آنجہانی واجپائی کے بعد
پاکستان اور بھارت کے درمیان سیزفائر کا معاہدہ بھی اٹل بہاری واجپائی کے دور کی اہم پیش رفت ہے۔
دہلی سے کلکتہ جانے والی راجدھانی ایکسپریس پوری رفتار کے ساتھ رواں دواں تھی، جس میں اس دن انڈین مسافروں کے ساتھ سو کے لگ بھگ ایسے پاکستانی مسافر بھی سوار تھے جو دونوں ممالک کے درمیان پائے جانے والے تنائو کی کمی اور روایتی اختلافات کو حل کرنے کے لیے ٹریک ٹو ڈپلومیسی کے تحت کلکتہ کی طرف روا ںدواں تھے۔
تمام سہولیات سے آراستہ یہ گاڑی جب دہلی کے بعد بہار کے میدانی علاقے سے گزری تو اس کے متبادل بچھی دوسری لائن پر چلنے والی عام ٹرین کی کھڑکیوں، پائیدانوں، انجن کے آس پاس لٹکے اور چھت پر سفر کرتے پھٹے پرانے کپڑوں میں ملبوس مسافروں کو دیکھ کر میرے ساتھ بیٹھی پنجابی اور اردو کی معروف ادیبہ افضل توصیف مرحومہ مجھ سے کہنے لگیں کہ بظاہر خوش حال نظر آنے والا بھارت اندر سے کتنا غریب اور بے بس ہے۔ میں نے ان سے کہا تھا کہ آپ اس بات سے بھی اچھی طرح واقف ہیں کہ نہ صرف ان کی، بلکہ ہماری غربت اور بے بسی کی اصل وجہ کیا ہے اور اسے کیسے ختم کیا جاسکتا ہے۔
یہ ان دنوں کی بات ہے جب پی وی نرسمہا رائو بھارت کے وزیراعظم تھے۔ ان کی حکومت اپنی مدت پوری کر چکی تو اٹل بہاری واجپائی AIADMK کی مدد سے بھارت کے نئے وزیراعظم چنے گئے، مگر جے للیتا نے اپنی ہمدردیاں بھارتی جنتا پارٹی کے بجائے گانگریس کے پلڑے میں ڈالیں تو واجپائی کو اپنا عہدہ چھوڑنا پڑا اور ان کی جگہ ایچ وی دیوی گوڑا بھارت کے چودہویں وزیراعظم مقرر ہوئے۔
ایک سال کے بعد ان کی جگہ اندر کمار گجرال کو بھارت کا وزیراعظم مقرر کیا گیا تو پاکستان اور بھارت کے رشتوں میں کڑواہٹ کے بجائے اس لیے مٹھاس محسوس کی جانے لگی کہ ان کا تعلق پاکستان کے مردم خیز علاقے جہلم سے تھا۔ اسی دور میں سرحد کے دونوں جانب بسنے والے شہریوں کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ رابطوں میں آسانی اور تجارت وسیاحت کے علاوہ زندگی کے دیگر امور میں بہتری لانے پر بھی بات ہوئی، مگر اندر کمار گجرال لگ بھگ ایک سال تک ہی وزیراعظم کے عہدے پر براجمان رہے۔
جب اٹل بہاری واجپائی دوبارہ وزیراعظم مقرر ہوئے تو پاک بھارت تعلقات کی بہتری کے لیے نئے راستوں کی تلاش شروع ہوئی اور وہ دوستی بس کے ذریعے لاہور آئے تو ایسا لگا جیسے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کا نیا دور شروع ہونے والا ہے، مگر کارگل میں پیش آنے والے واقعات نے دوستی کے اس عمل کو ایک دفعہ پھر سرد خانے کی نذر کردیا۔
واجپائی نے اپنی سیاسی زندگی کی ابتدا انگریزوں سے آزادی حاصل کرنے کی جدوجہد سے شروع کی اور انھیں نوعمری میں ہی چوبیس دن کے لیے جیل جانا پڑا۔ اسی دوران وہ ایک ذہین صحافی اور بہترین مقرر کے طور پر سامنے آئے اور سیاسی میدان میں اختلاف کے باوجود نہرو جیسے سرکردہ سیاست دان بھی ان کی تعریف کیے بغیر نہ رہ سکے، مگر عملی زندگی میں ان کا اور کانگریس کا راستہ ہمیشہ الگ رہا، جس کی بنیادی وجہ شاید یہ بھی ہوسکتی ہے کہ وہ نوجوانی میں ہی RSS جیسی ہندو قوم پرست جماعت کے مداح رہے۔
