بلاول بھٹو اور سندھ کی اُمیدیں
اس بار سندھ میں ایک مرتبہ پھراکثریت کی بناء پرحکومت بنانیوالی جماعت پی پی پی کی قیادت بلاول بھٹو کر رہے ہیں۔
سید غلام مرتضیٰ شاہ بالمعروف جی ایم سید کی جانب سے قیام پاکستان کے حق میں پیش کردہ بل کو اکثریت رائے سے پاس کرنے کی بنیاد پر پاکستان کی خالق اسمبلی کا درجہ رکھنے والی سندھ اسمبلی کی حیثیت و اہمیت دیگر ملکی اسمبلیوں سے اس لیے بھی اہم ہے کہ قیام پاکستان کے بعد یہی اسمبلی پاکستان کی پارلیمنٹ قرار پائی اور ملک کے بانی قائد اعظم محمد علی جناح نے بطور گورنر جنرل اور ملک کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان نے اپنے عہدے کا حلف اسی اسمبلی میں لیا تھا۔
اس اسمبلی میں اس مرتبہ لگاتار تیسری بار پاکستان پیپلز پارٹی کی جماعت نے اکثریت کی بنا ء پراپنے اسپیکر و ڈپٹی اسپیکر کے انتخاب سمیت حکومتی بینچوں پر بیٹھنے کی ہیٹرک قائم کی ہے ۔ 167ارکان میں سے حاضر 160ارکان نے حلف لے کر اسپیکر و ڈپٹی اسپیکر کا انتخاب کیا ۔ دوران حلف کچھ ارکان نے انگریزی میں ، کچھ نے اردو میں جب کہ اکثریت نے سندھی میں حلف لیا، تین زبانوں میں حلف برداری سے بھی اس اسمبلی کی منفرد حیثیت ظاہر ہوتی ہے۔
آئین ، قانون اور اسمبلی کے قواعد کے تحت اپنا کردار ادا کرتے رہنے کا حلف لیتے ہوئے ان ارکان نے ملک کی خوشحالی کے لیے کام کرنے کا وعدہ تو کرلیا ہے لیکن عملی طور پر اس کے امکانات نظر نہیں آرہے ہیں ۔ دیکھا گیا ہے کہ اکثر ارکان منتخب ہونے کے بعد اپنے حلقوں میں ہی نہیں جاتے ، ووٹرز انھیں ڈھونڈتے رہتے ہیں مگرنہ تو یہ انھیں ملتے ہیں اور نہ ہی اُن کے کام کرتے ہیں ۔صوبہ میں بیروزگاری کی انتہا اور 16سے 18گھنٹوں کی لوڈشیڈنگ کے عذاب سے جہاں کاروبار کوشدید نقصان پہنچ رہا ہے وہیں لوگ ذہنی و اعصابی بیماریوں کا شکار ہوکر رہ گئے ہیں ۔
صحت کی صورتحال یہ ہے کہ صوبہ کے ایک کروڑ سے زائد لوگ ہیپاٹائٹس جیسے موذی مرض میں مبتلا ہیں ۔ خسرہ و گیسٹرو سے بچوں کی ہلاکتیں بھی معمول بنی ہوئی ہیں ۔ دوسری جانب تیل ، گیس ، کوئلے اور دیگر معدنی وسائل سے مالامال اور2 عالمی بندرگاہوں کے حامل صوبہ سندھ کے عوام کی حالت ِ زار کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ تھر میں بچوں کی غذائی قلت کی وجہ سے ہلاکتوں کے واقعات ایتھوپیائی قحط کے مناظر پیش کرتے ہیں ۔جب کہ عالمی اداروں کی رپورٹس کے مطابق صوبہ سندھ کے عوام کی اکثریت غربت کی لکیر سے بھی نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں ۔
لیکن گذشتہ 10برس سے حکومت کی جانب سے ان کا تدارک کرنے کے لیے ہنگامی طور پر کوئی معاشی اصلاحی اقدامات کرنے کے بجائے انکم سپورٹ پروگرام کے نام پر لوگوں کو 2یا 3ہزار روپے کی خیرات جس تذلیل سے دی جاتی ہے وہ عوام میں مجموعی خوشحالی لانے کے بجائے عوام کو خودداری کے جذبہ سے محروم بنانے کا باعث بن رہی ہے ۔ ویسے بھی کسی دانشور کا قول ہے کہ '' غربت خیرات سے نہیں بلکہ حقدار کو اس کا حق دینے سے ختم ہوتی ہے ''۔
