آوارہ کتے اور ذوقِ گدائی

مسائل کی تلخی پر طنزو مزاح کی شوگر کوٹنگ سے معاشرے کی عکاس تحریر


 مسائل کی تلخی پر طنزو مزاح کی شوگر کوٹنگ سے معاشرے کی عکاس تحریر۔ فوٹو: فائل

یہ حقیقت ہے کہ انسان سے انسان بھی بہت کم ہی متاثر ہو تا ہے اور جب ہو تا بھی ہے تو ضروری نہیں کہ ساری عمر ہی متاثر رہے، اس کی بڑی مثال آپ کے سامنے حالیہ عام انتخابات کی ہے، طویل عر صے تک سیاسی نظریاتی طور پر اپنے پارٹی لیڈر سے متاثر رہنے والے فوراً ہی لیڈر کو نہ صرف چھوڑ گئے بلکہ بات اختلافات سے لڑائی اور ایک دوسرے کو بھمبھوڑنے اور کاٹ کھانے تک جاپہنچی۔

انسان سے انسان کے متاثر ہونے اور پھر اس سے مکر جانے کے واقعات بہت ہیں لیکن ملازمت میں انسان اپنے باس سے اس وقت تک بہت ہی متاثر رہتا ہے جب تک وہ اس کا باس رہے، پر یہ بھی حقیقت ہے کہ ہم کچھ شخصیات سے بڑی سچائی سے متاثر ہو تے ہیں مگر عموماً ان کی وفات کے بعد، لیکن یہ بھی ایک حیرت انگیز حقیقت ہے کہ انسان بعض جانوروں سے اور پرندوں سے بھی متا ثر ہو تا ہے اور ان میں سے کچھ تو ایسے ہیں جن سے پوری دنیا کی ساڑھے سات ارب انسانی آبادی مشترکہ طور پر متاثر ہے، جیسے پرندوں میں شاہین، عقاب، باز اور شہباز اور درندوں میں شیر، ببر شیر۔ دنیا بھر میں دیکھیں تو قبل از تاریخ سے اب تک بڑی مملکتوں سلطنتوں کے قومی نشانات اور پرچموں پر ان کی تصاویر دکھائی دیتی ہیں دنیا بھر میں لوگ اپنے بچوں، بچیوں کی نام ان پر رکھتے ہیں۔

پوری دنیا ان کی پھرتی، طا قت، غیرت، وژ ن اور نامعلوم کن کن چیروں سے متاثر ہے اور شائد قیامت تک ہو تی رہے گی حالانکہ شیر کے حوالے سے تو بہت سی راویتی باتوں کا پو ل نیشنل جیوگرافک جیسے ٹی وی پروگراموں نے کھول دیا ہے کہ ہم نے دیکھا ہے کہ جنگل میں شیروں کو جنگلی کتے ایسا بھگاتے ہیں کہ شیر پیچھے مڑ کر نہیں دیکھتا، شیر جیسا غیرت مند درندہ ''جورو کی کمائی کھاتا ہے،، یعنی شیرنی جو شیر کے مقابلے میں زیادہ پھرتیلی ہو تی ہے اکثر شکار کرتی ہے اور پھر شیر صاحب تشریف لاتے ہیں اور پہلے خود کھاتے ہیں اور پھر بیوی کھاتی ہے، لیکن شیر شیر ہے اور روائتی طور پر ہم اسے جنگل کا باد شاہ کہتے ہیں حالانکہ ٹی وی پروگرام نیشنل جیوگرافک میں دیکھا ہے کہ بہت سے جانور اسے بادشاہ تسلیم نہیں کرتے۔

پھر کچھ جانور ایسے ہیں جن کو دنیا کے مختلف حصوں اور ملکوں میں اپنی مذہبی روایتی اقدار کے مطابق معاشرتی، مذہبی، انداز سے مقام و مرتبے عطا کئے گئے ہیں۔ بعض پرندوں اور جانوروں کو دنیا کی مختلف قوموں اور ملکوں نے اپنا قومی جانور اور پرندہ قرار دیا ہے جیسے پاکستان کا قومی جانور چلتن مارخور بکرا ہے حالانکہ دنیا یہ جانتی ہے کہ بکرے فضا میں اڑنے سے قاصر ہیں مگر ہماری قومی ائیر لائن پی آئی اے نے اپنے طیاروں کی دم پر مارخور بکرے کی تصویر بنا دی اور اس پر کروڑوں روپے خرچ کر دیئے اگر یہ کا م ریلوے کی وزارت کرتی تو کوئی بات تھی یا ہم اپنے قومی پرندے چکور کی تصویر پی آئی اے کے طیاروں پر بناتے تو اس کا کوئی جواز تھا یہ کہ یہ بیوقوف پرندہ عوام کی طرح چاند سے محبت کرتا ہے اور اُسے اڑ کر پکڑنے کی کو شش بھی کرتا ہے، بہر حال چیف جسٹس آف پاکستان کی نظر پی آئی اے کے طیارے پر بنی مارخور بکرے کی تصویر پڑگئی۔

