پی ایس ایل سپاٹ فکسنگ کیس کا آخری راؤنڈ مکمل
کرکٹرز ساکھ اور کیریئر، پاکستان ٹیلنٹ سے محروم ہوا۔
کرپشن کا گھن کسی بھی سسٹم کی بنیادیں کھوکھلی کرنے کا سبب بنتا ہے،کھیلوں کا تو مقصد ہی نوجوانوں کو مثبت سرگرمیوں کی طرف راغب کرتے ہوئے جیت کی تڑپ اور ہار برداشت کرنے کا جذبہ پیدا کرنا ہوتا ہے، اگر اس عمل میں کسی مالی مفاد کیلیے نیتوں میں کھوٹ آجائے تو سپورٹس کی سپرٹ پامال ہوجاتی ہے۔
پاکستان کرکٹ میں بدقسمتی سے بار بار فکسنگ کی بازگشت سنائی دیتی رہی ہے،17 سال قبل کئی سٹار کرکٹرز کے دامن کرپشن سے آلودہ ہوئے، دنیا بھر میں ملک کی بدنامی ہوئی، تحقیقات کے بعد جسٹس قیوم رپورٹ میں کئی داغدار چہروں کی نشاندہی بھی ہوگئی، کمیشن کی سفارشات کی روشنی میں سلیم ملک اور عطاء الرحمان تاحیات پابندی کا شکار ہوئے،دیگر کئی کرکٹرز کو معمولی جرمانوں کیساتھ چھوٹ دیدی۔
ان میں کئی کھلاڑیوں کو قومی ٹیم کی قیادت اور ملکی کرکٹ میں کوئی عہدہ نہ دینے کی سفارش بھی کئی گئی تھی لیکن سب ایک ایک کرکے مختلف ذمہ داریوں کیلیے منتخب کئے گئے اور آج بڑے معتبر ناموں میں شامل ہوتے ہیں،بعد ازاں بھی مسند سنبھالنے والے ہر چیئرمین پی سی بی نے زیروٹالرنس پالیسی اپنانے کا نعرہ ضرور لگایا لیکن عملی طور پر کرپشن کے آتش فشاں کو نظر انداز کیا، مختلف ادوار میں اس سے اٹھنے والی چنگاریاں پاکستان کرکٹ کی ساکھ کو خاکستر کرنے کا سبب بنتی رہیں۔
لارڈز ٹیسٹ2010 کے دوران کپتان سلمان بٹ، محمد آصف اور محمد عامر پر سپاٹ فکسنگ کے الزامات ثابت ہوئے تھے، بکی مظہر مجید کے کہنے پر نوبال کروانے والے پاکستانی کرکٹرز سٹنگ آپریشن میں ناقابل تردید ثبوت چھوڑ گئے اور برطانیہ میں قید کی سزا بھی کاٹی، آئی سی سی نے تینوں کرکٹرز پر 5سال کی پابندی عائد کی تھی، زیرو ٹالرنس کی پالیسی کے چیمپئن پی سی بی نے سزا کی مدت پوری ہونے پر محمد عامر کی انٹرنیشنل کرکٹ میں واپسی کیلیے راہ ہموار کی،نجم سیٹھی کا اس میں اہم کردار رہا،سلمان بٹ اور محمد آصف تاحال کم بیک کی خواہش دل میں لئے پھر رہے ہیں۔
گزشتہ سال پاکستان سپر لیگ کے آغاز میں سامنے آنے والے سپاٹ فکسنگ سکینڈل نے ایک بار پھر دنیا کرکٹ میں طوفان برپا کیا،اس کیس میں سماعتوں کا طویل سلسلہ چلا، پی سی بی کے قائم کردہ اینٹی کرپشن ٹریبیونل نے شرجیل خان کو ڈھائی سال کی معطلی سمیت 5سال پابندی کی سزا سنائی۔