گذشتہ 10برس سے سندھ میں مسلسل پیپلز پارٹی کی حکومت رہی ہے ۔ اگر پی پی پی چاہتی تو صوبہ کی قسمت بدل سکتی تھی ،مگر صوبہ میں نہ صاف پانی کا بندوبست کیا گیا اور نہ ہی زراعت کے لیے پانی کا انتظام ۔اُلٹا صوبہ کو گندگی کے ڈھیروں میں تبدیل کیا گیا ۔اسپتال قصاب خانوں کے مناظر پیش کرنے لگے ۔ صوبہ کے امن کو دہشتگردی کے جن یا انتہا پسندی و لاقانونیت کی چڑیل نے اپنے پنجوں میں جکڑے رکھا ۔ جب کہ تعلیم کی صورتحال یہ رہی کہ صوبہ میں 1300سے زائد اسکول بند پڑے ہیں ۔ اکثر اسکولوں میں پانی و نکاسی کا انتظام نہیں ہے ۔
کئی مقامات پر اسکول کی عمارت نہ ہونے کی وجہ سے بچے درختوں کے سائے میں بیٹھ کر تعلیم حاصل کرنے پر مجبور ہیں اور خواندگی کی گرتی ہوئی شرح ہی ہمیں شرم دلانے کے لیے کافی ہے ۔ دوسری جانب نہ سمندر کے تحفظ اور انڈس ڈیلٹا میں برپا ہونے والی تباہی کی روک تھام کے لیے وفاق سے بات کی گئی اور نہ ہی 18ویں ترمیم کے تحت وفاق سے تمام صوبائی اداروں پر اختیار حاصل کیا گیا۔
نہ ہی40سال سے سپر ہائی وے پر قابض وفاق سے اختیارات واپس لیے گئے اور نہ ہی نیا این ایف سی ایوارڈ۔ جب کہ معدنی ذخائر کے حامل اضلاع میں وفاقی اداروں کی جانب سے آئینی پابندیوں پر عمل نہ کرنے اور ترقیاتی اسکیموں میں نظرانداز کرنے پر مجرمانہ خاموشی اختیار کرنے اور ارسا ، ایکنک ، بین الصوبائی رابطہ کونسل و دیگر اداروں کی جانب سے سندھ کے ساتھ کی جانیوالی ہرزہ سرائیوں کے خلاف کوئی مؤثر احتجاج نہ کرنا اورمناسب موقف نہ رکھنا بھی پی پی پی کی نااہلی تھی یا مقتدر قوتوں کا دباؤ ، بہرحال عوام سندھ کی اس نمائندہ جماعت پر ہی برہم نظر آئے ۔ جس کی جھلک حالیہ انتخابات سے قبل سندھ بھر میں پی پی پی پر شدید تنقید ، امیدواران کے گھیراؤ کی شکل میں نظر آئی ۔ عوام کا یہ رد عمل فطری تھا کیونکہ پی پی پی کی ترجیحات میں سندھ شامل نہیں تھا۔
اس بار سندھ میں ایک مرتبہ پھراکثریت کی بناء پرحکومت بنانیوالی جماعت پی پی پی کی قیادت بلاول بھٹو کر رہے ہیں جو سندھ حکومت کی کارکردگی کو خود مانیٹر کرنے اور اہلیت و میرٹ کے نظام کو عام کرکے عوام کی حقیقی معنوں میں خدمت کو یقینی بنانے کے عزم کے ساتھ عوام کے لیے اُمید کی آخری کرن بن کر سامنے آئے ہیں ۔ لیکن انھیں بہت سی چیزوں کا ایک مرتبہ پھر نئے انداز سے جائزہ لینا ہو گا۔
عوامی مسائل کے حل اور ترقیاتی کاموں میں اولیت و شفافیت کو یقینی بنانا ہوگا ۔ چونکہ واضح اکثریت کی بناء پر اس بار پی پی پی کے لیے سندھ کے عوام کو حکمرانی کے اصل ثمرات سے بہرہ مند ہونے کے آسان مواقع حاصل ہوں گے ۔ جس کے لیے حکمرانی کے حق کو موروثی ملکیت تصور کرنیوالی پرانی سوچ اور روش کو چھوڑ کر خود کو عوام کے سامنے جوابدہ بناکر اپنے 10سالہ حکومتی دور میںکرپشن ، اقربا پروری ، مفاہمت کی آڑ میں سندھ کے وسائل کی بندربانٹ اور بلڈرز مافیہ کے توسط سے سندھ کی زمینوں پر قبضوں سمیت سندھ کو پہنچنے والے شدید نقصانات اور خود پی پی پی کی قیادت کی متاثر ہوئی ساکھ کے ازالے کے لیے بہت کچھ کرنا ہوگا ۔