پی آئی اے کے سربراہ کو خوب لتھا ڑ ا،اور اسے ہٹا کر پاکستانی پرچم کی تصویر لگا نے کا حکم دیا، بہرحال جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے تو یہاں سور اورسانپ کو اچھا تسلیم نہیں کیا جاتا اب یہ اتفاق ہے کہ یہ دونوں جانور پاکستان کے صرف ایک شہر میں اکثر راتوں کو اور بعض مرتبہ دن کی روشنی بھی نظر آتے اور وہ ہمارا دارالحکومت اسلام آباد ہے، جہاں یہ سڑکوں پر بھی آجاتے ہیں اور بعض مرتبہ گھر میں بھی گھس جاتے ہیں، پھر جہاں ہم چکور کو قومی پرندے کا درجہ دیتے ہیں اور شاہین ،عقاب وغیرہ کو علامہ اقبال کے کہنے پر شرف ِ قبولیت بخشتے ہیں وہاں یورپ میں فلسفی کا درجہ پانے والے پرندے الّوکو نہایت منحوس قرار دیتے ہیں، یہ پرندہ ہمار ے ہاں کم پایا جاتا ہے کہ اس کے سر اور خون کو ہمارے ہاں کالا علم جاننے والے استعمال کرتے ہیں، یوں یہ کالا علم رکھنے والوں کے لیے منحوس اور سفید علم والوں کے لیے عقلمند پرندہ ہے۔

جب کہ ہمارے ہمسایہ ملک بھارت میں بہت سے موذی اور مفید جانور مذہبی طور پر محترم ومقدس تسلیم کئے جاتے ہیں ،گائے کو ماں کا درجہ حاصل ہے سانپ، ہاتھی، بندر وغیرہ مقدس اور دیوتا کا درجہ رکھتے ہیں، مگر ایک جانور کتا ایسا ہے جس کو پوری دنیا میں وفادار تسلیم کیا جاتا ہے لیکن دنیا کے کسی معاشرے یا ملک میں اس کا کوئی مقام و مرتبہ نہیں، یہاں تک کہ بھارت میں سانپ کو دیوتا کادرجہ حاصل ہے اور امریکہ میں ڈیموکریٹک پارٹی نے گدھے کو اپنی پارٹی کا نشان بنایا ہوا ہے، مگر کتا بیچارہ ہر جگہ کتا ہی ہے ۔''انگریز ،امریکن ،آسٹریلوی ،کینیڈین جب بھی کسی پر بہت غصّے میں آتے ہیں تو جو گالی دیتے ہیں وہSon of bitch یعنی کتیا کا بیٹا یا بچہ کہتے ہیں۔

انہوں نے یہاں بھی صنفی مساوات کو مدنظر رکھا ہے جب کہ 1970 ء میں جب ہم کو ئٹہ شہر کے گورنمنٹ سنڈے من ہائی اسکول میں پڑھتے تھے ہمارے ایک نہایت جلاد مزاج ٹیچر تھے جن سے اس وقت اسکول کے بارہ سو بچے تھر تھر کانپتے تھے ان کے ہاتھ میں بیت کا ایک موٹا ڈنڈا ہوتا اور جب وہ اس سے کسی بچے کو مارتے تھے تو وقت کی پیمائش اور ڈنڈوں کی تعداد ان کے اسٹیمنے کے سامنے بے بس ہو جاتی تھی ان کی پسندیدہ گالی ''کتے کا بچہ'' تھی، آواز بہت گرجدار تھی۔

وہ ہر روز صبح سویرے اسکول کے آغاز پر جب سب بچے آج کی اسمبلی اور اس وقت کی دعا کے لیے میدان میں جمع ہوتے تو ان کا ڈنڈا گھومتا اور وہ اس وقت محترم ہیڈ ماسٹر صاحب کے سامنے اپنی گرجدار آواز میں دو تین مرتبہ پوری گالی دیتے بارہ سو کے بارہ سو بچے سہم جاتے، پھر باقی چٹھی تک وہ تین الفاظ کے جملے کو پورا نہیں کرتے تھے بس کسی بھی بچے کو دیکھ کر گرجدار آواز میں صرف پہلے دو الفاظ کہتے '' کتے کا،،۔۔ با قی خالی جگہ سننے والا بچہ ازخود پُر کر لیا کرتا تھا۔ اب بھی میں کبھی کبھار سوچتا ہوں کہ انہوں نے ہمیں کبھی کتیا کا بچہ کیوں نہیں کہا، شائد اس کی وجہ یہ رہی ہو کہ ہمارا اسکو ل انگلش میڈیم نہیں تھا، ہو سکتا ہے کہ برطانیہ،امریکہ،آسٹریلیا،کینیڈا وغیرہ میں ایسے اسکول ٹیچر Son of bitch ہی کہتے ہوں۔ بہرحال کتے کی یہ توقیر ہمارے بچپن میں ہمارے سامنے آئی جس میں بلا کا تشدد بھی شامل تھا۔

