انتخابات اور منتخبات… ایک تحقیق 

شیخ مجیب الرحمن انتخابات جیت گیا تھا لیکن منتخبات میں ہار کر وزیر اعظم ہائوس کے بجائے ’’اعظم ہاوس‘‘ پہنچ گیا تھا۔

barq@email.com

گزشتہ دنوں کے ہلے گلے یعنی انتخابی مصروفیت کے باعث ہمارے سامنے بہت سارا تحقیقی کام پینڈنگ رہ گیا ہے۔ انتخابات میں مصروفیت کا مفہوم یہ ہر گز مت لیجیے گا کہ ہم بھی اس حماقت کے میلے میں شامل تھے بلکہ اس ہنگامۂ دارو گیر سے خود کو بچانے کا مسٔلہ ہمارے سامنے تھا۔ پہلے تو ہم اپنے گھر میں پناہ گزین ہو گئے تھے لیکن اس طرح غیروں سے تو بچ گئے لیکن اپنوں اور رشتہ داروں سے کوئی بچتا ہے۔

کافی سوچ بچار کے بعد ایک تھانیدار دوست سے استدعا کی کہ ہمیں چند روز سرکاری تحویل میں لے لیجیے۔ آدمی ہوشیار تھا اس لیے اس نے ہمیں حوالات میں نہیں رکھا کہ حوالات تو تھانے کے گیٹ وے پر ہے اور ان دنوں الیکشن لڑنے والے کسی کا لے چور کو بھی حوالات میں نہیں رہنے دیتے۔ اس لیے اس نے ہمیں تھانے کے ٹاپ سیکرٹ کمرے یعنی تفتیش والے کمرے میں رکھا اور ساتھ ہی عملے کو ہدایت کی کہ یہ زیر تفتیش ملزم نہیں پناہ گزین ہے۔ کیونکہ روایت کے مطابق اس کمرے میں جس کو ایک مرتبہ رکھ لیا جاتا ہے تو تھانے کا ہر فرد چاہے کوئی بھی عہدہ رکھتا ہو جب فارغ ہوتا ہے یا مالی تنگی کا شکار ہوتا ہے، وہ اس پر تفتیش کرنے لگتا ہے اور تب تک کرتا رہتا ہے جب تک کچھ نہ کچھ اس سے ''برآمد'' نہیں کر لیتا۔

تھانے کی اپنی اصطلاح میں اس کو سچ کا کمرہ کہا جاتا ہے اور یہ بالکل ہی حقیقت ہے کیونکہ ایک مرتبہ ہمارے سامنے ایک نشیٔ کو کسی کوڑے کے ڈھیر سے اٹھا کر لایا گیا کیونکہ وہ اپنے پیروں پر چلنے کے قابل تھا ہی نہیں ویسے بھی اس کا کل وزن دس پندرہ کلو سے زیادہ نہیں تھا لیکن تھوڑی دیر تک زیر تفتیش رہنے کے بعد اس نے چار پانچ ڈاکا زنیوں اور آٹھ دس قتلوں کا اقبالی بیان دیا کہ علاقے کا مشہور ڈاکو رہزن اور اجرتی قاتل وہی ہے بلکہ اس کی پیدائش سے پہلے جتنے جرائم ہوئے تھے وہ بھی اس نے کیے تھے۔ اور آئندہ جو بھی جرائم ہو ں گے وہ بھی میں پیشگی کر چکا ہوں لیکن ''منتخبات'' میں ہار ہو گئی۔

ہمارے ملک میں بہت دن ہوئے، ایک واقعہ ہو ا تھا، شیخ مجیب الرحمن انتخابات جیت گیا تھا لیکن منتخبات میں ہار کر وزیر اعظم ہائوس کے بجائے ''اعظم ہاوس'' پہنچ گیا تھا۔ ایک اور چھوٹے سے واقعے میں بلوچستان اور کے پی کے کے لوگ انتخابات جیت کر بھی ہار گئے تھے، اس سے پہلے قیوم خان اور مسلم لیگ ہار گئے تھے لیکن صرف سولہ ممبروں کے ساتھ 36 ممبروں پر ''منتخب'' ہو گئے۔

اب تحقیق کی بات چلی ہے تو بیٹوں کے واسطے سے ''ماں'' تک بھی پہنچے گی۔ انتخابات کی ماں جمہوریت ہوتی ہے لیکن منتخبات کی ماں وہ ''سیاہ ست'' ہوتی ہے جسے فارسی میں عروس ہزار داماد کہتے ہیں ۔

مجو درستی ''عہد'' از جہان ست نہاد

کہ این عجوزہ عروس ہزار داماد است

داماد فارسی میں '' شوہر '' کو کہتے ہیں اور ''عروس ہزار داماد'' کو دوسرے لوگ جانیں نہ جانیں لیکن پاکستان کے لوگ جانتے ہیں لیکن ذرا بدلے ہوئے نام ''سیاہ ست'' سے۔ اور یہ جو انتخابات اور منتخبات دونوں ہیں اسی سیاہ ست کے بیٹے ہیں لیکن آپس میں بھائی نہیں۔ کیونکہ ''انتخابات'' کو باپ نے عاق کیا ہوا اور منتخبات نے پہلے ہی سے طے کیا ہوتا ہے کہ ''رادھا'' صرف اسی کے آنگن میں ناچے گی جس کے پاس ''نومن تیل'' ہوگا ،چاہے وہ آنگن ٹیڑھا ہی کیوں نہ ہو۔ ایسے میں بھلا جس کے اپنے چراغوں میں تیل کی ایک بوند تک نہ ہو، وہ رادھا کو کیا نچائیں البتہ خود جیسا چاہیں ناچ سکتے ہیں، منتحابات کے آنگن میں۔

ایک دیہاتی سے ٹیکسی ڈرائیور نے کہا آؤ پہیلی بوجھ پہیلی کھیلتے ہیں۔ دیہاتی مان گیا۔ شرط یہ ٹھری کہ اگر دیہاتی نے پہلی بوجھ لی تو ٹیکسی ڈرائیورکرایہ نہیں لے گا اور اگر نہیں بوجھ سکا تو دگنا کرایہ دینا پڑے گا۔ دیہاتی مان گیا۔ تب ٹیکسی والے نے پوچھا، ایک شخص ہے جو میرے باپ کا بیٹا ہے لیکن میرا بھائی نہیں ہے۔


دیہاتی نے بہت دماغ دوڑایا، بہن یا سگے سوتیلے کا بھی آپشن تھا کیونکہ ٹیکسی ڈرائیور نے وضاحت کر دی تھی، باپ میرا اور اس کا سگا ہے لیکن وہ میرا سوتیلا بھائی تو کیا کسی بھی قسم کا بھائی نہیں ہے۔

بچارا دیہاتی ہار گیا اور دہرا کرایہ دے کر جواب کا طالب ہوا تو وہ بولا ۔ وہ میں خود ہوں کہ اپنے باپ کا بیٹا تو ہوں لیکن اپنا بھائی نہیں ہوں۔

دیہاتی جب واپس اپنے گائوں گیا تو گائوں کے لوگوں پر دھاک بٹھا نے کے لیے اس نے یہی پہیلی گائوں والوں سے پوچھی کہ وہ کون ہے جو میرے باپ کا بیٹا ہے لیکن میرا بھائی نہیں ہے۔ گائوں والوں نے بھی طرح طرح کے انٹ شنٹ جواب دیے۔ پھر اس سے بولے، چلو تم ہی بتائو وہ کون ہے جو تمہارے باپ کا بیٹا ہے اور تمہارا بھائی نہیں ہے۔ اس نے اپنی مونچھوں پر تائودیتے ہوئے کہا، وہ اصفہان کا ایک ٹیکسی ڈرائیور ہے۔ بولے تو انتخابات اور منتخبات کا رشتہ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔

دونوں ایک باپ کے بیٹے ہیں لیکن آپس میں بھائی بالکل نہیں ہیں بلکہ دور کے عزیز بھی نہیں بلکہ ایک دوسرے کے بالکل متضاد اور منفی ہیں۔ چلیے ایک تازہ ترین واقعے سے سمجھاتے ہیں نواز شریف انتخابات جیتے تھے عوام کا مینڈیٹ رکھتے تھے اور سیاہ ست کے ایک منافقانہ نظریے کے مطابق اس ملک کے اصل اور حقیقی مالک عوام ہیں لیکن بچارا انتخابات میں جیت کے باوجود ''منتخبات'' میں ہار گیا۔

امریکا کے انتخابات بھی ہیلری کلنٹن جیت گئی تھیں لیکن میرے ساتھ خیریت ہوئی ایک دو حوالداروں نے بے خبری میں ہم پر تفتیش کا ائمیٹ کیا ضرور لیکن محرر کی بروقت مداخلت سے ۔۔ رسیدہ بود بلائے ولے بخیر گزشت ۔

ہماری اس روپوشی میں کسی بزدلی کو دخل نہیں تھا بلکہ ہمارے پاس جھوٹ کا کوٹہ بہت محدود ہے اور انتخابات کے لیے جھوٹ کا ایک بہت بڑا انبار چاہئے تھا۔ قسمیں اور طلاقیں اٹھاتے اٹھاتے تو ہمارا میدہ بن جاتا۔ اورنہ ہی زوجہ کا حلالہ منظور تھا ۔اس وجہ سے اب ہمارے تحقیقی کام کا بہت بڑا ڈھیر پڑا ہوا ہے۔ ہمارا ٹٹوئے تحقیق بھی تیار ہے کہ ان دنوں اس نے سوائے کھانے اور اپنی ٹٹوئن کے ساتھ ڈؤئٹ گانے کے کچھ بھی نہیں کیا۔

موضوعات تو بہت ہیں لیکن سب سے پہلے اس ڈھیر کے اوپر کا ٹاسک پڑا ہے وہ لیتے ہیں یعنی انتخاب کیا ہوتے ہیں اور منتخابات کسے کہتے ہیں بظاہر یہ دونوں بھائی لگتے ہیں لیکن بھائی بالکل نہیں ہیں۔ انتخابات الگ چیز اور منتخبات بالکل ہی جدا چیز ہیں حالانکہ دونوں کا باپ بھی ایک ہے اور ماں بھی لیکن پھر بھی ایک دوسرے کے بھائی نہیں ہیں۔

اس ''بھائی نہ ہونے'' پر ایران بلکہ اصفہان کا ایک لطیفہ یاد آ رہا ہے جو ان رشتوں کی وضاحت کر دے گا۔

ایران میں اصفہان کے لوگ بڑے ہی چالاک اور چلتے پرزے مشہور ہیں۔ اندازہ اس سے لگائیں کہ اصفہان جنت ہے اگر اصفہانی اس میں نہ ہوتے۔

چنانچہ اصفہان کے مضاقاتی علاقے کا کوئی شخص جب اصفہان گیا تو ایک ٹیکسی والے سے ملاقات ہوئی سفر کے دوران تعارف ہوا غیر اصفہانی نے اپنے گائوں کا نام بتایا تو اصفہانی ٹیکسی ڈرائیور نے اس گائوں کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملاتے ہوئے کہا فلاں گائوں کے لوگ تو بہت زیادہ ذہین ہوتے ہیں اور آپس میں ''بوجھو تو جانیں'' کھیلتے ہیں۔
Load Next Story