کانگو کریمین خونی بخار
مختصر دورانیے کی خطرناک بیماری قابل علاج ہے۔
کانگو خونی بخار اس وقت پاکستان میں ایک وبائی صورت اختیار کیے ہوئے ہے۔ یہ بیماری تو خطرناک ہے ہی لیکن اس زیادہ خطرناک حقیقت یہ ہے کہ معاشرے میں اس بیماری سے متعلق بچاؤ احتیاطی تدابیر و علاج سے متعلق شعور و آگاہی کی کمی ہے۔
اگرچہ جانوروں سے انسانوں کو منتقل ہونے والی یہ بیماری دنیا میں نئی نہیں ہے۔ پھر بھی مسلم معاشرہ میں اور موجودہ عیدقربان کے موقع پر لوگوں کے ذہنوں میں اٹھنے والے خدشات کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ تحریر قارئین کی نظر کی جا رہی ہے تاکہ سنت ابراہیمی حفاظتی اقدامات کے ساتھ ادا کی جا سکے یہ تحریر سوالاََ جواباََ رقم کی گئی ہے اور ہر اس پہلو پر روشنی ڈالی گئی جو اس موذی بیماری سے متعلق ہے۔
سوال:کانگو کریمین خونی بخار کیا ہے؟
جواب: کانگو کریمین خونی بخار ایک جانوروں کی بیماری ہے جو ایک مخصوص قسم کے وائرس سے پیدا ہوتی ہے جو ایک چیچڑ کے ذریعے جانوروں میں، جانوروں سے انسانوں میں اور ایک متاثرہ انسان سے ایک صحت مند انسان میں منتقل ہوتی ہے، بارہویں صدی عیسوی میں قرون وسطی میں ایک مسلمان سائنسدان نے پہلی مرتبہ قازقستان میں چند مریضوں میں اس بیماری کی علامات نوٹ کیں جو کہ کانگو بخار سے ملتی جلتی تھیں۔ موجودہ ترقی کے دور میں پہلی مرتبہ یہ بیماری 1944میں عالمی منظر پر نمودار ہوئی۔
یہ بیماری سابقUSSR سوویت یونین کے علاقہ کریمیا میں منظر عام پر آئی جس سے سابقہ سوویت یونین کے تقریباََ دو سو فوجی متاثر ہوئے۔ علاقے کی وجہ سے اس کا نام کریمین کانگو یا خونی بخار پڑ گیا۔ اس کے علاوہ اس کو خو نی بخار اس لئے کہتے ہیں کہ اس بیمار ی میں جسم میں خو ن جمانے والے خلیے (پلیٹلیٹس)کی تعداد تیزی سے کم ہو جا تی ہے۔
جس کی وجہ سے خون میں جمنے کی صلا حیت کم ہو جاتی ہے۔ اور جسم کے مختلف حصوں مثلاً نا ک، منہ ، پیشاب، پاخانے کے رستے خو ن بہنا شروع ہو جا تا ہے۔ یہ خو ن جلد کے نیچے بھی جمع ہو تا ہے جس کی وجہ سے بندہ شا ک میں چلا جاتا ہے۔ جسم کے تمام نظام متاثرہ ہوتے ہیں اور موت واقع ہو جاتی ہے۔ یہ بخار اس وقت دنیا میں براعظم افریقہ، ایشیا، مشرق وسطی اور یورپ میں پایا جاتا ہے۔ سارک ممالک میں پاکستان، انڈیا اور افغانستان بھی اس وقت اس میں شامل ہیں۔
سوال:اس بیماری کے پھیلاؤکے کیا ذرائع ہیں؟
جواب:یہ بیماری جراثیم سے متاثرہ چیچڑ، متاثرہ جانور اور متاثرہ انسان کے سائیکل کے ذریعے پھیلتا ہے۔ جب ایک صحتمند چیچڑ ایک کانگو بخار سے متاثرہ جانور کو چمٹتا ہے تو یہ جراثیم چیچڑ میں منتقل ہو جاتا ہے اور جب یہ متاثرہ چیچڑ صحتمند انسان یا صحتمند جانور کو چیمٹتا ہے تو جراثیم انسانوں اور جانوروں میں منتقل ہو جاتا ہے اور جانور، انسان اس جراثیم سے متاثر ہو جاتے ہیں اس طرح بیماری کا سر کل چل پڑتا ہے۔
سوال:کیا جانور کانگو جراثیم سے بیمار ہوتا ہے؟
جواب:یہ بات بڑی دلچسپی کی حامل ہے کہ کانگو خونی بخار کا جراثیم جانور کے اندر داخل تو ہوتا ہے مگر متاثرہ جانور میں اس کی خاص علامات ظاہر نہیں ہوتیں۔ صر ف ایک ہفتہ کیلئے بیمار جانور کے جسم کا درجہ حرارت بڑھ جا تا ہے یعنی بخا ر ہو جاتا ہے۔ جراثیم جانورکے جسم کے اندر پرورش پاتا ہے اور متاثرہ جانور کے خون، رطوبات اور گوشت کے اندر جراثیم پایا جاتا ہے لیکن جراثیم باذات خود جانور کو کوئی نقصان نہیںدیتا۔ یہ بیمار جانور انسان کیلئے اور صحتمند دوسرے جانوروں اور صحتمند چیچڑ کیلئے خطر ناک ثا بت ہوتا ہے۔ یہ بیماری اونٹ، گائے ، بھینس، بکری، شتر مرغ، بھیڑسمیت تمام جانوروں میں پائی جاتی ۔ البتہ پا لتو جانور کتے، بلی، خرگوش وغیرہ اس سے زیادہ متا ثر نہیں ہوتے۔
سوال:کیا پرندے بھی اس بیماری کا شکار ہوسکتے ہیں؟
جواب:جی ہاں پرندے مثلاً طوطا، کوا، چڑیا وغیرہ بھی اس بیماری کا شکار ہو سکتے ہیں۔
سوال:انسانوں میں منتقل ہونے کے کیا ذرائع ہیں؟
جواب:یہ بیمار ی انسانوں میں متاثرہ چیچڑ کے کا ٹنے سے یا متاثرہ جانور کے خون سے یا متاثرہ مریض کے خون سے سرجیکل آلات، مثلاً متا ثرہ مر یض کی استعمال شدہ سر نج، بلیڈ وغیرہ سے دوسرے انسان کو منتقل ہو جاتی ہے۔