مگر اس میں کسی کتے یا کتوں کا کو ئی قصور نہ تھا بلکہ کتوں اور آوارہ کتوں کے ساتھ ہونے وا لا ظلم بھی ہمارے سامنے تھا وہ اس طرح کہ اس زمانے میں کوئٹہ میونسپلٹی نے کو ئٹہ کو دنیا کا مثالی شہر بنا رکھا تھا، انگریر کے چلے جانے کے بعد بھی اس وقت تک اس صحت افزا اور پُر فضا شہر کو لٹل پیرس کہا جاتا تھا اس لیے یہاں آوارہ کتوں کے خلاف کاروائیاں جاری رہتی تھیں کیو نکہ اس وقت شہر کی کل آبادی ساٹھ ستر ہزار تھی اسی تناسب سے اس وقت یہاں آوارہ کتے تھے اس لیے ان کو ختم کرنے کے لیے مونسپل کمیٹی نے ایک گن مین اور اس کے ساتھ ایک سوئپر رکھا تھا جو کسی بھی گلی محلے کی شکا یت پر دوسرے دن پہنچ جاتا، آوارہ کتے کو تلاش کر لیتا اور پھر بندوق سے نشانہ لے کر اسے ہلاک کردیتا اور پھر اس کی دم کے شروع سے چار انچ کاٹ لیتا یہ اس لیے تھا کہ اسے کتے کے مارنے کا اور کارتوس کے استعمال کرنے کا ثبوت دینا ہوتا تھا۔

کچھ عرصے بعد غالباً 1980 سے جب کوئٹہ شہر کی آبادی ایک لاکھ سے بڑھ گئی تو کچھ عرصے آوارہ کتوں کو مارنے کے لیے گوشت میں زہر ملا کر دیا جانے لگا۔ شائد اب بھی میٹروپولیٹین کارپوریشن کی فائیلوں میں یہی ہو مگر اب آوارہ کتے ہی شہر میں بے فکری سے گھوم پھر سکتے ہیں، ہاں یہ ضرور ہے کہ گوشت کتے کیوں کھائیں ؟ اور زہر، شدید قسم کے غریبوں کی ضرورت ہے جن کے بارے میں ساٹھ کی دہائی میں حبیب جالب نے کیا خوب کہا تھا ،

اس درد کی دنیا سے گزر کیوں نہیں جاتے؟

یہ لو گ بھی کیا لوگ ہیں مر کیوں نہیں جاتے؟

ہے کون زمانے میں مرا پوچھنے والا

نادان ہیں جو کہتے ہیں،گھر کیوں نہیں جاتے؟

شعلے ہیں تو کیوں ان کو بھڑکتے نہیں دیکھا

ہیں خاک تو راہوں میں بکھر کیوں نہیں جاتے؟

آنسو بھی ہیں آنکھوں میں دعائیں بھی لب پر

بگڑے ہوئے حالات سنور کیوں نہیں جاتے؟

بات آوارہ کتوں کو زہر ملا گوشت کھلانے کی اور کارتوس سے ہلاک کرنے کے بعد اس کی دم کاٹنے کی ہو رہی تھی،کتے کی دم کتے سے زیادہ بد نام ہے حا لانکہ تقریباً ہر چوپائے جانور کی دم ہوتی ہے اور اونٹ اور ہاتھی کی دم تو جسم کے تناسب کے اعتبارسے نہایت ہی نامعقول دکھائی دیتی ہے کہ اتنے بڑے ڈیل ڈول کے ساتھ ستر پوشی کا کوئی معقول انتظام نہیں ہے لیکن پھر خیال آتا ہے کہ بڑے اور طا قتوروں کو کون پوچھ سکتا ہے لیکن کتے کی دم کے بارے میں کئی محاورے ہیں ۔

