بچوں کے خلاف جرائم
ایسے جرائم ہمارے معاشرے میں اس وقت کس سطح پر ہیں، اس کا اندازہ آپ کسی حد تک ان اعداد و شمار سے کرسکتے ہیں۔
معصوم بچوں کے ساتھ جرائم کا مسئلہ یوں تو دنیا کے بہت سے ممالک میں ہے، لیکن خاص طور پر ان ملکوں میں اس کی شرح نمایاں حد تک زیادہ ہے جہاں تعلیم کی کمی، سماجی آگہی کا نظام سطحی اور غیرمؤثر، اور غربت کا تناسب زیادہ ہے۔ تاہم یہ بھی طے ہے کہ کسی معاشرے میں ایسے جرائم صرف مذکورہ بالا ان تین عوامل کی وجہ سے نہیں ہوتے۔ ان کے علاوہ بھی کئی ایک اور چیزیں ہیں جن کی وجہ سے کسی معاشرے میں ایسے گھناؤنے جرائم پھیلتے ہیں۔ ان میں نفسیاتی رویے کو خاص اہمیت حاصل ہے۔
نفسیاتی رویہ صرف مجرم کا نہیں، بل کہ جو اِس جرم کا شکار ہوا ہے اس مظلوم کے اہلِ خانہ کا بھی۔ مجرم کی ذہنی ساخت اور نفسیاتی مسائل تو اپنی جگہ ہیں۔ ظاہر ہے، یہ ایک ہول ناک مریضانہ رویہ ہے، لیکن اس ظلم سے دوچار ہونے والے بچے کے گھر والے اس حادثے کے بعد معاشرے میں رسوائی کے خوف سے خود اس خبر کو دبانے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ خوف ویسے بے جا بھی نہیں ہے۔
اس اذیت ناک تجربے سے گزرنے والے خاندان سے عام طور پر جس انداز سے لوگ پوچھتے، جس طرح ہم دردی کرتے اور جس طریقے سے اس خبر کو آگے بڑھاتے ہیں، وہ یقینا رُسواکن ہوتا ہے۔ یہ ایک سنجیدہ مسئلہ ہے اور اس کا تعلق سماجی مزاج سے ہے۔ جرم کی اذیت اپنی جگہ، لیکن ذلت کا خوف اس پریشان حال خاندان کے لیے اس سے بھی زیادہ تکلیف دہ ہوجاتا ہے۔ اس لیے وہ خاموشی سے اس کرب کو برداشت کرنے میں ہی عافیت محسوس کرتا ہے۔ جن معاشروں میں یہ مسئلہ پایا جاتا ہے، ہم بھی انھیں میں شامل ہیں۔
ہمارے یہاں اگرچہ الیکٹرونک میڈیا پر ہونے والے پروگرام اس پر روشنی ڈال رہے ہیں اور اسی طرح اخبارات میں بھی تحریریں شائع ہورہی ہیں کہ اس جرم پر مظلوم خاندان کا چپ ہوکر بیٹھ جانا ظالموں اور مجرموں کی حوصلہ افزائی کا ذریعہ بنتا ہے۔ ضروری ہے کہ بے خوفی اور ذمے داری کے ساتھ اس مسئلے کی نشان دہی کی جائے۔ ظلم اور زیادتی کو پی جانے کے بجائے اس کے خلاف آواز اٹھا کر مجرم کو کیفرِکردار تک پہنچانے میں ہرگز کوتاہی نہ کی جائے۔ ان سب چیزوں کا کچھ نہ کچھ نتیجہ بھی سامنے آرہا ہے، لیکن اس کے باوجود لوگوں کے ذہن سے سماجی رسوائی کا خوف دور نہیں ہوا ہے۔ اسی لیے اب تک اس جرم پر قابو پانا ممکن نہیں نہ ہورہا۔
ایسے جرائم ہمارے معاشرے میں اس وقت کس سطح پر ہیں، اس کا اندازہ آپ کسی حد تک ان اعداد و شمار سے کرسکتے ہیں جو آپ کو شہروں اور صوبوں کی سطح پر میسر آسکتے ہیں۔ ویسے تو اس سلسلے میں پہلا مرحلہ ہی دشوار ہوجاتا ہے کہ جب آپ اس صورتِ حال کے حقائق جاننے اور ڈیٹا جمع کرنے نکلتے ہیں۔ ہمارے یہاں سماجی حقائق اور مسائل کا ڈیٹا جمع کرنے والے ادارے الگ سے موجود ہی نہیں ہیں۔
اس لیے یہ ڈیٹا آپ کو انھی اداروں سے حاصل کرنا پڑتا ہے جو اِن جرائم کی روک تھام کے لیے کام کررہے ہیں۔ مسئلہ یہ پیش آتا ہے کہ اوّل تو ان اداروں سے درست اعداد و شمار حاصل کرنا بہت دشوار ہے۔ پھر یہ کہ جو اعداد و شمار ملتے ہیں ان پر بھی آپ پورا اطمینان نہیں کرسکتے۔ وجہ یہ کہ نہ صرف مکمل رپورٹنگ نہیں ہورہی، بلکہ جو ہورہی ہے، وہ بھی نظام کی پیچیدگی اور اداروں کے دائرۂ کار کی دشواری اور ذمے دارانہ منصب پر فائز افراد کی بے پروائی یا سردمہری ایسے ناقابلِ حل مسائل اصل منظرنامے تک پہنچنے کی راہ میں حائل ہوجاتے ہیں جو درست اعداد و شمار اور حقیقی صورتِ حال کو سامنے ہی نہیں آنے دیتے۔
