طالبان مذاکرات نواز شریف کے بعد تحریک انصاف کا بھی سمیع الحق سے رابطہ
نامزد وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا پرویز خٹک کی قیادت میں وفد نے ملاقات کی، رہنما پی ٹی آئی شوکت یوسفزئی
آئندہ وزیر اعظم نوزشریف کے بعد عمران خان کی جماعت پاکستان تحریک انصاف بھی طالبان جنگجوئوں سے امن مذاکرات کیلیے مذہبی رہنما اور طالبان کے حامی مولانا سمیع الحق کے مدد کی خواہاں ہے۔
یہ بات پی ٹٰی آئی کے رہنمائوں نے منگل کو بتائی۔ مولانا سمیع الحق کو ''فادر آف طالبان'' کی حیثیت سے پہچانا جاتا ہے اور وہ طالبان کیلیے انتہائی قابل احترام شخصیت ہیں، وہ جمعیت علمائے اسلام (س) کے سربراہ بھی ہیں۔ تحریک انصاف صوبہ خیبرپختونخوا کی اسمبلی میں اکثریتی جماعت کے طور پر سامنے آئی ہے اور اسی لیے تحریک انصاف نے مولانا سمیع الحق سے رابطہ کیا ہے کیونکہ یہی علاقہ طالبان کے حوالے سے سب سے زیادہ اہم تصور کیا جاتا ہے۔ عمران خان نے اپنے انتخابی جلسوں میں علاقے میں فوجی آپریشن ختم کرنے اور طالبان سے مذاکرات کی بات کی تھی۔
یہی وجہ ہے کہ خیبرپختونخوا میں انھیں تمام حلقوں سے ووٹ ملے۔تحریک انصاف کے نومنتخب رکن صوبائی اسمبلی شوکت یوسفزئی کا کہنا ہے کہ ہم خیبرپختونخوا کو پورے ملک کیلیے مثالی صوبہ بنانا چاہتے ہیں، اس کیلیے ہم تمام فریقین سے بات کریں گے تاکہ صوبے میں قیام امن کو یقینی بنایا جاسکے اور مولانا سمیع الحق بھی ان میں سے ایک ہیں۔ انھوں نے کہا کہ خیبرپختونخوا کے آئندہ وزیراعلیٰ پرویز خٹک کی قیادت میں ایک وفد نے پیر کو مولانا سمیع الحق سے ملاقات کی ہے۔
مولانا سمیع الحق کے صاحبزادے حامد الحق نے بھی اس بات کی تصدیق کردی ہے کہ تحریک انصاف کے وفد نے مولانا سمیع الحق سے صوبے میں قیام امن کیلیے اپنا کردار ادا کرنے کوکہا ہے۔ اس کے جواب میں مولانا سمیع الحق نے تحریک انصاف کو یقین دلایا کہ وہ امن مذاکرات اور صوبے میں امن کیلیے اپنی بھرپور کوشش کریں گے۔ طالبان کے ترجمان احسان اللہ احسان نے کہا تھا کہ ہم حکومت کے قیام تک انتظار کریں تاہم جو اسلام کے خلاف ہوا، وہ ہمارا نشانہ بنے گا۔
یاد رہے کہ نامزد وزیر اعظم میاں نوازشریف نے بھی اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ وہ امن کیلیے طالبان سے بھی مذاکرات کریں گے، پیر کو نوازشریف نے بھی مولانا سمیع الحق سے رابطہ کیا تھا۔ اس سال فروری میں تحریک طالبان نے بھی حکومت سے مذاکرات کی خواہش کا اظہار کیا تھا لیکن نوازشریف کی جماعت کی مخالف پارٹیوں پیپلزپارٹی، اے این پی اور ایم کیو ایم کیخلاف کارروائیاں جاری رکھنے کی بات کی تھی۔ طالبان نے جمہوریت کو غیر اسلامی بھی قرار دیا تھا اور انتخابی مہم کے دوران طالبان کی کارروائیوں کی وجہ سے ملک بھر میں کم ازکم ڈیڑھ سو افراد جاں بحق اور سیکڑوں زخمی ہوئے تھے، ان میں الیکشن کے روز ہونے والی ہلاکتیں بھی شامل ہیں۔
