منی لانڈرنگ
روپیوں کے بدلے ڈالر خریدا جاتا ہے، ریئل اسٹیٹ لی جاتی ہے، جس کی قیمت کاغذوں میں کچھ اور حقیقت میں کچھ اور ہوتی ہے۔
منی لانڈرنگ بھی اپنے جوہر میں ایک ہنر ہے، منفی ہنر جس کے پیچھے منفی سوچ کام کر رہی ہوتی ہے کہ کیسے کالے دھن کو سفید کیا جاتا ہے۔ کس طرح قومی خزانے سے لوٹے ہوئے پیسے باہر بھیجے جاتے ہیں۔
روپیوں کے بدلے ڈالر خریدا جاتا ہے، ریئل اسٹیٹ لی جاتی ہے، جس کی قیمت کاغذوں میں کچھ اور حقیقت میں کچھ اور ہوتی ہے۔ یہ سب کالا دھن ہے جو اس ملک کی جڑوں میں بیٹھ گیا ہے۔ ایک ایسا دھن جو ٹیکس کے زمرے میں نہیں آتا۔ جو اگر قومی خزانے سے لوٹا جائے تو نظر بھی نہیں آتا۔ یہی ہے جو اس ملک کو دیمک کی طرح چاٹ رہا ہے۔
کبھی کبھی کچھ بزنس گروپ ایمپائر بن جاتے ہیں۔ جس طرح ایسٹ انڈیا کمپنی تھی۔ کچھ مثبت انداز میں ایمپائر بنتے ہیں، اپنی کی ہوئی تحقیق و ایجادات کے حوالے سے۔ ہمارا اومنی گروپ بھی گزشتہ دس برسوں سے سندھ میں راج کرتا آ رہا ہے۔ یہ گروپ بھٹو کی دی ہوئی شہادتوں کے صلے میں لوگوں کو ملا۔ اور آج بھی لوگوں کی محبت بھٹو کے ساتھ جاری و ساری ہے۔ لوگ بیوقوف نہیں، ان کے پاس اب بھی کوئی نعم البدل بھی نہیں۔ وہ بھٹوز سے نکلیں گے تو اومنی گروپ سے بھی نکلیں گے، مگر پھر کیا ہوگا، پھر کوئی جنرل مشرف ہوںگے، ان کے بینکر دوست شوکت عزیز وزیراعظم ہوں گے، جو خود بینکر تھے اور اکائونٹس کے مضمون اور اس کی ٹیکنیکس کو خوب جانتے تھے۔
سندھ حکومت کو این ایف سی ایوارڈ نے مالا مال کردیا مگروہ تمام فنڈز کہاں گئے؟ان دس سال میں تعلیم کی مد میں ہزار ارب سے زیادہ فنڈز ملے، صحت کی مد میں فنڈز ملے، مگر کہاں گئے؟ ان پیسوں کا کثیر حصہ کالے دھن میں تبدیل کیا گیا۔ کرپشن کی بنیادی وکٹ کمیشن ہے۔ پروجیکٹ نکالو، ٹھیکیدار اشتہار کے ذریعے بلائو اور اس سے کمیشن حاصل کرو۔ آج کل افسر شاہی یہی کرتے ہیں، اور ان افسر شاہی کے تبادلے اور پروموشن سیاستدان کرتے ہیں۔ اور ان کے بیچ رہتی ہے جمہوریت اور آمریت۔ آمریت کا دور ہو تو ان کے سیاستدان اور افسر شاہی ہوتے ہیں اور اگر جمہوریت کا دور ہو تو ان کے بھی لاڈلے اور نور نظر ہوتے ہیں۔
یہ تو بھلا ہو جسٹس ریٹائرڈ مسلم ہانی کا ، جس نے سندھ کے افسر شاہی کو بربادی سے اس وقت بچایا جب قائم علی شاہ کے دور حکومت میں سندھ سروسز رولز میں ایسی ترامیم کی گئیں جس میں افسراں کے لیے صرف ایک ہی راستہ تھا یا تو وہ وزیر صاحبان کی اطاعت کریں یا پھر جو افسر اس ڈگر پر نہیں جاتا اس کا نہ تبادلہ اور نہ ہی پروموشن۔ اس طرح افسران بیمار ہوجاتے ہیں۔ ٹینشن ان کے نصیب میں آجاتی ہے، وہ شوگر کے مریض بن جاتے ہیں۔ دل کے امراض ان کو لگ جاتے ہیں۔