ایک عام آدمی کے لیے جو ویسے ہی ایک اذیت ناک تجربے سے گزر کر آیا ہے اور ہم دردی کا خواہاں ہے، یہ مسئلہ راستے میں ایسی رکاوٹیں پیدا کرتا ہے کہ وہ کسی انصاف کی توقع ہی اپنے ذہن سے نکال دیتا ہے اور صبر کی سل دل پر رکھ کر بیٹھ جاتا ہے۔
یہی نہیں، بلکہ اس کے بعد اس کی نفسیات میں ایک ایسی دراڑ پڑتی ہے کہ وہ قانون کے وجود کا ہی انکار کردیتا ہے اور یہ سمجھ لیتا ہے کہ اس معاشرے میں قانون کی عمل داری صرف ان لوگوں کے لیے ہے جو خود اہلِ اختیار اور حیثیت والے ہیں۔ چناںچہ وہ اس کے بعد ساری زندگی جبر کے جان لیوا احساس اور برداشت کی جاں گسل بھٹی میں بسر کرتا ہے۔ اپنے اطراف میں اگر کسی کو ایسے ہی ہول ناک تجربے سے گزرتے ہوئے دیکھتا ہے تو اسے بھی خاموشی کا درس دیتا ہے۔ ہاں، کچھ لوگ اس خاندان میں ایسے بھی ہوسکتے، بلکہ کہنا چاہیے کہ ہوتے ہیں جو جبر کی گھٹن سے باہر آنے کے لیے خود پھر انتقام کا راستہ اختیار کرلیتے ہیں، اور جرم کی دلدل میں اتر جاتے ہیں۔
یہ لگ بھگ سات ماہ پہلے کی بات ہے جب ہمارے یہاں ایک ایسا ہی ہول ناک واقعہ ہوا تھا۔ معصوم بچی زینب جنسی تشدد کا نشانہ بناکر موت کے گھاٹ اتار دی گئی۔ اس واقعے پر بھی وہی صورتِ حال معاشرے میں ہوسکتی تھی جو ایسے ہی دوسرے سیکڑوں واقعات پر ہوتی ہے۔ الیکٹرونک میڈیا کا حافظہ چند گھنٹے یا ایک ڈیڑھ دن اس واقعے کو یاد رکھتا ہے، خبر چلتی ہے اور پھر سب کچھ اسی طرح معمول کی سردمہری اور وقت کے اندھیرے میں گم ہوتا چلا جاتا ہے۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔ اس لیے کہ عدالت نے اس کا نوٹس لے لیا۔ تحقیقاتی کمیٹی بن گئی۔
رپورٹ کی ذمے داری متعینہ وقت کے ساتھ سونپ دی گئی۔ تفتیشی ادارے حرکت میں آگئے۔ پولیس کو جواب طلبی کا سامنا ہوا۔ مجرم کی گرفتاری تک، بلکہ عدالت میں پیشی، مقدمے کی سماعت اور سزا کے اعلان تک الیکٹرونک میڈیا کے لیے یہ واقعہ صرف ایک خبر نہیں رہا، بلکہ ذمے دارانہ کردار کا ایک سوال بن گیا۔ نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔ مظلوم خاندان کو دہائی دینی پڑی اور نہ ہی جبر و صبر سے گزرنا پڑا۔ مجرم پکڑا گیا، جرم ثابت ہوگیا اور سزا سنا دی گئی۔
تاہم ذرا غور طلب بات یہ ہے کہ کیا ایسی صورتِ حال صرف اسی وقت سامنے آئے گی جب عدالت ایسے کسی جرم کا نوٹس لے گی؟ افسوس، صد افسوس کہ ہمیں اس کا اعتراف کرنا پڑے گا کہ ایسا ہر جرم کے واقعے پر نہیں ہوتا۔ یہ نتیجہ خیز کارروائی صرف عدلیہ کے نوٹس پر دیکھنے میں آئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صرف لاہور میں اس سات ماہ کے عرصے میں ایک سو اکتالیس واقعات ایسے ہی جرائم درج کرائے گئے ہیں۔ جی ہاں، صرف لاہور شہر میں ایک سو اکتالیس واقعات۔ ان میں وہ واقعات شمار نہیں کیے گئے جنھیں ثبوت کی کمی، ناکافی شواہد یا کسی بھی دوسری وجہ سے رد کردیا گیا۔ یعنی اُن واقعات کا نہ تو کہیں اندراج ہوا ہے اور نہ ہی ان کے لیے تحقیقی و تفتیشی اقدام کیے گئے ہیں۔ ان حالات میں کیا توقع کی جاسکتی ہے کہ ایسے سانحات کی روک تھام کے لیے کیا مؤثر اقدامات کیے جاسکتے ہیں۔
