جنرل قمر جاوید باجوہ کا نوجوت سنگھ سدھو سے معانقہ و مکالمہ
وزیر اعظم جناب عمران خان کی تقریبِ حلفِ وفاداری میں نوجوت سنگھ سِدھو کو بڑا احترام و اکرام دیا گیا۔
نَو منتخب وزیر اعظم جناب عمران خان نے وزیر اعظم کی تقریبِ حلفِ وفاداری میں بھارت کے تین سابق کرکٹروں کو مدعو کیا تھا: نوجوت سنگھ سدھو، کپل دیو اور سنیل گواسکر۔ تینوں ہی عالمی شہرت یافتہ کرکٹر رہے ہیں۔ ورلڈ کپ وِنر عمران خان کے ہم عصر۔ بھارت میں اِن تینوں کی بہت عزت ہے۔ ہمارے لیے بھی یہ معزز اور محترم ہیں۔
پاکستان اور پاکستانیوں نے تو ہمیشہ دل کو مَیل اور کرودھ سے پاک رکھتے ہُوئے بھارتی کھلاڑیوں اور فنکاروں سے محبت کی ہے۔ بنیادی مقصد امن کا فروغ ہے۔ جناب عمران خان نے دونوں ملکوں کے درمیان امن و آشتی کے دروازے کھولنے ہی کی نیت سے تینوں مذکورہ بھارتی کھلاڑیوں کو اپنی تقریبِ حلف ِ وفاداری میں شرکت کے لیے پاکستان آنے کی دعوت دی تھی۔ سنیل گواسکر اور کپل دیو صاحبان بوجوہ نہیں آئے۔ اُن کی مرضی۔ مشرقی پنجاب کے جَٹ نوجوت سنگھ سِدھو ضرور تشریف لائے۔ اُن کا شکریہ۔
سِدھو صاحب کی شخصیت کے کئی رُخ ہیں: سابق کرکٹر، اداکار، شاعر، ٹی وی سلیبرٹی، سیاستدان۔ وہ مشرقی پنجاب میں جاری موجودہ کانگرس حکومت، جس کے وزیر اعلیٰ ایک جاٹ سِکھ ہیں، صوبائی وزیر بھی ہیں۔ یوں دیکھا جائے تو اِن ذمے داریوں کے بوجھ تلے اُن کا پاکستان تشریف لانا ایک غیر معمولی فیصلہ تھا۔ سِدھو صاحب انتہائی خوش مزاج اور خوشگوار شخصیت ہیں۔ جہاں براجمان ہوں، اُن کے قہقہے، لطائف اور اشعار گونجتے رہتے ہیں۔ بھارت کے معروف ٹی وی شو (کپل شرما شو) میں اُن کی شخصیت نے عجب رنگ باندھے رکھا ۔
17اگست 2018ء کوواہگہ بارڈر کراس کرکے نوجوت سنگھ سِدھو نے پاکستان کی پاک سرزمین پر قدم رکھا تو پاکستانی میڈیا اور پاکستان نے اُنہیں زبردست پذیرائی بخشی۔ پاکستانی ٹی وی کیمروں کے سامنے اُن کی مسکراتی شخصیت دلکش تاثر قائم کرتی رہی۔ اُنہوں نے کہا: ''مَیں یہاں سیاست کرنے نہیں، امن کا پیغام لے کر آیا ہُوں، اسلیے مجھ سے کوئی سیاسی سوال نہ پوچھا جائے۔''
اُنہوں نے وزیر اعظم عمران خان کے لیے اپنی محبتوں کا ذکر اپنی لکھی گئی ایک پنجابی نظم میں کیا :''ہندوستان جیوے، پاکستان جیوے/ میرا یار عمران خان دلدار جیوے۔'' اِس نظم کے دیگر اشعار میں دونوں ممالک کے درمیان امن کے چلن کی تمناؤں کا بھی اظہار کیا گیا ہے۔ سِدھو صاحب نے جس کھلے ڈُلے اسلوب میں ، مسکراتے ہُوئے، لاہور اور اسلام آباد میں اشعار کی زبان میں اپنے جذبات و خیالات کا اظہار کیا ہے، یہ اُن کی خوشگوار شخصیت ہی کا پَر تَو ہے۔
