معیشت بھی انصاف کی منتظر
قومی خزانے میں اس وقت کل موجود رقم 9 ارب ڈالر ہے، یعنی اسٹیٹ بینک میں اس وقت اگلے تین ماہ کا خرچ بھی موجود نہیں
شاید اٹھارہویں صدی کی بات ہے، جرمنی کے ایک گاؤں سے پہلی لڑکی ڈاکٹر بنی۔ لیکن کمال یہ ہوا کہ ڈاکٹری کی ڈگری لے کر بیماروں کا علاج کرتے کرتے نہ جانے کیوں ذہن کی ایک کھڑکی کھلی اور اس نے سوچا کہ وہ ان بچوں پر کام کرے جن کو پیدائشی طور پر کسی کمی کا سامنا ہے؛ آسان الفاظ میں کہیں تو جنہیں ''خصوصی بچے'' کہا جاتا ہے۔ گو محنت طلب کام تھا مگر اس نے اپنا سو فی صد دیا اور حیران کن طور پر وہ بچے جنہیں بیکار سمجھ کر چھوڑ دیا جاتا تھا، تجربے نے ثابت کیا کہ وہ بھی معاشرے کے سود مند شہری بن کر کسی کام آ سکتے ہیں۔
یہاں سے اس کی سمت کا مستقل تعین ہوگیا۔ اس نے معاشرے کو بتایا کہ کس طرح ان ننھے ذہنوں کو آزاد ماحول فراہم کیا جائے تو ننھی عمر میں ہی ہمیں سائنس دان، انجینئراور خلا باز مل سکتے ہیں۔ جی بالکل، یہاں بات ماریہ مونٹیسوری کی ہو رہی ہے۔
آئیے اسے پاکستانی معیشت کے تناظر میں دیکھتے ہیں۔ ملک خداداد کی اقتصادی حالت کو دیکھ کر وہ گھر یاد آتا ہے جہاں کمانے والا بے روزگار ہو اور گھر قرضے لے لے کر چل رہا ہو، لیکن آخر کب تک؟ اب قرض دینے والا یا تو آپ کی آزادی صلب کرے گا یا پھر آپ پر واپسی کا دباؤ بڑھائے گا۔ ایسے میں اگرکوئی سمجھدار ہو تو اپنی خوداری کی حفاظت کرتے ہوئے موجود وسائل سے مدد لینے کی کوشش کرے گا، ورنہ جس کی لاٹھی اس کی بھینس والا نتیجہ ہی نکلے گا۔
نئی حکومت کے حلف اٹھانے سے پہلے والے قومی خزانے کی بات کی جائے (سادہ الفاظ میں بیان کرنا اہم ہے تاکہ عام فرد بھی اس حقیقت کو سمجھ پائے) تو اس وقت کل موجود رقم 9 ارب ڈالر ہے، مزید آسان کیا جائے تو اسٹیٹ بینک میں اس وقت اگلے تین ماہ کا خرچ بھی موجود نہیں۔ پاکستان اس وقت 91 ارب ڈالرز کا مقروض ہے اور بدقسمتی سے سابقہ حکومت نے اس قرض میں مزید 40 ارب کا قرضہ لے کر اپنا حصہ ڈالنا بھی مناسب سمجھا۔
قارئین بخوبی آگاہ ہیں کہ حکومت جب IMF کے پاس جھولی پھیلانے جاتی ہے تو وہاں سے ملنے والی رقم خاص شرائط پر ملتی ہے۔ آپ کو چاہتے نہ چاہتے ہوئے بھی ان کی شرائط پر عملدرآمد یقینی بنانا ہوتا ہے۔ مثلاً پیٹرول، بجلی کی قیمت یا پھر ملک میں ٹیکس کا نظام (قرضہ انہوں نے دیا تو اب Dictation بھی ان کی)۔
ٹیکس سے یاد آیا، پچھلے پانچ سالوں میں عوام پر ٹیکسوں کا کتنا بوجھ ڈالا گیا؟ ہر آنے والا بجٹ غریب کو غریب تر اور امیر کو امیر تر کرنے میں ہی معاون و مددگار ثابت ہوا۔
اہم سوال یہ کہ کیا ملک چلانے کے لیے موجودہ نومنتخب حکومت بھی آئی ایم ایف کے سامنے جھولی پھیلا دے گی؟
امید تو یہی ہے کہ تبدیلی کے نعرے سے معرض وجود میں آنے والی حکومت کم از کم آتے ہی آئی ایم ایف کے سامنے دامن پھیلانے والی روایت تو کم از کم تبدیل کرے گی۔ اب ایسا بھی نہیں کہ IMF ہی واحد نجات دہندہ ہے۔ ہمارا صدا بہار دوست چین اور تیل کی دولت سے بھرپور سعودی عرب کب کام آئیں گے؟ ویسے چین نے تو دو بلین ڈالر قرض کی بات خود ہی شروع کردی ہے۔ اگرچہ ابھی تک یہ آفر ہی ہے مگر اسٹاک مارکیٹ میں اس کا اتنا مثبت اثر یہ ہوا کہ ان چند دنوں میں ڈالر تقریباً سات روپے کی کمی پر آگیا اور روپے کو کچھ استحکام ملا۔
کل ہی ٹوئٹر پر ایک جاری گفتگو میں شامل ہوئی۔ کہا جارہا تھا کہ اگر تحریک انصاف کا فی ووٹر ایک ہزار روپے بھی عطیہ کرے تو پاکستان کو تو آئی ایم ایف کے سامنے کشکول رکھنے کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی۔ ویسے وہاں کچھ حضرات لاکھوں دینے کو تیار تھے۔ شرط صرف خان صاحب کی کال تھی!