اس کے ساتھ ساتھ بے حد افسوس ناک اور شرم ناک، مگر قابلِ غور حقیقت یہ ہے کہ جن جرائم کی رپورٹ درج کرائی گئی، ان میں سے کوئی بھی نام زد ملزم اب تک اپنے منطقی انجام کو نہیں پہنچا۔ سوال یہ ہے، پہنچ بھی کیسے سکتا ہے کہ جب ان سب ملزموں کو متعلقہ عدالتوں نے ضمانت پر رہا کیا ہوا ہے۔ کیا یہ ہمارے عدالتی نظام یا قانونی پیچیدگی کا مسئلہ ہے کہ ایسے گھناؤنے مجرم ضمانت پر رہا ہوکر آزادی سے گھوم رہے ہیں، بلکہ وہ اور ان کے ساتھی، اہلِ خانہ اور جانے کون کون اُن کے ساتھ مل کر جرم کا ایک ایک نشان مٹانے، گواہیاں ختم یا غائب کرانے اور مظلوم خاندان کو دھونس، دھمکی یا لالچ کے ذریعے جرم کی عدالتی پیروی سے دور رکھنے کی ہر ممکن کوشش کررہا ہوگا۔ نہیں، یہ عدالتی نظام کی خرابی نہیں ہے۔ اس لیے کہ عدالتی نظام نے زینب کے کیس میں اپنے وجود کا اثبات اور اپنے کردار کا اظہار نہایت ذمے داری سے کیا ہے۔
مسئلہ اگر ہے تو بنیادی طور پر پولیس کے نظام اور محکمے کا ہے، تحقیقاتی اور تفتیشی اداروں کے طریقِ کار کا ہے۔ ظلم و بربریت کا شکار ہونے والوں کی نارسائی کا ہے۔ سچ پوچھیے تو پورے سماج کا ہے۔ ایسے ہر سانحے پر مظلوم خاندان کو نہیں پورے سماج کو اکائی بن کر سراپا احتجاج ہوجانا چاہیے۔ انصاف کے حصول تک سماج کے ہر گھر، ہر فرد اور سارے سماجی اداروں کو اسے اپنے لیے سب سے اہم اور سب سے بڑا چیلینج سمجھ کر اپنے سامنے رکھنا چاہیے۔ قانون کی عمل داری کے لیے، مجرم کے انجام تک پورے سماج کو سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جانا چاہیے۔ ہر تفریق، ہر امتیاز اور ہر مصلحت کو بالائے طاق رکھتے ہوئے پورے سماج کو اسے اپنے لیے جینے اور مرنے کا مسئلہ بناکر ایسے ہر جرم اور ہر مجرم کا پیچھا کرنا چاہیے اور اپنی پوری اجتماعی قوت کو انصاف کے حصول کے لیے استعمال کرنا چاہیے۔
اپنے اطراف کی زندگی کے تجربات میں ہم اس کے برعکس صورتِ حال دیکھتے ہیں۔ واقعات بتاتے ہیں کہ مظلوم خاندان کے افراد دل کڑا کرکے سامنے آتے ہیں۔ جرم کے خلاف اور مجرم کی گرفتاری کے لیے آواز اٹھاتے ہیں، لیکن حالات اور تجربات سے مایوس ہوکر بیٹھ جاتے ہیں۔ اس لیے کہ پولیس والے اس قسم کے جرائم کی رپورٹ ہی آسانی سے درج نہیں کرتے۔ ظلم کا شکار لوگوں کو صرف اپنی آواز قانون کے کان تک پہنچانے کے لیے پے در پے دشواریوں اور تکلیفوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ قدم قدم پر ذلت کے تجربات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
خود کو سچا اور انصاف کا طلب گار ثابت کرنے کے لیے ایسی صورتِ حال کا سامنا کرنا پڑتا ہے کہ حوصلہ ساتھ چھوڑ دیتا ہے۔ اعصاب شکنی کا احساس ناقابلِ برداشت ہوجاتا ہے۔ عزمِ صمیم اور ناقابلِ شکست حوصلے کے ساتھ یہ مراحل گزر بھی جائیں تو اس کے بعد ارتکابِ جرم کے شواہد اکٹھے کرنا یا پیش کرنا اس سے کہیں زیادہ اذیت دہ ہوتا ہے۔ حد یہ ہے کہ ڈی این اے ٹیسٹ کی رپورٹ تک کو ناقابلِ اعتبار بنانے کی صورتیں پیدا ہوجاتی ہیں یا کردی جاتی ہیں۔ حالاںکہ لاہور وہ شہر ہے جہاں ملک کی چند فرنزک لیبارٹریز میں ایک اعلیٰ سطح کی لیبارٹری موجود ہے۔ اس دور میں سائنسی ترقی اور ایجادات نے جرائم کی روک تھام کے لیے یہ سہولت مہیا کردی ہے کہ ایسے کسی جرم کا اگر کوئی چشم دید گواہ نہ ہو تو بھی فرنزک رپورٹ وہ شواہد فراہم کرسکتی ہے کہ مجرم کے بچ نکلنے کا کوئی راستہ ہی نہ بچے۔