بیمار ی سے متاثرہ جانو ر کا خون یا فضلاء کچلے ہوئے چیچڑ کے خون کے انسانی جسم کے کٹ یا زخم پر لگنے سے یا متاثرہ خو ن و دیگر رطوبات کا منہ یا آنکھ میں جانے سے بھی انسا نوں میں منتقل ہو سکتا ہے۔ ریسکیو 1122 محکمہ لا ئیو سٹاک، محکمہ صحت اور محکمہ زراعت تحصیل میونسپل ایڈمنسٹریشن، ویسٹ مینجمنٹ کمپنی کے ملازمین انتہائی رسک پہ ہیں ۔ اس کے علا وہ جانوروں کے بیوپاری، قصائی اور مذبح خا نے میںکام کرنے والے افراد اور مویشی پال حضرات، فارم ہاؤسز سے وابستہ افراد، گوالے براہِ راست اس بیماری سے متاثر ہو سکتے ہیں۔
سوال:کا نگو خونی بخار کے جسم کے اندر داخل ہونے کے کتنے دن بعد علا مات ظاہر ہو تی ہیں؟
جواب:چیچڑ کے انسا ن کو کاٹنے سے کو ئی تکلیف نہیں ہوتی عمو ماً وائرس کے انسانی جسم میں داخلے کے تین سے نو روز کے اندر اندر شدید تیز بخار، سر میں درد ، جسم اور پٹھو ں میں درد، آنکھو ں میں درد، پیٹ میں درد ، متلی کی کیفیت پیدا ہونے کے ساتھ چند علا مات جن میں جسم پر سُرخ رنگ کے دھبے بن جانا، جلد پر نیل بن جانا، پیشاب، پاخانے کے رستے خون بہنا یا خون کی آمیزش ہونا، ناک منہ سے خو ن کا بہنا، خواتین میں غیر معمولی ماہواری، آنکھو ں کا سرُخ مائل ہونا یا خون کا جمنا، غنودگی، مسو ڑو ں سے خون آنا ایسی علا ما ت ہیں جس کی بنیاد پر اس بیمار ی کا شک کیا جا سکتا ہے۔
سوال:ریوڑ، گلہ بان، قصائی اور جانوروں کے بیوپاری کیا احتیاطی اقدامات کریں؟
جواب:قصائی گھر جا نے سے پہلے سر، پاؤں اور ہا تھ اچھی طرح دھو لیں اور خون سے آلودہ کپڑ ے تبدیل کریں۔ بند جوتے استعمال کریں، پوری آستین کے کپڑے پہنیں، قصابوں، گلہ بان، بیوپاری اور مویشی پال حضرات میں یہ چیچڑ ان کے بالوں، گردن کے پچھلے حصے(گدی) اور پاؤں کی اُنگلیوں کے درمیانی جگہوں پر پائے جا سکتے ہیں ۔ عید کے دنوں میں منڈی جانے اور آنے والے لوگوں کو ہلکے رنگ کے کپٹر ے پہننا چاہیے تاکہ چیچڑ کی موجودگی آسانی سے دیکھی جا سکے کیونکہ گہر ے رنگ کے کپڑ ے میں چیچڑ نظر نہیں آتے۔
سوال:کیا اس بیماری کا کوئی علاج ہے؟
جواب:جی ہاں یہ قابلِ علا ج مگر خطرناک بیمار ی ہے جس کی شرح اموات 30--50 فیصد ہے۔ جراثیموں کے لیے مخصوص دوائی Ribazole جو کہ مارکیٹ میں آسانی سے دستیاب ہے۔ یہ دوائی حالت کے مطا بق دی جا تی ہے۔ اس کے علاوہ متاثرہ مریض کو انتہائی نگہداشت میں رکھا جانا چاہیے اور خون میں خلیوں کی کمی پلیٹلیٹس جمنے والے خلیے دینے چاہئیں جو کہ خون عطیہ کرنے والے افراد پورے خون کی بجائے صرف مخصوص پلیٹلیٹس بھی دے سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ جسم کے درد، بخار و اُلٹی کی دوائی اور صدمے کا علا ج ICU کے پروٹوکول کے مطابق کیا جاتا ہے۔عموماً مریض 10سے 12 روز میں تندرست ہونا شر و ع ہو جاتا ہے۔ اور اگر بروقت علاج نہ کیا جائے دوسرے ہی ہفتے مریض کی مو ت واقع ہوسکتی ہے۔ یہ مختصر دورانیے کی خطرناک بیماری ہے۔
سوال:کیا پاکستان میں اس کی تشخیص ممکن ہے؟
جواب:جی ہاں پاکستان میں اس کی تشخیص بڑی آسانی سے کی جا سکتی ہے۔ جر ا ثیم کو انسا نی خون میں دیکھا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ خو ن میں جمنے والے خلئے میں نمایا ں کمی اور جسم میں جرا ثیم کے خلاف اینٹی باڈیز مخصو ص IGg اور IGmکی مو جو دگی کے ذریعے اس بیماری کی سو فیصد تشخیص ممکن ہے اور یہ سہو لت تقریباً ہر بڑے شہر میں مہیا ہے۔
سوال:کیا یہ بیماری پورا سال پھیلتی ہے؟
جواب:نہیں یہ بیمار ی صرف مو سمِ بہار سے خزاں کے دوران ہی پھیلتی ہے۔ یہ ایک مختصر دورانیے کی جان لیوا بیماری ہے۔ اس کا زیادہ پھیلاؤ گرمی کے موسم میں ہوتا ہے۔ موجودہ سیلابی صورتِ حال کے پیشِ نظر جانور اور انسان اکٹھے رہنے پر مجبور ہیں اور چیچڑ جانوروں کے ساتھ چمٹے ہوتے ہیں ۔ لہٰذا ان دنوں اس کے پھیلاؤ کے خطر ات بڑ ھ گئے ہیں۔ سردی میں یہ بیماری وقوع پذیر نہیں ہوتی۔
سوال:کیا یہ جراثیم دہشت گردی کے طور پر بھی استعمال کیا جا سکتا ہے؟
جواب:جی ہا ں یہ ایک مہلک جراثیم ہے اور اس جراثیم سے پیدا ہونے والی بیماری کی شرح اموت بہت بلند ہے اورساتھ ساتھ دورانیہ بھی تقریباً دو ہفتے ہے اس لیے اس کو دہشتگردی کے طور پر استعمال کیاجا سکتا ہے۔ اگر چہ اس جراثیم کی گروتھ لیبارٹری میں اتنی تیزی اور زیادہ تعداد میں نہیں کی جا سکتی اس وجہ سے یہ کیٹگری C میں شمار کیا جاتا ہے اس جراثیم کو فضا میں پھیلایا جا سکتا ہے۔ اور بذریعہ سانس انسان اور جانور اس کا شکار ہو سکتے ہیں۔
سوال:چیچڑ میں یہ بیما ری کیسے رہتی ہے؟
جواب:یہ با ت بھی توجہ طلب ہے کہ اگر ایک چیچڑ اس بیمار ی سے متاثر ہو تا ہے تو وہ زندگی بھر اس وائرس سے متاثر رہتا ہے اور یہ بیماری چیچڑ کو بیما ر نہیں کر تی بلکہ یہ جراثیم چیچڑ کے انڈوں میں منتقل ہوتا ہے اور اس طر ح ورا ثتی طور پر یہ جراثیم ایک چیچڑ سے دوسر ے چیچڑ میں منتقل ہوتی ہے۔ یعنی جراثیم مادہ چیچڑ سے انڈوں میں اور انڈوں کی گروتھ سے نئے پیدا ہونے والے چیچڑ میں چلا جاتا ہے۔
سوال: اس بیماری سے بچاؤ کے لئے کیا اقدا ما ت کرنے چاہئیں؟
جوا ب :۔ اس بیماری کا مرکزی کردار چیچڑ ہے جو اس بیماری کو ایک جگہ سے دوسر ی جگہ انسان سے انسان، بیمار جانوروں سے دوسرے جانوروں کو منتقل کرتا ہے۔ یعنی چیچڑ بطورِ سواری استعمال ہوتا ہے۔لہٰذا چیچڑ کو مار نے کے لئے اور اس کی افزائش کو روکنے کیلئے چیچڑ مار سپر ے محکمہ زراعت، لائیو سٹاک اور TMA کو آگے آنا چاہئیے۔
جا نوروں کے جسم کا معا ئنہ کر نا چاہئیے اور جانوروں کو چمٹے ہوئے چیچڑوں کو الگ کر نا چا ہئیے۔ جانوروں کی منڈیوں اور مذبح خانے میں بھی چیچڑ مار سپر ے لازمی طور پر کر انے چا ہئیے۔ جا نوروں کے باڑوں کو پکا اور مضبوط بنانا چاہئیے اور دیواروں میں موجود دراڑوںکو جو کہ چیچڑ کی افزائش کی جگہ ہو سکتی ہے کو مستقل طور پر بند کر دینا چاہیے۔ جا نوروں کے گوبر فضلہ کو مناسب طریقوں سے ٹھکا نے لگا یا جائے۔ محکمہ صحت، لائیو سٹاک اور زراعت سے وابستہ افراد ذاتی بچاؤ کے آلات PPEs) ( جس میںدستانے، منہ پر چڑھانے والے ماسک، بند جو تے، پور ی آستین کے کپڑ ے استعمال کریں اور متاثرہ مریض کی استعمال شدہ سرنج، بلیڈ و دیگر سر جیکل سامان کو احتیاط کے ساتھ تلف کر دیں۔
سوال:حکومت نے اس بیماری کیلئے کیا اقدامات کئے ہیں؟
جواب: National Institute of Health (NIH) اسلام آباد میں اس بیماری کا ایک سیل قائم ہے، ایسے تمام مریضوں کی اطلاعات بذریعہ صوبا ئی محکمہ صحت کو دی جا نی چاہئیں۔ حکومت پنجاب کی جا نب سے شہر کے داخلی اور خارجی جگہوں پر خصو صی انٹری Exit بنائے گئے ہیں جہاں پر جانوروں کو چیچڑ مار سپرے کی جاتی ہے۔ حکومتِ پنجا ب کی جانب سے کانگو کے بچاؤکے اقدامات کئے گئے ہیں۔ محکمہ صحت پرائمری اینڈ سیکنڈری ہیلتھ کیئر حکومت پنجاب نے عوام کی سہولت کے لئے ہیلپ لائن 080099000 قائم کی ہوئی ہے جس پر کانگو سے متعلق تمام معلوما ت کے لئے رابطہ کیا جا سکتا ہے۔
سوال:موجودہ صورت حال میں کن جانوروں کی قربانی کرنا محفوظ ہے؟
جواب:یہا ں یہ ابہا م بھی دور ہونا چا ہئیے کہ ہر قسم کے جانوروں کی قربانی کی جا سکتی ہے۔ اور ہر قسم کا جانور قربانی کے لئے منا سب ہے جس میں اونٹ، گا ئے، بیل، بکر ی، دنبہ، بھیڑ وغیرہ شامل ہیں، البتہ اس چیز کی احتیاط ضر ورکی جا ئے کہ جا نور کے جسم پر کو ئی چیچڑ موجود نہ ہو اور جانور میں چیچڑ مار سپر ے/ ادویات کا استعمال لازمی ہونا چاہیے۔
سوال:کیا لوگ جانور خریدنے کیلئے منڈی جا سکتے ہیں؟
جواب:جی ہا ں بالکل جا نور خریدنے کیلئے منڈ ی جایا جا سکتا ہے۔ البتہ منہ پر چڑھانے والے ماسک اور دستانے کا استعمال ضرور کیا جانا چاہیے، غیرضروری طور پر جانور کو چھونے سے اجتناب کریں اور غیرضروری طور پر زیادہ وقت منڈی میں نہ گزاریں۔ کھلی چپل نہ پہنیں اور پوری آستین والے کپڑے پہنیں منڈ ی سے واپسی پر کپڑوں کو دھو لیا جائے اور نہا لیا جائے۔
سوال:چیچڑ جانور کے کس حصے میں زیادہ پا یا جا تا ہے؟
جواب:چیچڑ جانور کی گردن اور کھروں میں زیادہ طور پر موجود ہوتا ہے اور دو جلدوں کے ملا پ کے مقام پر ہو تا ہے لہذا ان جگہوں کا خصوصی طور پر معائنہ کیا جا نا چاہیے۔
سوال: کیا جانورکو گھر بھی ذبح کیا جا سکتا ہے؟
جواب:جی ہاں گھر پر بھی جانور کو ذبح کیا جا سکتا ہے لیکن خصوصی بتائی گئی احتیاطی تدا بیر کو ملحوظِ خا طر رکھیں ۔ جا نوروں کے خون فضلہ اور دیگر آلائش کو منا سب طر یقے سے شا پر بیگ میں ڈال کر زمین میں دفن کیا جا ئے۔
سوال:کیا قربانی کے جانوروں کو ہاتھ لگایا جا سکتا ہے؟
جواب:قربانی کے جانور کو غیرضروری طور پر ہا تھ مت لگائیں۔ دستانے استعمال کریں۔کھالیں جمع کر نے والے ادارے اور تجارت کرنے والے لوگو ں کو بھی خصوصی احتیاطی تدابیر اختیار کرنی چاہئیں۔ بچوں کو خصو صاً جانوروں کی منڈ ی اور جانوروں سے دور رکھنا چاہئیے۔ بچوں کو جانوروں سے کھیلنے سے منع کریں۔ جانوروں کو خریدنے کے لئے بچو ں کے سا تھ نہ لے جائیں اور واپسی پر ہاتھ پاؤں اچھی طرح دھو لئے جائیں۔
سوال:کیا قصائی اور اہل خانہ گوشت خود بنا سکتے ہیں؟
جواب:اس مرتبہ عید الاضحی کے موقع پر قصا ب کو خصوصی احتیاطی تدابیر اختیار کرنا چاہیے۔ جسم کے کسی حصے پر کٹ یا زخم کو جانور کے خون سے بچا کر رکھیں اسی طرح وہ اہلِ خانہ جو خود گوشت بنانا چا ہتے ہیں وہ بھی یہی احتیاط کریں۔
سوال:کیا متاثرہ جانور کا گوشت، سری پائے، کلیجی، اوجڑی وغیرہ ہاتھ لگانے یا کھانے کے لیے محفوظ ہیں؟
جواب:جی ہاں اگر خدا نخواستہ جانور کے گوشت میں جراثیم موجود ہو تو گوشت پکایا جا سکتا ہے پکانے سے جراثیم سو فیصد مر جاتا ہے۔ جانور کے گوشت کے تکے، کباب، باربی کیو بنائے جا سکتے ہیں۔ لہٰذا یہ تمام بغیر خوف کے استعمال کی جا سکتی ہیں۔ خواتین و حضرات قر بانی کے گوشت کو دھوتے وقت گلوز کا استعمال کریں اور خون اور گوشت سے نکلنے والی رطوبات کو اپنے ہاتھوں یا جسم پہ لگے زخم/ کٹ سے بچائیں۔گوشت کو اچھی طرح پکائیں۔
سوال:اگر خدا نخواستہ کانگو سے متاثرہ شخص کا انتقال ہوجائے تو کیا کرنا چاہیے؟
جواب:بد قسمتی سے اگر متا ثر ہ شخص کی موت واقع ہو جائے تو اہلِ خانہ اپنے جذبا ت پہ قابو پائیں اور صبر اور احتیاطی تدابیر کا دامن ہا تھ سے نہ چھو ڑیں۔ مردے کے جسم کو نہلانے اور کفن دفن کے دوران احتیاطی تدا بیر اختیار کی جائیں جن میں دستانے اور منہ پر چڑھانے والے ماسک کا استعمال ضروری ہے۔ اور متاثر ہ جسم کو غیر ضروری طور پر ہا تھ لگانے سے اجتناب کریں۔ متاثرہ مریض کے کپڑے، بیڈ شیٹ و دیگر استعمال شدہ چیزیں تلف کر دینی چا ہئیے۔
سوال:کانگو خونی بخار کے علاوہ کیا دیگر بخار بھی ہوتے ہیں؟
جواب:جی ہاں! کا نگو خونی بخار کے علا وہ دیگر خونی بخار بھی موجود ہیں جن میںHanta وائرس، Ebola وائرس، Lassa بخار اور Marburg بخار شامل ہیں۔
سوال:کیا اس بیماری کی ویکسین موجود ہے؟
جواب:اس بیماری کی کوئی مستند و موثر ویکسین مارکیٹ میں موجود نہیں ہے۔ البتہ ویکسین کی تیا ری کیلئے تحقیق و جستجو جا ری ہے۔ جن شہروں میں ویسٹ مینجمنٹ کمپنیز کام کر رہی ہیں۔ وہاں کے ملا زمین عید کے موقع پر کچرہ منا سب بیگ کے اندر اُٹھا ئیں اور کسی مناسب جگہ پر زمین میں دبا دیں۔
سوال:مستقبل میں کیا منصوبہ بندی کی جانی چاہیئے؟
جواب:صحت اور صفائی کے رہنما اصو لوں کو عملی زندگی میں اپنایا جائے جانوروں کو شہر ی آبادی سے دور کر دیا جائے۔ جانوروں کے با ڑوںکو پکا بنایا جائے۔ منڈی مویشیاں، مذبح خانے کا باقاعدہ طور پر معائنہ محکمہ صحت، لا ئیو سٹاک، زراعت، ضلعی وتحصیل انتظامیہ کے تعاون سے کیا جائے۔ سکول ،کالج اور یونیورسٹی میں لیکچردئیے جائیں۔
معاشرے کی سر کردہ سیاسی سماجی و مذہبی شخصیات اپنے دائرہ کار کے اندر سوسائٹی میں اس بیماری کے بارے میں آگاہی و تدارک کیلئے بھرپور کردار ادا کریں۔ پرنٹ و الیکٹرونک میڈیا کے ذریعے تشہیری مہم چلائی جائے۔ عید الاضحی کے تمام اجتماعات کے موقع پر خطیب حضرات اپنے خطبہ میں اس بیماری سے متعلق احتیاطی تدابیر بھی بیان کریں۔ اگرچہ اس عید پر اس بیماری کے پھیلاؤ کے امکانات ہو سکتے ہیں۔ تاہم وفاقی حکومت پاکستان و صوبائی حکومتوں نے ہر ممکن اقدامات کئے ہیں جن سے اس بیماری سے تحفظ ہو سکے گا۔