اس کا انتہائی بھیانک ثبوت اس وقت سامنے آیا جب 2002 میں ہندوئوں کے مقدس مقام ایودھیا سے آنے والی ٹرین میں آگ لگنے کے بعد گجرات کے مسلمانوں کی دکانوں اور مکانوں کو جلانے کے ساتھ لوٹ مار اور قتل عام کا نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہوا۔ بدقسمتی سے بھارت کے موجودہ وزیراعظم اور RSS کی پشت پناہی کرنے والے نریندر مودی اس وقت گجرات کے وزیراعلیٰ تھے مگر اٹل بہاری واجپائی کو بھی ان فسادات سے بری الذمہ نہیں ٹھہرایا جاسکتا کہ وہ اس وقت وزیراعظم کی کرسی پر براجمان تھے۔
2004 کے بعد من موہن سنگھ اقتدار میں آئے تو ہندوستان کے حالات انتہائی سرعت سے بدلنے لگے تھے اور ہندو بنیاد پرستی سیکولر ازم کو اپنے پنجوں میں دبوچنے کے لیے نہ ختم ہونے والی اڑان بھر چکی تھی۔ اس سے قبل اٹل بہاری واجپائی کی حکومت کے زیر اثر ''سنگھ پریوار'' کو جو سیاسی طاقت نصیب ہوئی اس نے مودی کی موجودہ حکومت بننے تک یہ ثابت کر دیا کہ اب وہ دن تاریخ کا حصہ بن چکے ہیں جب بھارت کو سیکولر ریاست کہا جاتا تھا۔
نریندر مودی کے موجودہ دور تک پہنچتے پہنچتے بھارت نے اپنے آپ کو دنیا کی چھٹی معیشت تو تسلیم کروا لیا، مگر اس کا جمہوری چہرہ آہستہ آہستہ ''وندے ماترم'' جیسے نعروںکے نیچے دبتا چلا گیا، جن کی گونج میں اقلیتوں سے جینے کا حق بھی چھینا جارہا ہے اور بھارت کو سیکولر ملک کے بجائے مذہبی ریاست بنانے کی تیاریاں بھی زور و شور سے جاری ہیں۔ اس کے باوجود اٹل بہاری واجپائی کے دور کو پاک بھارت تعلقات کی بہتری کا بہترین دور کہا جاسکتا ہے اور ان کی اسی کوشش کی وجہ سے پاکستان کے امن پسند حلقے ان کی تعریف بھی کرتے ہیں، جس کی ایک جھلک ان کے مرنے کے بعد میڈیا میں آنے والی خبروں اور پاکستانی حکومت کی جانب سے ان کی آخری رسومات میں شرکت کے لیے بھیجے جانے والے وفد سے باآسانی لگائی جاسکتی ہے۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان سیزفائر کا معاہدہ بھی اٹل بہاری واجپائی کے دور کی اہم پیش رفت ہے جس کی وجہ سے کئی برسوں تک سرحدوں پر لگی توپیں خاموش رہیں، مگر پچھلے کچھ برسوں کے دوران اس معاہدے کی مسلسل خلاف ورزی ہورہی ہے۔
تمام تر اعتراضات کے باوجود اٹل بہاری واجپائی نہ صرف ایک منجھے ہوئے سیاست دان تھے بلکہ ان جیسا اعتدال پسند اور دھیمے لہجے والا انسان شاید اب بھارتی سیاست کو کبھی نصیب نہ ہو۔ ادب اور صحافت کے علاوہ شاعری سے بھی ان کا گہرا تعلق تھااور وہ لگ بھگ پندرہ کتابوں کے مصنف بھی تھے۔ بہت کم لوگ اس بات سے واقف ہیں کہ اٹھارہ سال قبل لاہور سے بھی ان کی نظموں کا ایک مجموعہ ''ہم جنگ نہ ہونے دیں گے'' کے عنوان سے چھپ کر مقبول ہوچکا ہے اور اسی عنوان کے تحت ان کی نظم امن کے متوالوں میں ہمیشہ مقبول رہی۔
بھارت پاکستان پڑوسی، ساتھ ساتھ رہنا ہے
پیار کریں یا وار کریں، دونوں کو ہی سہنا ہے
روسی بم ہوں یا امریکی، خون ایک بہنا ہے
جو ہم پر گزری، بچوں کے سنگ نہ ہونے دیں گے
ہم جنگ نہ ہونے دیں گے
چند دن قبل پاکستان کے نئے وزیراعظم کی حلف برداری کے موقعے پر نوجوت سنگھ سدھو کی پاکستان آمد کو ہم امن کی اس کوشش کا اگلا حصہ کہہ سکتے ہیں، جو اٹل بہاری واجپائی کے دور میں پروان چڑھا تھا مگر ابھی تک شرمندہ تعبیر نہ ہوسکا۔ اس عمل کو پاک بھارت کے گھٹن زدہ ماحول میں تازہ ہوا کا جھونکا سمجھنا چاہیے اور یہ بھی سوچنا چاہیے کہ اگر مسائل جنگ کے ذریعے حل ہوتے تو ترکی اور امریکا میں اب تک اس کی ابتدا ہوچکی ہوتی، مگر اب جنگ کے بجائے تجارت اور محبت کے ذریعے ہی مختلف ممالک ایک دوسرے کو مغلوب کرسکتے ہیں۔