح کے سب سے زیادہ واقعات تعلیمی اداروں میں ہوئے اور اس قتل و غارت کے ذمے دار قاتل تقریباً سب ہی نوجوان اور طالب علم تھے۔
سب سے بڑا واقعہ 2007 میں ہوا، جب ورجینیا ٹیک یونیورسٹی میں ایک 23 سالہ طالب علم نے اندھا دھند فائرنگ کر کے بتیس طلبا و اساتذہ کی جان لے لی تھی۔ اس واقعے کے بعد تو لائن لگ گئی۔ امریکی نوجوانوں کو قتل و غارت کا یہ طریقہ کار ایسا بھایا کہ پانچ سالوں میں بارہ ایسے واقعات رونما ہوئے جن میں تعلیمی اداروں میں معصوم بچوں کو بے دریغ گولیوں سے بھون دیا گیا۔ ماہرین کے مطابق ان سارے واقعات میں ہونے والی قتل و غارت کا مقصد صرف اپنی وحشی ذہنیت کو تسکین پہنچانا تھا۔ فلم کے ہیرو اور ولن کی طرح اسلحے کے زور پر طاقت کا مظاہرہ اور بے گناہوں کے خون سے ہولی کھیلنے کی مہمیز انھیں ایکشن فلموں سے ہی ملی تھی۔ کولوریڈو سینما کے باہر والا واقعہ تو خاص طور پر اس کی نشاندہی کرتا ہے کہ اس میں قاتل نے فلم کے ولن کا ماسک پہن رکھا تھا۔
اب ایک اور حالیہ رپورٹ دیکھتے ہیں جو امریکا ہی کے ایک ادارے سینٹر فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریوینشن (سی ڈی سی) نے جاری کی ہے کہ امریکا میں ہر پانچواں نوجوان دماغی خلل کا شکار ہے۔ رپورٹ کے مطابق ذہنی امراض یا خلل کے شکار نوجوانوں اور بچوں کی تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے اور امریکا میں سالانہ بنیادوں پر 13 سے 20 فیصد بچے ذہنی بیماریوں کا شکار ہو رہے ہیں۔ سی ڈی سی کی اس رپورٹ کے مطابق امریکی نوجوانوں میں ذہنی امراض کا سب سے بڑا سبب الیکٹرانک میڈیا ہے۔ ان کے مطابق بہت زیادہ باخبری، خصوصاً جنگوں کی خبریں، تشدد پر مبنی ایکشن فلمیں جب تواتر کے ساتھ دیکھی جاتی ہیں تو ذہن اس پر ردعمل ظاہر کرتا ہے جو ڈپریشن کی صورت ظاہر ہوتا ہے، اور پھر آہستہ آہستہ یہ ردعمل خلاف معمول رویہ ظاہر کرنے لگتا ہے، مثلاً اپنے ہی والدین کو قتل کر دینا، چھوٹے معصوم بچوں پر تشدد کر کے ان کی جان لے لینا اور اسی نوعیت کے ایب نارمل رویے ظاہر ہوتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ اس رپورٹ کے مطابق امریکی نوجوانوں میں زیادہ پائی جانے والی ذہنی بیماری خلافِ معمول رویے سیکھنے کی خصوصیت ہے جو ان میں 6.8 فیصد کی شرح سے موجود ہے ۔ ذہنی اضطراب کی شرح 3 فیصد، ڈپریشن یا مالیخولیا کی شرح 2.1 فیصد، خود فکری کی بیماری 1.1 فیصد کے حساب سے پائی جاتی ہے۔ مذکورہ شرح عرصہ 2005 سے 2011 کے درمیان ناپی گئی ہے۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ امریکی بچوں میں ذہنی بیماریوں سے خودکشی کی شرح بھی اس تیزی سے بڑھ رہی ہے کہ خود کشی بچوں یا نوجوانوں کی اموات کی دوسری بڑی وجہ بن چکی ہے۔ یہ رپورٹس دیکھ کر مجھے امریکی بچوں پر ترس آنے لگا ہے۔ یہ بے چارے بچے بظاہر تو اس سپر پاور میں پیدا ہوئے ہیں، جس کا آرڈر دنیا کے ایک وسیع علاقے پر چلتا ہے، لیکن یہ بے چارے شفقت اور محبت کے بنیادی حق سے محروم رہتے ہیں۔ ان کے بچپن کو اس بے دردی سے گھائل کر دیا جاتا ہے کہ وہ ذہنی مریض بن جاتے ہیں اور پھر اس کا بدلہ وہ اپنے جیسے ہی بچوں سے لیتے ہیں یا پھر بڑے ہو کر دنیا کے انسانوں کے لیے ایک عذاب بن جاتے ہیں۔
لگتا یہ ہے کہ مکافات عمل کا عالمگیر قانون ِ قدرت حرکت میں آ گیا ہے۔ امریکا نے طاقت کے زعم میں دنیا بھر میں خون کی جو ہولی کھیلی ہے، اس میں ہزاروں لاکھوں بچوں نے بھی غسل کیا ہے۔ اس کی میڈیا وار کے نتیجے میں عراق اور افغانستان میں، اس کے ڈرون حملوں کے نتیجے میں پاکستان میں اور اس کی سرپرستی میں اسرائیل کے ذریعے فلسطینی بچے جس طرح بن کھلے مرجھا گئے، یہ اسی کا نتیجہ ہے۔ شاید اپنے ہی میڈیا گزیدہ نوجوانوں کے ہاتھوں اپنے معصوم بچوں کا قتل اور اپنے بچوں کے ذہنی امراض انھیں اس بات کا احساس دلا دے کہ دوسروں کے گھروں کو آگ لگانے والے کا اپنا گھر بھی جلتے دیر نہیں لگتی۔