سماعت رکوانے کیلیے ہائیکورٹ جانے اور ناکام ہونے پر پیش ہونے کیلیے تیار ہونے کے بعد ٹریبیونل نے کارروائی مکمل کرتے ہوئے خالد لطیف پر 5سال کی پابندی عائد کی،ساتھ 10لاکھ روپے جرمانہ بھی ادا کیا، محمد عرفان 6ماہ کی معطلی اور جرمانے کی ادائیگی کے بعد کرکٹ میں واپسی بھی اختیار کرچکے،شرجیل خان اور خالد لطیف کی اپیلیں بھی ایڈجوڈیکیٹرز نے مسترد کرتے ہوئے سزائیں برقرار رکھیں، شاہ زیب حسن کو اینٹی کرپشن ٹریبیونل نے ایک سال پابندی اور 10لاکھ جرمانے کی سزا سنائی، انہوںنے جرمانہ میں کمی جبکہ پی سی بی نے سزا میں اضافے کیلیے اپیل دائر کی، فیصلہ بورڈ کے حق میں ہوا، جرمانہ تو کم نہ ہوا، الٹا شاہ زیب حسن کی پابندی ایک کے بجائے 4سال کردی گئی۔
ان تمام کرکٹرز کیخلاف کیسز کی سماعت کے دوران ناصر جمشید کو ماسٹرمائنڈ قرار دیا جاتا رہا، سپاٹ فکسنگ سکینڈل کی دبئی میں بازگشت کے دوران ہی ناصر جمشید کو برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی نے گرفتار کرنے کے بعد ضمانت پر رہا کردیا تھا جس کی تحقیقات کا ابھی تک کوئی حتمی نتیجہ سامنے نہیں آسکا، پی سی بی اینٹی کرپشن یونٹ کے حکام نے لندن میں موجود اوپنر سے بار بار رابطہ اور تحقیقات میں تعاون حاصل کرنے کی کوشش کی لیکن ناکام رہے، ٹریبیونل نے پہلے عدم معاونت کا کیس کھولا اور ناصر جمشید کو ایک سال پابندی کی سزا سنائی۔
جس کی مدت رواں برس فروری میں ختم ہوئی تھی، دیگر کرکٹرز کے کیسز کی کارروائی مکمل ہوتے ہی ناصر جمشید کو فکسنگ الزامات میں چارج شیٹ جاری کردی گئی تھی، اوپنر پر پی سی بی اینٹی کرپشن کوڈ کی 5 شقوں کی خلاف ورزی کا الزام عائد کیا گیا جس میں کرکٹ کی ساکھ تباہ کرنے والی میچ فکسنگ، بکیز کی پیشکش قبول کرنے اور کرپشن کی یقین دہانی کروانے، کھلاڑیوں کو اکسانے اور بکیز کی جانب سے رابطے کی رپورٹ نہ کرنے جیسے سرگرمیاں شامل تھیں۔ اس کیس میں پی سی بی اور اوپنر کے وکلاء نے اپنے دلائل دیئے، لندن میں موجود ناصر جمشید کا بیان بھی ویڈیو لنک کے ذریعے ریکارڈ کیا گیا، حتمی دلائل مکمل ہونے پر محفوظ کیا گیا فیصلہ جمعہ کو سناتے ہوئے ناصر جمشید پر 10 سال کی پابندی عائد کردی گئی ہے۔
سزا پوری کرنے کے بعد بھی اوپنر کو بی سی بی سمیت کرکٹ کے انتظامی امور میں بھی کوئی عہدہ نہیں دیا جائے گا، نوجوانوں کو فکسنگ سے آگاہی کیلیے دیئے جانے والے لیکچرز میں کھلاڑیوں کو جن مشکوک افراد سے دور رہنے کی ہدایت کی جاتی ہے، ان کی فہرست میںناصر جمشید کا نام بھی شامل کر دیا جائے گا، سزا سنائے جانے کے بعد پی سی بی کے قانونی مشیر تفضل رضوی نے عجیب سی وضاحت پیش کی کہ ناصر جمشید نے ہی کھلاڑیوں کو فکسنگ پر اکسایا تھا، تاہم یوسف کو بکی ثابت کرنا بورڈ کی ذمہ داری نہیں، ناصر جمشید کو سزا کیساتھ ہی 18ماہ قبل شروع ہونے والے سپاٹ فکسنگ کیس کا فائنل راؤنڈ بھی مکمل ہوگیا، اوپنر کو اپیل کا حق ضرور حاصل ہے لیکن ابھی تک ان کی طرف سے فی الحال اس کا امکان نظر نہیں آتا۔