ان افسران میں وہ ٹولا بھی ہے جو چمچہ گیری کرنا خوب جانتا ہے۔ ان کو اپنے وزرا اور بڑے صاحبوں کو خوش رکھنا خوب آتا ہے اور اپنی تعیناتی یہ افسران ایسی جگہ کروا لیتے ہیں جہاں مال ہی مال ہو۔ یہ لوگ ایسے مال کو ''سائیڈ کمائی'' کہتے ہیں۔ یہ سب قومی خزانے پر ٹوٹتے ہیں۔ یہ قومی خزانہ جس کا کثیر حصہ ان ڈائریکٹ ٹیکسز سے آتا ہے۔ وہ ٹیکسز جو غریبوں سے چیزیں مہنگی کرکے وصول کیا جاتا ہے، جب کہ اس ملک میں ڈائریکٹ ٹیکس بہت کم وصول کیے جاتے ہیں، کیوں کہ قومی خزانے کا سب سے کم حصہ income tax کے ذریعے آتا ہے۔
جتنا بڑا پروجیکٹ اس کا پانچ فیصد کمیشن فکس ہوتا ہے مگر بنتے اربوں روپے ہیں۔ سندھ میں اس کا الزام اومنی گروپ پر ہے کہ یہ کام اومنی گروپ کرتا ہے۔ یعنی ٹھیکیداروں سے لین دین کا کام اور پھر پوری chain پکڑی گئی، ان کے اکائونٹس اور بینک جس کے ذریعے یہ کالا دھن ڈالر کی صورت میں باہر بھیجا جاتا ہے، یعنی رشوت روپیوں کی صورت میں لی جاتی ہے اور اس کو ڈالر میں تبدیل کرکے باہر بھیجا جاتا ہے۔ ڈالرز کو بینک لاکرز میں سیف کرکے رکھا جاتا ہے تاکہ پاکستان کی مہنگائی کے اثرات اس سیف ڈالر پر نہ پڑ سکیں۔
یہ تو بیچارے سول چور ہیں لیکن اس ملک میں ڈکٹیٹرز اور بہت ساری بڑی قوتوں کے احتساب نہیں ہوپاتے۔ یہ بات ٹھیک تو ہے مگر اس کا مطلب یہ بھی نہیں پھر احتساب کسی کا نہ ہو۔ یہ احتساب عمل کی ابتدا ہے اور اس کو جاری رہنا چاہیے بلکہ اور بہتر طریقے سے جاری رہنا چاہیے۔ یہاں حالات یہ ہیں کہ خودادارے تحقیقات میں گڑبڑ کرتے ہیں، بڑے بڑے شواہدات مٹا دیتے ہیں۔ اب ایسا لگتا ہے کہ اومنی گروپ کے خلاف کوئی ٹھوس شواہد ملے ہیں جس کی اس سے پہلے کبھی روایت نہیں رہی۔
اومنی گروپ آف کمپنیز کے بہت سے خدوخال ایسٹ انڈیا کمپنی سے ملتے جلتے ہیں۔ وہ ہندوستان کا مال لوٹتے تھے اور اومنی گروپ جو سندھ این ایف سے کماتی تھی، وہ لوٹتے ہیں۔ اور اومنی گروپ جیسے کئی ٹھیکے شہباز شریف کے پاس پنجاب میں بھی ہوں گے۔ کیوں کے پی کے میں کچھ نہیں ہورہا یا بلوچستان میں تمام لوگ اور ادارے صادق اور امین ہونے کی راہ پر ہیں؟
ان تمام حالات میں ڈالر کی ویلیو ہمارے لیے بڑھ جاتی ہے اور خاص کر آج کل جب ہمارے تعلقات امریکا سے بہتر نہیں۔ جن ممالک کے تعلقات امریکا سے بہتر نہیں آج کل ان کے لیے ٹرمپ کا ایک ٹوئٹ ہی کافی ہے۔ صرف ایک ٹوئٹ ترکی اور ایران کی کرنسی کو لے ڈوبتا ہے۔ وہ امریکا جو آئی ایم ایف پر ویٹو پاورز رکھتا ہے۔ اگر امریکا کی آشیرواد نہیں ہوگی تو ہمیں آئی ایم ایف قرضہ بھی نہیں ملے گا۔