جیسے کہ'' دم دباکر بھاگنا '' اسی طرح '' کتے کی دم ٹیڑھی کی ٹیڑھی''۔ واقعی کتے کی نسل رنگ ملک کوئی ہو کتے کی دم ٹیڑھی ہوتی ہے ہمارے ہاں بلوچستان، خیبر پختونخوا اور افغانستان میں چرواہے بڑے خطرناک کتے رکھتے ہیں اور ان خطرناک کتوں کے ساتھ یہ چرواہے پہاڑوں وادیوں میں چراگاہوں میں اپنے ریوڑ چراتے ہیں، یہ چرواہے ان کتوں کے کان اور دم ان کے بچپن ہی میں کاٹ دیتے ہیں کہ جب کبھی بھیڑے سے ان کا سامنا ہو تو وہ دم یا کان سے ان کو قابو نہ کر سکے، ہمارے ہاں بعض حاکم مزاج حضرات اپنے پالتو کتوں کی دم اس لیے کٹواتے ہیںکہ یہ کسی اور کے سامنے دم نہ ہلائیں، لیکن اس کے باوجود بھی کتے کو قریب نہیں آنے دیتے کتا تاریخی طور پر انسان کا بہترین ساتھی رہا ہے یہ آج بھی شکار گاہوں میں انسا نو ں کے لیے شکار کرتا ہے۔

انٹارکٹیکا جیسے سرد ترین اور برفانی علاقے میں جہاں کوئی اور جانور انسان کا ساتھ نہیں دیتا، وہاں یہی کتا،گھوڑوں خچروں کی طرح انسانوں کا بوجھ اٹھاتا ہے۔ بارودی سرنگ ایک خطرناک جنگی ہتھیار ہے اور بدقسمتی سے ان بارودی سرنگوں سے جنگوں میں شریک فوجیوں سے زیادہ بے گنا ہ اور معصوم لوگ ہلاک ہوتے ہیںاس لیے امریکہ کے علاوہ دنیا بھر کے ممالک نے ان پر پابندیاں عائد کی ہیں مگر جہاں جہاں دہشت گردی اور اس کے خلاف جنگ ہے۔

وہاں بارودی سرنگوں کو بے تحاشہ استعمال کیا جاتا ہے اور بعد میں کسی کو کچھ معلوم نہیں ہوتا کہ ہزاروں لاکھوں بارودی سرنگیں کہاں کہاں دفن ہیں، ان کی تلاش بھی کتے کرتے ہیں۔ جب سے دنیا میں دہشت گردی شروع ہوئی ہے اور ہیروئن اور چرس سمیت دیگر منشیات کی اسمگلنگ کی جاتی ہے تو یہ کتے ہی ہیں جو، ان کو پکڑتے ہیں کیونکہ ان کے سونگھنے کی قوت یعنی قوت شامہ بہت تیز ہوتی ہے، اسی کی بنیاد پر یہ کتے آپس میں بھی ایک دوسرے کے جسم کے مختلف مقامات کو سونگھنے کے بعد نسل یا خاندانی ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں معلوم کرلیتے ہیں۔

ماہرین کتیات کہتے ہیں کہ آوارہ کتے اپنے محلوں اور گلیوں میں سرحدوں کاتعین پیشاب کرکے کرتے ہیں اور اسی کو سونگھ کر اس سرحد کا پتہ کر لیتے ہیں،آج کل ہمارے ہاں سکیورٹی کے لوگ بھی کتے لے کر ائیرپورٹ اور ریلوے اسٹیشنوں پر اِن کتوں کی مدد سے تلاشی لیتے ہیں۔ ایک بارغالبا 2007 کی بات ہے کہ ہم کوئی بیس صحافی ایک کانفرنس میں شرکت کے لئے کراچی گئے یہ دہشت گردی کے حوالے سے نہایت خطرناک دور تھا ہمارے ایک ساتھی نے بہت مہنگی نہ جانے کس جانور کی کھال کی ایک عجیب وغریب چپل پہن رکھی تھی۔ جب ہم ائیرپورٹ پر اترے تو سکیورٹی اہلکار کے ساتھ جو'' جرمن شیپرڈ '' کتا تھا اس نے نجانے کیا سونگھا کہ ان کی چپلوں کو بھمبھوڑنے لگا، اُن سے چیلیں اتر وائی گئیں۔

