پولیس کی اصلاح ضروری ہے
ایک اور الزام بھی پولیس پر عائد کیا جاتا ہے کہ پولیس کسی بھی شخص کو کسی معمولی سے جرم کے الزام میں گرفتار کرتی ہے۔
1857 کا دور ہے، ایسٹ انڈیا کمپنی جوکہ تجارت کی غرض سے ہندستان میں داخل ہوئی تھی اس کے سامراجی تسلط کو سو برس پورے ہوچکے ہیں، چنانچہ اس موقع پر ہوتا یہ ہے کہ سات سمندر پار سے آنے والے حکمران فوجیوں کو بندوق کے جو کارتوس دیتے ہیں ان کارتوس کے بارے میں عام خیال یہ ہے کہ ان کارتوسوں میں خنزیر یا گائے کی چربی استعمال ہوتی ہے، مسئلہ یہ درپیش آتا ہے کہ گائے ہندو مذہب کے پیروکاروں کے نزدیک مقدس تصور کی جاتی ہے اور خنزیر مسلمانوں کے نزدیک نجس جانور کی علامت ہے۔
ہوتا یہ ہے کہ اس کارتوس کے استعمال سے قبل اس کی پن کو منہ میں ڈال کر دانتوں سے نکالا جاتا ہے پھر وہ کارتوس استعمال کیا جاتا ہے، چنانچہ ہندو و مسلم دونوں اس عمل پر اپنے اپنے مذہبی عقائد کی بنا پر اعتراض کرتے ہیں، مگر انھیں مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ یہ کارتوس استعمال کریں، چنانچہ قبل ازیں انفرادی حیثیت میں بعدازاں کثیر تعداد میں ہندوستانی فوجی انکار کردیتے ہیں۔
سزاؤں کا عمل شروع ہوتا ہے مگر دوسری جانب میرٹھ چھاؤنی سے علم بغاوت بلند ہوتا ہے اور یوں آزادی کی تحریک کا آغاز ہوتا ہے جوکہ چند ہی یوم میں پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔ ہندوستانی اسے جنگ آزادی کا نام دیتے ہیں اور ایسٹ انڈیا سامراج اسے غدر کا نام دیتی ہے۔ جنگ آزادی کا عمل ناکام ہو جاتا ہے، البتہ اب ہندوستان کے تمام حکومتی امور برٹش سرکار اپنے ہاتھ میں لے لیتی ہے، چنانچہ برٹش سرکار ہندوستان کے حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے پولیس کا محکمہ قائم کرتی ہے۔
1861 میں پولیس سامراجی سرکار کا قائم کردہ محکمہ تھا، پولیس کو لامحدود اختیار حاصل تھے، معمولی سے معمولی جرم کے لیے سخت سزائیں دی جاتیں۔ ظاہر ہے یہ ایک سامراج کا قائم کردہ محکمہ تھا جو کہ غلام نو آبادی کے لیے قائم کیا گیا تھا، چنانچہ ایسے محکمے کے اہلکاروں سے کسی بھی رعایت کی امید رکھنا عبث ہی تھا، چنانچہ 1857 سے قائم کردہ برٹش سرکار کا راج 1947 تک ہندوستان پر قائم رہا، یہ ضرور تھا کہ محکمہ پولیس نے برٹش سرکار کے طویل حکمرانی میں اہم کردار ادا کیا۔ 1947 میں ہندوستان آزاد ہوا اور قیام پاکستان کا عمل بھی مکمل ہوا، اس موقع پر ضروری تھا کہ محکمہ پولیس میں اصلاح کا عمل شروع کیا جاتا اور برٹش سرکار کے عطا کردہ لامحدود اختیارات کا جائزہ لیا جاتا اور غیر ضروری اختیارات واپس لیے جاتے اور پولیس کو پاکستان کی پولیس بنایا جاتا، مگر پولیس کی اصلاح کا عمل شروع نہ کیا گیا۔
1948 کا دستور قوم کو دیا گیا، 1956 کا قانون پاس ہوا، 1962 کا ایوبی لیگل فریم ورک آرڈر آیا، 1973 کا آئین نافذ ہوا۔ اس آئین میں سات ترمیمات اس کی بانی جماعت نے کیں، پھر اس آئین میں ترمیم کے بعد ترمیم ہوتی رہی اور اب تک کوئی 31 ترامیم سامنے آچکی ہیں، مگر نہ تو آج تک کسی قانون کے تحت اور نہ ہی کسی ترمیم کے ذریعے پولیس کے محکمے کی اصلاح کی کوئی کوشش کی گئی ہے۔ پولیس اپنے لامحدود اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے جعلی و حقیقی پولیس مقابلے کے ذریعے جس شہری کی چاہے جان لے سکتی ہے۔
