زمین کا زیور ’’درخت‘‘
ہم جذبات میں آکر پودے تو لگا دیتے ہیں مگر اس کی مناسب دیکھ بھال نہیں کرپاتے۔
خداوند کریم نے حضرت انسان کو دوسری جاندار مخلوقات کے ساتھ بے شمار اپنی رحمتوں، نعمتوں اور لوازمات کے ساتھ دنیا میں وارد کیا۔ دریا، پہاڑ، سمندر، نہری نظام، خوراک کی فراہمی کے لیے زرخیز زمین، پانی، چرند پرند، جنگلات، حیوانات، آکسیجن سے بھرپور قدرتی ہوا، رنگ برنگے خوشبو دار پھولوں سے مزین پودے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ مختلف اقسام کے سایہ دار درخت، جو بلاشبہ اس زمین کا زیور ہیں۔
لیکن ان رحمتوں اور لوازما ت کا حصول کا رشتہ موسموں کے تناسب سے جڑا ہے۔ گزشتہ چند سال سے موسموں کی شدت اور ان کے بدلتے ہوئے مقررہ شیڈولز میں تیزی سے تبدیلی نے ملک کے ہر فرد کو متفکر کرکے رکھ دیا ہے۔ برسات کے موسم میں بارشوں سے محرومی اور گرمی کے بجائے شدید آگ برستی حدت نے ہر جاندار مخلوق کو جھلسا کر رکھ دیا ہے۔ جب کہ اس سے قبل ہر سال ہونے والے موسموں کے بروقت اتار چڑھاؤ کے مقررہ شیڈول میں تیزی سے تبدیلی کو ہم قدرت کے حسین امتزاج کا ایک خوشگوار عملی نمونہ گردانتے تھے۔
قابل تشویش ہے یہ امر کہ ان موسموں کی تبدیلی نے ایسی کھچڑی تیار کردی کہ ہم موسم بہار، موسم خزاں اور برسات جیسے صحت افزا اور خوشگوار موسموں میں تمیز کھوتے جا رہے ہیں، یعنی ہمیں محسوس ہی نہیں ہوتا کہ ہم کس موسم کے ماحول سے گزر رہے ہیں۔ اب ان خوشگوار موسموں سے لطف اندوز ہونے کا خواب چکنا چور ہوتا جا رہا ہے۔ موسموں کی اس خراب اور بگڑتی ہوئی صورت حال کو ماہرین اپنے مطالعہ اور عملی تجربات کی روشنی میں فضائی، زمینی اور سمندری ماحول میں آلودگی کی سب سے بڑی اور بنیادی وجہ بتاتے ہیں اور جس کے انفرادی اور مجموعی پیرائے میں ہم خود ذمے دار ہیں۔ ملک میں تیز رفتاری سے آبادی میں وسعت سے شہر سے ملحقہ گاؤں متاثر ہو رہے ہیں۔
قبضہ مافیا کی طرف سے جنگلات کے درختوں کی کٹائی، شہر میں بلند و بالا رہائشی اور کاروباری عمارات کی تعمیر بغیر کسی منصوبہ بندی کے جاری و ساری ہے۔ ٹریفک کا بے ہنگم شور جیسے عوامل کارفرما رہے ہیں۔گزشتہ چند سال سے کراچی میں ہیٹ اسٹروک کے اثرات سے گرمی کی حدت میں ناقابل برداشت حد تک تیزی سے سیکڑوں جانوں کا ضیاع ہوچکا ہے۔ ادھر شہر قائد میں سگنل فری ٹریفک کے نظام کو ہم آہنگ بنانے کے لیے فلائی اوورز کی تعمیر کے نتیجہ میں سڑکوں کی اکھاڑ پچھاڑ کے باعث جہاں شہری سہولیات کی بہت سی چیزوں کو نقصان پہنچا، وہاں سڑک کے دونوں اطراف میں برسوں سے لگے ہوئے سایہ دار درخت بھی کاٹ دیے گئے۔