یوں تو ہر شعبہ بھرپور توجہ مرکوز کرنے کا متقاضی ہے لیکن اگر ابتدائی طور پر معیاری تعلیم ، بہتر صحت اور امن و امان کے قیام کے لیے منظم طریقے سے کام کیا جائے تو پی پی پی کی موجودہ نوجوان قیادت بہت جلد ملکی و عوامی سطح پر خود کو منوا سکتی ہے ۔ لیکن یہ سرگرمیاں ماضی کی تعلیمی ایمرجنسی کی طرح صرف اعلانات تک محدود نہیں ہونی چاہئیں بلکہ عملی طور پر ایسے اقدامات ہونے چاہئیں جن سے نچلی سطح پر اس کے ثمرات نظر آئیں ۔ جیسے پہلے سے لاگو مفت و معیاری تعلیم کی پالیسی کو عملی جامہ پہنایا جائے ۔
موجودہ اساتذہ کی تربیت اور میرٹ پر نئے فرض شناس و قابل اساتذہ بھرتی کیے جائیں ۔ اسکولوں میں فرنیچر و اساتذہ کی کمی کو پورا کرنے کے ساتھ ساتھ اسکول کی عمارتوں کی حالت درست کی جائے ، پینے کے لیے صاف و ٹھنڈے پانی اور بیت الخلاء کا بندوبست کیا جائے ۔ سب سے بڑی بات سرکاری اسکولوں میں نجی تعلیمی اداروں کی طرح نظم و ضبط نظر آنے کو یقینی بنایا جائے ۔ دوسری جانب عوام کو صحت کی بہتر سہولیات کی فراہمی کے لیے صوبہ بھر کے اسپتالوں کو NGOsکے غبارے کی آکسیجن پر چلانے کے بجائے ترقی یافتہ ممالک کے طریقہ علاج کو اپناتے ہوئے ضلعی اسپتالوں میں یکساں بنیادوں پر جدید سہولیات کی فراہمی کے ساتھ ساتھ مؤثر نگہداشت و مانیٹرنگ کا نظام اپنایا جائے ۔
جس سے ایک طرف لوگوں کو گھر کی دہلیز پر صحت کی سہولیات میسر ہوں گی تو دوسری جانب صوبائی دارالحکومت کی اسپتالوں پر رش کا دباؤ بھی کم ہوگا ۔جہاں تک بات ہے امن و امان کی تو صوبہ بھر میں نہ اب ماضی کی طرح ڈاکو راج ہے اور نہ ہی شہری دہشتگردوں کا راج ۔ ہاں البتہ مذہبی انتہا پسندی کی جڑیں بڑے پیمانے پر مضبوط ہوتی جارہی ہیں جو کہ آگے چل کر صوبہ کو کے پی کے اور فاٹا کی طرح اپنی لپیٹ میں لے کر فرقہ پرستی و بدامنی پھیلانے کا باعث بن سکتی ہیں ۔ جس کی رو ک تھام کے لیے سندھ کی ازلی سیکیولر و صوفی روح کی تعلیم کو اجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ اشتعال انگیز ی پر مبنی تقاریر و مدارس کی مانیٹرنگ کے قوانین پر عمل درآمد کیا جانا کارآمد ہوگا۔
حالانکہ سابقہ دور کی طرح اسی مراد علی شاہ کے وزیر اعلیٰ بننے اور نثار کھوڑو کی بیٹی ندا کھوڑو اور پیر مظہر الحق کے بیٹے مجیب الحق سمیت تقریباً ان ہی جدی پشتی سیاستدانوں کی اولاد ہی ایم پی ایز بنی ہے لیکن نئے چہروں اور نئی و نوجوان سوچ سے یہ امیدیں بہر حال ہیں کہ وہ جدید دور کے تقاضوں کے مطابق اپنے شعور سے پُر کردار کو معاشرے کی اصلاح اور عوام کی فلاح کے لیے بہتر طریقے سے ادا کرسکیں گے ۔ اس کے باوجود بلاول بھٹو زرداری کو یہ ذہن نشین کرلینا چاہیے کہ سندھ کے عوام نے کسی گروپ یا کمپنی کو مینڈیٹ نہیں دیا ۔ اس لیے وزارتوں ، عہدوں اور ٹھیکوں میں اقربا پروری سے گریز کیا جائے اور میریٹ و مستعدی کو ہر حال میں برقرار رکھا جائے ۔ یہی پی پی پی کے آئندہ دنوں میں سیاسی میدان مارنے کی وجہ بنے گی ورنہ کہیں لیاری کے بعد لاڑکانہ اور پھر صوبہ بھر سے پی پی پی کا بوریہ بستر نہ گول ہوجائے ۔۔۔!!!