یہ ہماری جمہوریت اور اومنی گروپ آف کمپنیز۔ ایسے کئی گروپ آف کمپنیز ہیں جو ڈنڈے کے زور پر ٹھیکے لیتے ہیں اور ٹیکس سے مستثنیٰ ہیں، جب کہ ان سے مقابلے میں ٹینڈر بھرے جاتے ہیں، وہ ٹیکس مستثنیٰ نہیں۔ جب کہ ہمارے آئین کا آرٹیکل اٹھارہ اور پچیس تمام بزنس کرنے والوں کو ایک جیسے رائٹس دیتا ہے۔
اب ہمارے سدھرنے کے دن ہیں ورنہ گورباچوف اور اس کا اصلاحاتی پروگرام perestroika اور glasnost بڑے انقلابی تھے، لیکن سوویت یونین کی افسر شاہی نے بالآخرسویت یونین پر قبضہ جمایا، نہ رہا گورباچوف کا perestroika نہ رہی glasnost۔
اس دفعہ سندھ میں پیپلز پارٹی بمع اومنی گروپ اگر پندرہ سال رہے گی تو اتنی مدت حکومت کی تو بادشاہوں کو بھی نہیں ملتی۔ اور اوپر سے ہمارے افسر شاہی۔ اور اگر سندھ میں امیر مسلم ہانی یا واٹر کمیشن نہ رہا تو پھر اﷲ ہی مالک ہے۔
جب جمہوریت کے رکھوالے ڈاکو ہوں گے تو دوسروں کو کیوں ہم قصور وار ٹھہرائیں۔ وہ کیوں ہمیں معاف کریں گے، جب اپنوں نے ایسٹ انڈیا کمپنی کی طرح ہماری جمہوریت کو لوٹا، جنھوں نے ان کو ووٹ دیا انھیں پینے کا صاف پانی میسر نہیں۔ اومنی گروپ کے ذریعے ٹھیکوں کے بٹواروں سے محروم کیا گیا۔ پھر راستے بنانے کے ٹھیکوں میں ملاوٹ۔ لوگوں کو ہیپاٹائٹس بی اور سی، malnutrition سندھ میں تحفے کے طور پر دی گئیں۔ یہ سندھی کون تھے؟
ایسا حشر تو شہباز شریف نے پنجاب کا بھی نہیں کیا۔ میں نے ایک ٹھیکیدار سے پوچھا کہ ایسا خستہ کام کیوں کررہے ہو تو کہنے لگا کہ آج کل کمیشن کا ریٹ بہت بڑھ گیا ہے۔ اور وزارت خزانہ سے بھی سندھ میں بھی بل پاس کروانے کے لیے کمیشن کا ریٹ چوٹی پر ہے۔
یہ سرطان ہماری جمہوریت کو چمٹ چکا ہے اور ڈر اس بات کا ہے کہ اس کی آڑ میں جمہوریت کے خلاف کوئی سازش نہ ہورہی ہو۔ جوکہ سرطان سے بھی بڑا ایک سرطان ہے۔
آج جب اومنی گروپ کی داستان چھڑی ہے تو ہم بھی اس کے جڑوں میں چلے گئے اور ہمیں بھی اس کے تمام بچھڑے باب یاد آگئے۔ طرح طرح کے سوال تھے اور ان سوالوں کے جوابات کی تلاش تھی، وہ راہ گزر جس کی کوئی بھی منزل نہ تھی۔ اس ملک کو صرف سچے لوگوں کی ضرورت نہیں، بلکہ سمجھدار سچے لوگوں کی ضرورت ہے، جو ایک وژن رکھتے ہوں۔
