ہم نے جو دیکھا
انتخابات کے بعد وہ سورج طلوع ہو چکا ہے جس کا مژدہ ہر سیاسی جماعت، ہر امیدوار عوام کو وعدوں وعیدوں۔۔۔
انتخابات کے بعد وہ سورج طلوع ہو چکا ہے جس کا مژدہ ہر سیاسی جماعت، ہر امیدوار عوام کو وعدوں وعیدوں کی برسات میں ہر روز سر شام سنایا کرتے تھے۔ کہا جاتا تھا کہ 11 مئی کا سورج نوید انقلاب بن کر طلوع ہو گا لیکن پاکستان کی 65 سالہ تاریخ کے تناظر میں یقین تو کیا گمان سے بھی نہیں کہا جا سکتا ہے کہ یہ سورج عوام کے لیے وہی ترقی، خوشحالی و امن کے سندیسے لایا ہو۔ گزشتہ 65 سال سے پاکستانی عوام مختلف نعرے سن رہے ہیں جن میں انتخابات یا کسی تحریک کے دوران زیادہ تیزی آ جاتی ہے۔ مثلاً ہم پاکستان کو اسلام کا قلعہ بنادیں گے، ہمیں قائداعظم کا پاکستان چاہیے، ہمیں حضرت اقبال کا پاکستان چاہیے، جہاں تک پاکستان کو اسلام کا قلعہ بنانے کی بات ہے تو آج یہ قلعہ اس قدر بوسیدہ ہو چکا ہے کہ اس کا ایک حصہ تو جھڑ چکا ہے اور بقیہ حصوں کو مذہب کے نام پر سیاست کرنے والوں نے اس حال تک پہنچا دیا ہے کہ وہ پہچانا نہیں جاتا۔
یہاں ہر ایک کا اسلامی نظام الگ الگ ہے، انتخابات قوموں کی زندگی میں تبدیلی اور تیز قیادت کی نوید لے کر آیا کرتے ہیں۔ پاکستان بننے کے بعد ہونے والے انتخابات میں ہم ایک اکائی تھے پھر جوں جوں انتخابات ہوتے گئے ہم 5 صوبوں میں تقسیم ہوئے پھر آدھے پاکستان میں تقسیم ہوئے پھر لیفٹ اور رائٹ میں منقسم ہوئے، پھر بھٹو اینٹی بھٹو میں تقسیم ہوئے۔ آج قوم کی انتھک محنت اور سیاستدانوں کے فضل و کرم سے ہم آدھے، صوبوں، بھٹو ازم، زبانوں سے گزرتے ہوئے، مہاجر، سرائیکی، بلوچی، پنجابی، سندھی، پختون کے ساتھ ساتھ چھوٹے چھوٹے علاقوں میں تقسیم ہو چکے ہیں، قوم، قومی وحدت، پاکستان سب پیچھے رہ گئے، دولت، جھوٹ، مکر و فریب و فراڈ آگے آ گئے۔
ہم پھر ہار گئے، خواب پیچھے رہ گئے۔ پاکستان میں کچھ عرصے سے ایک محاورہ نعرہ بن چکا ہے کہ ''یہ جمہوریت کا حسن ہے'' چنانچہ جمہوریت کے حسن کے کھاتے میں ہر قسم کے انتقام، نفرت، محاذ آرائی اور منفی جذبات ڈال دیے گئے ہیں۔ جمہوریت کی صحیح روح اور اس کا اصلی حسن تو برداشت، ہم آہنگی، اور باطنی اتحاد ہے، ہم نے جمہوریت کا ڈھانچہ تو قبول کر لیا ہے لیکن اس کی روح کو قبول نہیں کیا، چنانچہ ہم جمہوریت کے صحیح حسن سے قطعی محروم ہیں۔ پچھلی حکومت نے جمہوریت کو جیسے تیسے بچایا لیکن اب اس کا تسلسل برقرار ہی نہیں بلکہ اس کو مضبوط و توانا کرنا ہے۔
اگر ہم گزشتہ دنوں ہونے والے تبصروں اور تجزیوں کی بات کریں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ پاکستان میں کوئی بھی جماعت چاہے پی ایم ایل (ن) 124 نشستوں کے باوجود اکثریتی پارٹی کے طور پر سامنے نہیں آ سکے گی۔ اگر نواز شریف حکومت بنانے میں کامیاب بھی ہو گئے تو انھیں مختلف پارٹیوں کی حمایت درکار ہو گی، یوں انھیں اس طرح کھل کر کام کرنے نہیں دیا جائے گا جیسا کہ وہ کرنا چاہیں گے اس صورت میں انھیں مشکل صورت حال کا سامنا کرنا پڑے گا، لیکن حالات جیسے بھی ہوں اب انھیں Deliver کرنا پڑے گا کیونکہ اب پاکستان کی عوام کے پاس عمران خان ایک چوائس اور ہو گئے ہیں لہٰذا بیڈ گورننس کا اب سوال پیدا نہیں ہوتا۔ انھیں آزاد میڈیا کی سخت تنقید اور آزاد عدلیہ کا بھی سامنا ہو گا ایسے میں اگر وہ حالات کو اپنے مطابق نہ کر سکے تو ملک میں ایک مرتبہ پھر مڈٹرم انتخابات کے حالات پیدا ہو جائیں گے۔
