مشرف کیلیے ’’محفوظ راستے‘‘ کی بڑھتی قیاس آرائیاں

نواز،کیانی ملاقات میں بھی معاملہ زیر بحث آیا،ن لیگی قائدکے ساتھیوں سے مشورے،ذرائع


مظہر عباس May 22, 2013
’’محفوظ واپسی‘‘مذہبی جماعتوں کوسڑکوں پر لانے اورطالبان کی ناراضی کا باعث بن سکتی ہے۔ فوٹو: فائل

نوازشریف کی تیسری مرتبہ وزارت عظمیٰ کے حلف اٹھانے سے پہلے سابق آرمی چیف جنرل (ر) پرویز مشرف کے ممکنہ ''محفوظ راستہ'' کی قیاس آرائیاں بڑھتی جارہی ہیں تاہم لیگی رہنما نے سابق صدر کی سرکاری معافی کی ابھی تک حتمی رضامندی نہیں دی۔

نوازشریف 1999ء سے 2001ء تک اٹک اور کراچی میں قریباً 16 ماہ قید رہے، جس کے بعد پیکیج ڈبل کے تحت انھیں سعودی عرب جانے کا ''محفوظ راستہ'' دیا گیا بعدازاں 2008ء کے انتخابات میں پیپلزپارٹی کی فتح کے بعد مشرف کو بھی ایسا ہی راستہ ملا۔ وہ پیپلزپارٹی کے تمام دور میں جلاوطن رہے۔ اگرچہ مسلم لیگ ن اور آئی ایس پی آر دونوں نے آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی اور متوقع وزیراعظم نوازشریف کے درمیان ہونیوالی ساڑھے تین گھنٹے طویل ملاقات کے متعلق لب سی رکھے ہیں تاہم نوازشریف کے قریبی ذرائع نے اشارہ دیا ہے کہ ملاقات کے دوران مشرف کا معاملہ بھی زیربحث آیا۔ نوازشریف نے قریبی اور قابل اعتماد ساتھیوں سے بھی مشورہ کیا ہے کہ اگر مشرف ملک سے چلے جاتے ہیں اور مسلم لیگ ن ان کے خلاف غداری کا مقدمہ نہیں چلاتی، جس کا انھوں نے انتخابات کے دوران وعدہ کیا تھا تو اس کے کیا مضمرات ہوں گے۔

مشرف کو محفوظ راستہ ملنے سے نومنتخب حکومت اور طالبان کے درمیان ممکنہ مذاکرات بھی متاثر ہوسکتے ہیں کیونکہ وہ نہ صرف مشرف کا ٹرائل چاہتے ہیں بلکہ انہیں نشانہ بنانے کی بھی دھمکی دے رکھی ہے۔ اگر مشرف کو خاموش راستہ بھی دے دیا گیا تو مسلم لیگ ن پر الزام آئیگا کہ انہوں نے ''خفیہ منظوری'' دی۔ ٹرائل کے بغیر اس فیصلے پر پارٹی شدید تقسیم کا بھی شکار ہوسکتی ہے۔ تاہم اگر کوئی عرب فرمانروا اس معاملے میں کردار ادا کررہا ہے اور فوج بھی سابق آرمی چیف کیخلاف غداری کے مقدمہ کی شرمندگی سے بچنا چاہتی ہے تو نوازشریف کے پاس شاید کوئی اور راستہ نہ ہوگا۔ واضح رہے کہ یہ سابق فوجی آمر ضیاء الحق کے بیٹے اورنومنتخب ایم این اے اعجاز الحق تھے، جنھوں نے چند روز قبل ببانگ دہل یہ بیان دے کر سنسنی پھیلا دی تھی کہ نئی حکومت بننے سے پہلے مشرف کو بیرون ملک بھیج دیاجائیگا۔ ابھی تک مسلم لیگ ن کی قیادت کی طرف سے سرکاری مؤقف سامنے نہیں آیا تاہم نوازشریف نے گزشتہ ہفتے کے دوران مشرف کے معاملے پرلب کشائی نہیں کی کہ ان کی حکومت اس حوالے سے کیا کرے گی؟