اس گھسے پٹے انداز میں یہ ملک نہیں چل سکتا۔ ہمارے ملک کا بنیادی مسئلہ اس مافیا کا ہے جو جمہوری قوتوں کا لبادہ اوڑھ کر ہمیں دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے۔ اس لیے ہمیں ایک مضبوط جمہوریت کی ضرورت ہے اور سچ بولنے کے لیے آزاد صحافت کی۔
روپیوں کے بدلے ڈالر خریدا جاتا ہے، ریئل اسٹیٹ لی جاتی ہے، جس کی قیمت کاغذوں میں کچھ اور حقیقت میں کچھ اور ہوتی ہے۔ یہ سب کالا دھن ہے جو اس ملک کی جڑوں میں بیٹھ گیا ہے۔ ایک ایسا دھن جو ٹیکس کے زمرے میں نہیں آتا۔ جو اگر قومی خزانے سے لوٹا جائے تو نظر بھی نہیں آتا۔ یہی ہے جو اس ملک کو دیمک کی طرح چاٹ رہا ہے۔
کبھی کبھی کچھ بزنس گروپ ایمپائر بن جاتے ہیں۔ جس طرح ایسٹ انڈیا کمپنی تھی۔ کچھ مثبت انداز میں ایمپائر بنتے ہیں، اپنی کی ہوئی تحقیق و ایجادات کے حوالے سے۔ ہمارا اومنی گروپ بھی گزشتہ دس برسوں سے سندھ میں راج کرتا آ رہا ہے۔ یہ گروپ بھٹو کی دی ہوئی شہادتوں کے صلے میں لوگوں کو ملا۔ اور آج بھی لوگوں کی محبت بھٹو کے ساتھ جاری و ساری ہے۔ لوگ بیوقوف نہیں، ان کے پاس اب بھی کوئی نعم البدل بھی نہیں۔ وہ بھٹوز سے نکلیں گے تو اومنی گروپ سے بھی نکلیں گے، مگر پھر کیا ہوگا، پھر کوئی جنرل مشرف ہوںگے، ان کے بینکر دوست شوکت عزیز وزیراعظم ہوں گے، جو خود بینکر تھے اور اکائونٹس کے مضمون اور اس کی ٹیکنیکس کو خوب جانتے تھے۔
سندھ حکومت کو این ایف سی ایوارڈ نے مالا مال کردیا مگروہ تمام فنڈز کہاں گئے؟ان دس سال میں تعلیم کی مد میں ہزار ارب سے زیادہ فنڈز ملے، صحت کی مد میں فنڈز ملے، مگر کہاں گئے؟ ان پیسوں کا کثیر حصہ کالے دھن میں تبدیل کیا گیا۔ کرپشن کی بنیادی وکٹ کمیشن ہے۔ پروجیکٹ نکالو، ٹھیکیدار اشتہار کے ذریعے بلائو اور اس سے کمیشن حاصل کرو۔ آج کل افسر شاہی یہی کرتے ہیں، اور ان افسر شاہی کے تبادلے اور پروموشن سیاستدان کرتے ہیں۔ اور ان کے بیچ رہتی ہے جمہوریت اور آمریت۔ آمریت کا دور ہو تو ان کے سیاستدان اور افسر شاہی ہوتے ہیں اور اگر جمہوریت کا دور ہو تو ان کے بھی لاڈلے اور نور نظر ہوتے ہیں۔
یہ تو بھلا ہو جسٹس ریٹائرڈ مسلم ہانی کا ، جس نے سندھ کے افسر شاہی کو بربادی سے اس وقت بچایا جب قائم علی شاہ کے دور حکومت میں سندھ سروسز رولز میں ایسی ترامیم کی گئیں جس میں افسراں کے لیے صرف ایک ہی راستہ تھا یا تو وہ وزیر صاحبان کی اطاعت کریں یا پھر جو افسر اس ڈگر پر نہیں جاتا اس کا نہ تبادلہ اور نہ ہی پروموشن۔ اس طرح افسران بیمار ہوجاتے ہیں۔ ٹینشن ان کے نصیب میں آجاتی ہے، وہ شوگر کے مریض بن جاتے ہیں۔ دل کے امراض ان کو لگ جاتے ہیں۔