ایک بات اور جو میرے خیال میں ہے کہ عمران خان کو اس مرتبہ حکومت بنانے کے لیے مطلوبہ اکثریت حاصل نہیں ہو سکی تو ہو سکتا ہے مڈٹرم الیکشن کے بعد پوری اکثریت حاصل کر سکیں۔ پی ایم ایل (ن) اور تحریک انصاف کو بھرپور اشتہاری انتخابی مہم چلانے کا موقع ملا۔ ملک کی دیگر لبرل، پروگریسو جماعتوں کو انتخابی مہم چلانے ہی نہیں دی گئی اور ان پر اتنے زیادہ حملے کیے گئے کہ وہ عوام تک رسائی ہی نہیں کر پائے جس سے ان کے ووٹ بینک پر بھی اثر پڑا۔ ایم کیو ایم، اے این پی خاص طور پر ایسی جماعتیں ہیں جنہوں نے اس انتخابی مہم میں اپنے قائدین، ورکرز اور امیدواروں کی جانوں کی قربانیاں پیش کی ہیں، صرف تحریک انصاف، مسلم لیگ (ن)، جماعت اسلامی اور جے یو آئی کو انتخابی مہم چلانے کی کھلی آزادی دی گئی۔
صرف اس لیے کہ ان کے لیے تحریک طالبان کا نرم رویہ ہے یا دوسرے الفاظ میں وہ انھیں اپنا حمایتی تصور کرتے ہیں، زیادہ دکھ کی بات یہ ہے کہ ان جماعتوں نے ایم کیو ایم، اے این پی پر ہونے والے حملوں کی کھل کر مذمت تک نہیں کی۔ انھوں نے اس صورت حال سے فائدہ اٹھایا جس کا مطلب یہ ہے کہ حصول اقتدار کے لیے کچھ بھی کیا جا سکتا ہے۔ مفادات پر مبنی سیاست ہی کا نتیجہ ہے کہ وسائل سے مالامال یہ ملک آج غربت، بدامنی، اور جہالت کی آماجگاہ بن چکا ہے جب کہ اقتدار پرست طبقات کے پاس اس قدر دولت جمع ہو چکی ہے کہ پاکستان میں رکھنے کے لیے ان کے پاس جگہ کم ہے اور وہ اسے دیار غیر میں رکھنے پر مجبور ہیں۔
2013کے انتخابات میں جو بات قابل غور تھی وہ تھا ووٹ ٹرن آؤٹ، 1970 کے انتخابات کے بعد 2013 میں یہ ٹرن آؤٹ زیادہ دیکھنے میں آیا جو الیکشن کمیشن کے مطابق 60% سے زیادہ ہے، اس کا سہرا میڈیا کو جاتا ہے جس کا اعتراف خود فخرالدین جی ابراہیم صاحب نے کیا ہے۔ یہ امر باعث اطمینان ہے کہ تمام سیاسی جماعتوں نے سیکیورٹی کے انتہائی سنگین مسائل کے باوجود عوام کے ساتھ رابطوں کو برقرار رکھا۔ پاکستان کے عوام نے انتخابات میں مخالف عناصر کی دھمکیوں، بم دھماکوں اور خود کش حملوں کے ماحول کے باوجود اپنے قومی فریضے کو احسن طریقے سے ادا کیا اور جس ہمت و حوصلے کا مظاہرہ کیا وہ قابل ستائش ہے۔
تمام سیاسی و غیر سیاسی قوتوں کے لیے ان کا یہ پیغام واضح ہے کہ وہ بابائے قوم محمد علی جناح کے افکار کے مطابق اپنے وطن کو صحیح معنوں میں فلاحی جمہوری ریاست بنانا چاہتے ہیں، پاکستان کے مزدور، کسان، تاجر، استاد، وکلا، صنعتکار، محنت کش سمیت ہر شعبے اور پیشے سے تعلق رکھنے والے ایک ایک فرد کی نئے حکمرانوں سے بہت سی توقعات وابستہ ہیں، ان توقعات کو پس پشت ڈالا گیا یا ملک اور عوام کے مفاد پر انفرادی یا گروہی مفادات کو ترجیح دی گئی تو موجودہ نظام پر عوام کا اعتماد بری طرح مجروح ہو گا۔ خدارا! اس اعتماد کو مجروح نہیں ہونے دیں۔ عوام نے ووٹ کی طاقت سے جن امنگوں کا اظہار کیا ہے ان کی تکمیل کو یقینی بنائیں۔ آپ پورے پاکستان کے حکمران ہیں صرف ایک صوبے کے نہیں، صوبے کی سیاست سے باہر نکلیں اور ملک کے لیے کام کریں۔
ملک میں حقیقی تبدیلی کے لیے سماجی و معاشی انصاف ضروری ہے، قومی پیداوار اور سرکاری وسائل محاصل کا دائرہ وسیع کیے بغیر غربت و افلاس کا خاتمہ ممکن نہیں اور اس کے لیے ماضی کی نسبت محض وعدوں کے بجائے عملی اقدامات کی ضرورت ہے اور انتخابات کے بعد جو بھی سیاسی قیادت سامنے آئے اسے ملک کے معاشی حالات کے پس منظر میں ایسی پالیسی نافذ کرنا ہو گی جس سے ملک کو درپیش مسائل کے حل میں مدد مل سکے۔ اور آخر میں یہ بات تو طے ہے کہ آیندہ حکومت کے لیے حالات سازگار نہیں ہوں گے ان کو فوراً ہی IMF کو جو قسط دینی ہے جس کے نہ دینے کی وجہ سے ملک دیوالیہ بھی ہو سکتا ہے، پھر سال کے آخر میں چیف جسٹس آف پاکستان چوہدری افتخار اپنے عہدے سے سبکدوش ہو رہے ہیں جن کے ساتھ ساتھ چیف آف دی آرمی اسٹاف جناب کیانی بھی۔ مسلم لیگ (ن) کے لیے آیندہ حکومت پھولوں کی سیج نہیں ہوگی۔