اسلام آباد کے ایوانِ صدر میں برپا نَو منتخب وزیر اعظم جناب عمران خان کی تقریبِ حلفِ وفاداری میں نوجوت سنگھ سِدھو کو بڑا احترام و اکرام دیا گیا۔ اُنہیں اگلی سیٹوں پر بٹھایا گیا۔اُنکے ساتھ آزاد کشمیر کے صدر جناب مسعود خان تشریف فرما تھے۔ اُنہیںہر شخص سے ملنے کی بھرپور آزادی تھی۔واقعی معنوں میں اُنہیں خاص الخاص مہمان کا درجہ اور اِسی نسبت سے پروٹوکول دیا گیا۔
عمران خان صاحب کی تقریبِ حلف برداری میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ صاحب تشریف لائے تو وہ بھی نوجوت سنگھ سِدھو سے پُرتپاک انداز میں ملے۔ مصافحہ بھی کیا اور معانقہ بھی۔ دونوں کے درمیان کچھ دیر مکالمہ بھی ہُوا۔ یہ مکالمہ پنجابی زبان میں تھا کہ جنرل باجوہ بھی پنجابی ہیں اور سدھو بھی۔ جتنی دیر جنرل قمر جاوید باجوہ بھارتی معزز مہمان، نوجوت سنگھ سِدھو، سے مکالمہ کرتے رہے، پاکستان بھر کی ٹی وی اسکرینیں اِس منظر کو فلماتے ہُوئے دُنیا بھر کے ناظرین تک پہنچاتی رہیں۔
بھارتی میڈیا پر بھی معانقے اور مکالمے کا یہ منظر چھایا رہا۔ سِدھو صاحب کا کہنا اور ماننا ہے کہ اُنہیں جنرل باجوہ کی طرف سے جو محبت واحترام ملا ہے، غیر معمولی اور غیر متوقع تھا۔ یہ بھی کہا کہ جنرل قمرجاوید باجوہ نے جس محبت اور اپنائیت کے ساتھ مجھ سے بات چیت کی، میرے دل کو بہت اچھا لگا۔ جنرل صاحب نے سِدھو صاحب سے بجا کہا ہے کہ ''ہم امن چاہتے ہیں۔ امن پسند وں ہی کو منزلیں ملتی ہیں۔''
واقعہ یہ ہے کہ جنرل قمرجاوید باجوہ صرف سِدھو صاحب سے مکالمہ نہیں کررہے تھے بلکہ اِس بہانے اُن کا مخاطب سارا بھارت تھا۔ یقینا اُن کا امن بھرا پیغام بھارت تک پہنچ چکا ہوگا۔ ساری دُنیا نے بھی جنرل صاحب کے یہ الفاظ سُنے اور اپنے میڈیا میں نمایاں جگہ دی ہے۔
عمران خان نے سدھو صاحب کے توسط سے سفارتکاری کاایک چھکا مارا ہے۔ نوجوت سنگھ سِدھو کی خواہشوں اور تمناؤں کا بھی بھرپور خیال رکھا گیا ہے۔ مثال کے طور پر جب جنرل باجوہ صاحب سے اُن کا مکالمہ ہُوا تو اُنہوں نے کہا: ''اگلے سال بابا گرو نانک جی کا 550 واں جنم دن منایا جارہا ہے۔ میری خواہش ہے کہ بھارتی پنجاب کے وزیر اعلیٰ کی قیادت میں ایک چھوٹا سا وفد لے کر پاکستان آؤں'' تو جنرل قمر جاوید باجوہ نے کشادہ دل اور کھلے سینے کے ساتھ کہا: ''جتنے لوگ آنا چاہیں، آ جائیں اور اِن تقریبات میں شرکت فرمائیں۔''
