فیس بک پر الیکشن
فیس بک دنیا کی پانچ ٹاپ کی ویب سائٹ میں سے ایک ہے جہاں پر اس وقت ایک بلین سے زیادہ اکاؤنٹ ہیں۔
فیس بک دنیا کی پانچ ٹاپ کی ویب سائٹ میں سے ایک ہے جہاں پر اس وقت ایک بلین سے زیادہ اکاؤنٹ ہیں۔ دنیا بھر کے لوگوں میں چاہے جتنے بھی اختلافات کیوں نہ ہوں ایک بات سب میں مشترک ہے اور وہ ہے فیس بک کو استعمال کرنا۔ اسلامک اسکالر ہوں یا کوئی ڈاکٹر، دنیا میں کوئی تنہا ہو یا شہرت کی بلندی پر چڑھا اسٹار، گلی کے دودھ والے سے لے کر عاطف اسلم تک سب فیس بک کا حصہ ہیں۔
فیس بک 2004 میں متعارف ہونے والی وہ سوشل سائٹ ہے جو آتے ہی لوگوں میں ہٹ ہو گئی اور بہت جلد دنیا بھر کے لوگ اس پر اپنے پروفائلز بنانے لگے۔ کئی لوگ یہ بات نہیں جانتے کہ فیس بک بنانے والے مارک زوبر برگ نے یہ سائٹ اپنی گرل فرینڈ پر غصہ آنے کی وجہ سے نشے میں رات بھر بیٹھ کر صرف اس لیے بنائی تھی کہ وہ اپنے کالج کی خوبصورت لڑکیوں کی تصویریں ڈالیں اور کالج کے باقی ان کی طرح تنہا لڑکے ان تصویروں کے نیچے کمنٹس لکھیں اور ان کا مذاق بنائیں۔
تصویریں ڈالنا اور ان پر اپنے تاثرات لکھنا پہلے مارک کے اپنے کالج والوں کو پسند آیا پھر امریکا کے دوسرے کالجوں کے طلباء کو پھر باقی دنیا کے طلباء نے اس سائٹ پر آنا شروع کر دیا جس کے بعد یہ طلباء سے نکل کر عام لوگوں میں بھی خاص ہو گئی۔
فیس بک کی کامیابی کی دو بڑی وجوہات تھیں۔ ایک تو لوگوں کو اس کے ذریعے دوسروں کی زندگی میں جھانکنے کا موقع مل گیا دوسرا ہر انسان کو وہ اسٹار بننے کا موقع مل گیا جو وہ دل ہی دل میں خود کو مانتا تھا لیکن دنیا کو بتانے کا ذریعہ نہیں تھا۔ وہ زندگی جو لوگ جینا چاہتے تھے اپنی تصویریں اور اسٹیٹس ڈال کر جی لیتے۔ چاہے زندگی جتنی بھی مشکل کیوں نہ ہو لیکن فیس بک پر لوگوں کی دکھاوے کی زندگی بالکل پرفیکٹ۔
کچھ دن پہلے فیس بک نے اپنا Home نامی فون امریکا میں لانچ کیا جس میں فون پر ہر کام فیس بک کے ذریعے ہو گا۔ اپریل بارہ 2013کو لانچ ہونے والا یہ فون امریکا میں اتنی بری طرح فلاپ ہوا کہ صرف پندرہ ہزار فون بکے اور اس وجہ سے اسے فوراً بیچنا بند کر دیا گیا لیکن ٹھیک اس وقت جب فیس بک فون امریکا سے فلاپ ہو رہا تھا پاکستان میں فیس بک پر لوگوں کا الیکشن کو پروموٹ کرنا سپر ہٹ ہو رہا تھا۔
فیس بک، ٹوئٹر، یوٹیوب وہ سائٹس ہیں جو اکثر مختلف وجوہات کی بنا پر BAN کر دی جاتی ہیں لیکن ایک لمبے عرصے سے جہاں یو ٹیوب بین ہے وہیں فیس بک پر کوئی پابندی نہیں لگی ہے پچھلے آٹھ نو سال میں ہم نے پاکستان میں فیس بک کو کسی بہتر کام میں آتے دیکھا۔ وہ بہتر کام جس کی وجہ سے لوگوں کو ایک نیا پاکستان بننے کی امید تھی۔
کئی سو سال میں جو نہیں ہوا وہ امریکا میں اب ہو گیا۔ ایک افریقن امریکن شخص امریکا کا صدر بن گیا۔ کئی لوگ یہ نہیں جانتے کہ صدر اوباما نے الیکشن سے پہلے ایک زبردست کیمپین سوشل نیٹ ورکنگ سائٹ پر چلائی تھی جہاں وہ یوتھ سے رابطہ رکھتے۔ امریکا میں رہتے ہوئے صدر اوباما کی الیکشن کیمپین کو قریب سے دیکھتے ہوئے اور کئی شہروں کے کیمپنگ آفسوں سے بات کر کے ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ اگر اوباما کیمپنگ کے وقت ٹوئٹر اور فیس بک نہ ہوتا تو ان کا جیتنا ناممکن تھا۔
فیس بک، ٹوئٹر کی وجہ سے اوباما کے لیے ایسے نوجوانوں نے کیمپنگ کی جو شاید پہلے ووٹ ڈالنے کا سوچتے بھی نہیں اور یہی کچھ ہم نے اس بار پاکستان کے الیکشن میں بھی دیکھا۔
الیکشن سے کچھ پہلے ایک عجیب سا بدلاؤ پاکستانیوں کی فیس بک پر آنے لگا جو لوگ صرف اپنے پروفائلز پر شاہ رخ اور ایشوریا رائے کے پوز میں کھنچوائی اپنی تصویریں ڈالتے تھے، وہ ان پاکستانی لیڈرز کی تصویریں ڈالنے لگے جنھیں وہ سپورٹ کر رہے تھے۔
فیس بک پر پاکستانیوں کی الیکشن کیمپنگ بہت تیزی سے بڑھتی نظر آنے لگی۔ اس سے پہلے ایسا نہیں تھا کہ پاکستانیوں نے کسی چیز کے لیے فیس بک پر سپورٹ نہ دکھائی ہو۔ اکثر و بیشتر جب بھی کوئی کرکٹ ٹورنامنٹ ہوتا ہے تو فیس بک پر درجنوں فین پیجز بنا لیے جاتے ہیں نہ صرف یہ بلکہ لوگ کرکٹرز کی تصویریں ڈالتے اور ہر میچ پر بات کرتے بھی نظر آتے ہیں، کئی لوگوں کا یہ بھی خیال ہے کہ صدر مشرف کے پاکستان آنے کی وجہ یہ بھی ہے کہ انھوں نے اپنی سپورٹ میں فیس بک پر کئی ملین لوگوں کو دیکھا اور وہ اس سپورٹ کو دیکھ کر جذباتی ہو کر پاکستان چلے آئے۔
پاکستانیوں نے جتنا جوش و خروش اس بار الیکشن کے لیے فیس بک پر دکھایا پہلے کبھی کسی چیز کے لیے نہیں دکھایا تھا۔ شاید ہی کوئی پاکستانی فیس بک پر ایسا موجود ہو گا جو کچھ نہ کچھ اپنے پروفائل پر الیکشن سے تعلق نہ ڈال رہا ہو۔ اس تیزی سے بڑھتے ہوئے رجحان کو دیکھ کر ہمیں لگا کہ جو کامیابی پاکستانی لیڈرز اس چیز سے حاصل کر سکتے تھے وہ نہیں کی۔ فیس بک پر زیادہ تر پاکستانی عمران خان اور تحریک انصاف کو سپورٹ کر رہے تھے اور یہی وہ چیز ہے جس کا فائدہ عمران خان نے پوری طرح نہیں اٹھایا۔
پاکستانی سیاسی پارٹیوں کے اپنے آفیشل فیس بک پیجز موجود ہیں جنھیں دو سے چار لوگ دن میں دس سے بارہ دفعہ اپ ڈیٹ کرتے ہیں اور بس جس میں پی ٹی آئی بھی شامل ہے۔ صدر اوباما کی کامیابی دیکھ کر اور پی ٹی آئی کی فیس بک پر تیزی سے بڑھتے ٹرینڈ کو دیکھ کر کچھ چیزیں عمران خان کو ضرور کرنی چاہئیں تھیں، ایک تو عمران خان کو صدر اوباما کی طرح کیمپنگ کے دوران خود ڈائریکٹ messages لکھنے سے لوگ خود کو عمران خان سے زیادہ قریب محسوس کرتے ساتھ ہی ہر پولنگ اسٹیشن کا ایک الگ آفیشل پیج اور الیکشن کے دن پولنگ اسٹیشن سے باہر کی لائیو کیمرے سے ویڈیو فیس بک پر دکھانے سے دھاندلی کے واقعات میں کمی اور لوگوں کا فیس بک پرانے پولنگ اسٹیشن کا لائیو آنکھوں دیکھا حال دیکھنے کا موقع ملتا۔ اس کے علاوہ فیس بک اسپیشل appearance جس میں آپ لکھیں اور عمران خان کیمرے پر بیٹھ کر آپ کے سوالوں کے جواب دیں بھی کیمپین کا حصہ نہیں تھا۔
فیس بک ایڈورٹائزنگ میں بھی ہم نے کسی پارٹی کا کوئی خاص انٹرسٹ نہیں دیکھا جس میں ہر پاکستانی کا فیس بک کھولنے پر اسے الیکشن سے متعلق اشتہار نظر آتے۔ الیکشن ختم ہو گئے لیکن لوگ ابھی تک فیس بک پر الیکشن کی بات کر رہے ہیں سارے لیڈرز کو اس ٹرینڈ سے یہ ضرور سیکھنا چاہیے کہ اگلی بار فیس بک پر اپنی کیمپین کو سنجیدگی سے لیں تو یہ کسی بھی میڈیا سے زیادہ طاقتور ثابت ہو سکتا ہے اور اگر کہیں انھیں اپنی مخالف پارٹی فیس بک پر پاکستان میں زیادہ مقبول ہوتی نظر آئے تو پاکستان میں کچھ عرصے کے لیے فیس بک بند کروانے کی کوشش ضرور کریں یہ پاکستان ہے، یہاں کچھ بھی ہو سکتا ہے۔