ان افسران میں وہ ٹولا بھی ہے جو چمچہ گیری کرنا خوب جانتا ہے۔ ان کو اپنے وزرا اور بڑے صاحبوں کو خوش رکھنا خوب آتا ہے اور اپنی تعیناتی یہ افسران ایسی جگہ کروا لیتے ہیں جہاں مال ہی مال ہو۔ یہ لوگ ایسے مال کو ''سائیڈ کمائی'' کہتے ہیں۔ یہ سب قومی خزانے پر ٹوٹتے ہیں۔ یہ قومی خزانہ جس کا کثیر حصہ ان ڈائریکٹ ٹیکسز سے آتا ہے۔ وہ ٹیکسز جو غریبوں سے چیزیں مہنگی کرکے وصول کیا جاتا ہے، جب کہ اس ملک میں ڈائریکٹ ٹیکس بہت کم وصول کیے جاتے ہیں، کیوں کہ قومی خزانے کا سب سے کم حصہ income tax کے ذریعے آتا ہے۔
جتنا بڑا پروجیکٹ اس کا پانچ فیصد کمیشن فکس ہوتا ہے مگر بنتے اربوں روپے ہیں۔ سندھ میں اس کا الزام اومنی گروپ پر ہے کہ یہ کام اومنی گروپ کرتا ہے۔ یعنی ٹھیکیداروں سے لین دین کا کام اور پھر پوری chain پکڑی گئی، ان کے اکائونٹس اور بینک جس کے ذریعے یہ کالا دھن ڈالر کی صورت میں باہر بھیجا جاتا ہے، یعنی رشوت روپیوں کی صورت میں لی جاتی ہے اور اس کو ڈالر میں تبدیل کرکے باہر بھیجا جاتا ہے۔ ڈالرز کو بینک لاکرز میں سیف کرکے رکھا جاتا ہے تاکہ پاکستان کی مہنگائی کے اثرات اس سیف ڈالر پر نہ پڑ سکیں۔
یہ تو بیچارے سول چور ہیں لیکن اس ملک میں ڈکٹیٹرز اور بہت ساری بڑی قوتوں کے احتساب نہیں ہوپاتے۔ یہ بات ٹھیک تو ہے مگر اس کا مطلب یہ بھی نہیں پھر احتساب کسی کا نہ ہو۔ یہ احتساب عمل کی ابتدا ہے اور اس کو جاری رہنا چاہیے بلکہ اور بہتر طریقے سے جاری رہنا چاہیے۔ یہاں حالات یہ ہیں کہ خودادارے تحقیقات میں گڑبڑ کرتے ہیں، بڑے بڑے شواہدات مٹا دیتے ہیں۔ اب ایسا لگتا ہے کہ اومنی گروپ کے خلاف کوئی ٹھوس شواہد ملے ہیں جس کی اس سے پہلے کبھی روایت نہیں رہی۔
اومنی گروپ آف کمپنیز کے بہت سے خدوخال ایسٹ انڈیا کمپنی سے ملتے جلتے ہیں۔ وہ ہندوستان کا مال لوٹتے تھے اور اومنی گروپ جو سندھ این ایف سے کماتی تھی، وہ لوٹتے ہیں۔ اور اومنی گروپ جیسے کئی ٹھیکے شہباز شریف کے پاس پنجاب میں بھی ہوں گے۔ کیوں کے پی کے میں کچھ نہیں ہورہا یا بلوچستان میں تمام لوگ اور ادارے صادق اور امین ہونے کی راہ پر ہیں؟
ان تمام حالات میں ڈالر کی ویلیو ہمارے لیے بڑھ جاتی ہے اور خاص کر آج کل جب ہمارے تعلقات امریکا سے بہتر نہیں۔ جن ممالک کے تعلقات امریکا سے بہتر نہیں آج کل ان کے لیے ٹرمپ کا ایک ٹوئٹ ہی کافی ہے۔ صرف ایک ٹوئٹ ترکی اور ایران کی کرنسی کو لے ڈوبتا ہے۔ وہ امریکا جو آئی ایم ایف پر ویٹو پاورز رکھتا ہے۔ اگر امریکا کی آشیرواد نہیں ہوگی تو ہمیں آئی ایم ایف قرضہ بھی نہیں ملے گا۔
یہ ہماری جمہوریت اور اومنی گروپ آف کمپنیز۔ ایسے کئی گروپ آف کمپنیز ہیں جو ڈنڈے کے زور پر ٹھیکے لیتے ہیں اور ٹیکس سے مستثنیٰ ہیں، جب کہ ان سے مقابلے میں ٹینڈر بھرے جاتے ہیں، وہ ٹیکس مستثنیٰ نہیں۔ جب کہ ہمارے آئین کا آرٹیکل اٹھارہ اور پچیس تمام بزنس کرنے والوں کو ایک جیسے رائٹس دیتا ہے۔
اب ہمارے سدھرنے کے دن ہیں ورنہ گورباچوف اور اس کا اصلاحاتی پروگرام perestroika اور glasnost بڑے انقلابی تھے، لیکن سوویت یونین کی افسر شاہی نے بالآخرسویت یونین پر قبضہ جمایا، نہ رہا گورباچوف کا perestroika نہ رہی glasnost۔
اس دفعہ سندھ میں پیپلز پارٹی بمع اومنی گروپ اگر پندرہ سال رہے گی تو اتنی مدت حکومت کی تو بادشاہوں کو بھی نہیں ملتی۔ اور اوپر سے ہمارے افسر شاہی۔ اور اگر سندھ میں امیر مسلم ہانی یا واٹر کمیشن نہ رہا تو پھر اﷲ ہی مالک ہے۔
جب جمہوریت کے رکھوالے ڈاکو ہوں گے تو دوسروں کو کیوں ہم قصور وار ٹھہرائیں۔ وہ کیوں ہمیں معاف کریں گے، جب اپنوں نے ایسٹ انڈیا کمپنی کی طرح ہماری جمہوریت کو لوٹا، جنھوں نے ان کو ووٹ دیا انھیں پینے کا صاف پانی میسر نہیں۔ اومنی گروپ کے ذریعے ٹھیکوں کے بٹواروں سے محروم کیا گیا۔ پھر راستے بنانے کے ٹھیکوں میں ملاوٹ۔ لوگوں کو ہیپاٹائٹس بی اور سی، malnutrition سندھ میں تحفے کے طور پر دی گئیں۔ یہ سندھی کون تھے؟
ایسا حشر تو شہباز شریف نے پنجاب کا بھی نہیں کیا۔ میں نے ایک ٹھیکیدار سے پوچھا کہ ایسا خستہ کام کیوں کررہے ہو تو کہنے لگا کہ آج کل کمیشن کا ریٹ بہت بڑھ گیا ہے۔ اور وزارت خزانہ سے بھی سندھ میں بھی بل پاس کروانے کے لیے کمیشن کا ریٹ چوٹی پر ہے۔
یہ سرطان ہماری جمہوریت کو چمٹ چکا ہے اور ڈر اس بات کا ہے کہ اس کی آڑ میں جمہوریت کے خلاف کوئی سازش نہ ہورہی ہو۔ جوکہ سرطان سے بھی بڑا ایک سرطان ہے۔
آج جب اومنی گروپ کی داستان چھڑی ہے تو ہم بھی اس کے جڑوں میں چلے گئے اور ہمیں بھی اس کے تمام بچھڑے باب یاد آگئے۔ طرح طرح کے سوال تھے اور ان سوالوں کے جوابات کی تلاش تھی، وہ راہ گزر جس کی کوئی بھی منزل نہ تھی۔ اس ملک کو صرف سچے لوگوں کی ضرورت نہیں، بلکہ سمجھدار سچے لوگوں کی ضرورت ہے، جو ایک وژن رکھتے ہوں۔
اس گھسے پٹے انداز میں یہ ملک نہیں چل سکتا۔ ہمارے ملک کا بنیادی مسئلہ اس مافیا کا ہے جو جمہوری قوتوں کا لبادہ اوڑھ کر ہمیں دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے۔ اس لیے ہمیں ایک مضبوط جمہوریت کی ضرورت ہے اور سچ بولنے کے لیے آزاد صحافت کی۔