بات اصل میں یہ ہے کہ کسی معاشرے کی اصلاح، بھلائی، ترقی اور آسودگی کا انحصار اُس کو حاصل ایجادات اور اداروں پر نہیں ہوتا، بلکہ ان افراد پر ہوتا ہے جو اُن کو سنبھالتے اور چلاتے ہیں۔ یہ ٹھیک ہے کہ افراد اگر اپنے فرائض کی بجاآوری پر آجائیں تو کوئی شے انھیں روک نہیں پاتی اور وہ دنیا کو بدل کر رکھ سکتے ہیں، لیکن اس حقیقت سے بھی تو انکار ممکن نہیں کہ ملک کا اور اس کے اداروں کا نظام بڑے بڑے حوصلہ مند افراد کے پاؤں میں زنجیر ہی تو ڈال دیتا ہے۔ اس کے علاوہ آپ آدمی کے اندر حرص و ہوس کے عنصر اور ترغیب و ترہیب سے بھی انکار نہیں کرسکتے۔ یہ وہ شے ہے کہ ایک بار آدمی کو اس کا دھیان آجائے تو پھر وہ مطلب براری کے سو حیلے کرسکتا ہے۔ آدمی کے اندر خیر و شر دونوں ہی کا رُجحان پایا جاتا ہے۔ خیر کی راہ پر آجائے تو فرشتوں کو پیچھے چھوڑ دے اور شر کا راستہ اختیار کرے تو شیطان کو اپنا چیلا بنالے۔
یہ ٹھیک ہے کہ آدمی سب سے پہلے اپنے ضمیر کو جواب دہ ہے، اس کے بعد خدا اور ملک کے قانون کو۔ تاہم دیکھا گیا ہے کہ اپنے ضمیر کی آواز کو دبانے اور خدا کو بھول جانے کی وہ بہت غیرمعمولی صلاحیت رکھتا ہے۔ تبھی تو اس دنیا کے انسان تعلیم، تہذیب، تمدن اور مذہب کے باوجود اپنے ہی جیسے دوسرے انسانوں کے ہاتھوں ایسی ایسی اذیتوں سے دوچار ہوتے ہیں کہ جن کے بارے میں سن کر بھی انسانی روح لرز اٹھتی ہے۔ اس لیے دیکھا گیا ہے کہ جرائم کی روک تھام کا کام انسانی ضمیر اور خدا کے خوف سے زیادہ مؤثر طریقے سے کسی ملک کا قانون اور نظامِ انصاف چلا سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں، جن ممالک میں جس حد تک قانون اور انصاف کی عمل داری قائم ہے، وہاں پر جرائم کا تناسب اسی لحاظ سے کم ہے۔
لاہور کے حوالے سے بچوں کے خلاف ہونے والے جرائم کے یہ اعداد و شمار ہمیں صاف لفظوں میں بتا رہے ہیں کہ متعلقہ محکموں کی غفلت، قانونی پیچیدگیاں، اور غیرمؤثر نظام نے ہمارے یہاں مجرموں کو کھل کھیلنے کا موقع فراہم کیا ہے۔ قانون کھیل بن گیا ہے اور ادارے یرغمال ہوچکے ہیں۔ وہ ان لوگوں کے ہاتھ میں ہیں جو ذاتی ترغیبات کا شکار ہوتے ہیں، یا طاقت ور لوگوں کے لیے کھلونا بن جاتے ہیں۔ چناںچہ سیاسی طاقت اور مالی حیثیت رکھنے والوں کے لیے قانون کی گرفت کم زور پڑجاتی ہے۔
ان کے بچ نکلنے کے لیے وہ راستے پیدا ہوجاتے ہیں جو قانون کو تماشا بنا کر رکھ دیتے ہیں۔ یہ کام کون کرتا ہے؟ کبھی وہ لوگ جنھیں اس ملک کے عوام اپنے لیے قانون سازی کے لیے منتخب کرتے ہیں اور کبھی وہ لوگ جنھیں ملک و قوم نے قانون کے تحفظ اور اس کی عمل داری کا فریضہ سونپا ہوا ہے۔ ہمارے یہاں جرائم کی شرح تشویش ناک حد تک بڑھ رہی ہے، اور مجرموں میں اچھے تعلیم یافتہ گھرانوں کے افراد بھی نمایاں طور سے نظر آنے لگے ہیں۔ عوام میں ایک طرف عدم تحفظ کا احساس بڑھ رہا ہے تو دوسری طرف جرم خود ایک کشش اور ترغیب بنتا جارہا ہے۔
یہ کوئی اَن ہونی بات بھی نہیں ہے۔ جرائم پر قابو نہ پایا جاسکے تو وہ انتقام کا جذبہ رکھنے والوں ہی کے لیے نہیں، بلکہ اپنے دفاع کی خواہش رکھنے والوں کے لیے بھی ترغیب بن جاتے ہیں اور طاقت ور طبقے کے لیے محض ایک ایڈونچر۔
یوں تو ہر طرح کا جرم قابلِ نفرت اور لائقِ تعزیر ہوتا ہے، لیکن بچوں کے خلاف کیے جانے والے جرائم کو ساری مہذب قومیں سب سے زیادہ گھناؤنا اور ناقابلِ معافی جرم گردانتی ہیں۔ صرف اس لیے نہیں کہ بچے معصوم اور محبت کے لائق ہوتے ہیں۔