کراچی کی شہری انتظامیہ کی جانب سے ان درختوں کا نعم البدل یوں کیا گیا کہ پورے شہر میں کونوکارپس کے درخت لگائے گئے۔ اسی دوران سرکاری زمینوں پر قبضہ کے بعد ان کو مہنگے داموں فروخت کیا گیا، جس کو چائنا کٹنگ کا نام دیا گیا۔ معلوم ہوا ماسٹر پلان کے تحت عوامی سہولیات (جیسے درخت، پھول پودوں سے مزین ہرے بھرے کشادہ پارکس، کھیلوں کے میدان وغیرہ) کے لیے مختص کیے گئے پلاٹس شہری ترقیاتی اداروں کی ملی بھگت سے قبضہ مافیا نے مہنگے داموں فروخت کردیے اور بیشتر پلاٹس پر مساجد بنادی گئیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ہیٹ اسٹروک کے بہت سارے عوامل میں سب سے بڑی وجہ شہر میں خطیر تعداد میں لگنے والے کونوکارپس کے درخت ہیں، جنھیں پانی کی ضرورت نہیں ہوتی۔ یہ درخت دن اور رات میں آکسیجن کے بجائے کاربن ڈائی آکسائیڈ چھوڑ رہے ہوتے ہیں اور ان پر کوا بھی بیٹھنا پسند نہیں کرتا۔ عالمی سطح پر دریاؤں میں پانی کی قلت اور ماحولیاتی گلوبل وارمنگ جنگلات کے ختم ہونے کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔ درخت نہ صرف ہمیں آلودگی سے پاک ماحول مہیا کرتے ہیں بلکہ ہماری صحت و تندرستی کے لیے اضافی خوراک کا بھی موجب بنتے ہیں۔
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ انسان کی صحت مند زندگی کو جلا بخشنے میں درخت بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں، بلکہ یوں کہا جاسکتا ہے کہ ''سایہ دار اور پھل دار درخت ہر جاندار مخلوق کے لیے قدرتی آکسیجن سے بھرپور زندگی ہے''۔ صاف و شفاف آب و ہوا کے لیے کسی بھی ملک کے کل رقبہ کا 23 فیصد حصہ جنگلات پر مشتمل ہونا لازمی ہے۔
عالمی ماحولیاتی اداروں کی تحقیق کے مطابق کسی بھی ملک کے خشک رقبے کا 25 فیصد جنگلات پر مشتمل ہونا انسانی زندگی کے لیے نہ صرف مناسب بلکہ انتہائی مفید ہے۔ ایک محتاط سروے کے مطابق دنیا کے کل خشکی کے رقبے کا 31 فیصدصرف جنگلات پر مشتمل ہے۔ اس ضمن میں عرض ہے کہ قدرتی بارش سے ہونے والے جنگلات کا 60 فیصد حصہ برازیل میں ہے۔ روس اور کینیڈا جنگلات کی فہرست میں سب سے زیادہ نمایاں ہیں، جو پوری دنیا کے کل جنگلات کا 29 فیصد ہے۔
پاکستان میں کاغذ کی فائلوں پر لاکھوں پودے اگا دیے جاتے ہیں، جن میں سے چند ہزار خوش قسمت پودے ہی کاغذ کی دنیا سے نکل کر مٹی کی نسبت حاصل کر پاتے ہیں۔ بدقسمتی سے پودے بھی درخت بننے کے ابتدائی دور ہی میں پانی نہ ملنے اور مناسب دیکھ بھال نہ ہونے اور عوام کی عدم دلچسپی کے باعث خاک عدم ہوجاتے ہیں۔ حکمرانوں اور ریاستی اشرافیہ پر تنقید کے بجائے ہمیں خود عوام الناس کی سطح پر درختوں کی اہمیت و افادیت کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔
ہم جذبات میں آکر پودے تو لگا دیتے ہیں مگر اس کی مناسب دیکھ بھال نہیں کرپاتے، یعنی پودوں کی مناسب دیکھ بھال اسی طرح سے کی جا سکتی ہے کہ روزانہ کی بنیاد پر ان نومولود پودوں کو بوقت ضرورت پانی ملتا رہے، مگر ایسا ہرگز نہیں ہوپاتا۔ اس ضمن میں جہاں پانی باآسانی دستیاب نہیں ہے وہاں ہم آپ کو ایسا طریقہ بھی بتائے دیتے ہیں جو پودوں اور درخت کی اردگرد کی زمین کو نم رکھنے میں مد د دے سکتا ہے۔ گھڑے کی فطرت انسانی جلد کی سی ہے، اس میں شہد کی مکھیوں کے چھتے جیسے باریک باریک مسام ہوتے ہیں جن سے پانی پسینے کے قطروں کی مانند رستا رہتا ہے۔ اگر آپ مٹی کے گھڑے کو منہ تک بھر کر زمین میں دبا دیں تو اس کا پانی اس کے مساموں سے آہستہ آہستہ بہہ کر مٹی میں جذب ہوتا رہے گا۔