سِدھو جی کا بھی دل خوش ہُوا ہے اور اُن کے ساتھ بھارت اور دُنیا بھر میں بسنے والے تمام سِکھوں کا بھی۔ جنرل صاحب نے واقعی معنوں میں سِدھو صاحب کے توسط سے دُنیا بھر کی سِکھ کمیونٹی کے دل موہ لیے ہیں۔ افسوس تو یہ ہے کہ بھارت کی طرف سے پاکستان اور پاکستانیوں کو یہ جذبات نہیں ملتے۔
پاکستانی جب بھی بھارت میں موجود مسلمان صوفیائے کرام کی درگاہوں پر حاضری دینے اور اُن کے عرس کی سالانہ تقریبات میں شریک ہونا چاہتے ہیں، بھارت ویزے دینے سے یا تو صاف انکار کر دیتا ہے یا ویزے دینے میں دانستہ اتنی تاخیر کر دیتا ہے کہ مطلوبہ تقریبات میں شرکت کا وقت ہے گزر جاتا ہے۔ ضرورتمند پاکستانی مریضوں کے میڈیکل ویزوں پر بھی بھارت نے قدغنیں لگا رکھی ہیں۔ نریندر مودی کی حکومت میں پچھلے چار برسوں کے دوران ، اِس ضمن میں، زیادہ بیہودگیاں اور بدتمیزیاں کی گئی ہیں۔
اِن زمینی حقائق کو پیشِ نگاہ رکھا جائے تو بھارتی رویوں پر افسوس ہو تا ہے۔ اِن کے باوجود مگر پاکستان اور پاکستانیوں نے نوجوت سنگھ سِدھو سے غیر معمولی اچھا سلوک کیا ہے۔ اِسی وجہ سے تو سِدھو صاحب بھی پکار اُٹھے ہیں: ''بھارت سے جتنی محبت لایا تھا، اُس سے 100گُنا زیادہ محبتیں پاکستان سے ملی ہیں۔''
افسوس کی بات مگر یہ ہے کہ سِدھو صاحب کے پاکستان آنے پر بھارتی میڈیا نے نہایت منفی اور دل شکن باتیں کہی اور لکھی ہیں۔ بی جے پی کے کارکنوں نے سِدھو صاحب کے پُتلے بھی جلائے ہیں۔ اور کچھ نہیں ملا تو بھارتی میڈیا میں یہ گند اچھال دیا گیا کہ نوجوت سنگھ سِدھو کو (ایوانِ صدر میں) آزاد کشمیر کے صدر کے پہلو میں کیوں بٹھایا گیا؟
پاکستان کے خلاف بھارتی اسٹیبلشمنٹ اور انڈین میڈیا کے دلوں میں اسقدر خُبث اور بُغض بھرا ہے کہ پاکستان جتنا بھی بھارت کے حق میں نرمی کا مظاہرہ کرلے، بھارتیوں نے کوئی نہ کوئی نقص نکالنا ہی ہے۔ کیا یہ حیرت اور افسوس کی بات نہیں ہے کہ جس وقت پاکستان، نَومنتخب وزیر اعظم عمران خان کی حکومت اور جنرل قمر جاوید باجوہ کی طرف سے سِدھو صاحب پر محبت و تعاون کے پھول برسائے جا رہے تھے، عین اُسی وقت بھارتی بارڈر سیکیورٹی فورسز ایل او سی کی خلاف ورزی کرتے ہُوئے پاکستانیوں پر گولے برسا رہی تھیں؟
اس گولہ باری کا جواب اگرچہ فوری طور پر ہماری جری افواج نے بھی دیا ہے اور بھارتی ہائی کمشنر کو بھی پاکستانی وزارتِ خارجہ میں طلب کرکے احتجاج ریکارڈ کرادیا گیا ہے، لیکن بھارتی گولوں سے ہمارے جو شہری تازہ تازہ مجروح ہُوئے ہیں، اِن کا نقصان مودی بھی کبھی پورا نہیں کر سکیں گے۔ اِن زیادتیوں اور مظالم کے باوجود ہم اُمید یہی کرتے ہیں کہ نوجوت سنگھ سِدھو بھارت واپسی پر دونوں ملکوں کے درمیان امن کے پھیلاؤ کی کوششیں کرتے رہیں گے۔
پاکستان اور پاکستانیوں نے تو ہمیشہ دل کو مَیل اور کرودھ سے پاک رکھتے ہُوئے بھارتی کھلاڑیوں اور فنکاروں سے محبت کی ہے۔ بنیادی مقصد امن کا فروغ ہے۔ جناب عمران خان نے دونوں ملکوں کے درمیان امن و آشتی کے دروازے کھولنے ہی کی نیت سے تینوں مذکورہ بھارتی کھلاڑیوں کو اپنی تقریبِ حلف ِ وفاداری میں شرکت کے لیے پاکستان آنے کی دعوت دی تھی۔ سنیل گواسکر اور کپل دیو صاحبان بوجوہ نہیں آئے۔ اُن کی مرضی۔ مشرقی پنجاب کے جَٹ نوجوت سنگھ سِدھو ضرور تشریف لائے۔ اُن کا شکریہ۔
سِدھو صاحب کی شخصیت کے کئی رُخ ہیں: سابق کرکٹر، اداکار، شاعر، ٹی وی سلیبرٹی، سیاستدان۔ وہ مشرقی پنجاب میں جاری موجودہ کانگرس حکومت، جس کے وزیر اعلیٰ ایک جاٹ سِکھ ہیں، صوبائی وزیر بھی ہیں۔ یوں دیکھا جائے تو اِن ذمے داریوں کے بوجھ تلے اُن کا پاکستان تشریف لانا ایک غیر معمولی فیصلہ تھا۔ سِدھو صاحب انتہائی خوش مزاج اور خوشگوار شخصیت ہیں۔ جہاں براجمان ہوں، اُن کے قہقہے، لطائف اور اشعار گونجتے رہتے ہیں۔ بھارت کے معروف ٹی وی شو (کپل شرما شو) میں اُن کی شخصیت نے عجب رنگ باندھے رکھا ۔
17اگست 2018ء کوواہگہ بارڈر کراس کرکے نوجوت سنگھ سِدھو نے پاکستان کی پاک سرزمین پر قدم رکھا تو پاکستانی میڈیا اور پاکستان نے اُنہیں زبردست پذیرائی بخشی۔ پاکستانی ٹی وی کیمروں کے سامنے اُن کی مسکراتی شخصیت دلکش تاثر قائم کرتی رہی۔ اُنہوں نے کہا: ''مَیں یہاں سیاست کرنے نہیں، امن کا پیغام لے کر آیا ہُوں، اسلیے مجھ سے کوئی سیاسی سوال نہ پوچھا جائے۔''
اُنہوں نے وزیر اعظم عمران خان کے لیے اپنی محبتوں کا ذکر اپنی لکھی گئی ایک پنجابی نظم میں کیا :''ہندوستان جیوے، پاکستان جیوے/ میرا یار عمران خان دلدار جیوے۔'' اِس نظم کے دیگر اشعار میں دونوں ممالک کے درمیان امن کے چلن کی تمناؤں کا بھی اظہار کیا گیا ہے۔ سِدھو صاحب نے جس کھلے ڈُلے اسلوب میں ، مسکراتے ہُوئے، لاہور اور اسلام آباد میں اشعار کی زبان میں اپنے جذبات و خیالات کا اظہار کیا ہے، یہ اُن کی خوشگوار شخصیت ہی کا پَر تَو ہے۔
اسلام آباد کے ایوانِ صدر میں برپا نَو منتخب وزیر اعظم جناب عمران خان کی تقریبِ حلفِ وفاداری میں نوجوت سنگھ سِدھو کو بڑا احترام و اکرام دیا گیا۔ اُنہیں اگلی سیٹوں پر بٹھایا گیا۔اُنکے ساتھ آزاد کشمیر کے صدر جناب مسعود خان تشریف فرما تھے۔ اُنہیںہر شخص سے ملنے کی بھرپور آزادی تھی۔واقعی معنوں میں اُنہیں خاص الخاص مہمان کا درجہ اور اِسی نسبت سے پروٹوکول دیا گیا۔
عمران خان صاحب کی تقریبِ حلف برداری میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ صاحب تشریف لائے تو وہ بھی نوجوت سنگھ سِدھو سے پُرتپاک انداز میں ملے۔ مصافحہ بھی کیا اور معانقہ بھی۔ دونوں کے درمیان کچھ دیر مکالمہ بھی ہُوا۔ یہ مکالمہ پنجابی زبان میں تھا کہ جنرل باجوہ بھی پنجابی ہیں اور سدھو بھی۔ جتنی دیر جنرل قمر جاوید باجوہ بھارتی معزز مہمان، نوجوت سنگھ سِدھو، سے مکالمہ کرتے رہے، پاکستان بھر کی ٹی وی اسکرینیں اِس منظر کو فلماتے ہُوئے دُنیا بھر کے ناظرین تک پہنچاتی رہیں۔
بھارتی میڈیا پر بھی معانقے اور مکالمے کا یہ منظر چھایا رہا۔ سِدھو صاحب کا کہنا اور ماننا ہے کہ اُنہیں جنرل باجوہ کی طرف سے جو محبت واحترام ملا ہے، غیر معمولی اور غیر متوقع تھا۔ یہ بھی کہا کہ جنرل قمرجاوید باجوہ نے جس محبت اور اپنائیت کے ساتھ مجھ سے بات چیت کی، میرے دل کو بہت اچھا لگا۔ جنرل صاحب نے سِدھو صاحب سے بجا کہا ہے کہ ''ہم امن چاہتے ہیں۔ امن پسند وں ہی کو منزلیں ملتی ہیں۔''
واقعہ یہ ہے کہ جنرل قمرجاوید باجوہ صرف سِدھو صاحب سے مکالمہ نہیں کررہے تھے بلکہ اِس بہانے اُن کا مخاطب سارا بھارت تھا۔ یقینا اُن کا امن بھرا پیغام بھارت تک پہنچ چکا ہوگا۔ ساری دُنیا نے بھی جنرل صاحب کے یہ الفاظ سُنے اور اپنے میڈیا میں نمایاں جگہ دی ہے۔
عمران خان نے سدھو صاحب کے توسط سے سفارتکاری کاایک چھکا مارا ہے۔ نوجوت سنگھ سِدھو کی خواہشوں اور تمناؤں کا بھی بھرپور خیال رکھا گیا ہے۔ مثال کے طور پر جب جنرل باجوہ صاحب سے اُن کا مکالمہ ہُوا تو اُنہوں نے کہا: ''اگلے سال بابا گرو نانک جی کا 550 واں جنم دن منایا جارہا ہے۔ میری خواہش ہے کہ بھارتی پنجاب کے وزیر اعلیٰ کی قیادت میں ایک چھوٹا سا وفد لے کر پاکستان آؤں'' تو جنرل قمر جاوید باجوہ نے کشادہ دل اور کھلے سینے کے ساتھ کہا: ''جتنے لوگ آنا چاہیں، آ جائیں اور اِن تقریبات میں شرکت فرمائیں۔''
سِدھو جی کا بھی دل خوش ہُوا ہے اور اُن کے ساتھ بھارت اور دُنیا بھر میں بسنے والے تمام سِکھوں کا بھی۔ جنرل صاحب نے واقعی معنوں میں سِدھو صاحب کے توسط سے دُنیا بھر کی سِکھ کمیونٹی کے دل موہ لیے ہیں۔ افسوس تو یہ ہے کہ بھارت کی طرف سے پاکستان اور پاکستانیوں کو یہ جذبات نہیں ملتے۔
پاکستانی جب بھی بھارت میں موجود مسلمان صوفیائے کرام کی درگاہوں پر حاضری دینے اور اُن کے عرس کی سالانہ تقریبات میں شریک ہونا چاہتے ہیں، بھارت ویزے دینے سے یا تو صاف انکار کر دیتا ہے یا ویزے دینے میں دانستہ اتنی تاخیر کر دیتا ہے کہ مطلوبہ تقریبات میں شرکت کا وقت ہے گزر جاتا ہے۔ ضرورتمند پاکستانی مریضوں کے میڈیکل ویزوں پر بھی بھارت نے قدغنیں لگا رکھی ہیں۔ نریندر مودی کی حکومت میں پچھلے چار برسوں کے دوران ، اِس ضمن میں، زیادہ بیہودگیاں اور بدتمیزیاں کی گئی ہیں۔
اِن زمینی حقائق کو پیشِ نگاہ رکھا جائے تو بھارتی رویوں پر افسوس ہو تا ہے۔ اِن کے باوجود مگر پاکستان اور پاکستانیوں نے نوجوت سنگھ سِدھو سے غیر معمولی اچھا سلوک کیا ہے۔ اِسی وجہ سے تو سِدھو صاحب بھی پکار اُٹھے ہیں: ''بھارت سے جتنی محبت لایا تھا، اُس سے 100گُنا زیادہ محبتیں پاکستان سے ملی ہیں۔''
افسوس کی بات مگر یہ ہے کہ سِدھو صاحب کے پاکستان آنے پر بھارتی میڈیا نے نہایت منفی اور دل شکن باتیں کہی اور لکھی ہیں۔ بی جے پی کے کارکنوں نے سِدھو صاحب کے پُتلے بھی جلائے ہیں۔ اور کچھ نہیں ملا تو بھارتی میڈیا میں یہ گند اچھال دیا گیا کہ نوجوت سنگھ سِدھو کو (ایوانِ صدر میں) آزاد کشمیر کے صدر کے پہلو میں کیوں بٹھایا گیا؟
پاکستان کے خلاف بھارتی اسٹیبلشمنٹ اور انڈین میڈیا کے دلوں میں اسقدر خُبث اور بُغض بھرا ہے کہ پاکستان جتنا بھی بھارت کے حق میں نرمی کا مظاہرہ کرلے، بھارتیوں نے کوئی نہ کوئی نقص نکالنا ہی ہے۔ کیا یہ حیرت اور افسوس کی بات نہیں ہے کہ جس وقت پاکستان، نَومنتخب وزیر اعظم عمران خان کی حکومت اور جنرل قمر جاوید باجوہ کی طرف سے سِدھو صاحب پر محبت و تعاون کے پھول برسائے جا رہے تھے، عین اُسی وقت بھارتی بارڈر سیکیورٹی فورسز ایل او سی کی خلاف ورزی کرتے ہُوئے پاکستانیوں پر گولے برسا رہی تھیں؟
اس گولہ باری کا جواب اگرچہ فوری طور پر ہماری جری افواج نے بھی دیا ہے اور بھارتی ہائی کمشنر کو بھی پاکستانی وزارتِ خارجہ میں طلب کرکے احتجاج ریکارڈ کرادیا گیا ہے، لیکن بھارتی گولوں سے ہمارے جو شہری تازہ تازہ مجروح ہُوئے ہیں، اِن کا نقصان مودی بھی کبھی پورا نہیں کر سکیں گے۔ اِن زیادتیوں اور مظالم کے باوجود ہم اُمید یہی کرتے ہیں کہ نوجوت سنگھ سِدھو بھارت واپسی پر دونوں ملکوں کے درمیان امن کے پھیلاؤ کی کوششیں کرتے رہیں گے۔