وہ تو یقینا ہوتے ہیں، لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ جن معاشروں میں بچوں کے خلاف جرائم کا تناسب زیادہ ہوتا ہے، وہاں سماجی نفسیات کا نقشہ سب سے زیادہ تباہ کن حالت میں سامنے آتا ہے اور ہر طرح کے جرائم کی شرح میں بہت تیزی سے اضافہ ہوتا ہے، اور جرم کی مہیب ترین صورتیں سامنے آنے لگتی ہیں۔ یہ واقعی بہت اہم مسئلہ ہے۔ اس لیے ہمیں اپنے یہاں بچوں کے خلاف ہونے والے جرائم کو فوری طور پر اور پوری توجہ کے ساتھ دیکھنا چاہیے اور اُن کی روک تھام میں اپنا کردار انفرادی اور اجتماعی دونوں سطحوں پر پوری ذمے داری سے ادا کرنا چاہیے۔
نفسیاتی رویہ صرف مجرم کا نہیں، بل کہ جو اِس جرم کا شکار ہوا ہے اس مظلوم کے اہلِ خانہ کا بھی۔ مجرم کی ذہنی ساخت اور نفسیاتی مسائل تو اپنی جگہ ہیں۔ ظاہر ہے، یہ ایک ہول ناک مریضانہ رویہ ہے، لیکن اس ظلم سے دوچار ہونے والے بچے کے گھر والے اس حادثے کے بعد معاشرے میں رسوائی کے خوف سے خود اس خبر کو دبانے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ خوف ویسے بے جا بھی نہیں ہے۔
اس اذیت ناک تجربے سے گزرنے والے خاندان سے عام طور پر جس انداز سے لوگ پوچھتے، جس طرح ہم دردی کرتے اور جس طریقے سے اس خبر کو آگے بڑھاتے ہیں، وہ یقینا رُسواکن ہوتا ہے۔ یہ ایک سنجیدہ مسئلہ ہے اور اس کا تعلق سماجی مزاج سے ہے۔ جرم کی اذیت اپنی جگہ، لیکن ذلت کا خوف اس پریشان حال خاندان کے لیے اس سے بھی زیادہ تکلیف دہ ہوجاتا ہے۔ اس لیے وہ خاموشی سے اس کرب کو برداشت کرنے میں ہی عافیت محسوس کرتا ہے۔ جن معاشروں میں یہ مسئلہ پایا جاتا ہے، ہم بھی انھیں میں شامل ہیں۔
ہمارے یہاں اگرچہ الیکٹرونک میڈیا پر ہونے والے پروگرام اس پر روشنی ڈال رہے ہیں اور اسی طرح اخبارات میں بھی تحریریں شائع ہورہی ہیں کہ اس جرم پر مظلوم خاندان کا چپ ہوکر بیٹھ جانا ظالموں اور مجرموں کی حوصلہ افزائی کا ذریعہ بنتا ہے۔ ضروری ہے کہ بے خوفی اور ذمے داری کے ساتھ اس مسئلے کی نشان دہی کی جائے۔ ظلم اور زیادتی کو پی جانے کے بجائے اس کے خلاف آواز اٹھا کر مجرم کو کیفرِکردار تک پہنچانے میں ہرگز کوتاہی نہ کی جائے۔ ان سب چیزوں کا کچھ نہ کچھ نتیجہ بھی سامنے آرہا ہے، لیکن اس کے باوجود لوگوں کے ذہن سے سماجی رسوائی کا خوف دور نہیں ہوا ہے۔ اسی لیے اب تک اس جرم پر قابو پانا ممکن نہیں نہ ہورہا۔
ایسے جرائم ہمارے معاشرے میں اس وقت کس سطح پر ہیں، اس کا اندازہ آپ کسی حد تک ان اعداد و شمار سے کرسکتے ہیں جو آپ کو شہروں اور صوبوں کی سطح پر میسر آسکتے ہیں۔ ویسے تو اس سلسلے میں پہلا مرحلہ ہی دشوار ہوجاتا ہے کہ جب آپ اس صورتِ حال کے حقائق جاننے اور ڈیٹا جمع کرنے نکلتے ہیں۔ ہمارے یہاں سماجی حقائق اور مسائل کا ڈیٹا جمع کرنے والے ادارے الگ سے موجود ہی نہیں ہیں۔
اس لیے یہ ڈیٹا آپ کو انھی اداروں سے حاصل کرنا پڑتا ہے جو اِن جرائم کی روک تھام کے لیے کام کررہے ہیں۔ مسئلہ یہ پیش آتا ہے کہ اوّل تو ان اداروں سے درست اعداد و شمار حاصل کرنا بہت دشوار ہے۔ پھر یہ کہ جو اعداد و شمار ملتے ہیں ان پر بھی آپ پورا اطمینان نہیں کرسکتے۔ وجہ یہ کہ نہ صرف مکمل رپورٹنگ نہیں ہورہی، بلکہ جو ہورہی ہے، وہ بھی نظام کی پیچیدگی اور اداروں کے دائرۂ کار کی دشواری اور ذمے دارانہ منصب پر فائز افراد کی بے پروائی یا سردمہری ایسے ناقابلِ حل مسائل اصل منظرنامے تک پہنچنے کی راہ میں حائل ہوجاتے ہیں جو درست اعداد و شمار اور حقیقی صورتِ حال کو سامنے ہی نہیں آنے دیتے۔
ایک عام آدمی کے لیے جو ویسے ہی ایک اذیت ناک تجربے سے گزر کر آیا ہے اور ہم دردی کا خواہاں ہے، یہ مسئلہ راستے میں ایسی رکاوٹیں پیدا کرتا ہے کہ وہ کسی انصاف کی توقع ہی اپنے ذہن سے نکال دیتا ہے اور صبر کی سل دل پر رکھ کر بیٹھ جاتا ہے۔
یہی نہیں، بلکہ اس کے بعد اس کی نفسیات میں ایک ایسی دراڑ پڑتی ہے کہ وہ قانون کے وجود کا ہی انکار کردیتا ہے اور یہ سمجھ لیتا ہے کہ اس معاشرے میں قانون کی عمل داری صرف ان لوگوں کے لیے ہے جو خود اہلِ اختیار اور حیثیت والے ہیں۔ چناںچہ وہ اس کے بعد ساری زندگی جبر کے جان لیوا احساس اور برداشت کی جاں گسل بھٹی میں بسر کرتا ہے۔ اپنے اطراف میں اگر کسی کو ایسے ہی ہول ناک تجربے سے گزرتے ہوئے دیکھتا ہے تو اسے بھی خاموشی کا درس دیتا ہے۔ ہاں، کچھ لوگ اس خاندان میں ایسے بھی ہوسکتے، بلکہ کہنا چاہیے کہ ہوتے ہیں جو جبر کی گھٹن سے باہر آنے کے لیے خود پھر انتقام کا راستہ اختیار کرلیتے ہیں، اور جرم کی دلدل میں اتر جاتے ہیں۔
یہ لگ بھگ سات ماہ پہلے کی بات ہے جب ہمارے یہاں ایک ایسا ہی ہول ناک واقعہ ہوا تھا۔ معصوم بچی زینب جنسی تشدد کا نشانہ بناکر موت کے گھاٹ اتار دی گئی۔ اس واقعے پر بھی وہی صورتِ حال معاشرے میں ہوسکتی تھی جو ایسے ہی دوسرے سیکڑوں واقعات پر ہوتی ہے۔ الیکٹرونک میڈیا کا حافظہ چند گھنٹے یا ایک ڈیڑھ دن اس واقعے کو یاد رکھتا ہے، خبر چلتی ہے اور پھر سب کچھ اسی طرح معمول کی سردمہری اور وقت کے اندھیرے میں گم ہوتا چلا جاتا ہے۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔ اس لیے کہ عدالت نے اس کا نوٹس لے لیا۔ تحقیقاتی کمیٹی بن گئی۔
رپورٹ کی ذمے داری متعینہ وقت کے ساتھ سونپ دی گئی۔ تفتیشی ادارے حرکت میں آگئے۔ پولیس کو جواب طلبی کا سامنا ہوا۔ مجرم کی گرفتاری تک، بلکہ عدالت میں پیشی، مقدمے کی سماعت اور سزا کے اعلان تک الیکٹرونک میڈیا کے لیے یہ واقعہ صرف ایک خبر نہیں رہا، بلکہ ذمے دارانہ کردار کا ایک سوال بن گیا۔ نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔ مظلوم خاندان کو دہائی دینی پڑی اور نہ ہی جبر و صبر سے گزرنا پڑا۔ مجرم پکڑا گیا، جرم ثابت ہوگیا اور سزا سنا دی گئی۔
تاہم ذرا غور طلب بات یہ ہے کہ کیا ایسی صورتِ حال صرف اسی وقت سامنے آئے گی جب عدالت ایسے کسی جرم کا نوٹس لے گی؟ افسوس، صد افسوس کہ ہمیں اس کا اعتراف کرنا پڑے گا کہ ایسا ہر جرم کے واقعے پر نہیں ہوتا۔ یہ نتیجہ خیز کارروائی صرف عدلیہ کے نوٹس پر دیکھنے میں آئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صرف لاہور میں اس سات ماہ کے عرصے میں ایک سو اکتالیس واقعات ایسے ہی جرائم درج کرائے گئے ہیں۔ جی ہاں، صرف لاہور شہر میں ایک سو اکتالیس واقعات۔ ان میں وہ واقعات شمار نہیں کیے گئے جنھیں ثبوت کی کمی، ناکافی شواہد یا کسی بھی دوسری وجہ سے رد کردیا گیا۔ یعنی اُن واقعات کا نہ تو کہیں اندراج ہوا ہے اور نہ ہی ان کے لیے تحقیقی و تفتیشی اقدام کیے گئے ہیں۔ ان حالات میں کیا توقع کی جاسکتی ہے کہ ایسے سانحات کی روک تھام کے لیے کیا مؤثر اقدامات کیے جاسکتے ہیں۔
اس کے ساتھ ساتھ بے حد افسوس ناک اور شرم ناک، مگر قابلِ غور حقیقت یہ ہے کہ جن جرائم کی رپورٹ درج کرائی گئی، ان میں سے کوئی بھی نام زد ملزم اب تک اپنے منطقی انجام کو نہیں پہنچا۔ سوال یہ ہے، پہنچ بھی کیسے سکتا ہے کہ جب ان سب ملزموں کو متعلقہ عدالتوں نے ضمانت پر رہا کیا ہوا ہے۔ کیا یہ ہمارے عدالتی نظام یا قانونی پیچیدگی کا مسئلہ ہے کہ ایسے گھناؤنے مجرم ضمانت پر رہا ہوکر آزادی سے گھوم رہے ہیں، بلکہ وہ اور ان کے ساتھی، اہلِ خانہ اور جانے کون کون اُن کے ساتھ مل کر جرم کا ایک ایک نشان مٹانے، گواہیاں ختم یا غائب کرانے اور مظلوم خاندان کو دھونس، دھمکی یا لالچ کے ذریعے جرم کی عدالتی پیروی سے دور رکھنے کی ہر ممکن کوشش کررہا ہوگا۔ نہیں، یہ عدالتی نظام کی خرابی نہیں ہے۔ اس لیے کہ عدالتی نظام نے زینب کے کیس میں اپنے وجود کا اثبات اور اپنے کردار کا اظہار نہایت ذمے داری سے کیا ہے۔
مسئلہ اگر ہے تو بنیادی طور پر پولیس کے نظام اور محکمے کا ہے، تحقیقاتی اور تفتیشی اداروں کے طریقِ کار کا ہے۔ ظلم و بربریت کا شکار ہونے والوں کی نارسائی کا ہے۔ سچ پوچھیے تو پورے سماج کا ہے۔ ایسے ہر سانحے پر مظلوم خاندان کو نہیں پورے سماج کو اکائی بن کر سراپا احتجاج ہوجانا چاہیے۔ انصاف کے حصول تک سماج کے ہر گھر، ہر فرد اور سارے سماجی اداروں کو اسے اپنے لیے سب سے اہم اور سب سے بڑا چیلینج سمجھ کر اپنے سامنے رکھنا چاہیے۔ قانون کی عمل داری کے لیے، مجرم کے انجام تک پورے سماج کو سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جانا چاہیے۔ ہر تفریق، ہر امتیاز اور ہر مصلحت کو بالائے طاق رکھتے ہوئے پورے سماج کو اسے اپنے لیے جینے اور مرنے کا مسئلہ بناکر ایسے ہر جرم اور ہر مجرم کا پیچھا کرنا چاہیے اور اپنی پوری اجتماعی قوت کو انصاف کے حصول کے لیے استعمال کرنا چاہیے۔
اپنے اطراف کی زندگی کے تجربات میں ہم اس کے برعکس صورتِ حال دیکھتے ہیں۔ واقعات بتاتے ہیں کہ مظلوم خاندان کے افراد دل کڑا کرکے سامنے آتے ہیں۔ جرم کے خلاف اور مجرم کی گرفتاری کے لیے آواز اٹھاتے ہیں، لیکن حالات اور تجربات سے مایوس ہوکر بیٹھ جاتے ہیں۔ اس لیے کہ پولیس والے اس قسم کے جرائم کی رپورٹ ہی آسانی سے درج نہیں کرتے۔ ظلم کا شکار لوگوں کو صرف اپنی آواز قانون کے کان تک پہنچانے کے لیے پے در پے دشواریوں اور تکلیفوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ قدم قدم پر ذلت کے تجربات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
خود کو سچا اور انصاف کا طلب گار ثابت کرنے کے لیے ایسی صورتِ حال کا سامنا کرنا پڑتا ہے کہ حوصلہ ساتھ چھوڑ دیتا ہے۔ اعصاب شکنی کا احساس ناقابلِ برداشت ہوجاتا ہے۔ عزمِ صمیم اور ناقابلِ شکست حوصلے کے ساتھ یہ مراحل گزر بھی جائیں تو اس کے بعد ارتکابِ جرم کے شواہد اکٹھے کرنا یا پیش کرنا اس سے کہیں زیادہ اذیت دہ ہوتا ہے۔ حد یہ ہے کہ ڈی این اے ٹیسٹ کی رپورٹ تک کو ناقابلِ اعتبار بنانے کی صورتیں پیدا ہوجاتی ہیں یا کردی جاتی ہیں۔ حالاںکہ لاہور وہ شہر ہے جہاں ملک کی چند فرنزک لیبارٹریز میں ایک اعلیٰ سطح کی لیبارٹری موجود ہے۔ اس دور میں سائنسی ترقی اور ایجادات نے جرائم کی روک تھام کے لیے یہ سہولت مہیا کردی ہے کہ ایسے کسی جرم کا اگر کوئی چشم دید گواہ نہ ہو تو بھی فرنزک رپورٹ وہ شواہد فراہم کرسکتی ہے کہ مجرم کے بچ نکلنے کا کوئی راستہ ہی نہ بچے۔
بات اصل میں یہ ہے کہ کسی معاشرے کی اصلاح، بھلائی، ترقی اور آسودگی کا انحصار اُس کو حاصل ایجادات اور اداروں پر نہیں ہوتا، بلکہ ان افراد پر ہوتا ہے جو اُن کو سنبھالتے اور چلاتے ہیں۔ یہ ٹھیک ہے کہ افراد اگر اپنے فرائض کی بجاآوری پر آجائیں تو کوئی شے انھیں روک نہیں پاتی اور وہ دنیا کو بدل کر رکھ سکتے ہیں، لیکن اس حقیقت سے بھی تو انکار ممکن نہیں کہ ملک کا اور اس کے اداروں کا نظام بڑے بڑے حوصلہ مند افراد کے پاؤں میں زنجیر ہی تو ڈال دیتا ہے۔ اس کے علاوہ آپ آدمی کے اندر حرص و ہوس کے عنصر اور ترغیب و ترہیب سے بھی انکار نہیں کرسکتے۔ یہ وہ شے ہے کہ ایک بار آدمی کو اس کا دھیان آجائے تو پھر وہ مطلب براری کے سو حیلے کرسکتا ہے۔ آدمی کے اندر خیر و شر دونوں ہی کا رُجحان پایا جاتا ہے۔ خیر کی راہ پر آجائے تو فرشتوں کو پیچھے چھوڑ دے اور شر کا راستہ اختیار کرے تو شیطان کو اپنا چیلا بنالے۔
یہ ٹھیک ہے کہ آدمی سب سے پہلے اپنے ضمیر کو جواب دہ ہے، اس کے بعد خدا اور ملک کے قانون کو۔ تاہم دیکھا گیا ہے کہ اپنے ضمیر کی آواز کو دبانے اور خدا کو بھول جانے کی وہ بہت غیرمعمولی صلاحیت رکھتا ہے۔ تبھی تو اس دنیا کے انسان تعلیم، تہذیب، تمدن اور مذہب کے باوجود اپنے ہی جیسے دوسرے انسانوں کے ہاتھوں ایسی ایسی اذیتوں سے دوچار ہوتے ہیں کہ جن کے بارے میں سن کر بھی انسانی روح لرز اٹھتی ہے۔ اس لیے دیکھا گیا ہے کہ جرائم کی روک تھام کا کام انسانی ضمیر اور خدا کے خوف سے زیادہ مؤثر طریقے سے کسی ملک کا قانون اور نظامِ انصاف چلا سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں، جن ممالک میں جس حد تک قانون اور انصاف کی عمل داری قائم ہے، وہاں پر جرائم کا تناسب اسی لحاظ سے کم ہے۔
لاہور کے حوالے سے بچوں کے خلاف ہونے والے جرائم کے یہ اعداد و شمار ہمیں صاف لفظوں میں بتا رہے ہیں کہ متعلقہ محکموں کی غفلت، قانونی پیچیدگیاں، اور غیرمؤثر نظام نے ہمارے یہاں مجرموں کو کھل کھیلنے کا موقع فراہم کیا ہے۔ قانون کھیل بن گیا ہے اور ادارے یرغمال ہوچکے ہیں۔ وہ ان لوگوں کے ہاتھ میں ہیں جو ذاتی ترغیبات کا شکار ہوتے ہیں، یا طاقت ور لوگوں کے لیے کھلونا بن جاتے ہیں۔ چناںچہ سیاسی طاقت اور مالی حیثیت رکھنے والوں کے لیے قانون کی گرفت کم زور پڑجاتی ہے۔
ان کے بچ نکلنے کے لیے وہ راستے پیدا ہوجاتے ہیں جو قانون کو تماشا بنا کر رکھ دیتے ہیں۔ یہ کام کون کرتا ہے؟ کبھی وہ لوگ جنھیں اس ملک کے عوام اپنے لیے قانون سازی کے لیے منتخب کرتے ہیں اور کبھی وہ لوگ جنھیں ملک و قوم نے قانون کے تحفظ اور اس کی عمل داری کا فریضہ سونپا ہوا ہے۔ ہمارے یہاں جرائم کی شرح تشویش ناک حد تک بڑھ رہی ہے، اور مجرموں میں اچھے تعلیم یافتہ گھرانوں کے افراد بھی نمایاں طور سے نظر آنے لگے ہیں۔ عوام میں ایک طرف عدم تحفظ کا احساس بڑھ رہا ہے تو دوسری طرف جرم خود ایک کشش اور ترغیب بنتا جارہا ہے۔
یہ کوئی اَن ہونی بات بھی نہیں ہے۔ جرائم پر قابو نہ پایا جاسکے تو وہ انتقام کا جذبہ رکھنے والوں ہی کے لیے نہیں، بلکہ اپنے دفاع کی خواہش رکھنے والوں کے لیے بھی ترغیب بن جاتے ہیں اور طاقت ور طبقے کے لیے محض ایک ایڈونچر۔
یوں تو ہر طرح کا جرم قابلِ نفرت اور لائقِ تعزیر ہوتا ہے، لیکن بچوں کے خلاف کیے جانے والے جرائم کو ساری مہذب قومیں سب سے زیادہ گھناؤنا اور ناقابلِ معافی جرم گردانتی ہیں۔ صرف اس لیے نہیں کہ بچے معصوم اور محبت کے لائق ہوتے ہیں۔
وہ تو یقینا ہوتے ہیں، لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ جن معاشروں میں بچوں کے خلاف جرائم کا تناسب زیادہ ہوتا ہے، وہاں سماجی نفسیات کا نقشہ سب سے زیادہ تباہ کن حالت میں سامنے آتا ہے اور ہر طرح کے جرائم کی شرح میں بہت تیزی سے اضافہ ہوتا ہے، اور جرم کی مہیب ترین صورتیں سامنے آنے لگتی ہیں۔ یہ واقعی بہت اہم مسئلہ ہے۔ اس لیے ہمیں اپنے یہاں بچوں کے خلاف ہونے والے جرائم کو فوری طور پر اور پوری توجہ کے ساتھ دیکھنا چاہیے اور اُن کی روک تھام میں اپنا کردار انفرادی اور اجتماعی دونوں سطحوں پر پوری ذمے داری سے ادا کرنا چاہیے۔