سنیے، ذرا غور سے سنیے! بیچ سڑک کے بند ہونے والی گاڑی کتنی دیر تک دھکے سے سٹارٹ کرتے رہیں گے؟ معاشی استحکام کے لیے اب اپنے وسائل کو بروئے کار لانا اشد ضروری ہے، اور اس کام کو کرنے کا جذبہ ماریہ مونٹیسوری جیسا ہونا چاہیے جس نے وہاں سے کام کا آغاز کیا جہاں اسے بوجھ سمجھ کر چھوڑ دیا جاتا تھا۔
جب استحکام کی بات کریں گے تو ہمیں اپنی انڈسٹری کو مضبوط بنانا ہوگا۔ اپنی فیکٹریوں سے پیدا ہونے والی مصنوعات اور Made in Pakistan کو عزت دینا ہوگی، نہ کہ عام بلیڈ بھی چائینہ اور بھارت سے درآمد کرنے کو۔ کم از کم برانڈز کے چکر سے تو نکلیں۔ ''میڈ ان پاکستان'' ہی ہماری قومی برانڈ اور پہچان ہو۔ پھر دیکھیے پاکستان کا معاشی استحکام!
خیبر سے کشمیر تک پاکستان کو قدرت نے بے انتہاء خوبصورتی سے نوازا ہے۔ صحرا، سمندر، پہاڑ، آبشاریں اور کیسے کیسے نایاب چرند پرند۔ سیاحت کا شعبہ؛ تھوڑی سی سرمایہ کاری، فوری منافع، ملازمت کے مواقع اور مجموعی طور پر اقتصادی اور سماجی ترقی، نیک نامی اور قومی وقار۔
ایک اندازے کے مطابق ہر سال بیرون ملک سے آنے والے سیاحوں کی تعداد (پاکستان ٹورازم ڈیلیوپمنٹ کارپوریشن) کے مطابق ایک کڑور پچھتر لاکھ ہے؛ اور ان کا آنا جی ڈی پی پر 2.7 فیصد مثبت اثر ڈالتا ہے۔
جی جناب والا! یہ ہیں وہ ذرائع۔ مذاق نہیں، حقیقت میں یہی وہ ذرائع ہیں جن سے بغیر کسی بیرونی امداد کے اقتصادی ترقی کا پہیہ چلنا شروع ہوجائے گا۔
بیرون ملک مقیم 60 لاکھ پاکستانیوں کو بھلا کیسے بھلایا جاسکتا ہے؟ وہ بے چارے تو پتا نہیں کب سے اپنے ملک کے لیے کچھ کرنے کی خواہش لیے بیٹھے ہیں، مگر فضاء سازگار نہیں مل رہی۔ اعتماد کا فقدان نظر آتا ہے۔ آج اگر بیرون ملک پاکستانیوں کا اعتماد بحال کردیا جائے تو یقین مانیے وہ سب سے بڑے سرمایہ کار ثابت ہونگے پاکستان کے لیے۔ آپ ایک قدم اٹھائیے تو سہی!
بدقسمتی سے 53 ارب ڈالر کی درآمدات کے مقابلے میں ہماری برآمدات 22 ارب ڈالر رہ گئی ہیں جو کہ بجٹ خسارے کی ایک اور بڑی وجہ ہے۔ دنیا بھر میں ایک بڑے زرعی ملک کے طور پر جانے جانے والے پاکستان میں زراعت کی خستہ حالی اس کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ کسان کے ساتھ بیٹھیے، اس کے مسائل سے آگاہی حاصل کیجیے، کسان خوشحال ہوگا تو پاکستان خوشحال ہوگا۔ پھر دیکھیے گا درآمدات اور برآمدات کے یہ اعداد کیسے ''یوٹرن'' لیتے ہیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
یہاں سے اس کی سمت کا مستقل تعین ہوگیا۔ اس نے معاشرے کو بتایا کہ کس طرح ان ننھے ذہنوں کو آزاد ماحول فراہم کیا جائے تو ننھی عمر میں ہی ہمیں سائنس دان، انجینئراور خلا باز مل سکتے ہیں۔ جی بالکل، یہاں بات ماریہ مونٹیسوری کی ہو رہی ہے۔
آئیے اسے پاکستانی معیشت کے تناظر میں دیکھتے ہیں۔ ملک خداداد کی اقتصادی حالت کو دیکھ کر وہ گھر یاد آتا ہے جہاں کمانے والا بے روزگار ہو اور گھر قرضے لے لے کر چل رہا ہو، لیکن آخر کب تک؟ اب قرض دینے والا یا تو آپ کی آزادی صلب کرے گا یا پھر آپ پر واپسی کا دباؤ بڑھائے گا۔ ایسے میں اگرکوئی سمجھدار ہو تو اپنی خوداری کی حفاظت کرتے ہوئے موجود وسائل سے مدد لینے کی کوشش کرے گا، ورنہ جس کی لاٹھی اس کی بھینس والا نتیجہ ہی نکلے گا۔
نئی حکومت کے حلف اٹھانے سے پہلے والے قومی خزانے کی بات کی جائے (سادہ الفاظ میں بیان کرنا اہم ہے تاکہ عام فرد بھی اس حقیقت کو سمجھ پائے) تو اس وقت کل موجود رقم 9 ارب ڈالر ہے، مزید آسان کیا جائے تو اسٹیٹ بینک میں اس وقت اگلے تین ماہ کا خرچ بھی موجود نہیں۔ پاکستان اس وقت 91 ارب ڈالرز کا مقروض ہے اور بدقسمتی سے سابقہ حکومت نے اس قرض میں مزید 40 ارب کا قرضہ لے کر اپنا حصہ ڈالنا بھی مناسب سمجھا۔
قارئین بخوبی آگاہ ہیں کہ حکومت جب IMF کے پاس جھولی پھیلانے جاتی ہے تو وہاں سے ملنے والی رقم خاص شرائط پر ملتی ہے۔ آپ کو چاہتے نہ چاہتے ہوئے بھی ان کی شرائط پر عملدرآمد یقینی بنانا ہوتا ہے۔ مثلاً پیٹرول، بجلی کی قیمت یا پھر ملک میں ٹیکس کا نظام (قرضہ انہوں نے دیا تو اب Dictation بھی ان کی)۔
ٹیکس سے یاد آیا، پچھلے پانچ سالوں میں عوام پر ٹیکسوں کا کتنا بوجھ ڈالا گیا؟ ہر آنے والا بجٹ غریب کو غریب تر اور امیر کو امیر تر کرنے میں ہی معاون و مددگار ثابت ہوا۔
اہم سوال یہ کہ کیا ملک چلانے کے لیے موجودہ نومنتخب حکومت بھی آئی ایم ایف کے سامنے جھولی پھیلا دے گی؟
امید تو یہی ہے کہ تبدیلی کے نعرے سے معرض وجود میں آنے والی حکومت کم از کم آتے ہی آئی ایم ایف کے سامنے دامن پھیلانے والی روایت تو کم از کم تبدیل کرے گی۔ اب ایسا بھی نہیں کہ IMF ہی واحد نجات دہندہ ہے۔ ہمارا صدا بہار دوست چین اور تیل کی دولت سے بھرپور سعودی عرب کب کام آئیں گے؟ ویسے چین نے تو دو بلین ڈالر قرض کی بات خود ہی شروع کردی ہے۔ اگرچہ ابھی تک یہ آفر ہی ہے مگر اسٹاک مارکیٹ میں اس کا اتنا مثبت اثر یہ ہوا کہ ان چند دنوں میں ڈالر تقریباً سات روپے کی کمی پر آگیا اور روپے کو کچھ استحکام ملا۔
کل ہی ٹوئٹر پر ایک جاری گفتگو میں شامل ہوئی۔ کہا جارہا تھا کہ اگر تحریک انصاف کا فی ووٹر ایک ہزار روپے بھی عطیہ کرے تو پاکستان کو تو آئی ایم ایف کے سامنے کشکول رکھنے کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی۔ ویسے وہاں کچھ حضرات لاکھوں دینے کو تیار تھے۔ شرط صرف خان صاحب کی کال تھی!
سنیے، ذرا غور سے سنیے! بیچ سڑک کے بند ہونے والی گاڑی کتنی دیر تک دھکے سے سٹارٹ کرتے رہیں گے؟ معاشی استحکام کے لیے اب اپنے وسائل کو بروئے کار لانا اشد ضروری ہے، اور اس کام کو کرنے کا جذبہ ماریہ مونٹیسوری جیسا ہونا چاہیے جس نے وہاں سے کام کا آغاز کیا جہاں اسے بوجھ سمجھ کر چھوڑ دیا جاتا تھا۔
جب استحکام کی بات کریں گے تو ہمیں اپنی انڈسٹری کو مضبوط بنانا ہوگا۔ اپنی فیکٹریوں سے پیدا ہونے والی مصنوعات اور Made in Pakistan کو عزت دینا ہوگی، نہ کہ عام بلیڈ بھی چائینہ اور بھارت سے درآمد کرنے کو۔ کم از کم برانڈز کے چکر سے تو نکلیں۔ ''میڈ ان پاکستان'' ہی ہماری قومی برانڈ اور پہچان ہو۔ پھر دیکھیے پاکستان کا معاشی استحکام!
خیبر سے کشمیر تک پاکستان کو قدرت نے بے انتہاء خوبصورتی سے نوازا ہے۔ صحرا، سمندر، پہاڑ، آبشاریں اور کیسے کیسے نایاب چرند پرند۔ سیاحت کا شعبہ؛ تھوڑی سی سرمایہ کاری، فوری منافع، ملازمت کے مواقع اور مجموعی طور پر اقتصادی اور سماجی ترقی، نیک نامی اور قومی وقار۔
ایک اندازے کے مطابق ہر سال بیرون ملک سے آنے والے سیاحوں کی تعداد (پاکستان ٹورازم ڈیلیوپمنٹ کارپوریشن) کے مطابق ایک کڑور پچھتر لاکھ ہے؛ اور ان کا آنا جی ڈی پی پر 2.7 فیصد مثبت اثر ڈالتا ہے۔
جی جناب والا! یہ ہیں وہ ذرائع۔ مذاق نہیں، حقیقت میں یہی وہ ذرائع ہیں جن سے بغیر کسی بیرونی امداد کے اقتصادی ترقی کا پہیہ چلنا شروع ہوجائے گا۔
بیرون ملک مقیم 60 لاکھ پاکستانیوں کو بھلا کیسے بھلایا جاسکتا ہے؟ وہ بے چارے تو پتا نہیں کب سے اپنے ملک کے لیے کچھ کرنے کی خواہش لیے بیٹھے ہیں، مگر فضاء سازگار نہیں مل رہی۔ اعتماد کا فقدان نظر آتا ہے۔ آج اگر بیرون ملک پاکستانیوں کا اعتماد بحال کردیا جائے تو یقین مانیے وہ سب سے بڑے سرمایہ کار ثابت ہونگے پاکستان کے لیے۔ آپ ایک قدم اٹھائیے تو سہی!
بدقسمتی سے 53 ارب ڈالر کی درآمدات کے مقابلے میں ہماری برآمدات 22 ارب ڈالر رہ گئی ہیں جو کہ بجٹ خسارے کی ایک اور بڑی وجہ ہے۔ دنیا بھر میں ایک بڑے زرعی ملک کے طور پر جانے جانے والے پاکستان میں زراعت کی خستہ حالی اس کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ کسان کے ساتھ بیٹھیے، اس کے مسائل سے آگاہی حاصل کیجیے، کسان خوشحال ہوگا تو پاکستان خوشحال ہوگا۔ پھر دیکھیے گا درآمدات اور برآمدات کے یہ اعداد کیسے ''یوٹرن'' لیتے ہیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