( ڈویژنل ایمرجنسی آفیسر ریسکیو 1122بہاولپور)
dremergencybwp@hotmail.com
اگرچہ جانوروں سے انسانوں کو منتقل ہونے والی یہ بیماری دنیا میں نئی نہیں ہے۔ پھر بھی مسلم معاشرہ میں اور موجودہ عیدقربان کے موقع پر لوگوں کے ذہنوں میں اٹھنے والے خدشات کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ تحریر قارئین کی نظر کی جا رہی ہے تاکہ سنت ابراہیمی حفاظتی اقدامات کے ساتھ ادا کی جا سکے یہ تحریر سوالاََ جواباََ رقم کی گئی ہے اور ہر اس پہلو پر روشنی ڈالی گئی جو اس موذی بیماری سے متعلق ہے۔
سوال:کانگو کریمین خونی بخار کیا ہے؟
جواب: کانگو کریمین خونی بخار ایک جانوروں کی بیماری ہے جو ایک مخصوص قسم کے وائرس سے پیدا ہوتی ہے جو ایک چیچڑ کے ذریعے جانوروں میں، جانوروں سے انسانوں میں اور ایک متاثرہ انسان سے ایک صحت مند انسان میں منتقل ہوتی ہے، بارہویں صدی عیسوی میں قرون وسطی میں ایک مسلمان سائنسدان نے پہلی مرتبہ قازقستان میں چند مریضوں میں اس بیماری کی علامات نوٹ کیں جو کہ کانگو بخار سے ملتی جلتی تھیں۔ موجودہ ترقی کے دور میں پہلی مرتبہ یہ بیماری 1944میں عالمی منظر پر نمودار ہوئی۔
یہ بیماری سابقUSSR سوویت یونین کے علاقہ کریمیا میں منظر عام پر آئی جس سے سابقہ سوویت یونین کے تقریباََ دو سو فوجی متاثر ہوئے۔ علاقے کی وجہ سے اس کا نام کریمین کانگو یا خونی بخار پڑ گیا۔ اس کے علاوہ اس کو خو نی بخار اس لئے کہتے ہیں کہ اس بیمار ی میں جسم میں خو ن جمانے والے خلیے (پلیٹلیٹس)کی تعداد تیزی سے کم ہو جا تی ہے۔
جس کی وجہ سے خون میں جمنے کی صلا حیت کم ہو جاتی ہے۔ اور جسم کے مختلف حصوں مثلاً نا ک، منہ ، پیشاب، پاخانے کے رستے خو ن بہنا شروع ہو جا تا ہے۔ یہ خو ن جلد کے نیچے بھی جمع ہو تا ہے جس کی وجہ سے بندہ شا ک میں چلا جاتا ہے۔ جسم کے تمام نظام متاثرہ ہوتے ہیں اور موت واقع ہو جاتی ہے۔ یہ بخار اس وقت دنیا میں براعظم افریقہ، ایشیا، مشرق وسطی اور یورپ میں پایا جاتا ہے۔ سارک ممالک میں پاکستان، انڈیا اور افغانستان بھی اس وقت اس میں شامل ہیں۔
سوال:اس بیماری کے پھیلاؤکے کیا ذرائع ہیں؟
جواب:یہ بیماری جراثیم سے متاثرہ چیچڑ، متاثرہ جانور اور متاثرہ انسان کے سائیکل کے ذریعے پھیلتا ہے۔ جب ایک صحتمند چیچڑ ایک کانگو بخار سے متاثرہ جانور کو چمٹتا ہے تو یہ جراثیم چیچڑ میں منتقل ہو جاتا ہے اور جب یہ متاثرہ چیچڑ صحتمند انسان یا صحتمند جانور کو چیمٹتا ہے تو جراثیم انسانوں اور جانوروں میں منتقل ہو جاتا ہے اور جانور، انسان اس جراثیم سے متاثر ہو جاتے ہیں اس طرح بیماری کا سر کل چل پڑتا ہے۔
سوال:کیا جانور کانگو جراثیم سے بیمار ہوتا ہے؟
جواب:یہ بات بڑی دلچسپی کی حامل ہے کہ کانگو خونی بخار کا جراثیم جانور کے اندر داخل تو ہوتا ہے مگر متاثرہ جانور میں اس کی خاص علامات ظاہر نہیں ہوتیں۔ صر ف ایک ہفتہ کیلئے بیمار جانور کے جسم کا درجہ حرارت بڑھ جا تا ہے یعنی بخا ر ہو جاتا ہے۔ جراثیم جانورکے جسم کے اندر پرورش پاتا ہے اور متاثرہ جانور کے خون، رطوبات اور گوشت کے اندر جراثیم پایا جاتا ہے لیکن جراثیم باذات خود جانور کو کوئی نقصان نہیںدیتا۔ یہ بیمار جانور انسان کیلئے اور صحتمند دوسرے جانوروں اور صحتمند چیچڑ کیلئے خطر ناک ثا بت ہوتا ہے۔ یہ بیماری اونٹ، گائے ، بھینس، بکری، شتر مرغ، بھیڑسمیت تمام جانوروں میں پائی جاتی ۔ البتہ پا لتو جانور کتے، بلی، خرگوش وغیرہ اس سے زیادہ متا ثر نہیں ہوتے۔
سوال:کیا پرندے بھی اس بیماری کا شکار ہوسکتے ہیں؟
جواب:جی ہاں پرندے مثلاً طوطا، کوا، چڑیا وغیرہ بھی اس بیماری کا شکار ہو سکتے ہیں۔
سوال:انسانوں میں منتقل ہونے کے کیا ذرائع ہیں؟
جواب:یہ بیمار ی انسانوں میں متاثرہ چیچڑ کے کا ٹنے سے یا متاثرہ جانور کے خون سے یا متاثرہ مریض کے خون سے سرجیکل آلات، مثلاً متا ثرہ مر یض کی استعمال شدہ سر نج، بلیڈ وغیرہ سے دوسرے انسان کو منتقل ہو جاتی ہے۔
بیمار ی سے متاثرہ جانو ر کا خون یا فضلاء کچلے ہوئے چیچڑ کے خون کے انسانی جسم کے کٹ یا زخم پر لگنے سے یا متاثرہ خو ن و دیگر رطوبات کا منہ یا آنکھ میں جانے سے بھی انسا نوں میں منتقل ہو سکتا ہے۔ ریسکیو 1122 محکمہ لا ئیو سٹاک، محکمہ صحت اور محکمہ زراعت تحصیل میونسپل ایڈمنسٹریشن، ویسٹ مینجمنٹ کمپنی کے ملازمین انتہائی رسک پہ ہیں ۔ اس کے علا وہ جانوروں کے بیوپاری، قصائی اور مذبح خا نے میںکام کرنے والے افراد اور مویشی پال حضرات، فارم ہاؤسز سے وابستہ افراد، گوالے براہِ راست اس بیماری سے متاثر ہو سکتے ہیں۔
سوال:کا نگو خونی بخار کے جسم کے اندر داخل ہونے کے کتنے دن بعد علا مات ظاہر ہو تی ہیں؟
جواب:چیچڑ کے انسا ن کو کاٹنے سے کو ئی تکلیف نہیں ہوتی عمو ماً وائرس کے انسانی جسم میں داخلے کے تین سے نو روز کے اندر اندر شدید تیز بخار، سر میں درد ، جسم اور پٹھو ں میں درد، آنکھو ں میں درد، پیٹ میں درد ، متلی کی کیفیت پیدا ہونے کے ساتھ چند علا مات جن میں جسم پر سُرخ رنگ کے دھبے بن جانا، جلد پر نیل بن جانا، پیشاب، پاخانے کے رستے خون بہنا یا خون کی آمیزش ہونا، ناک منہ سے خو ن کا بہنا، خواتین میں غیر معمولی ماہواری، آنکھو ں کا سرُخ مائل ہونا یا خون کا جمنا، غنودگی، مسو ڑو ں سے خون آنا ایسی علا ما ت ہیں جس کی بنیاد پر اس بیمار ی کا شک کیا جا سکتا ہے۔
سوال:ریوڑ، گلہ بان، قصائی اور جانوروں کے بیوپاری کیا احتیاطی اقدامات کریں؟
جواب:قصائی گھر جا نے سے پہلے سر، پاؤں اور ہا تھ اچھی طرح دھو لیں اور خون سے آلودہ کپڑ ے تبدیل کریں۔ بند جوتے استعمال کریں، پوری آستین کے کپڑے پہنیں، قصابوں، گلہ بان، بیوپاری اور مویشی پال حضرات میں یہ چیچڑ ان کے بالوں، گردن کے پچھلے حصے(گدی) اور پاؤں کی اُنگلیوں کے درمیانی جگہوں پر پائے جا سکتے ہیں ۔ عید کے دنوں میں منڈی جانے اور آنے والے لوگوں کو ہلکے رنگ کے کپٹر ے پہننا چاہیے تاکہ چیچڑ کی موجودگی آسانی سے دیکھی جا سکے کیونکہ گہر ے رنگ کے کپڑ ے میں چیچڑ نظر نہیں آتے۔
سوال:کیا اس بیماری کا کوئی علاج ہے؟
جواب:جی ہاں یہ قابلِ علا ج مگر خطرناک بیمار ی ہے جس کی شرح اموات 30--50 فیصد ہے۔ جراثیموں کے لیے مخصوص دوائی Ribazole جو کہ مارکیٹ میں آسانی سے دستیاب ہے۔ یہ دوائی حالت کے مطا بق دی جا تی ہے۔ اس کے علاوہ متاثرہ مریض کو انتہائی نگہداشت میں رکھا جانا چاہیے اور خون میں خلیوں کی کمی پلیٹلیٹس جمنے والے خلیے دینے چاہئیں جو کہ خون عطیہ کرنے والے افراد پورے خون کی بجائے صرف مخصوص پلیٹلیٹس بھی دے سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ جسم کے درد، بخار و اُلٹی کی دوائی اور صدمے کا علا ج ICU کے پروٹوکول کے مطابق کیا جاتا ہے۔عموماً مریض 10سے 12 روز میں تندرست ہونا شر و ع ہو جاتا ہے۔ اور اگر بروقت علاج نہ کیا جائے دوسرے ہی ہفتے مریض کی مو ت واقع ہوسکتی ہے۔ یہ مختصر دورانیے کی خطرناک بیماری ہے۔
سوال:کیا پاکستان میں اس کی تشخیص ممکن ہے؟
جواب:جی ہاں پاکستان میں اس کی تشخیص بڑی آسانی سے کی جا سکتی ہے۔ جر ا ثیم کو انسا نی خون میں دیکھا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ خو ن میں جمنے والے خلئے میں نمایا ں کمی اور جسم میں جرا ثیم کے خلاف اینٹی باڈیز مخصو ص IGg اور IGmکی مو جو دگی کے ذریعے اس بیماری کی سو فیصد تشخیص ممکن ہے اور یہ سہو لت تقریباً ہر بڑے شہر میں مہیا ہے۔
سوال:کیا یہ بیماری پورا سال پھیلتی ہے؟
جواب:نہیں یہ بیمار ی صرف مو سمِ بہار سے خزاں کے دوران ہی پھیلتی ہے۔ یہ ایک مختصر دورانیے کی جان لیوا بیماری ہے۔ اس کا زیادہ پھیلاؤ گرمی کے موسم میں ہوتا ہے۔ موجودہ سیلابی صورتِ حال کے پیشِ نظر جانور اور انسان اکٹھے رہنے پر مجبور ہیں اور چیچڑ جانوروں کے ساتھ چمٹے ہوتے ہیں ۔ لہٰذا ان دنوں اس کے پھیلاؤ کے خطر ات بڑ ھ گئے ہیں۔ سردی میں یہ بیماری وقوع پذیر نہیں ہوتی۔
سوال:کیا یہ جراثیم دہشت گردی کے طور پر بھی استعمال کیا جا سکتا ہے؟
جواب:جی ہا ں یہ ایک مہلک جراثیم ہے اور اس جراثیم سے پیدا ہونے والی بیماری کی شرح اموت بہت بلند ہے اورساتھ ساتھ دورانیہ بھی تقریباً دو ہفتے ہے اس لیے اس کو دہشتگردی کے طور پر استعمال کیاجا سکتا ہے۔ اگر چہ اس جراثیم کی گروتھ لیبارٹری میں اتنی تیزی اور زیادہ تعداد میں نہیں کی جا سکتی اس وجہ سے یہ کیٹگری C میں شمار کیا جاتا ہے اس جراثیم کو فضا میں پھیلایا جا سکتا ہے۔ اور بذریعہ سانس انسان اور جانور اس کا شکار ہو سکتے ہیں۔
سوال:چیچڑ میں یہ بیما ری کیسے رہتی ہے؟
جواب:یہ با ت بھی توجہ طلب ہے کہ اگر ایک چیچڑ اس بیمار ی سے متاثر ہو تا ہے تو وہ زندگی بھر اس وائرس سے متاثر رہتا ہے اور یہ بیماری چیچڑ کو بیما ر نہیں کر تی بلکہ یہ جراثیم چیچڑ کے انڈوں میں منتقل ہوتا ہے اور اس طر ح ورا ثتی طور پر یہ جراثیم ایک چیچڑ سے دوسر ے چیچڑ میں منتقل ہوتی ہے۔ یعنی جراثیم مادہ چیچڑ سے انڈوں میں اور انڈوں کی گروتھ سے نئے پیدا ہونے والے چیچڑ میں چلا جاتا ہے۔
سوال: اس بیماری سے بچاؤ کے لئے کیا اقدا ما ت کرنے چاہئیں؟
جوا ب :۔ اس بیماری کا مرکزی کردار چیچڑ ہے جو اس بیماری کو ایک جگہ سے دوسر ی جگہ انسان سے انسان، بیمار جانوروں سے دوسرے جانوروں کو منتقل کرتا ہے۔ یعنی چیچڑ بطورِ سواری استعمال ہوتا ہے۔لہٰذا چیچڑ کو مار نے کے لئے اور اس کی افزائش کو روکنے کیلئے چیچڑ مار سپر ے محکمہ زراعت، لائیو سٹاک اور TMA کو آگے آنا چاہئیے۔
جا نوروں کے جسم کا معا ئنہ کر نا چاہئیے اور جانوروں کو چمٹے ہوئے چیچڑوں کو الگ کر نا چا ہئیے۔ جانوروں کی منڈیوں اور مذبح خانے میں بھی چیچڑ مار سپر ے لازمی طور پر کر انے چا ہئیے۔ جا نوروں کے باڑوں کو پکا اور مضبوط بنانا چاہئیے اور دیواروں میں موجود دراڑوںکو جو کہ چیچڑ کی افزائش کی جگہ ہو سکتی ہے کو مستقل طور پر بند کر دینا چاہیے۔ جا نوروں کے گوبر فضلہ کو مناسب طریقوں سے ٹھکا نے لگا یا جائے۔ محکمہ صحت، لائیو سٹاک اور زراعت سے وابستہ افراد ذاتی بچاؤ کے آلات PPEs) ( جس میںدستانے، منہ پر چڑھانے والے ماسک، بند جو تے، پور ی آستین کے کپڑ ے استعمال کریں اور متاثرہ مریض کی استعمال شدہ سرنج، بلیڈ و دیگر سر جیکل سامان کو احتیاط کے ساتھ تلف کر دیں۔
سوال:حکومت نے اس بیماری کیلئے کیا اقدامات کئے ہیں؟
جواب: National Institute of Health (NIH) اسلام آباد میں اس بیماری کا ایک سیل قائم ہے، ایسے تمام مریضوں کی اطلاعات بذریعہ صوبا ئی محکمہ صحت کو دی جا نی چاہئیں۔ حکومت پنجاب کی جا نب سے شہر کے داخلی اور خارجی جگہوں پر خصو صی انٹری Exit بنائے گئے ہیں جہاں پر جانوروں کو چیچڑ مار سپرے کی جاتی ہے۔ حکومتِ پنجا ب کی جانب سے کانگو کے بچاؤکے اقدامات کئے گئے ہیں۔ محکمہ صحت پرائمری اینڈ سیکنڈری ہیلتھ کیئر حکومت پنجاب نے عوام کی سہولت کے لئے ہیلپ لائن 080099000 قائم کی ہوئی ہے جس پر کانگو سے متعلق تمام معلوما ت کے لئے رابطہ کیا جا سکتا ہے۔
سوال:موجودہ صورت حال میں کن جانوروں کی قربانی کرنا محفوظ ہے؟
جواب:یہا ں یہ ابہا م بھی دور ہونا چا ہئیے کہ ہر قسم کے جانوروں کی قربانی کی جا سکتی ہے۔ اور ہر قسم کا جانور قربانی کے لئے منا سب ہے جس میں اونٹ، گا ئے، بیل، بکر ی، دنبہ، بھیڑ وغیرہ شامل ہیں، البتہ اس چیز کی احتیاط ضر ورکی جا ئے کہ جا نور کے جسم پر کو ئی چیچڑ موجود نہ ہو اور جانور میں چیچڑ مار سپر ے/ ادویات کا استعمال لازمی ہونا چاہیے۔
سوال:کیا لوگ جانور خریدنے کیلئے منڈی جا سکتے ہیں؟
جواب:جی ہا ں بالکل جا نور خریدنے کیلئے منڈ ی جایا جا سکتا ہے۔ البتہ منہ پر چڑھانے والے ماسک اور دستانے کا استعمال ضرور کیا جانا چاہیے، غیرضروری طور پر جانور کو چھونے سے اجتناب کریں اور غیرضروری طور پر زیادہ وقت منڈی میں نہ گزاریں۔ کھلی چپل نہ پہنیں اور پوری آستین والے کپڑے پہنیں منڈ ی سے واپسی پر کپڑوں کو دھو لیا جائے اور نہا لیا جائے۔
سوال:چیچڑ جانور کے کس حصے میں زیادہ پا یا جا تا ہے؟
جواب:چیچڑ جانور کی گردن اور کھروں میں زیادہ طور پر موجود ہوتا ہے اور دو جلدوں کے ملا پ کے مقام پر ہو تا ہے لہذا ان جگہوں کا خصوصی طور پر معائنہ کیا جا نا چاہیے۔
سوال: کیا جانورکو گھر بھی ذبح کیا جا سکتا ہے؟
جواب:جی ہاں گھر پر بھی جانور کو ذبح کیا جا سکتا ہے لیکن خصوصی بتائی گئی احتیاطی تدا بیر کو ملحوظِ خا طر رکھیں ۔ جا نوروں کے خون فضلہ اور دیگر آلائش کو منا سب طر یقے سے شا پر بیگ میں ڈال کر زمین میں دفن کیا جا ئے۔
سوال:کیا قربانی کے جانوروں کو ہاتھ لگایا جا سکتا ہے؟
جواب:قربانی کے جانور کو غیرضروری طور پر ہا تھ مت لگائیں۔ دستانے استعمال کریں۔کھالیں جمع کر نے والے ادارے اور تجارت کرنے والے لوگو ں کو بھی خصوصی احتیاطی تدابیر اختیار کرنی چاہئیں۔ بچوں کو خصو صاً جانوروں کی منڈ ی اور جانوروں سے دور رکھنا چاہئیے۔ بچوں کو جانوروں سے کھیلنے سے منع کریں۔ جانوروں کو خریدنے کے لئے بچو ں کے سا تھ نہ لے جائیں اور واپسی پر ہاتھ پاؤں اچھی طرح دھو لئے جائیں۔
سوال:کیا قصائی اور اہل خانہ گوشت خود بنا سکتے ہیں؟
جواب:اس مرتبہ عید الاضحی کے موقع پر قصا ب کو خصوصی احتیاطی تدابیر اختیار کرنا چاہیے۔ جسم کے کسی حصے پر کٹ یا زخم کو جانور کے خون سے بچا کر رکھیں اسی طرح وہ اہلِ خانہ جو خود گوشت بنانا چا ہتے ہیں وہ بھی یہی احتیاط کریں۔
سوال:کیا متاثرہ جانور کا گوشت، سری پائے، کلیجی، اوجڑی وغیرہ ہاتھ لگانے یا کھانے کے لیے محفوظ ہیں؟
جواب:جی ہاں اگر خدا نخواستہ جانور کے گوشت میں جراثیم موجود ہو تو گوشت پکایا جا سکتا ہے پکانے سے جراثیم سو فیصد مر جاتا ہے۔ جانور کے گوشت کے تکے، کباب، باربی کیو بنائے جا سکتے ہیں۔ لہٰذا یہ تمام بغیر خوف کے استعمال کی جا سکتی ہیں۔ خواتین و حضرات قر بانی کے گوشت کو دھوتے وقت گلوز کا استعمال کریں اور خون اور گوشت سے نکلنے والی رطوبات کو اپنے ہاتھوں یا جسم پہ لگے زخم/ کٹ سے بچائیں۔گوشت کو اچھی طرح پکائیں۔
سوال:اگر خدا نخواستہ کانگو سے متاثرہ شخص کا انتقال ہوجائے تو کیا کرنا چاہیے؟
جواب:بد قسمتی سے اگر متا ثر ہ شخص کی موت واقع ہو جائے تو اہلِ خانہ اپنے جذبا ت پہ قابو پائیں اور صبر اور احتیاطی تدابیر کا دامن ہا تھ سے نہ چھو ڑیں۔ مردے کے جسم کو نہلانے اور کفن دفن کے دوران احتیاطی تدا بیر اختیار کی جائیں جن میں دستانے اور منہ پر چڑھانے والے ماسک کا استعمال ضروری ہے۔ اور متاثر ہ جسم کو غیر ضروری طور پر ہا تھ لگانے سے اجتناب کریں۔ متاثرہ مریض کے کپڑے، بیڈ شیٹ و دیگر استعمال شدہ چیزیں تلف کر دینی چا ہئیے۔
سوال:کانگو خونی بخار کے علاوہ کیا دیگر بخار بھی ہوتے ہیں؟
جواب:جی ہاں! کا نگو خونی بخار کے علا وہ دیگر خونی بخار بھی موجود ہیں جن میںHanta وائرس، Ebola وائرس، Lassa بخار اور Marburg بخار شامل ہیں۔
سوال:کیا اس بیماری کی ویکسین موجود ہے؟
جواب:اس بیماری کی کوئی مستند و موثر ویکسین مارکیٹ میں موجود نہیں ہے۔ البتہ ویکسین کی تیا ری کیلئے تحقیق و جستجو جا ری ہے۔ جن شہروں میں ویسٹ مینجمنٹ کمپنیز کام کر رہی ہیں۔ وہاں کے ملا زمین عید کے موقع پر کچرہ منا سب بیگ کے اندر اُٹھا ئیں اور کسی مناسب جگہ پر زمین میں دبا دیں۔
سوال:مستقبل میں کیا منصوبہ بندی کی جانی چاہیئے؟
جواب:صحت اور صفائی کے رہنما اصو لوں کو عملی زندگی میں اپنایا جائے جانوروں کو شہر ی آبادی سے دور کر دیا جائے۔ جانوروں کے با ڑوںکو پکا بنایا جائے۔ منڈی مویشیاں، مذبح خانے کا باقاعدہ طور پر معائنہ محکمہ صحت، لا ئیو سٹاک، زراعت، ضلعی وتحصیل انتظامیہ کے تعاون سے کیا جائے۔ سکول ،کالج اور یونیورسٹی میں لیکچردئیے جائیں۔
معاشرے کی سر کردہ سیاسی سماجی و مذہبی شخصیات اپنے دائرہ کار کے اندر سوسائٹی میں اس بیماری کے بارے میں آگاہی و تدارک کیلئے بھرپور کردار ادا کریں۔ پرنٹ و الیکٹرونک میڈیا کے ذریعے تشہیری مہم چلائی جائے۔ عید الاضحی کے تمام اجتماعات کے موقع پر خطیب حضرات اپنے خطبہ میں اس بیماری سے متعلق احتیاطی تدابیر بھی بیان کریں۔ اگرچہ اس عید پر اس بیماری کے پھیلاؤ کے امکانات ہو سکتے ہیں۔ تاہم وفاقی حکومت پاکستان و صوبائی حکومتوں نے ہر ممکن اقدامات کئے ہیں جن سے اس بیماری سے تحفظ ہو سکے گا۔
( ڈویژنل ایمرجنسی آفیسر ریسکیو 1122بہاولپور)
dremergencybwp@hotmail.com