مسلم لیگ ن اور نوازشریف کی خاموشی، ججز نظربندی کیس میں درخواست کی واپسی اور بینظیر قتل کیس میں ضمانت کے بعد نوازشریف اور مشرف کے درمیان ڈیل کا امکان بڑھتا جارہا ہے ،جس میں اگر عرب دنیا کی طرف سے کوئی ضامن نہیں ہے تو فوج ضامن ہوگی۔ اگر نگران حکومت یہ فیصلہ کرتی ہے اور ای سی ایل سے اخراج کے بعد مشرف خاموشی سے ملک چھوڑ دیتے ہیں تو تب بھی نوازشریف کیلئے آسان فیصلہ نہیں ہوگا۔ ججز نظربندی کیس کی واپسی، بینظیر قتل کیس میں ضمانت اور غداری کا مقدمہ نہ چلنے کی صورت میں مشرف کیخلاف دو مقدمے زیرالتواء ہیں، ان میں سے ایک اکبر بگٹی قتل کیس ہے،جس میں ان کی باقاعدہ گرفتاری نہیں ڈالی گئی، دوسرا لال مسجد انکوائری رپورٹ کے حوالے سے ہے،جس کی بنیاد پر ان کے خلاف باقاعدہ مقدمہ درج نہیں کیا گیا۔

ایسا لگتا ہے کہ 2008ء میں مشرف کو محفوظ راستہ دینے والے اندرون و بیرون ملک ''دوست'' پھر سرگرم ہیں۔ تاہم یہ یقینی ہے کہ نوازشریف اگر اس ضمن میں رضامندی دے دیتے ہیں تو وہ بھرپور ضمانتیں چاہیں گے ،جس میں یہ شامل ہوگا کہ مشرف مسلم لیگ ن کی حکومت کیخلاف کوئی بیان نہیں دینگے، انٹرویوز میں ایسے سوالات کے جواب سے گریز کریں گے، لیگی دور حکومت میں پاکستان واپس نہیں آئیں گے اور اپنے اعمال کی معافی مانگیں گے۔ تاہم مشرف کیلئے آخری شرط ماننا مشکل ہوگی۔ ذرائع کے مطابق مشرف کی فیملی ان کے محفوظ راستے کیلئے رابطے میں ہے کیونکہ وطن واپسی کے بعد ان کی زندگی کو مستقل خطرہ لاحق ہے۔

مشرف کی پارٹی بھی گڑبڑ کا شکار ہے، اگرچہ اے پی ایم ایل نے چترال سے 2 نشستیں جیتی ہیں تاہم ان میں سے ایک نومنتخب رکن اسمبلی نے تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کرلی ہے تاہم اگر مشرف رک جاتے ہیں تو بھٹوئوں اور نوازشریف کے برعکس انہوں نے جیلوں میں موت کی کوٹھڑیوں کا سامنا کیا، وہ اپنے گھر میں ہی رہیں گے جسے ''سب جیل'' قرار دیا گیا ہے۔ اگر صدر زرداری کی طرح نوازشریف بھی دبائو یا کسی صورتحال کے باعث مشرف کومحفوظ راستہ دیئے جانے پر متفق ہوجاتے ہیں تو یہ ان کا متزلزل آغاز حکومت ہوگا۔

مذہبی جماعتیں وکلاء کے ہمراہ ممکنہ طور پر احتجاج کیلئے سڑکوں پر ہونگے تاہم تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان اور پیپلزپارٹی کی طرف سے ردعمل دلچسپی کا حامل ہوگا اس صورتحال کے باعث لیگی قیادت کیلئے مشرف کو محفوظ راستہ دینا آسان نہیں ہوگا جیسے کہ 2008ء میں پیپلزپارٹی کی حکومت شروع ہونے سے پہلے اس کیلئے تھا۔ نوازشریف اس صورت میں زیادہ آرام دہ ہونگے کہ اگر ٹرائل کے بعد انھیں باقاعدہ معافی دے دی جاتی ہے تاہم یہ غداری کا کیس ہے جس سے کئی حلقے بچنا چاہتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں