عمران خان کا وزارت عظمیٰ تک کا سفر
عمران کی تیسری شادی پر ان کے سیاسی مخالفین نے خاصی تنقید کی اور ان کا تمسخر اڑایا گیا۔
عمران خان آخری کار وزیراعظم بن گئے۔ لوگ کہتے ہیں کہ وہ 22 سال کی جدوجہد کے بعد وزیراعظم بنے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ وہ 26 سال کے بعد وزیراعظم بنے۔ لوگ ان کی سیاسی جدوجہد کا آغاز 96ء سے سمجھتے ہیں، جب انھوں نے اپنی سیاسی پارٹی بنائی۔ 92ء میں انھوں نے کرکٹ کا ورلڈ کپ جیتا۔ 94ء میں انھوں نے شوکت خانم اسپتال بنایا۔
حقیقت یہ ہے کہ ورلڈ کپ کی جیت سے ان کی عوامی شہرت کا آغاز ہوا۔ نہ وہ ورلڈ کپ جیتتے، نہ شوکت خانم اسپتال بنتا، نہ وہ سیاست میں آتے۔ یعنی ورلڈ کپ کی جیت ان کی کامیابی کی بنیاد بنی۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ وہ زیادہ سے زیادہ 2000ء تک وزیراعظم بن جاتے۔ ان کی جدوجہد غیرمعمولی حد تک طویل رہی، اتنی طویل کہ عمران کے حمایتی بھی آہستہ آہستہ حوصلہ ہارنا شروع ہوگئے لیکن عمران نے حوصلہ نہیں ہارا۔
26 کا جمع 8 بنتا ہے۔ نمبر 8 بے پناہ جدوجہد کا تقاضا کرتا ہے اور ایسا بھی ہوتا ہے کہ کبھی کبھی اس عدد کا حامل تمام زندگی جدوجہد کرتا رہتا ہے لیکن کامیابی پھر بھی نصیب نہیں ہوتی۔ لیکن اکثر صورتوں میں اس عدد کے حامل شخص کو آخر کار ایسی کامیابی نصیب ہو جاتی ہے جس کا دوسرے لوگ تصور بھی نہیں کر سکتے۔ چاہے وہ زندگی کے کسی بھی شعبے سے تعلق رکھتے ہوں۔یہاں تک کہ ان کی تمام جدوجہد اور ناکامیوں کا صلہ مل جاتا ہے۔ قدرت ان کو اس طرح عجیب و غریب طریقے سے نوازتی ہے کہ ان کے دشمن بھی حیرت زدہ رہ جاتے ہیں۔
عمران خان کے کیریئر اور شادی دونوں شدید منفی اثرات کی لپیٹ میں رہے۔ ان کی جمائمہ اور ریحام خان سے شادی ناکام رہی۔ ایک ایسا شخص جو یورپ کی اعلیٰ سوسائٹی میں پلا بڑھا۔ اعلیٰ طبقے کی خواتین اور شہزادیوں سے دوستی رہی۔ کہاں ایک انتہا، کہاں دوسری کہ موجودہ زوجہ روحانیت کی حامل ہیں۔
ایک طرف اعلیٰ ترین طبقے کی ماڈرن، مذہب سے دور خواتین اور کہاں ایک مذہبی زوجہ۔ عمران خان پر شادیوں کے حوالے سے تو بہت تنقید کی گئی لیکن جس پہلو سے جان بوجھ کر صرف نظر کیا گیا کہ گزشتہ اور موجودہ زوجہ عمر رسیدہ ہیں۔ ریحام خان کی عمران سے دوسری شادی تھی۔ پہلی شادی سے ان کی جوان اولادیں ہیں۔
تیسری شادی بشریٰ بی بی سے ہوئی، نہ صرف ان کی اولاد جوان ہے بلکہ شادی شدہ ہے۔ ماشاء اللہ سے وہ نانی ہیں۔ مردوں کی فطرت ہے کہ چاہے وہ کسی بھی عمر کے ہوں کم عمر خاتون سے شادی کرنا پسند کرتے ہیں لیکن عمران خان کی شخصیت کا یہ دلچسپ پہلو ہے کہ دونوں خواتین بڑی عمر کی اور اولاد والی ہیں۔
امریکا یورپ کے معیار شادی کے حوالے سے ہمارے ملک سے بالکل مختلف ہیں۔ وہاں پر شادی کے حوالے سے ذات، رنگ، نسل، زبان، خاندان، امارت اور غربت کو نہیں دیکھا جاتا بلکہ صرف اور صرف ذہنی ہم آہنگی کو دیکھا جاتا ہے۔ فرانسیسی صدر اور ان کی بیگم کی عمر میں بڑا تفاوت ہے۔ وہ عمر میں ان سے بیس سال بڑی ہیں۔
فرانسیسی صدر کو ان سے محبت اس وقت ہوئی جب وہ اسکول میں طالب علم اور وہاں ان کو پڑھاتی تھیں۔ یہ محبت نہ صرف اسکول کے بعد بھی برقرار رہی بلکہ عملی زندگی میں آنے کے بعد انھوں نے اپنی عمر رسیدہ استاد سے شادی بھی کر لی۔ اسی طرح برطانوی شہزادے نے بھی حال ہی میں ایک امریکن طلاق یافتہ لڑکی سے شادی کی ہے جس کا ایک بچہ بھی ہے۔
عمران کی تیسری شادی پر ان کے سیاسی مخالفین نے خاصی تنقید کی اور ان کا تمسخر اڑایا گیا۔ حالانکہ شادی کرنا خالصتاً ایک نجی معاملہ ہوتا ہے، ویسے بھی یہ کوئی غلط کام نہیں تھا۔ بہرحال اس تنقید کی ٹائمنگ ملاحظہ فرمائیں، جب الیکشن نزدیک تھے تو عمران خان کے خلاف بھر پور مہم چلائی گئی۔ اب ریحام خان کے معاملے کو ہی لے لیں۔ عمران خان سے شادی سے پہلے ریحام خان کو شاید ہی کوئی جانتا ہو۔
عمران خان سے شادی کے بعد ریحام کو نہ صرف پاکستان کا ہر شخص جان گیا بلکہ اس کے ساتھ بین الاقوامی سطح پر بھی شہرت ملی۔ بدقسمتی سے یہ شادی ناکام ہوگئی۔ریحام خان اس کو تقدیر کا لکھا سمجھ کر قبول کرتیں، انھوں نے عمران پر کیچڑ اچھالنا شروع کر دیا اور ایک کتاب لکھنی شروع کر دی اور عین انتخابات سے کچھ دن پہلے یہ کتاب شائع بھی ہوگئی۔ مقصود عمران خان کو الیکشن میں نقصان پہنچانا تھا۔
عمران نے اپنی تقریروں میں اکثر یہ بات کی کہ مجھے کوئی لالچ نہیں۔ کیوں کہ اللہ نے مجھے میری سوچ سے بڑھ کر دیا ہے۔ اب مجھے کسی چیز کی خواہش نہیں۔ اقتدار مجھے اپنی ذات کے لیے نہیں صرف عوام کی فلاح و بہبود کے لیے چاہیے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ عمران کے سابق سسر جیمز گولڈ سمتھ کا شمار دنیا کے پہلے دس امیر ترین اشخاص میں ہوتا تھا۔ انھوں نے عمران کو پیش کش کی کہ وہ ان کا کاروبار سنبھالیں اور برطانیہ میں سیاست کریں۔ لیکن عمران خان نے اس پیشکش کو ٹھکرا دیا۔
وزیراعظم عمران خان کی بیگم خاتون اول بشریٰ بیگم نے حلف برداری کے موقع پر کہا کہ میں اس خوشی کے موقعہ پر خوش نہیں بلکہ ڈری ہوئی ہوں کہ عوام کو ہم سے بہت سی توقعات ہیں۔ وزیراعظم عمران کے دونوں بیٹے اپنے والد کی رسم حلف برداری میں شریک ہونا چاہتے تھے لیکن انھوں نے بلانے سے انکار کر دیا۔ جس پر وہ دونوں غمگین ہیں۔ اسی طرح انھوں نے اس موقعہ پر اپنی بہنوں کو بھی نہیں بلایا، یہ تو پتہ نہیں کہ اس کے پس پردہ کیا عوامل ہیں لیکن یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ ہمارے پاس اقربا پروری کو رد کرنے کی ایسی کتنی مثالیں ہیں!
٭... سابق وزیراعظم نواز شریف کے لیے 21-20 سے لے کر 27,26,25,24 اگست اہم تاریخیں ہیں۔
سیل فون:۔ 0346-4527997
حقیقت یہ ہے کہ ورلڈ کپ کی جیت سے ان کی عوامی شہرت کا آغاز ہوا۔ نہ وہ ورلڈ کپ جیتتے، نہ شوکت خانم اسپتال بنتا، نہ وہ سیاست میں آتے۔ یعنی ورلڈ کپ کی جیت ان کی کامیابی کی بنیاد بنی۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ وہ زیادہ سے زیادہ 2000ء تک وزیراعظم بن جاتے۔ ان کی جدوجہد غیرمعمولی حد تک طویل رہی، اتنی طویل کہ عمران کے حمایتی بھی آہستہ آہستہ حوصلہ ہارنا شروع ہوگئے لیکن عمران نے حوصلہ نہیں ہارا۔
26 کا جمع 8 بنتا ہے۔ نمبر 8 بے پناہ جدوجہد کا تقاضا کرتا ہے اور ایسا بھی ہوتا ہے کہ کبھی کبھی اس عدد کا حامل تمام زندگی جدوجہد کرتا رہتا ہے لیکن کامیابی پھر بھی نصیب نہیں ہوتی۔ لیکن اکثر صورتوں میں اس عدد کے حامل شخص کو آخر کار ایسی کامیابی نصیب ہو جاتی ہے جس کا دوسرے لوگ تصور بھی نہیں کر سکتے۔ چاہے وہ زندگی کے کسی بھی شعبے سے تعلق رکھتے ہوں۔یہاں تک کہ ان کی تمام جدوجہد اور ناکامیوں کا صلہ مل جاتا ہے۔ قدرت ان کو اس طرح عجیب و غریب طریقے سے نوازتی ہے کہ ان کے دشمن بھی حیرت زدہ رہ جاتے ہیں۔
عمران خان کے کیریئر اور شادی دونوں شدید منفی اثرات کی لپیٹ میں رہے۔ ان کی جمائمہ اور ریحام خان سے شادی ناکام رہی۔ ایک ایسا شخص جو یورپ کی اعلیٰ سوسائٹی میں پلا بڑھا۔ اعلیٰ طبقے کی خواتین اور شہزادیوں سے دوستی رہی۔ کہاں ایک انتہا، کہاں دوسری کہ موجودہ زوجہ روحانیت کی حامل ہیں۔
ایک طرف اعلیٰ ترین طبقے کی ماڈرن، مذہب سے دور خواتین اور کہاں ایک مذہبی زوجہ۔ عمران خان پر شادیوں کے حوالے سے تو بہت تنقید کی گئی لیکن جس پہلو سے جان بوجھ کر صرف نظر کیا گیا کہ گزشتہ اور موجودہ زوجہ عمر رسیدہ ہیں۔ ریحام خان کی عمران سے دوسری شادی تھی۔ پہلی شادی سے ان کی جوان اولادیں ہیں۔
تیسری شادی بشریٰ بی بی سے ہوئی، نہ صرف ان کی اولاد جوان ہے بلکہ شادی شدہ ہے۔ ماشاء اللہ سے وہ نانی ہیں۔ مردوں کی فطرت ہے کہ چاہے وہ کسی بھی عمر کے ہوں کم عمر خاتون سے شادی کرنا پسند کرتے ہیں لیکن عمران خان کی شخصیت کا یہ دلچسپ پہلو ہے کہ دونوں خواتین بڑی عمر کی اور اولاد والی ہیں۔
امریکا یورپ کے معیار شادی کے حوالے سے ہمارے ملک سے بالکل مختلف ہیں۔ وہاں پر شادی کے حوالے سے ذات، رنگ، نسل، زبان، خاندان، امارت اور غربت کو نہیں دیکھا جاتا بلکہ صرف اور صرف ذہنی ہم آہنگی کو دیکھا جاتا ہے۔ فرانسیسی صدر اور ان کی بیگم کی عمر میں بڑا تفاوت ہے۔ وہ عمر میں ان سے بیس سال بڑی ہیں۔
فرانسیسی صدر کو ان سے محبت اس وقت ہوئی جب وہ اسکول میں طالب علم اور وہاں ان کو پڑھاتی تھیں۔ یہ محبت نہ صرف اسکول کے بعد بھی برقرار رہی بلکہ عملی زندگی میں آنے کے بعد انھوں نے اپنی عمر رسیدہ استاد سے شادی بھی کر لی۔ اسی طرح برطانوی شہزادے نے بھی حال ہی میں ایک امریکن طلاق یافتہ لڑکی سے شادی کی ہے جس کا ایک بچہ بھی ہے۔
عمران کی تیسری شادی پر ان کے سیاسی مخالفین نے خاصی تنقید کی اور ان کا تمسخر اڑایا گیا۔ حالانکہ شادی کرنا خالصتاً ایک نجی معاملہ ہوتا ہے، ویسے بھی یہ کوئی غلط کام نہیں تھا۔ بہرحال اس تنقید کی ٹائمنگ ملاحظہ فرمائیں، جب الیکشن نزدیک تھے تو عمران خان کے خلاف بھر پور مہم چلائی گئی۔ اب ریحام خان کے معاملے کو ہی لے لیں۔ عمران خان سے شادی سے پہلے ریحام خان کو شاید ہی کوئی جانتا ہو۔
عمران خان سے شادی کے بعد ریحام کو نہ صرف پاکستان کا ہر شخص جان گیا بلکہ اس کے ساتھ بین الاقوامی سطح پر بھی شہرت ملی۔ بدقسمتی سے یہ شادی ناکام ہوگئی۔ریحام خان اس کو تقدیر کا لکھا سمجھ کر قبول کرتیں، انھوں نے عمران پر کیچڑ اچھالنا شروع کر دیا اور ایک کتاب لکھنی شروع کر دی اور عین انتخابات سے کچھ دن پہلے یہ کتاب شائع بھی ہوگئی۔ مقصود عمران خان کو الیکشن میں نقصان پہنچانا تھا۔
عمران نے اپنی تقریروں میں اکثر یہ بات کی کہ مجھے کوئی لالچ نہیں۔ کیوں کہ اللہ نے مجھے میری سوچ سے بڑھ کر دیا ہے۔ اب مجھے کسی چیز کی خواہش نہیں۔ اقتدار مجھے اپنی ذات کے لیے نہیں صرف عوام کی فلاح و بہبود کے لیے چاہیے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ عمران کے سابق سسر جیمز گولڈ سمتھ کا شمار دنیا کے پہلے دس امیر ترین اشخاص میں ہوتا تھا۔ انھوں نے عمران کو پیش کش کی کہ وہ ان کا کاروبار سنبھالیں اور برطانیہ میں سیاست کریں۔ لیکن عمران خان نے اس پیشکش کو ٹھکرا دیا۔
وزیراعظم عمران خان کی بیگم خاتون اول بشریٰ بیگم نے حلف برداری کے موقع پر کہا کہ میں اس خوشی کے موقعہ پر خوش نہیں بلکہ ڈری ہوئی ہوں کہ عوام کو ہم سے بہت سی توقعات ہیں۔ وزیراعظم عمران کے دونوں بیٹے اپنے والد کی رسم حلف برداری میں شریک ہونا چاہتے تھے لیکن انھوں نے بلانے سے انکار کر دیا۔ جس پر وہ دونوں غمگین ہیں۔ اسی طرح انھوں نے اس موقعہ پر اپنی بہنوں کو بھی نہیں بلایا، یہ تو پتہ نہیں کہ اس کے پس پردہ کیا عوامل ہیں لیکن یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ ہمارے پاس اقربا پروری کو رد کرنے کی ایسی کتنی مثالیں ہیں!
٭... سابق وزیراعظم نواز شریف کے لیے 21-20 سے لے کر 27,26,25,24 اگست اہم تاریخیں ہیں۔
سیل فون:۔ 0346-4527997