اسکرین مشینوں سے کئی مرتبہ ان چپلوں کو گزارا گیا اور پھر بھی کتے کے مطمئین نہ ہونے پر اس صحافی کو ایک نئی چپل منگواکردی گئی کیونکہ ویسے بھی کتے نے چپل کا خاصا پوسٹ مارٹم کر دیا تھا اور حقیقت میں وہ پہننے کے قابل نہیں رہی تھیں ۔کتا انسانی خدمت کے اعتبار سے شائد دنیا کا سب سے اہم جانور ہے آج کے دور خصوصا ہمارے ہاں کسی کے پاس اتنا وقت نہیں ہوتا ہے کہ وہ کسی نا بینا شخص کو سڑک پار کرادے تو اہل مغرب کی طرح ہمارے ہاں بھی اب یہ کتے بصیرت سے محروم افراد کے لیے تو اپنا کردار پیش کرتے ہیں، لیکن ان پر کوئی اثر نہیں ہوتا البتہ بصارت سے محروم افراد کی رہنمائی کرتے ہیں۔ ان نابینا افراد کو سڑک پار کرواتے ہیں۔ ان کے ساتھ بازاروں میںشاپنگ کرنے میں ان کی مدد کرتے ہیں۔

کتے بہترین محافظ اور چوکیدار تسلیم کئے جاتے ہیںگھروں میں چوروں ڈاکوو ں کو داخل نہیں ہونے دیتے، آپ کا ملازم پولیس یا ڈاکوؤں سے مل سکتا ہے کہ اسے کرنسی نوٹوں کا لالچ ہوتا ہے مگر کتا ایسا وفادار ہے کہ غیر اگر ٹکڑا بھی ڈالے تو نہیں کھاتااور صرف سونگھ کر ہلال وحرام کا فرق معلوم کر لیتا ہے۔

مگر عجیب سی بات ہے کہ کتا بھونکے تو چوروں کے علاوہ بھی اکثریت کو برا ، برا لگتا ہے اور اگر کتا روئے تو منحوس قرار پاتا ہے حالانکہ کتا بوقت ضرورت ہی بھونکتا ہے اور انتہائیمجبوری میں روتا ہے مگر اس کے آنسو کسی نے نہیں دیکھے جہاں تک بھونکنے کا تعلق ہے تووہ یا تو اپنی چو کیداری کے دوران جب اسے کو ئی آہٹ محسوس ہو کوئی شک ہو کہ کوئی چور تونہیں تو وہ بھو نکتا ہے پھر زیادہ اس وقت بھو نکتا ہے جب کو ئی اور کتا اس کی حدود میں داخل ہو۔ بلی سے اس کی دشمنی ازلی ہے مگر ماہرینِ کتیات کا کہنا ہے کہ جب سے دنیا میں ماڈلز نے کیٹ واک شروع کی ہے کتے کی بلی سے دشمنی میں شدت آچکی ہے۔

حالانکہ بہت سی اعلیٰ ظرف بلیوں نے کتوں کو سمجھانے کی کو شش کی ہے دو ٹانگوں والی خواتین کس طرح چار ٹانگوں والی بلی کی طرح چل سکتی ہیں مگر کتے جو انسان سے وفاداری میں اپنا ثانی نہیں رکھتے ان کا اعلیٰ ظرف بلیوں کو یہ جواب ہے چونکہ محاورے میں ،،چال چلن،، اکٹھا استعمال ہو تا ہے اس لیے انہیں کیٹ واک سے نفرت ہے اور شائد یہ بات ماڈرن خواتین کو بھی معلوم ہے اسی لیے وہ صرف ریم پر ہی کیٹ واک کرتی ہیں، ورنہ ان پر کتے بہت بھونکتے اور وہ میڈیا کے لیے یہ محاورہ استعمال نہیں کر تیں کہ کتے بھونکتے ہیں قافلہ جاتا ہے۔کتے اوربھکاریوں کی بھی ازلی دشمنی ہے مگر یہ دشمنی زیادہ تر آوارہ کتوں اور بھکا ریوں کے درمیان رہتی ہے، فارسی کے مشہور شاعر عرفی کا شعر ہے ۔

عرفی تو میدند یش زغوغائے رقیباں

آوازِ سگاں کم نہ کند رزق گد ا را

بہت سے شعرا کے ہزاروں اشعار کی طرح عرفی کا یہ شعر بھی نہ صرف مقامی اور قومی سطحوں پر غلط ہے بلکہ اب تو انٹر نیشنل سطح پر زیادہ غلط ثابت ہوا ہے اور آپ اس کی تائید کریں گے کہ گزشتہ دس پندرہ برسوں سے جب سے بھارت کے تعلقات امریکہ سے گہرے اور شیریں ہوئے ہیں جب کبھی غلطی سے امریکہ نے اگر پاکستان کی تھوڑی بہت مالی امداد کا اعلان کیا تو بھارت نے اتنا شور شرابا کیا کہ، واقعی 'رزق ِگدا را کم تو کیا بند ہی ہوگیا۔

یوں واقعی اکثر کتوں کا بھوکنا برا لگتا ہے مگر جہاں تک تعلق کتوں کے رونے کو منحو س قرار دینے کا ہے تو اب چین کے ماہر ین نے یہ معلو م کیا ہے کہ جب بہت سے کتے ایک ہی وقت میں ایک ساتھ رونے لگیں تو مشاہدے اور تجربے کے مطابق کچھ ہی دیر بعد اس مقام یا جگہ پر زلزلہ آتا ہے، اور چونکہ چین میں نہ صرف زیادہ زلزے آتے ہیں بلکہ ان کے ہاں زلزوں سے سالانہ دنیا بھر میں سب سے زیادہ لوگ ہلاک ہوتے ہیں۔

اس لیے ان کے ماہر ین کو شش کر رہے ہیں کہ کتوں کی مدد سے زلزلوں کی پیش گوئی کا کو ئی ایسا طر یقہ ایجاد کیا جائے کہ زلزلے کے آنے سے پہلے لوگوں کو اس کی اطلاع کر دی جائے اور یوں لوگوں کی اکثریت ہلاک ہو نے سے بچ جائے گی اس طرح مستقبل قریب میں یہ کتے ہی ہونگے جو، اب لاکھوں، کروڑوں انسانوں کو اجتماعی موت سے بچائیں گے لیکن یہ چین ہی ہے جہاں تحقیقی بنیادوںپر کتو ں کی وفاداری اور ان کی اہمیت ثابت ہو جانے کے باوجود ہمارے چینی بھائی ان کو بھی کھا جاتے ہیں۔

لیکن یہاں بھی اس کی بنیاد تحقیق ہی بتائی جا تی ہے چینیوں کا کہنا ہے کہ کتے کے گوشت کا سوپ دائمی کھانسی کے لیے بہت مفید ہے جب کہ اس کے برعکس ہمارے ہاں تو کتا کھانسی زیادہ مشہور ہے۔ کتے میں ایک اور عجیب چیز ہے جس کی وجہ سے اس کی محنت کو کبھی تسلیم نہیں کیا جاتا وہ یہ کہ اِس کے جسم کی بجائے اِس کی زبان پر پسینہ آتا ہے، اور اس کے منہ ہی سے وہ لُوآب ''ریبیز'' نکلتا ہے جس کے کا ٹنے پر انسان کی موت واقع ہو سکتی ہے جب کہ اگر کتا پاگل ہو جائے تو پھر اس کے کا ٹے کا اگر فوراً علاج نہ ہو تو انسان بہت بھیانک انداز میں مرتا ہے اور اسی لیے کتے کے کاٹے پر انجکشن لگائے جاتے ہیں۔

پہلے یہ انجکشن چالیس کی تعداد میں پیٹ میں لگائے جاتے تھے آج کل سنا ہے کہ جدید تحقیق کے بعد اگرچہ ان کی تعداد کافی کم ہو گئی ہے مگر لگائے اب بھی پیٹ میں ہی جاتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کتا کیوں پاگل ہو تا ہے؟ اس کی دو ہی صورتیں ہیں ایک یہ کہ سب ہی یہ جانتے ہیں کہ کتا نہایت ذہین، یا عقلمند جانور ہے مگر یہ لومڑی کی طرح عیار اورچالاک نہیں، یہ عقلمند ہونے کے باوجود انسان سے وفا کرتا ہے اور پھر متواتر سوچتا رہا ہے، علامہ اقبال نے کہا تھاکہ

خرد کی گتھیاں سلجھا چکا میں

مرے مولا مجھے صاحب جنوں کر

یوں میرا خیال ہے اس وفادار جانور کی یہ آرزو کبھی کبھی اللہ تعالیٰ پوری کر دیتا ہے، انسانی وفا میں'' قیس'' مجنوں جس کے معنی دیوانے کے ہیں ہمارے مشرقی ادب میں وفا کی عظیم علامت ہے۔ غالب نے فرہاد کو شیر یں کے مرنے پر، جس تیشے سے دودھ کی نہر نکالی تھی اُسی تیشے سے خودکشی کرنے کے واقعہ پر کہا کہ بغیر تیشے وہ نہیں مر سکا حالانکہ شیریں کی موت کی خبر ہی اس کی موت کے لیے کافی ہونی چاہئیے تھی، اس کے مقابلے میں واقعی قیس نے لیلیٰ کی موت کی خبر سننے کے بعد نہ تو دوسرا سانس لیا اور نہ ہی اس کا دل دھڑکا اسی لیے غالب نے مجنوں کو یوں خراج عقدیت پیش کیا ہے۔

