ایک اہم علمی کارنامہ
ہر علم زمانے کے ساتھ تبدیلیوں سے آشنا ہوتا رہتا ہے، اس لیے اسے اپنے عہد کا نبض شناس ہونا ضروری ہوتا ہے۔
13 اگست 2018 کو رات 8 بجے فاران کلب انٹرنیشنل میں ڈاکٹر آفتاب مضطر کے پی ایچ ڈی کے تنقیدی مقالے ''اردو کا عروضی نظام اور عصری تقاضے'' کی تقریب رونمائی منعقد ہوئی، اس مقالے پر جس کے نگراں ڈاکٹر شاداب احسانی تھے، جامعہ کراچی نے ان کو پی ایچ ڈی کی ڈگری تفویض کی ہے۔
علم عروض عرصے سے ہمارے شعرا اور علما کی عدم توجہی کا شکار رہا ہے اور اب اس کے ماہرین معاشرے میں خال خال ہی نظر آتے ہیں۔ مگر جب کسی علم کے ماہرین عنقا ہونے لگیں تو جو ماہر باقی رہ جائیں ان کی اہمیت میں اضافہ ہوجاتا ہے، اس اعتبار سے آفتاب مضطر کی علمی اور ادبی اہمیت بڑھ گئی ہے اور ان کے علمی قامت میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔
خیال یہ تھا کہ عروض کا علم اب ناپید ہوگیا ہے مگر کوئی علم ضایع نہیں ہوتا۔ البتہ زمانے کی سرد مہری بعض علوم کو پردوں میں ڈال دیتی ہیں۔ آفتاب مضطر نے اس علم عام باز آفرینی کا فریضہ انجام دیا ہے اور ایک ایسی مربوط، جامع اور مفید کتاب مہیا کی ہے جس نے ایک بار پھر عروض کی اہمیت و افادیت کو زندہ کردیا ہے۔
اس کتاب میں انھوں نے اس صنف پر لکھی گئی تصانیف کا بھی ناقدانہ جائزہ لیا ہے اور ان کی خوبیوں اور خامیوں پر سیر حاصل تبصرہ کیا ہے۔
ہمارے یہاں عہد سرسید سے ہی انگریزی ادب کے زیر اثر اور اس سے مرعوبیت کے نتیجے میں ناقدین نے شعر میں وزن کے لازمی ہونے سے ہی انکار کردیا۔ حالی مقدمہ شعر و شاعری میں واضح طور پر وزن کو شعر کے لیے لازمی قرار دینے سے انکاری ہیں۔ حالانکہ عربوں نے بہ توسط ابو عبدالرحمن خلیل پہلی بار علم عروض کو ایجاد و مرتب کیا اور عرب ناقدین نے شعر کی تعریف ہی ''کلام موزوں'' کی ہے۔ یعنی خلیل کی مقرر کردہ بحور اور اس کے اوزان کو شعر کا جزو لازم قرار دیا گیا۔ اب جس کلام میں وزن نہ ہو وہ شعر کی تعریف سے خارج ہوجاتا ہے۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ جس کو شعر کہنا ہو یا جس کو شعر کے حسن پر گفتگو کرنی ہو وہ علم عروض سے شناسائی حاصل کرے، یعنی شاعر اور نقاد دونوں کے لیے علم عروض سے واقفیت لازمی ہے۔
علم عروض کی اسی اہمیت کو پیش نظر رکھتے ہوئے آفتاب مضطر نے اس موضوع کو اپنا موضوع تحقیق بنایا اور حق تو یہ ہے کہ تحقیق کا حق ادا کردیا۔
یوں بھی ان کا سلسلہ تلمذیوں سے ہے کہ انھوں نے فدا خالدی کے سامنے زانوئے تلمذ طے کیا جو حضرت بے خود دہلوی کے جانشین تھے۔ اور یوں وہ داغؔ اور ذوقؔ سے ہوتے ہوئے شاہ حاتم تک تلمیذی سند کے حامل بنتے ہیں اور شاعر ہی نہیں عروضی بھی قرار پاتے ہیں۔
ہر علم زمانے کے ساتھ تبدیلیوں سے آشنا ہوتا رہتا ہے، اس لیے اسے اپنے عہد کا نبض شناس ہونا ضروری ہوتا ہے۔ مضطر نے اسی لیے اپنے تحقیقی مقالے میں ''جدید عصری تقاضوں اور عروض'' کے موضوع پر گفتگو کی ہے۔ اس موضوع پر انشا اﷲ خاں انشا، ڈاکٹر گیان چند جیت اور دیگر چند تحقیق کار اپنی تجاویز رکھ چکے ہیں۔ مگر بیشتر تجاویز قابل عمل نہیں ہوتیں یا اردو مزاج سے متصادم ہیں، اس لیے ان پر عمل دشوار ہے۔ البتہ جو تجاویز اور مزاج سے ہم آہنگ ہیں ان کو اختیار کرنے میں کوئی حرج نہیں اور یہی آفتاب مضطر کا بھی موقف ہے۔
تقریب کی ابتدا تلاوت کلام مجید سے ہوئی، تلاوت قاری صاحب نے کی۔ اس کے بعد نعت پیش کی گئی، معروف نعت خواں شہزاد عالم نے آفتاب مضطر ہی کی نعت سنائی جو غالب کی زمین میں تھی اور اس پر حاضرین نے داد بھی دی۔
ناصر شمسی نے ایک بڑا جاندار اور معنی خیز مقالہ پڑھا جو اپنے اختصار کے باوجود خاصے کی چیز تھا، جس نے مضطر کے مقالے کے خدو خال واضح کیے تو اس کی افادیت پر بھی مہر لگادی۔
مشہور شاعر اور دانشور خالد حسین نے اپنی گفتگو میں مضطر کو ان کے مقالے کی اہمیت اور افادیت کے پیش نظر مبارکباد پیش کی اور اس دور میں علم عروض کے احیا کی ان کی کوشش کو خراج تحسین پیش کیا۔
ایاز محمود نے بھی عروض کی اہمیت اور اس سے واقفیت کو ضروری قرار دیا اور کہاکہ انھیں جب ضرورت محسوس ہوتی ہے وہ مضطر سے رجوع کرتے ہیں۔ عروض سے شدبد تو ہم بھی رکھتے ہیں مگر اس پر ماہرانہ نظر مضطر ہی کی ہے جو اس کی باریکیوں سے بخوبی آگاہ ہیں اور وقتاً فوقتاً ہماری رہنمائی کرتے رہتے ہیں اور ہم اس سے استفادہ کرتے ہیں۔ انھوں نے کتاب کے سرورق کی اشاریت اور اس کی وضاحت بڑی تفصیل سے کی۔
مسدور احمد زئی نے بڑے پرجوش الفاظ میں مضطر کے مقالے کی اہمیت پر روشنی ڈالی اور اپنی مرصع گفتگو کے ذریعے محفل کو گرمادیا اور سامعین سے داد بھی سمیٹی۔
احمد زئی کی مرصع و پرمغز گفتگو کے بعد راقم الحروف نے بھی آفتاب مضطر کے کام، ان کی محنت، لگن اور کتاب کی جامعیت پر گفتگو کی اور واضح کیا کہ علوم اپنے عہد کی عدم توجہی کا شکار تو ہوسکتے ہیں مگر مرتے نہیں۔ عروض تو شعر کے لیے لازمی چیز ہے اس لیے اس کی موت بے معنی ہے۔
محفل کے صدر شکیل عادل زادہ نے مختصر صدارتی خطبے میں مضطر کو مبارکباد بھی دی اور ان کے کام کی اہمیت کی توثیق بھی فرمائی۔
اس سے قبل صاحب کتاب نے ان تمام لوگوں کا شکریہ ادا کیا جو مقالے کی تحریر کے دوران کسی بھی طرح ان کے معاون و مددگار رہے خصوصاًان کے اہل خانہ، احباب اور کتب خانوں کے مہتمم حضرات۔ تقریب کے خاتمے کے بعد حاضری کے لیے طعام کا بندوبست بھی کیا گیا تھا جو انتہائی نظم و ضبط سے انجام کو پہنچا۔
علم عروض عرصے سے ہمارے شعرا اور علما کی عدم توجہی کا شکار رہا ہے اور اب اس کے ماہرین معاشرے میں خال خال ہی نظر آتے ہیں۔ مگر جب کسی علم کے ماہرین عنقا ہونے لگیں تو جو ماہر باقی رہ جائیں ان کی اہمیت میں اضافہ ہوجاتا ہے، اس اعتبار سے آفتاب مضطر کی علمی اور ادبی اہمیت بڑھ گئی ہے اور ان کے علمی قامت میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔
خیال یہ تھا کہ عروض کا علم اب ناپید ہوگیا ہے مگر کوئی علم ضایع نہیں ہوتا۔ البتہ زمانے کی سرد مہری بعض علوم کو پردوں میں ڈال دیتی ہیں۔ آفتاب مضطر نے اس علم عام باز آفرینی کا فریضہ انجام دیا ہے اور ایک ایسی مربوط، جامع اور مفید کتاب مہیا کی ہے جس نے ایک بار پھر عروض کی اہمیت و افادیت کو زندہ کردیا ہے۔
اس کتاب میں انھوں نے اس صنف پر لکھی گئی تصانیف کا بھی ناقدانہ جائزہ لیا ہے اور ان کی خوبیوں اور خامیوں پر سیر حاصل تبصرہ کیا ہے۔
ہمارے یہاں عہد سرسید سے ہی انگریزی ادب کے زیر اثر اور اس سے مرعوبیت کے نتیجے میں ناقدین نے شعر میں وزن کے لازمی ہونے سے ہی انکار کردیا۔ حالی مقدمہ شعر و شاعری میں واضح طور پر وزن کو شعر کے لیے لازمی قرار دینے سے انکاری ہیں۔ حالانکہ عربوں نے بہ توسط ابو عبدالرحمن خلیل پہلی بار علم عروض کو ایجاد و مرتب کیا اور عرب ناقدین نے شعر کی تعریف ہی ''کلام موزوں'' کی ہے۔ یعنی خلیل کی مقرر کردہ بحور اور اس کے اوزان کو شعر کا جزو لازم قرار دیا گیا۔ اب جس کلام میں وزن نہ ہو وہ شعر کی تعریف سے خارج ہوجاتا ہے۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ جس کو شعر کہنا ہو یا جس کو شعر کے حسن پر گفتگو کرنی ہو وہ علم عروض سے شناسائی حاصل کرے، یعنی شاعر اور نقاد دونوں کے لیے علم عروض سے واقفیت لازمی ہے۔
علم عروض کی اسی اہمیت کو پیش نظر رکھتے ہوئے آفتاب مضطر نے اس موضوع کو اپنا موضوع تحقیق بنایا اور حق تو یہ ہے کہ تحقیق کا حق ادا کردیا۔
یوں بھی ان کا سلسلہ تلمذیوں سے ہے کہ انھوں نے فدا خالدی کے سامنے زانوئے تلمذ طے کیا جو حضرت بے خود دہلوی کے جانشین تھے۔ اور یوں وہ داغؔ اور ذوقؔ سے ہوتے ہوئے شاہ حاتم تک تلمیذی سند کے حامل بنتے ہیں اور شاعر ہی نہیں عروضی بھی قرار پاتے ہیں۔
ہر علم زمانے کے ساتھ تبدیلیوں سے آشنا ہوتا رہتا ہے، اس لیے اسے اپنے عہد کا نبض شناس ہونا ضروری ہوتا ہے۔ مضطر نے اسی لیے اپنے تحقیقی مقالے میں ''جدید عصری تقاضوں اور عروض'' کے موضوع پر گفتگو کی ہے۔ اس موضوع پر انشا اﷲ خاں انشا، ڈاکٹر گیان چند جیت اور دیگر چند تحقیق کار اپنی تجاویز رکھ چکے ہیں۔ مگر بیشتر تجاویز قابل عمل نہیں ہوتیں یا اردو مزاج سے متصادم ہیں، اس لیے ان پر عمل دشوار ہے۔ البتہ جو تجاویز اور مزاج سے ہم آہنگ ہیں ان کو اختیار کرنے میں کوئی حرج نہیں اور یہی آفتاب مضطر کا بھی موقف ہے۔
تقریب کی ابتدا تلاوت کلام مجید سے ہوئی، تلاوت قاری صاحب نے کی۔ اس کے بعد نعت پیش کی گئی، معروف نعت خواں شہزاد عالم نے آفتاب مضطر ہی کی نعت سنائی جو غالب کی زمین میں تھی اور اس پر حاضرین نے داد بھی دی۔
ناصر شمسی نے ایک بڑا جاندار اور معنی خیز مقالہ پڑھا جو اپنے اختصار کے باوجود خاصے کی چیز تھا، جس نے مضطر کے مقالے کے خدو خال واضح کیے تو اس کی افادیت پر بھی مہر لگادی۔
مشہور شاعر اور دانشور خالد حسین نے اپنی گفتگو میں مضطر کو ان کے مقالے کی اہمیت اور افادیت کے پیش نظر مبارکباد پیش کی اور اس دور میں علم عروض کے احیا کی ان کی کوشش کو خراج تحسین پیش کیا۔
ایاز محمود نے بھی عروض کی اہمیت اور اس سے واقفیت کو ضروری قرار دیا اور کہاکہ انھیں جب ضرورت محسوس ہوتی ہے وہ مضطر سے رجوع کرتے ہیں۔ عروض سے شدبد تو ہم بھی رکھتے ہیں مگر اس پر ماہرانہ نظر مضطر ہی کی ہے جو اس کی باریکیوں سے بخوبی آگاہ ہیں اور وقتاً فوقتاً ہماری رہنمائی کرتے رہتے ہیں اور ہم اس سے استفادہ کرتے ہیں۔ انھوں نے کتاب کے سرورق کی اشاریت اور اس کی وضاحت بڑی تفصیل سے کی۔
مسدور احمد زئی نے بڑے پرجوش الفاظ میں مضطر کے مقالے کی اہمیت پر روشنی ڈالی اور اپنی مرصع گفتگو کے ذریعے محفل کو گرمادیا اور سامعین سے داد بھی سمیٹی۔
احمد زئی کی مرصع و پرمغز گفتگو کے بعد راقم الحروف نے بھی آفتاب مضطر کے کام، ان کی محنت، لگن اور کتاب کی جامعیت پر گفتگو کی اور واضح کیا کہ علوم اپنے عہد کی عدم توجہی کا شکار تو ہوسکتے ہیں مگر مرتے نہیں۔ عروض تو شعر کے لیے لازمی چیز ہے اس لیے اس کی موت بے معنی ہے۔
محفل کے صدر شکیل عادل زادہ نے مختصر صدارتی خطبے میں مضطر کو مبارکباد بھی دی اور ان کے کام کی اہمیت کی توثیق بھی فرمائی۔
اس سے قبل صاحب کتاب نے ان تمام لوگوں کا شکریہ ادا کیا جو مقالے کی تحریر کے دوران کسی بھی طرح ان کے معاون و مددگار رہے خصوصاًان کے اہل خانہ، احباب اور کتب خانوں کے مہتمم حضرات۔ تقریب کے خاتمے کے بعد حاضری کے لیے طعام کا بندوبست بھی کیا گیا تھا جو انتہائی نظم و ضبط سے انجام کو پہنچا۔