یہ بات پی ٹٰی آئی کے رہنمائوں نے منگل کو بتائی۔ مولانا سمیع الحق کو ''فادر آف طالبان'' کی حیثیت سے پہچانا جاتا ہے اور وہ طالبان کیلیے انتہائی قابل احترام شخصیت ہیں، وہ جمعیت علمائے اسلام (س) کے سربراہ بھی ہیں۔ تحریک انصاف صوبہ خیبرپختونخوا کی اسمبلی میں اکثریتی جماعت کے طور پر سامنے آئی ہے اور اسی لیے تحریک انصاف نے مولانا سمیع الحق سے رابطہ کیا ہے کیونکہ یہی علاقہ طالبان کے حوالے سے سب سے زیادہ اہم تصور کیا جاتا ہے۔ عمران خان نے اپنے انتخابی جلسوں میں علاقے میں فوجی آپریشن ختم کرنے اور طالبان سے مذاکرات کی بات کی تھی۔
یہی وجہ ہے کہ خیبرپختونخوا میں انھیں تمام حلقوں سے ووٹ ملے۔تحریک انصاف کے نومنتخب رکن صوبائی اسمبلی شوکت یوسفزئی کا کہنا ہے کہ ہم خیبرپختونخوا کو پورے ملک کیلیے مثالی صوبہ بنانا چاہتے ہیں، اس کیلیے ہم تمام فریقین سے بات کریں گے تاکہ صوبے میں قیام امن کو یقینی بنایا جاسکے اور مولانا سمیع الحق بھی ان میں سے ایک ہیں۔ انھوں نے کہا کہ خیبرپختونخوا کے آئندہ وزیراعلیٰ پرویز خٹک کی قیادت میں ایک وفد نے پیر کو مولانا سمیع الحق سے ملاقات کی ہے۔
مولانا سمیع الحق کے صاحبزادے حامد الحق نے بھی اس بات کی تصدیق کردی ہے کہ تحریک انصاف کے وفد نے مولانا سمیع الحق سے صوبے میں قیام امن کیلیے اپنا کردار ادا کرنے کوکہا ہے۔ اس کے جواب میں مولانا سمیع الحق نے تحریک انصاف کو یقین دلایا کہ وہ امن مذاکرات اور صوبے میں امن کیلیے اپنی بھرپور کوشش کریں گے۔ طالبان کے ترجمان احسان اللہ احسان نے کہا تھا کہ ہم حکومت کے قیام تک انتظار کریں تاہم جو اسلام کے خلاف ہوا، وہ ہمارا نشانہ بنے گا۔
یاد رہے کہ نامزد وزیر اعظم میاں نوازشریف نے بھی اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ وہ امن کیلیے طالبان سے بھی مذاکرات کریں گے، پیر کو نوازشریف نے بھی مولانا سمیع الحق سے رابطہ کیا تھا۔ اس سال فروری میں تحریک طالبان نے بھی حکومت سے مذاکرات کی خواہش کا اظہار کیا تھا لیکن نوازشریف کی جماعت کی مخالف پارٹیوں پیپلزپارٹی، اے این پی اور ایم کیو ایم کیخلاف کارروائیاں جاری رکھنے کی بات کی تھی۔ طالبان نے جمہوریت کو غیر اسلامی بھی قرار دیا تھا اور انتخابی مہم کے دوران طالبان کی کارروائیوں کی وجہ سے ملک بھر میں کم ازکم ڈیڑھ سو افراد جاں بحق اور سیکڑوں زخمی ہوئے تھے، ان میں الیکشن کے روز ہونے والی ہلاکتیں بھی شامل ہیں۔