میں نے مجنوں پہ لڑکپن میں اسد

سنگ اٹھایا تھا کہ سر یاد آیا

لیکن بڑی عجیب بات ہے کتے کے بغیر لیلیٰ مجنوں کے عشق کی داستان بھی مکمل نہیں ہوتی ہے، اس داستان میں جب قیس کے والد جو اپنے قبیلے کے سردار اور معزز ین ِ عرب میں سے تھے یہ کہتے ہیں کہ دوسرے قبیلے سے تعلق رکھنے والی لیلیٰ کے رشتے کے لیے قیس کو لے کر خود لیلیٰ کے باپ کے پاس جائیں گے اور یہ اصول روایت کے مطابق ہے جب کوئی عرب کسی عرب کے گھر پر کچھ مانگنے آجائے تو پھر اس سے انکار تقریباً نا ممکن ہو جا تا ہے۔

یوں جب مجنوں کا باپ اپنے بیٹے قیس کو نئے کپڑے پہنا کر لیلیٰ کے گھر لے جاتا ہے تو اب لیلیٰ کے والدین کو اپنی جانب سے انکار کا بہانہ چا ہیتے تھے۔ یوں اِن کوکو ئی عقلمند یہ منصوبہ بنا کر دیتا ہے،کہ مردوں کی محفل میں جب قیس اپنے والد کے ساتھ بیٹھا ہوتا ہے تو سازش کے مطابق لیلیٰ کے کتے کو ملازم وہاں لا کر چھوڑ دیتا ہے اور قیس، لیلیٰ کے کتے کو دیکھتے ہی اس سے لپٹ جا تا ہے جسے دیکھ کر سب برا مانتے ہیں کہ کتے جیسے پلیت جانور کو اس طرح پیار کرنا بھری محفل میں کتے کو بوسہ دینا یہ تو پاگلوں کا کا م ہے اور یوں قیس کو پاگل قرار دے کر رشتے سے انکار کردیا جاتا ہے۔

لیکن یہاںشائد ہماری طرح آپ کے ذہنوں میں بھی یہ سوال آیا ہو کہ جب لیلیٰ کو قیس جیسا وفادار عاشق مل گیا تھا تو اُسے کتا پالنے کی کیا ضرورت تھی ؟ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ وہ کتا پا لتو تھا مگر ہمارا موضوع ِ سخن آوارہ کتے ہیں، جن کو پہلے شہروں میں بلدیا تی ادارے ہلاک کردیا کرتے تھے مگر اب بہت کم ہی ایسا ہو تا ہے، دوسرے جانوروں کی طرح اگر چہ کتوں میں بھی باقاعد ہ شادی کا رواج نہیں مگر یہ جدید اور خصوصاً مغربی معاشرتی تہذیبی ارتقا کو پسند کرتے ہوئے جوڑا بنا کر رہنا بھی پسند نہیں کرتے، مگر برائی یہ ہے کہ دوسری جانب یہ اہل مغرب کی خاندانی منصوبہ بندی کی سختی سے مخالفت کرتے ہیں، اس لیے زوجیت سے بے نیاز مگر کثرت ِ اولاد میں مصروف و مشغول رہتے ہیں۔

ہمیں معلوم نہیں کہ پاکستان میں کُت شماری یا کتا شماری ہو تی ہے یا نہیں لیکن جہاں تک مردم شماری کا تعلق ہے تو ہماری پہلی مردم شماری 1951 ء میں ہوئی تھی اُس وقت ہماری کل آبادی تین کروڑ تیس لاکھ تھی اور اس وقت برطانیہ کی کل آبادی پانچ کروڑ تیس لاکھ تھی۔ 2017 ء کی مردم شماری کے مطابق ہماری مجموعی آبادی 21 کروڑ سے زیادہ تھی اور برطانیہ کی کل آبادی تقریباً چھ کروڑ ہے،ان کے ہاں ساری آبادی خطِ خوشحالی پر اچھلتی کودتی جمہور اور جمہوریت پر ناز کرتی نظر آتی ہے۔

ہماری آبادی میں 35 فیصد سے زیادہ خطِ افلاس سے نیچے ہیں اس کے بعد متوسط طبقے کے لیے تین درجات ہیں، پہلے دو درجات میں خوشحالی دور دور تک دکھائی نہیں دیتی، تناسب کل آبادی کا ساٹھ فیصد ہے باقی پانچ فیصد کے بار ے میں یہی کہا جا سکتا ہے ''جو لوگ کچھ نہیں کرتے کمال کرتے ہیں'' لیکن یہ بہت کچھ کرتے ہیں یہی حکومت کرتے ہیں صنعت و تجارت، یہ مراعات یا فتہ اور پالے ہو ئے ہیں، جو آبادی 95 فیصد ہے اور اس میں جو انتہا ئی غریب ہیں وہ بھی کمال کے لو گ ہیں، ان کی زندگیوں کے اتنے پہلو اور اتنے شیڈز ہیں کہ ان کا مکمل احاطہ کرنا کسی کے بس کی بات نہیں، بس اتنا کہنا ہے کہ ہماری آبادی میں شرح خواندگی 58 فیصد ہے، یوں ان پڑھ افراد کی تعداد ساڑھے آٹھ کروڑ سے زیادہ ہے۔