اس اسمبلی میں اس مرتبہ لگاتار تیسری بار پاکستان پیپلز پارٹی کی جماعت نے اکثریت کی بنا ء پراپنے اسپیکر و ڈپٹی اسپیکر کے انتخاب سمیت حکومتی بینچوں پر بیٹھنے کی ہیٹرک قائم کی ہے ۔ 167ارکان میں سے حاضر 160ارکان نے حلف لے کر اسپیکر و ڈپٹی اسپیکر کا انتخاب کیا ۔ دوران حلف کچھ ارکان نے انگریزی میں ، کچھ نے اردو میں جب کہ اکثریت نے سندھی میں حلف لیا، تین زبانوں میں حلف برداری سے بھی اس اسمبلی کی منفرد حیثیت ظاہر ہوتی ہے۔
آئین ، قانون اور اسمبلی کے قواعد کے تحت اپنا کردار ادا کرتے رہنے کا حلف لیتے ہوئے ان ارکان نے ملک کی خوشحالی کے لیے کام کرنے کا وعدہ تو کرلیا ہے لیکن عملی طور پر اس کے امکانات نظر نہیں آرہے ہیں ۔ دیکھا گیا ہے کہ اکثر ارکان منتخب ہونے کے بعد اپنے حلقوں میں ہی نہیں جاتے ، ووٹرز انھیں ڈھونڈتے رہتے ہیں مگرنہ تو یہ انھیں ملتے ہیں اور نہ ہی اُن کے کام کرتے ہیں ۔صوبہ میں بیروزگاری کی انتہا اور 16سے 18گھنٹوں کی لوڈشیڈنگ کے عذاب سے جہاں کاروبار کوشدید نقصان پہنچ رہا ہے وہیں لوگ ذہنی و اعصابی بیماریوں کا شکار ہوکر رہ گئے ہیں ۔
صحت کی صورتحال یہ ہے کہ صوبہ کے ایک کروڑ سے زائد لوگ ہیپاٹائٹس جیسے موذی مرض میں مبتلا ہیں ۔ خسرہ و گیسٹرو سے بچوں کی ہلاکتیں بھی معمول بنی ہوئی ہیں ۔ دوسری جانب تیل ، گیس ، کوئلے اور دیگر معدنی وسائل سے مالامال اور2 عالمی بندرگاہوں کے حامل صوبہ سندھ کے عوام کی حالت ِ زار کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ تھر میں بچوں کی غذائی قلت کی وجہ سے ہلاکتوں کے واقعات ایتھوپیائی قحط کے مناظر پیش کرتے ہیں ۔جب کہ عالمی اداروں کی رپورٹس کے مطابق صوبہ سندھ کے عوام کی اکثریت غربت کی لکیر سے بھی نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں ۔
لیکن گذشتہ 10برس سے حکومت کی جانب سے ان کا تدارک کرنے کے لیے ہنگامی طور پر کوئی معاشی اصلاحی اقدامات کرنے کے بجائے انکم سپورٹ پروگرام کے نام پر لوگوں کو 2یا 3ہزار روپے کی خیرات جس تذلیل سے دی جاتی ہے وہ عوام میں مجموعی خوشحالی لانے کے بجائے عوام کو خودداری کے جذبہ سے محروم بنانے کا باعث بن رہی ہے ۔ ویسے بھی کسی دانشور کا قول ہے کہ '' غربت خیرات سے نہیں بلکہ حقدار کو اس کا حق دینے سے ختم ہوتی ہے ''۔
گذشتہ 10برس سے سندھ میں مسلسل پیپلز پارٹی کی حکومت رہی ہے ۔ اگر پی پی پی چاہتی تو صوبہ کی قسمت بدل سکتی تھی ،مگر صوبہ میں نہ صاف پانی کا بندوبست کیا گیا اور نہ ہی زراعت کے لیے پانی کا انتظام ۔اُلٹا صوبہ کو گندگی کے ڈھیروں میں تبدیل کیا گیا ۔اسپتال قصاب خانوں کے مناظر پیش کرنے لگے ۔ صوبہ کے امن کو دہشتگردی کے جن یا انتہا پسندی و لاقانونیت کی چڑیل نے اپنے پنجوں میں جکڑے رکھا ۔ جب کہ تعلیم کی صورتحال یہ رہی کہ صوبہ میں 1300سے زائد اسکول بند پڑے ہیں ۔ اکثر اسکولوں میں پانی و نکاسی کا انتظام نہیں ہے ۔
کئی مقامات پر اسکول کی عمارت نہ ہونے کی وجہ سے بچے درختوں کے سائے میں بیٹھ کر تعلیم حاصل کرنے پر مجبور ہیں اور خواندگی کی گرتی ہوئی شرح ہی ہمیں شرم دلانے کے لیے کافی ہے ۔ دوسری جانب نہ سمندر کے تحفظ اور انڈس ڈیلٹا میں برپا ہونے والی تباہی کی روک تھام کے لیے وفاق سے بات کی گئی اور نہ ہی 18ویں ترمیم کے تحت وفاق سے تمام صوبائی اداروں پر اختیار حاصل کیا گیا۔
نہ ہی40سال سے سپر ہائی وے پر قابض وفاق سے اختیارات واپس لیے گئے اور نہ ہی نیا این ایف سی ایوارڈ۔ جب کہ معدنی ذخائر کے حامل اضلاع میں وفاقی اداروں کی جانب سے آئینی پابندیوں پر عمل نہ کرنے اور ترقیاتی اسکیموں میں نظرانداز کرنے پر مجرمانہ خاموشی اختیار کرنے اور ارسا ، ایکنک ، بین الصوبائی رابطہ کونسل و دیگر اداروں کی جانب سے سندھ کے ساتھ کی جانیوالی ہرزہ سرائیوں کے خلاف کوئی مؤثر احتجاج نہ کرنا اورمناسب موقف نہ رکھنا بھی پی پی پی کی نااہلی تھی یا مقتدر قوتوں کا دباؤ ، بہرحال عوام سندھ کی اس نمائندہ جماعت پر ہی برہم نظر آئے ۔ جس کی جھلک حالیہ انتخابات سے قبل سندھ بھر میں پی پی پی پر شدید تنقید ، امیدواران کے گھیراؤ کی شکل میں نظر آئی ۔ عوام کا یہ رد عمل فطری تھا کیونکہ پی پی پی کی ترجیحات میں سندھ شامل نہیں تھا۔
اس بار سندھ میں ایک مرتبہ پھراکثریت کی بناء پرحکومت بنانیوالی جماعت پی پی پی کی قیادت بلاول بھٹو کر رہے ہیں جو سندھ حکومت کی کارکردگی کو خود مانیٹر کرنے اور اہلیت و میرٹ کے نظام کو عام کرکے عوام کی حقیقی معنوں میں خدمت کو یقینی بنانے کے عزم کے ساتھ عوام کے لیے اُمید کی آخری کرن بن کر سامنے آئے ہیں ۔ لیکن انھیں بہت سی چیزوں کا ایک مرتبہ پھر نئے انداز سے جائزہ لینا ہو گا۔
عوامی مسائل کے حل اور ترقیاتی کاموں میں اولیت و شفافیت کو یقینی بنانا ہوگا ۔ چونکہ واضح اکثریت کی بناء پر اس بار پی پی پی کے لیے سندھ کے عوام کو حکمرانی کے اصل ثمرات سے بہرہ مند ہونے کے آسان مواقع حاصل ہوں گے ۔ جس کے لیے حکمرانی کے حق کو موروثی ملکیت تصور کرنیوالی پرانی سوچ اور روش کو چھوڑ کر خود کو عوام کے سامنے جوابدہ بناکر اپنے 10سالہ حکومتی دور میںکرپشن ، اقربا پروری ، مفاہمت کی آڑ میں سندھ کے وسائل کی بندربانٹ اور بلڈرز مافیہ کے توسط سے سندھ کی زمینوں پر قبضوں سمیت سندھ کو پہنچنے والے شدید نقصانات اور خود پی پی پی کی قیادت کی متاثر ہوئی ساکھ کے ازالے کے لیے بہت کچھ کرنا ہوگا ۔
یوں تو ہر شعبہ بھرپور توجہ مرکوز کرنے کا متقاضی ہے لیکن اگر ابتدائی طور پر معیاری تعلیم ، بہتر صحت اور امن و امان کے قیام کے لیے منظم طریقے سے کام کیا جائے تو پی پی پی کی موجودہ نوجوان قیادت بہت جلد ملکی و عوامی سطح پر خود کو منوا سکتی ہے ۔ لیکن یہ سرگرمیاں ماضی کی تعلیمی ایمرجنسی کی طرح صرف اعلانات تک محدود نہیں ہونی چاہئیں بلکہ عملی طور پر ایسے اقدامات ہونے چاہئیں جن سے نچلی سطح پر اس کے ثمرات نظر آئیں ۔ جیسے پہلے سے لاگو مفت و معیاری تعلیم کی پالیسی کو عملی جامہ پہنایا جائے ۔
موجودہ اساتذہ کی تربیت اور میرٹ پر نئے فرض شناس و قابل اساتذہ بھرتی کیے جائیں ۔ اسکولوں میں فرنیچر و اساتذہ کی کمی کو پورا کرنے کے ساتھ ساتھ اسکول کی عمارتوں کی حالت درست کی جائے ، پینے کے لیے صاف و ٹھنڈے پانی اور بیت الخلاء کا بندوبست کیا جائے ۔ سب سے بڑی بات سرکاری اسکولوں میں نجی تعلیمی اداروں کی طرح نظم و ضبط نظر آنے کو یقینی بنایا جائے ۔ دوسری جانب عوام کو صحت کی بہتر سہولیات کی فراہمی کے لیے صوبہ بھر کے اسپتالوں کو NGOsکے غبارے کی آکسیجن پر چلانے کے بجائے ترقی یافتہ ممالک کے طریقہ علاج کو اپناتے ہوئے ضلعی اسپتالوں میں یکساں بنیادوں پر جدید سہولیات کی فراہمی کے ساتھ ساتھ مؤثر نگہداشت و مانیٹرنگ کا نظام اپنایا جائے ۔
جس سے ایک طرف لوگوں کو گھر کی دہلیز پر صحت کی سہولیات میسر ہوں گی تو دوسری جانب صوبائی دارالحکومت کی اسپتالوں پر رش کا دباؤ بھی کم ہوگا ۔جہاں تک بات ہے امن و امان کی تو صوبہ بھر میں نہ اب ماضی کی طرح ڈاکو راج ہے اور نہ ہی شہری دہشتگردوں کا راج ۔ ہاں البتہ مذہبی انتہا پسندی کی جڑیں بڑے پیمانے پر مضبوط ہوتی جارہی ہیں جو کہ آگے چل کر صوبہ کو کے پی کے اور فاٹا کی طرح اپنی لپیٹ میں لے کر فرقہ پرستی و بدامنی پھیلانے کا باعث بن سکتی ہیں ۔ جس کی رو ک تھام کے لیے سندھ کی ازلی سیکیولر و صوفی روح کی تعلیم کو اجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ اشتعال انگیز ی پر مبنی تقاریر و مدارس کی مانیٹرنگ کے قوانین پر عمل درآمد کیا جانا کارآمد ہوگا۔
حالانکہ سابقہ دور کی طرح اسی مراد علی شاہ کے وزیر اعلیٰ بننے اور نثار کھوڑو کی بیٹی ندا کھوڑو اور پیر مظہر الحق کے بیٹے مجیب الحق سمیت تقریباً ان ہی جدی پشتی سیاستدانوں کی اولاد ہی ایم پی ایز بنی ہے لیکن نئے چہروں اور نئی و نوجوان سوچ سے یہ امیدیں بہر حال ہیں کہ وہ جدید دور کے تقاضوں کے مطابق اپنے شعور سے پُر کردار کو معاشرے کی اصلاح اور عوام کی فلاح کے لیے بہتر طریقے سے ادا کرسکیں گے ۔ اس کے باوجود بلاول بھٹو زرداری کو یہ ذہن نشین کرلینا چاہیے کہ سندھ کے عوام نے کسی گروپ یا کمپنی کو مینڈیٹ نہیں دیا ۔ اس لیے وزارتوں ، عہدوں اور ٹھیکوں میں اقربا پروری سے گریز کیا جائے اور میریٹ و مستعدی کو ہر حال میں برقرار رکھا جائے ۔ یہی پی پی پی کے آئندہ دنوں میں سیاسی میدان مارنے کی وجہ بنے گی ورنہ کہیں لیاری کے بعد لاڑکانہ اور پھر صوبہ بھر سے پی پی پی کا بوریہ بستر نہ گول ہوجائے ۔۔۔!!!