ایسا بھی ہوتا ہے کہ ظاہر یہ کیا جاتا ہے کہ کسی کو جعلی پولیس مقابلے میں جان سے مار دیا جاتا ہے البتہ جب تحقیقات سامنے آتی ہیں تو یہ کیفیت بنتی ہے کہ یہ جان سے جانے والا ملزم تو کئی روز سے پولیس کی حراست میں تھا، پھر جو بھی پولیس مقابلہ ظاہر کیا جاتا ہے ستم کی بات یہ ہے کہ ان پولیس مقابلوں میں پولیس کے کسی جوان کو خراش تک نہیں آتی، البتہ پولیس مقابلوں میں مارے جانے والے لوگوں کی تعداد چار چار چھ چھ بھی بیان کردی جاتی ہے۔ پولیس کی تربیت کا عالم یہ ہے کہ سر راہ ہونے والے پولیس مقابلوں میں اکثر راہگیر اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔
ان حالات میں پولیس کی جانب سے یہ بیان جاری کردینا ہی کافی تصور کرلیا جاتا ہے کہ دو طرفہ فائرنگ کی زد میں آکر راہگیر مارا گیا۔ اکثر ایسا بھی ہوتا ہے کہ مارا جانے والا پورے کنبے کا واحد کفیل اور کوئی عام سا محنت کش تھا، اب اس مرنے والے کے لواحقین کس اذیت کے عالم میں آنے والے حالات کا مقابلہ کریں گے محکمہ پولیس کو اس سے کوئی غرض نہیں۔ یہ بھی ہوتا ہے کہ مخصوص حالات میں پولیس کے ناکے لگا دیے جاتے ہیں، اب ہر ایک راہگیر کی تلاشی کے بہانے جیبیں خالی کردی جاتی ہیں اور اگر کسی نے احتجاج کیا تو سختی سے جواب ملتا ہے شرافت سے چلا جا ورنہ ابھی مقدمہ قائم کردیں گے۔ اس وقت پولیس کے ہاتھوں نقدی و قیمتی اشیا سے محروم ہونے والا وہاں سے رخصت ہوجاتا ہے کہ جان بچی سو لاکھوں پائے۔
ایک اور الزام بھی پولیس پر عائد کیا جاتا ہے کہ پولیس کسی بھی شخص کو کسی معمولی سے جرم کے الزام میں گرفتار کرتی ہے، پھر اس شخص کے لواحقین سے کثیر رقم کا تقاضا کیا جاتا ہے، طلب کردہ رقم مل گئی تو ٹھیک بصورت دیگر اس کے خلاف سنگین ترین مقدمہ درج کردیا جاتا ہے۔ یہ ضرور ہوا ہے کہ گزشتہ حکومت پنجاب نے جاتے جاتے یہ اقدام اٹھائے کہ پولیس کی یونیفارم تبدیل کردی، یہ اقدام ایسے ہی تھے کہ جیسے کہ آپ کسی شخص کا لباس تبدیل کروا دیں اور امید یہ رکھیں کہ اس شخص کی فطرت بدل گئی ہے۔
اسی طرح پولیس کے یونیفارم تبدیل کرنے سے کوئی تبدیلی نہ آئی ہے نہ آئے گی، تبدیلی مقصود ہے تو پولیس کے رویے کی تبدیلی ضروری ہے، کیونکہ عام طور پر ہوتا یہ ہے اکثریت میں لوگ نقصان اٹھانے کے باوجود مارے خوف کے پولیس تھانے میں رپورٹ تک درج کروانے نہیں جاتے۔ پھر یہ بھی حقیقت ہے پولیس والے کسی بھی جرم کا ارتکاب کرلیں، سزا سے بچ نکلتے ہیں، اس ضمن میں میر مرتضیٰ بھٹو کیس ہے، بانی پاکستان کے پڑ نواسے کا کیس ہے جوکہ گھر سے سحری کا سامان لینے گیا اور پولیس کے ہاتھوں بے قصور مارا گیا، میر مرتضیٰ بھٹو کا کیس 22 برس سے اور قائداعظم کے پڑ نواسے کا کیس 21 برس سے التوا کا شکار ہے، جب کہ چھوٹے موٹے کیسز تو روزمرہ کا معمول ہیں۔
بہرکیف اب جب کہ پاکستان تحریک انصاف عمران خان نیازی کی قیادت میں وفاق کے ساتھ ساتھ پنجاب و خیبر پختونخوا میں بھی حکومت سازی کرنے جا رہی ہے تو ہم پاکستان تحریک انصاف کی حکومت سے یہ امید ضرور رکھیں گے کہ وہ محکمہ پولیس میں اصلاحی و انقلابی تبدیلیاں کرے گی۔ کیونکہ عام تاثر یہ ہے کہ پاکستان تحریک انصاف نے خیبرپختونخوا میں پولیس کی اصلاح کرکے پولیس کا قبلہ درست کردیا ہے۔
چنانچہ ضرورت اس امر کی ہے کہ پولیس کو غیر سیاسی کیا جائے، پولیس کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال نہ کیا جائے، پولیس کا رویہ درست کرنے کے لیے اصلاح کی جائے، پولیس والوں کی اچھی کارکردگی کی بنا پر حوصلہ افزائی کی جائے، خراب کارکردگی کی بنا پر محکمہ جاتی کارروائی کی جائے، پولیس کے زیر حراست کسی بھی شخص پر تشدد نہ کیا جائے، بھتہ خور و رشوت خور پولیس والوں سے محکمہ پولیس کو پاک کردیا جائے۔