پی ایس ایل سپاٹ فکسنگ کیس کرکٹرز کی ساکھ، پاکستان کا ٹیلنٹ اور کیس کی سماعتوں پر خرچ ہونے والا پی سی بی کا لاکھوں روپے کا سرمایہ گنوانے کا سبب بن گیا، تاہم اس بات کی کوئی گارنٹی نہیں کہ آئندہ کبھی اس طرح کے ناخوشگوار واقعات سامنے نہیں آئیں گے، پیسے کی دوڑ کرکٹ کو مسلسل آلودہ کررہی ہے، نجی ٹی ٹوئنٹی لیگز میں اتنا مال ہے کہ کئی نامور کرکٹرز قومی ٹیموں کی نمائندگی کو بھی اپنی ترجیحات میں شامل نہیں سمجھتے، فکسنگ کے رجحان کوختم کرنا صرف آئی سی سی کا کام نہیں یہ کرکٹ بورڈز کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ معاملات پر کڑی نظر رکھیں۔
اس کیلیے ملکی سطح کے مقابلوں میں معاوضوں کو پرکشش بنانا اور کرکٹرز کو فکسنگ کے حوالے سے تعلیم دینا ضروری ہے لیکن ہر ملک نے تو اپنی ٹی ٹوئنٹی لیگ شروع کر رکھی ہے،یہ خدشہ بھی ہوتا ہے کہ اگر غیر ملکی لیگز میں اپنے کھلاڑی نہیں بھیجے تو دوسرے بھی نہیں آنے دینگے،اس معاملے میں پی سی بی کا رویہ سب سے زیادہ نرم رہا، ایک طرٖف ڈومیسٹک کرکٹ کے میچز چل رہے ہوتے تو دوسری جانب سنٹرل کنٹریکٹ یافتہ قومی کرکٹرز غیر ملکی لیگز میں شریک ہوتے، تاہم اب کرکٹرز کیلیے سال میں دو لیگز کی پالیسی متعارف کروائی گئی ہے،اس پر بھی پوری طرح عمل درآمد ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔
عجیب بات ہے کہ کھلاڑیوں کو مال بنانے کی مشین بنائے جانے کے بعد اگر کوئی فکسنگ کے شک کی زد میں آجائے تو دھر لیا جاتا ہے لیکن مختلف لیگز میں کرکٹرز کو خراب کرنے والے بکیز کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جاتی، جتنے کیس پکڑے گئے ان میں مظہر مجید کے سوا کسی بکی کو قانون کی گرفت میں لائے جانے کی اطلاع نہیں، یکطرفہ ٹریفک چلائے جانے کا نتیجہ ہے کہ کھلاڑیوں کے آس پاس دندناتے پھرنے والے بکیز کسی نہ کسی کو پھانس لیتے ہیں۔
سرفراز احمد کی طرح جرات کا مظاہرہ کرنے والے کم اور محمد عرفان کی طرح بکی کے بارے میں بتانے سے ہی گریز کرنے والے زیادہ ہیں،اس صورتحال میں بکیز کو سزائیں دلوائے بغیر فکسنگ کیخلاف مہم کامیاب ہونے کی امید نہیں کی جاسکتی،اگر کوئی بکی کسی پرستار کے روپ میں کہیں بھی کھلاڑی سے ملے اور کوئی معاملہ طے بھی نہ پائے تب بھی شکوک تو پیدا ہوجائیں گے، پلیئر انکوائری کی زد میں آنے کے بعد اپنا دامن صاف ثابت کرنے میں بھی شدید پریشانی کا شکار رہے گا، کرکٹرز کیلیے کوئی معافی نہیں تو بکیز کو کیوں آزاد چھوڑ دیا جاتا ہے؟
پاکستان کرکٹ میں بدقسمتی سے بار بار فکسنگ کی بازگشت سنائی دیتی رہی ہے،17 سال قبل کئی سٹار کرکٹرز کے دامن کرپشن سے آلودہ ہوئے، دنیا بھر میں ملک کی بدنامی ہوئی، تحقیقات کے بعد جسٹس قیوم رپورٹ میں کئی داغدار چہروں کی نشاندہی بھی ہوگئی، کمیشن کی سفارشات کی روشنی میں سلیم ملک اور عطاء الرحمان تاحیات پابندی کا شکار ہوئے،دیگر کئی کرکٹرز کو معمولی جرمانوں کیساتھ چھوٹ دیدی۔
ان میں کئی کھلاڑیوں کو قومی ٹیم کی قیادت اور ملکی کرکٹ میں کوئی عہدہ نہ دینے کی سفارش بھی کئی گئی تھی لیکن سب ایک ایک کرکے مختلف ذمہ داریوں کیلیے منتخب کئے گئے اور آج بڑے معتبر ناموں میں شامل ہوتے ہیں،بعد ازاں بھی مسند سنبھالنے والے ہر چیئرمین پی سی بی نے زیروٹالرنس پالیسی اپنانے کا نعرہ ضرور لگایا لیکن عملی طور پر کرپشن کے آتش فشاں کو نظر انداز کیا، مختلف ادوار میں اس سے اٹھنے والی چنگاریاں پاکستان کرکٹ کی ساکھ کو خاکستر کرنے کا سبب بنتی رہیں۔
لارڈز ٹیسٹ2010 کے دوران کپتان سلمان بٹ، محمد آصف اور محمد عامر پر سپاٹ فکسنگ کے الزامات ثابت ہوئے تھے، بکی مظہر مجید کے کہنے پر نوبال کروانے والے پاکستانی کرکٹرز سٹنگ آپریشن میں ناقابل تردید ثبوت چھوڑ گئے اور برطانیہ میں قید کی سزا بھی کاٹی، آئی سی سی نے تینوں کرکٹرز پر 5سال کی پابندی عائد کی تھی، زیرو ٹالرنس کی پالیسی کے چیمپئن پی سی بی نے سزا کی مدت پوری ہونے پر محمد عامر کی انٹرنیشنل کرکٹ میں واپسی کیلیے راہ ہموار کی،نجم سیٹھی کا اس میں اہم کردار رہا،سلمان بٹ اور محمد آصف تاحال کم بیک کی خواہش دل میں لئے پھر رہے ہیں۔
گزشتہ سال پاکستان سپر لیگ کے آغاز میں سامنے آنے والے سپاٹ فکسنگ سکینڈل نے ایک بار پھر دنیا کرکٹ میں طوفان برپا کیا،اس کیس میں سماعتوں کا طویل سلسلہ چلا، پی سی بی کے قائم کردہ اینٹی کرپشن ٹریبیونل نے شرجیل خان کو ڈھائی سال کی معطلی سمیت 5سال پابندی کی سزا سنائی۔
سماعت رکوانے کیلیے ہائیکورٹ جانے اور ناکام ہونے پر پیش ہونے کیلیے تیار ہونے کے بعد ٹریبیونل نے کارروائی مکمل کرتے ہوئے خالد لطیف پر 5سال کی پابندی عائد کی،ساتھ 10لاکھ روپے جرمانہ بھی ادا کیا، محمد عرفان 6ماہ کی معطلی اور جرمانے کی ادائیگی کے بعد کرکٹ میں واپسی بھی اختیار کرچکے،شرجیل خان اور خالد لطیف کی اپیلیں بھی ایڈجوڈیکیٹرز نے مسترد کرتے ہوئے سزائیں برقرار رکھیں، شاہ زیب حسن کو اینٹی کرپشن ٹریبیونل نے ایک سال پابندی اور 10لاکھ جرمانے کی سزا سنائی، انہوںنے جرمانہ میں کمی جبکہ پی سی بی نے سزا میں اضافے کیلیے اپیل دائر کی، فیصلہ بورڈ کے حق میں ہوا، جرمانہ تو کم نہ ہوا، الٹا شاہ زیب حسن کی پابندی ایک کے بجائے 4سال کردی گئی۔
ان تمام کرکٹرز کیخلاف کیسز کی سماعت کے دوران ناصر جمشید کو ماسٹرمائنڈ قرار دیا جاتا رہا، سپاٹ فکسنگ سکینڈل کی دبئی میں بازگشت کے دوران ہی ناصر جمشید کو برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی نے گرفتار کرنے کے بعد ضمانت پر رہا کردیا تھا جس کی تحقیقات کا ابھی تک کوئی حتمی نتیجہ سامنے نہیں آسکا، پی سی بی اینٹی کرپشن یونٹ کے حکام نے لندن میں موجود اوپنر سے بار بار رابطہ اور تحقیقات میں تعاون حاصل کرنے کی کوشش کی لیکن ناکام رہے، ٹریبیونل نے پہلے عدم معاونت کا کیس کھولا اور ناصر جمشید کو ایک سال پابندی کی سزا سنائی۔
جس کی مدت رواں برس فروری میں ختم ہوئی تھی، دیگر کرکٹرز کے کیسز کی کارروائی مکمل ہوتے ہی ناصر جمشید کو فکسنگ الزامات میں چارج شیٹ جاری کردی گئی تھی، اوپنر پر پی سی بی اینٹی کرپشن کوڈ کی 5 شقوں کی خلاف ورزی کا الزام عائد کیا گیا جس میں کرکٹ کی ساکھ تباہ کرنے والی میچ فکسنگ، بکیز کی پیشکش قبول کرنے اور کرپشن کی یقین دہانی کروانے، کھلاڑیوں کو اکسانے اور بکیز کی جانب سے رابطے کی رپورٹ نہ کرنے جیسے سرگرمیاں شامل تھیں۔ اس کیس میں پی سی بی اور اوپنر کے وکلاء نے اپنے دلائل دیئے، لندن میں موجود ناصر جمشید کا بیان بھی ویڈیو لنک کے ذریعے ریکارڈ کیا گیا، حتمی دلائل مکمل ہونے پر محفوظ کیا گیا فیصلہ جمعہ کو سناتے ہوئے ناصر جمشید پر 10 سال کی پابندی عائد کردی گئی ہے۔
سزا پوری کرنے کے بعد بھی اوپنر کو بی سی بی سمیت کرکٹ کے انتظامی امور میں بھی کوئی عہدہ نہیں دیا جائے گا، نوجوانوں کو فکسنگ سے آگاہی کیلیے دیئے جانے والے لیکچرز میں کھلاڑیوں کو جن مشکوک افراد سے دور رہنے کی ہدایت کی جاتی ہے، ان کی فہرست میںناصر جمشید کا نام بھی شامل کر دیا جائے گا، سزا سنائے جانے کے بعد پی سی بی کے قانونی مشیر تفضل رضوی نے عجیب سی وضاحت پیش کی کہ ناصر جمشید نے ہی کھلاڑیوں کو فکسنگ پر اکسایا تھا، تاہم یوسف کو بکی ثابت کرنا بورڈ کی ذمہ داری نہیں، ناصر جمشید کو سزا کیساتھ ہی 18ماہ قبل شروع ہونے والے سپاٹ فکسنگ کیس کا فائنل راؤنڈ بھی مکمل ہوگیا، اوپنر کو اپیل کا حق ضرور حاصل ہے لیکن ابھی تک ان کی طرف سے فی الحال اس کا امکان نظر نہیں آتا۔
پی ایس ایل سپاٹ فکسنگ کیس کرکٹرز کی ساکھ، پاکستان کا ٹیلنٹ اور کیس کی سماعتوں پر خرچ ہونے والا پی سی بی کا لاکھوں روپے کا سرمایہ گنوانے کا سبب بن گیا، تاہم اس بات کی کوئی گارنٹی نہیں کہ آئندہ کبھی اس طرح کے ناخوشگوار واقعات سامنے نہیں آئیں گے، پیسے کی دوڑ کرکٹ کو مسلسل آلودہ کررہی ہے، نجی ٹی ٹوئنٹی لیگز میں اتنا مال ہے کہ کئی نامور کرکٹرز قومی ٹیموں کی نمائندگی کو بھی اپنی ترجیحات میں شامل نہیں سمجھتے، فکسنگ کے رجحان کوختم کرنا صرف آئی سی سی کا کام نہیں یہ کرکٹ بورڈز کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ معاملات پر کڑی نظر رکھیں۔
اس کیلیے ملکی سطح کے مقابلوں میں معاوضوں کو پرکشش بنانا اور کرکٹرز کو فکسنگ کے حوالے سے تعلیم دینا ضروری ہے لیکن ہر ملک نے تو اپنی ٹی ٹوئنٹی لیگ شروع کر رکھی ہے،یہ خدشہ بھی ہوتا ہے کہ اگر غیر ملکی لیگز میں اپنے کھلاڑی نہیں بھیجے تو دوسرے بھی نہیں آنے دینگے،اس معاملے میں پی سی بی کا رویہ سب سے زیادہ نرم رہا، ایک طرٖف ڈومیسٹک کرکٹ کے میچز چل رہے ہوتے تو دوسری جانب سنٹرل کنٹریکٹ یافتہ قومی کرکٹرز غیر ملکی لیگز میں شریک ہوتے، تاہم اب کرکٹرز کیلیے سال میں دو لیگز کی پالیسی متعارف کروائی گئی ہے،اس پر بھی پوری طرح عمل درآمد ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔
عجیب بات ہے کہ کھلاڑیوں کو مال بنانے کی مشین بنائے جانے کے بعد اگر کوئی فکسنگ کے شک کی زد میں آجائے تو دھر لیا جاتا ہے لیکن مختلف لیگز میں کرکٹرز کو خراب کرنے والے بکیز کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جاتی، جتنے کیس پکڑے گئے ان میں مظہر مجید کے سوا کسی بکی کو قانون کی گرفت میں لائے جانے کی اطلاع نہیں، یکطرفہ ٹریفک چلائے جانے کا نتیجہ ہے کہ کھلاڑیوں کے آس پاس دندناتے پھرنے والے بکیز کسی نہ کسی کو پھانس لیتے ہیں۔
سرفراز احمد کی طرح جرات کا مظاہرہ کرنے والے کم اور محمد عرفان کی طرح بکی کے بارے میں بتانے سے ہی گریز کرنے والے زیادہ ہیں،اس صورتحال میں بکیز کو سزائیں دلوائے بغیر فکسنگ کیخلاف مہم کامیاب ہونے کی امید نہیں کی جاسکتی،اگر کوئی بکی کسی پرستار کے روپ میں کہیں بھی کھلاڑی سے ملے اور کوئی معاملہ طے بھی نہ پائے تب بھی شکوک تو پیدا ہوجائیں گے، پلیئر انکوائری کی زد میں آنے کے بعد اپنا دامن صاف ثابت کرنے میں بھی شدید پریشانی کا شکار رہے گا، کرکٹرز کیلیے کوئی معافی نہیں تو بکیز کو کیوں آزاد چھوڑ دیا جاتا ہے؟