دس کروڑ انسان ایک کمرے کے مکان میں رہتے ہیں، ان میں لاکھوں ایسے بھی ہیں جو کھلے آسمان تلے فٹ پاتھوں پر رہتے ہیں، ان کی صحیح تعداد اس لیے معلوم نہیں کہ مردم شماری کرنے والوں نے ان کے لیے اپنے فارموں میں کو ئی خانہ بھی نہیں رکھا کیو نکہ فارسی اور اردو میں خانہ بھی گھر کو ہی کہتے ہیں۔ اسی طرح ان میں ڈھائی کروڑ وہ بچے ہیں جو اسکولوں سے باہر ہیں اور انہی میں سے تیس لاکھ کے قریب وہ معصوم بچے ہیں جو صبح سے شام کوڑا دانوں میں اپنا رزق تلاش کرتے ہیں اور تقریباً ایک کروڑ وہ نوجوان ہیں جو منشیات کے عادی ہیں اور ان میں سے بھی ہیروئن کے عادی لاکھوں نوجوان ہیں جو کوڑوں پر کچرا دانوں میں پڑے دکھائی دیتے ہیں انہی کے بارے میں احمد ندیم قاسمی نے کہا تھا۔

تو جنہیں رستم و سہراب کہا کرتا تھا

وہ جواں میں نے یہاں خاک بسردیکھے ہیں

میں نے کو ڑوں پہ پڑے دیکھے ہیں رخشندہ نجوم

میں نے لتھڑے ہوئے کیچڑ میں قمر دیکھے ہیں

ان کچرا چننے والے بچوں کے ساتھ ان منشیات کے عادی اور کوڑا دانوں پر پڑے نوجوانوں کے ساتھ یہ آوارہ کتے ملتے اٹھتے بیٹھے نظر آتے ہیں،کبھی کبھی جب ریلوے اسٹیشنوں،لاری اڈوں پر جا تا ہوں تو وہاں بھی یہ آوارہ کتے نظر آتے ہیں، یہ کتے صرف انسانوں سے ہی وفا نہیں نبھاتے یہ زمین کی محبت میں بھی گرفتار رہتے ہیں۔

آوار ہ کہلا نے کے باوجود یہ جہاں رہتے اس زمین کو چھوڑ کر نہیں جاتے بڑے چھوٹے ریلوے اسٹیشنوں پر دیکھو تو کئی ایسے آواہ کتے بھی نظر آتے ہیں جو ریلوے لائن پر آکر اپنی ٹانگ کٹوا بیٹھے ہوتے ہیں مگر پھر بھی ریلو ے اسٹیشن نہیں چھوڑتے حالانکہ ان کے سامنے روزانہ ہزاروں لوگ اپنا گھر بار زمین سب کچھ چند پیسوں کی خاطر چھوڑ کر چلے جاتے ہیں ، ان آوارہ کتوں کو، کوئی دھتکارتا ہے تو کوئی مارتا اور یہاں تک کہ کچھ لوگ ان آوارہ کتوں کو مار مار کر ہلا ک کردتے ہیں، فیض احمد فیض نے ان کے لیے کہا تھا:

کُتے

یہ گلیوں کے بے کار آوارہ کتے

جنہیں تُو نے بخشا ہے ذوق گدائی

زمانے کی پھٹکار سرمایہ ان کا

جہاں بھر کی دھتکار اِن کی کمائی

نہ آرام شب کو نہ راحت سویرے

غلاظت میں گھر نالیوں میں بسیرے

جو بگڑیں تو اک دوسرے سے لڑا دو

ذرا ایک روٹی کا ٹکڑا دکھا دو

یہ ہر ایک کی ٹھو کریں کھانے والے

یہ فاقوں سے اکتا کے مر جانے والے

یہ مظلوم مخلوق اگر سر اٹھائے

تو انسان سب سر کشی بھول جائے

یہ چاہیں تو دنیا کو اپنا بنا لیں

یہ آقاؤں کی ہڈیاں تک چبا لیں

کوئی ان کو احساسِ ذلت دلائے

کوئی ان کی سوئی ہوئی دم ہلائے

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں