وزیراعظم عمران خان کا قوم سے خطاب
وزیراعظم نے اپنے غیر روایتی خطاب میں ملک کو درپیش اہم اور سنگین مسائل کا نکات وار ذکر کیا۔
وزیراعظم عمران خان نے قوم سے اپنے پہلے خطاب میں قوم کو اپنی پارٹی کا روڈ میپ دے دیا۔ وزیراعظم نے اپنے غیر روایتی خطاب میں ملک کو درپیش اہم اور سنگین مسائل کا نکات وار ذکر کیا اور اپنے لکھے ہوئے پوائنٹس کی توضیح و تشریح ایشوز کی باریکیوں اور حساسیت کے حوالہ سے کیں۔
وزیراعظم نے کرپشن کے خاتمے کی جنگ جاری رکھنے کا اعلان کیا جب کہ وزیراعظم ہائوس کو تحقیقی یونیورسٹی، قرضے نہ مانگنے، سادگی اپنانے، لوٹی دولت کو واپس لانے، بھاشا ڈیم کے فوری قیام، تعلیم، صحت، روزگار کی فراہمی، 50 لاکھ گھروں کی تعمیر، اربوں درخت لگانے، کمزور طبقے کو اوپر لانے، سستے اورفوری انصاف کی فراہمی، امن وامان کی بحالی، دہشتگردی کے خاتمہ، ہمسایہ ممالک سے دوستانہ تعلقات قائم کرنے، کھیل کے میدان اور پارک بنانے اور آلودگی کے خاتمہ کا عہد کیا۔
وزیراعظم نے زرعی اصلاحات، صاف پانی کی فراہمی، سول سروسز اور پولیس میں اصلاحات، ٹیکس کا نظام بہترین، ایف آئی اے کے تحت منی لانڈرنگ کی روک تھام، بیرون ملک لوٹی ہوئی دولت واپس لانے کے لیے ٹاسک فورس کے قیام کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ وزیراعظم ہائوس میں نہیں رہیں گے، کوئی گورنر، گورنر ہائوس میں نہیں رہے گا، دو ملازم اور دو گاڑیوں کے علاوہ تمام لگژری گاڑیاں نیلام کردیں گے، اسٹریٹ چلڈرن، بیوائوں، معذوروں کی بہتری اور زکوٰۃ کا نظام بہتر کرنے کا انھوں نے عندیہ دیا، وہ جنوبی پنجاب کو الگ صوبہ بنائیں گے، بلدیاتی نظام کو بہتراور اختیارات نچلی سطح تک لائیں گے۔
وزیراعظم کا کہنا تھا کہ اس وقت ڈالر کی ضرورت ہے، سمندرپار پاکستانی سرمایہ کاری کریں، بچوں سے زیادتی کی روک تھام، بیرون ملک قید پاکستانیوں کی قانونی معاونت کریں گے، سرکاری تعلیمی اداروں کی بہتری، جب کہ مدارس کے 24 لاکھ بچوں کو قومی دھارے میں لایا جائے گا۔ اپنے خطاب میں انھوں نے ملک کو ''مدینہ جیسی ریاست'' بنانے کا عزم دہرایا۔
حقیقت یہ ہے کہ تحریک انصاف کا ایجنڈا اور وزیراعظم کا جامع روڈ میپ عمران خان کی 22 سالہ سیاسی جدوجہد کا عکس ہے، جس میں وزیراعظم نے اپنا دل قوم کے سامنے رکھ دیا، وزیراعظم لب تشنۂ تقریر نظر نہیں آئے، بلکہ ہر بات کھل کر بیان کی، اور نپے تلے انداز میں اپنا پروگرام اہل وطن کے سامنے پیش کیا، چنانچہ دیکھا جاسکتا ہے کہ اپنے غیر روایتی اور بے تکلفانہ خطاب میں محولہ بالا تمام اہم نکات کا احاطہ کیا جو بلاشبہ اعلان کردہ فیصلوں کے بین السطور میں ایک مضطرب سیاسی قائد اور امید آشنا وزیراعظم کے جذبات کی مکمل عکاسی کا مظہر تھا۔ انھوں نے قوم کی نبض پر ہاتھ رکھنے کی کامیاب کوشش کی۔ تاہم اب وقت ثابت کرے گا کہ ان کے خیالات، افکار، حکومتی اقدامات اور دوررس فیصلے عملی نتائج کے اعتبار سے عوام کو کتنا ریلیف دے سکیں گے اور تبدیلی کا عمل یا نیا پاکستان جنم لینے میں کتنا وقت لے گا۔
وزیراعظم کا روڈ میپ ہمہ جہتی اور کثیرالمقاصد ہے اور لازم ہے کہ اس پر عملدرآمد کے لیے وزیراعظم کی ٹیم عمران خان کے وژن، تصور، اور تعمیرو ترقی کے بنیادی تقاضوں کا گہرا ادراک کرے اور قوم کی توقعات پر پورا اترنے میں اپنی انتھک محنت اور کمٹمنٹ میں کوئی کسر نہ چھوڑے۔ تحریک انصاف کی قیادت اور رہنمائوں سمیت کارکنوں کا بھی فرض ہے کہ وزیراعظم پر عوامی توقعات کا اعصاب شکن بوجھ نہ ڈالا جائے، وہ گولائتھ نہیں، بلکہ کوشش ہونی چاہیے کہ حکومت ان خدشات، اندیشوں، اپوزیشن کے تحفظات اور حکومتی ناکامی کے مفروضوں perceptions کو بھی سامنے رکھے، تاکہ کوئی ڈیزاسٹر رونما نہ ہو اور حکومت اسموتھ سیلنگ کے ساتھ تبدیلی کے ایجنڈے کی تکمیل کرسکے۔
امید کی جانی چاہیے حکومت ابتدائی100 دنوں کے پروگرام کی اطمینان بخش جھلک دکھلائے، جس سے قوم کو یقین ہوجائے کہ وزیراعظم جو کہہ رہے ہیں وہ اسے پورا بھی کر دکھائیں گے۔ حکومت اور عوام دونوں کو حقیقت پسندی سے کام لینا ہوگا۔ ملکی تقدیر اور پورے سسٹم کی تطہیر و تعمیر کے لیے جو وسائل دستیاب ہیں وہ روڈ میپ کے حوالہ سے کافی نہیں، اس لیے عمران خان نے دردمندی سے اپیل کی قوم اپنی دنیا آپ پیدا کرے، اپنے پیروں پر کھڑی ہو، کسی کے سامنے کشکول پھیلانے والی قوم کی دنیا میں کوئی عزت نہیں کرتا۔
اس میں شک نہیں کہ وزیراعظم کو ملک کے 70 سالہ سیاسی، معاشی اور سماجی فرسودگی اور اندوہ ناک مسائل کا گراں بار ملبہ ورثہ میں ملا ہے، ملک کی سیاسی تشکیل نو اور داخلی امن و سلامتی کے تناظر میں جرأت مندانہ فیصلوں کی ضرورت ہے، کیونکہ چیلنجوں کے مہیب اژدہے اور مگرمچھ منہ کھولے کھڑے ہیں، ملکی معیشت گرداب میں پھنسی ہے، وزیراعظم کا عزم ہے کہ وہ آئی ایم ایف سمیت کسی مالیاتی ادارے یا کسی ملک سے قرضہ نہیں لیں، قوم کی دولت جنہوں نے لوٹ کر بیرون ملک بینکوں میں جمع کر رکھی ہے اسے واپس لاکر قومی خزانے میں جمع کیا جائے گا، وزیراعظم نے ایف بی آر کی تنظیم نو کا اعلان کیا، ٹیکس نیٹ بڑھانے اور ہر پاکستانی سے استدعا کی ہے کہ وہ ٹیکس دیں، وزیراعظم نے اس ٹیکس کے پیسے کی خود حفاظت کا ذمہ اٹھانے کی قسم کھائی ہے۔
حزب اختلاف کی جماعتوں نے نومنتخب وزیراعظم عمران خان کے قوم سے پہلے خطاب کو مایوس کن اور غیرسنجیدہ قراردیتے ہوئے کہا ہے کہ اس میں پرویز مشرف کے 5 نکاتی ایجنڈے کے سوا کچھ نیا نہیں تھا، جن مسائل کا ذکر کیا وہ سب گپ شپ تھی۔ اپوزیشن رہنمائوں مصدق ملک، غلام احمد بلور، سعید غنی، احسن اقبال اور دیگر نے اپنے ردعمل میں کہا کہ عمران خان نے صحت، پانی اور تعلیم کے حوالے سے اچھی باتیں کی ہیں، تاہم اگر انھوں نے خیبرپختونخوا میں کام کیا ہوتا تو ان کی باتوں میں وزن ہوتا، تحریک انصاف نے کے پی کے میں 5 برس حکومت کی مگر ان کی کارکردگی نظر نہیں آتی، تقریر میں سب سے اہم چیز خارجہ پالیسی کا ذکر تک نہیں تھا، وہ باتیں کرتے کیوں ہو جو کر نہیں سکتے۔
سیاسی حلقوں نے وزیراعظم کے خطاب پر تبصرہ کرتے ہوئے یہ بات بھی کی کہ مخالفین سے دو دو ہاتھ کرنے کے لیے وزیراعظم نے کڑے اور بے رحم احتساب کا اشارہ کیا ہے، ان حلقوں کے مطابق احتساب اگر بلاامتیاز ہو تو کسی کو شکایت نہ ہوگی مگر انتقام سے خود حکومت کی توجہ اپنے انقلابی پروگرام سے ہٹ سکتی ہے، پھر بدقسمتی ہوگی کہ مفاد پرست عناصر انتشار اور منتقمانہ سیاست کا پینڈورا بکس بھی کھولیں گے۔
اس لیے تدبر کا تقاضا ہے کہ وزیراعظم کی ٹیم اپنے اصل ہدف پر نگاہ رکھے، اور ماضی کے بکھیڑوں میں الجھنے کے بجائے اپنا نیا سفر شروع کرے، احتساب کے لیے نیب کو مضبوط بنانے کا فیصلہ خوش آیند ہے، لہٰذا جو لوگ ملکی دولت کی لوٹ کھسوٹ میں ملوث ہیں ان کا احتساب ضرورہونا چاہیے، لیکن جو معاملات عدلیہ اور احتسابی اداروں سے متعلق ہیں، انھیں آزادانہ طور پر اپنا کام کرنے دیا جائے، نیب کی اب تک کی کارروائی شفافیت کے ساتھ جاری ہے۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ نومنتخب وزیراعظم عمران خان نے 9 بج کر 36 منٹ پر قوم سے اپنا پہلا خطاب شروع کیا، شہریوں کے مطابق عمران خان نے روایات کے برعکس قوم سے پوائنٹس کی بنیاد پر فی البدیہہ خطاب کیا، غیر روایتی خطاب دور تک اثر چھوڑ گیا ہے، وزیراعظم عمران خان کی تقریر کا ہیش ٹیگ ٹویٹر پر ٹاپ ٹرینڈ بنا رہا، سوشل میڈیا صارفین تجزیوں و تبصروں میں اپنی رائے کا اظہار کرتے رہے۔
فیس بک یوزرز کے مطابق وزیراعظم کا خطاب غیر روایتی، بے لاگ اور عوام سے مکالمے کے انداز میں تھا، ایک ٹویٹ میں متوازن تبصرہ کچھ یوں کیا گیا وزیراعظم عمران خان کے قوم سے خطاب میں ایک بات واضح ہوگئی کہ ان کا وژن محض اقتدار پر مسلط رہنا نہیں بلکہ اس پاک سرزمین کے مسائل حل کرنا، اس کے عوام کو اس کا کھویا ہوا مقام واپس دلانا ہے۔
دریں اثنا 21 رکنی وفاقی کابینہ نے پیر کو اپنے عہدوں کا حلف لیا، حلف اٹھانے والی کابینہ میں 16 وفاقی وزرا اور 5 مشیر شامل ہیں، حلف برداری کی تقریب ایوان صدر میں ہوئی، صدر مملکت ممنون حسین نے وزراء سے حلف لیا۔ سیاسی مبصرین اور موقر معاصرین نے وفاقی کابینہ کی تشکیل کے پہلے مرحلہ پر کچھ تحفظات کا اظہار کیا ہے، بنیادی بات یہ ہے کہ وزیراعظم ایک غیر روایتی طرز سیاست کے موئید ہیں، وہ سماج کی کایا پلٹنے میں گہری دلچسپی لے رہے ہیں، اس لیے ان کے تصور اور عملی ایجنڈے کی تکمیل میں وفاقی کابینہ کی شمولیت اہمیت کی حامل ہے۔
وزیراعظم کی کابینہ کو اہلیت، بااختیاریت اور فیصلہ سازی میں مہارت دکھانا ہوگی، وہ ''اسٹیٹس کو'' کو ماضی کا قصہ بنائیں، وزیراعظم نے عبوری طور پر وزارت داخلہ کا پورٹ فولیو اپنے پاس رکھا ہے، جو محل نظر ہے، تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ملک دہشتگردی کی ہولناکیوں کے گہرے تجربات اور حوادث سے گزرا ہے، اس وزارت کے پاس نادرا اور پاسپورٹ سمیت داخلی امن وسلامتی کے صد ہا معاملات ہیں، اس لیے حکومت وہ غلطی نہ کرے جس کی ن لیگ حکومت اور قوم کل وقتی وزیر خارجہ اور وزیر دفاع سے گریز کی صورت میں بھاری قیمت ادا کرچکی ہے، یہ بحث بھی قابل غور ہے کہ وزیراعظم نے خارجہ امور کے بڑے تناظر پر کوئی واضح پالیسی کا اعلان نہیں کیا، اور بعض اہم حساس معاملات پر حکومتی انداز نظر سامنے نہیں لایا گیا۔
ملک کے فہمیدہ مفکر اور سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ گڈ گورننس کے لیے ضروری ہے کہ وفاقی کابینہ سمیت صوبائی کابینائیں ایک پیج پر ہوں، کیونکہ 18 ویں ترمیم کے بعد صوبائی حکومتوں کے پاس کرنے کو بہت سارے کام ہیں، پی ٹی آئی کے لیے اہم سوال ان الیکٹیبلز اور آزاد ارکان کا ہے جو اہم وزراتی عہدوں پر فائز ہونے کے نتیجہ میں اقتدار کے مزے نہیں لوٹ سکیں گے کیونکہ عمران کا پروگرام ان کے لیے ٹیسٹ کیس بن گیا ہے، قوم ان سے نتائج کی توقع رکھتی ہے، ایگزیکٹو کی طاقت منتشر نہیں ہونی چاہیے اور نہ روڈ میپ سے انحراف کی کوئی گنجائش رکھی جائے۔ وفاقی کابینہ حکومت کے ایجنڈے کی تکمیل کا کلیدی کارواں ہے، سارا سفر وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی دور اندیشی، تعلقات کار، یک جہتی اور سیاسی و نظریاتی ہم آہنگی کا تقاضا کرتا ہے۔
وزیراعظم نے بلاشبہ ایک قابل عمل پروگرام کی ابتدا کی ہے، روڈ میپ ابھی کاغذ پر ہے، عمران خان نے اپنے قول وفعل سے اس ''معاہدہ عمرانی'' میں اپنا رنگ بھرنا ہے۔ قوم انقلاب، تبدیلی اور سیاسی جدلیات کے فیصلہ کن دوراہے پر آگئی ہے، یہ قوم کے لیے سنہری گھڑی ہے۔ تحریک انصاف پر تاریخ کی نگاہ خاص ہے۔ اللہ جل شانہ سے دعا ہے کہ ہمارے نئے حکمرانوں کو قومی امنگوں کی صحیح ترجمانی کرنے اور تبدیلی کے عمل کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
وزیراعظم نے کرپشن کے خاتمے کی جنگ جاری رکھنے کا اعلان کیا جب کہ وزیراعظم ہائوس کو تحقیقی یونیورسٹی، قرضے نہ مانگنے، سادگی اپنانے، لوٹی دولت کو واپس لانے، بھاشا ڈیم کے فوری قیام، تعلیم، صحت، روزگار کی فراہمی، 50 لاکھ گھروں کی تعمیر، اربوں درخت لگانے، کمزور طبقے کو اوپر لانے، سستے اورفوری انصاف کی فراہمی، امن وامان کی بحالی، دہشتگردی کے خاتمہ، ہمسایہ ممالک سے دوستانہ تعلقات قائم کرنے، کھیل کے میدان اور پارک بنانے اور آلودگی کے خاتمہ کا عہد کیا۔
وزیراعظم نے زرعی اصلاحات، صاف پانی کی فراہمی، سول سروسز اور پولیس میں اصلاحات، ٹیکس کا نظام بہترین، ایف آئی اے کے تحت منی لانڈرنگ کی روک تھام، بیرون ملک لوٹی ہوئی دولت واپس لانے کے لیے ٹاسک فورس کے قیام کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ وزیراعظم ہائوس میں نہیں رہیں گے، کوئی گورنر، گورنر ہائوس میں نہیں رہے گا، دو ملازم اور دو گاڑیوں کے علاوہ تمام لگژری گاڑیاں نیلام کردیں گے، اسٹریٹ چلڈرن، بیوائوں، معذوروں کی بہتری اور زکوٰۃ کا نظام بہتر کرنے کا انھوں نے عندیہ دیا، وہ جنوبی پنجاب کو الگ صوبہ بنائیں گے، بلدیاتی نظام کو بہتراور اختیارات نچلی سطح تک لائیں گے۔
وزیراعظم کا کہنا تھا کہ اس وقت ڈالر کی ضرورت ہے، سمندرپار پاکستانی سرمایہ کاری کریں، بچوں سے زیادتی کی روک تھام، بیرون ملک قید پاکستانیوں کی قانونی معاونت کریں گے، سرکاری تعلیمی اداروں کی بہتری، جب کہ مدارس کے 24 لاکھ بچوں کو قومی دھارے میں لایا جائے گا۔ اپنے خطاب میں انھوں نے ملک کو ''مدینہ جیسی ریاست'' بنانے کا عزم دہرایا۔
حقیقت یہ ہے کہ تحریک انصاف کا ایجنڈا اور وزیراعظم کا جامع روڈ میپ عمران خان کی 22 سالہ سیاسی جدوجہد کا عکس ہے، جس میں وزیراعظم نے اپنا دل قوم کے سامنے رکھ دیا، وزیراعظم لب تشنۂ تقریر نظر نہیں آئے، بلکہ ہر بات کھل کر بیان کی، اور نپے تلے انداز میں اپنا پروگرام اہل وطن کے سامنے پیش کیا، چنانچہ دیکھا جاسکتا ہے کہ اپنے غیر روایتی اور بے تکلفانہ خطاب میں محولہ بالا تمام اہم نکات کا احاطہ کیا جو بلاشبہ اعلان کردہ فیصلوں کے بین السطور میں ایک مضطرب سیاسی قائد اور امید آشنا وزیراعظم کے جذبات کی مکمل عکاسی کا مظہر تھا۔ انھوں نے قوم کی نبض پر ہاتھ رکھنے کی کامیاب کوشش کی۔ تاہم اب وقت ثابت کرے گا کہ ان کے خیالات، افکار، حکومتی اقدامات اور دوررس فیصلے عملی نتائج کے اعتبار سے عوام کو کتنا ریلیف دے سکیں گے اور تبدیلی کا عمل یا نیا پاکستان جنم لینے میں کتنا وقت لے گا۔
وزیراعظم کا روڈ میپ ہمہ جہتی اور کثیرالمقاصد ہے اور لازم ہے کہ اس پر عملدرآمد کے لیے وزیراعظم کی ٹیم عمران خان کے وژن، تصور، اور تعمیرو ترقی کے بنیادی تقاضوں کا گہرا ادراک کرے اور قوم کی توقعات پر پورا اترنے میں اپنی انتھک محنت اور کمٹمنٹ میں کوئی کسر نہ چھوڑے۔ تحریک انصاف کی قیادت اور رہنمائوں سمیت کارکنوں کا بھی فرض ہے کہ وزیراعظم پر عوامی توقعات کا اعصاب شکن بوجھ نہ ڈالا جائے، وہ گولائتھ نہیں، بلکہ کوشش ہونی چاہیے کہ حکومت ان خدشات، اندیشوں، اپوزیشن کے تحفظات اور حکومتی ناکامی کے مفروضوں perceptions کو بھی سامنے رکھے، تاکہ کوئی ڈیزاسٹر رونما نہ ہو اور حکومت اسموتھ سیلنگ کے ساتھ تبدیلی کے ایجنڈے کی تکمیل کرسکے۔
امید کی جانی چاہیے حکومت ابتدائی100 دنوں کے پروگرام کی اطمینان بخش جھلک دکھلائے، جس سے قوم کو یقین ہوجائے کہ وزیراعظم جو کہہ رہے ہیں وہ اسے پورا بھی کر دکھائیں گے۔ حکومت اور عوام دونوں کو حقیقت پسندی سے کام لینا ہوگا۔ ملکی تقدیر اور پورے سسٹم کی تطہیر و تعمیر کے لیے جو وسائل دستیاب ہیں وہ روڈ میپ کے حوالہ سے کافی نہیں، اس لیے عمران خان نے دردمندی سے اپیل کی قوم اپنی دنیا آپ پیدا کرے، اپنے پیروں پر کھڑی ہو، کسی کے سامنے کشکول پھیلانے والی قوم کی دنیا میں کوئی عزت نہیں کرتا۔
اس میں شک نہیں کہ وزیراعظم کو ملک کے 70 سالہ سیاسی، معاشی اور سماجی فرسودگی اور اندوہ ناک مسائل کا گراں بار ملبہ ورثہ میں ملا ہے، ملک کی سیاسی تشکیل نو اور داخلی امن و سلامتی کے تناظر میں جرأت مندانہ فیصلوں کی ضرورت ہے، کیونکہ چیلنجوں کے مہیب اژدہے اور مگرمچھ منہ کھولے کھڑے ہیں، ملکی معیشت گرداب میں پھنسی ہے، وزیراعظم کا عزم ہے کہ وہ آئی ایم ایف سمیت کسی مالیاتی ادارے یا کسی ملک سے قرضہ نہیں لیں، قوم کی دولت جنہوں نے لوٹ کر بیرون ملک بینکوں میں جمع کر رکھی ہے اسے واپس لاکر قومی خزانے میں جمع کیا جائے گا، وزیراعظم نے ایف بی آر کی تنظیم نو کا اعلان کیا، ٹیکس نیٹ بڑھانے اور ہر پاکستانی سے استدعا کی ہے کہ وہ ٹیکس دیں، وزیراعظم نے اس ٹیکس کے پیسے کی خود حفاظت کا ذمہ اٹھانے کی قسم کھائی ہے۔
حزب اختلاف کی جماعتوں نے نومنتخب وزیراعظم عمران خان کے قوم سے پہلے خطاب کو مایوس کن اور غیرسنجیدہ قراردیتے ہوئے کہا ہے کہ اس میں پرویز مشرف کے 5 نکاتی ایجنڈے کے سوا کچھ نیا نہیں تھا، جن مسائل کا ذکر کیا وہ سب گپ شپ تھی۔ اپوزیشن رہنمائوں مصدق ملک، غلام احمد بلور، سعید غنی، احسن اقبال اور دیگر نے اپنے ردعمل میں کہا کہ عمران خان نے صحت، پانی اور تعلیم کے حوالے سے اچھی باتیں کی ہیں، تاہم اگر انھوں نے خیبرپختونخوا میں کام کیا ہوتا تو ان کی باتوں میں وزن ہوتا، تحریک انصاف نے کے پی کے میں 5 برس حکومت کی مگر ان کی کارکردگی نظر نہیں آتی، تقریر میں سب سے اہم چیز خارجہ پالیسی کا ذکر تک نہیں تھا، وہ باتیں کرتے کیوں ہو جو کر نہیں سکتے۔
سیاسی حلقوں نے وزیراعظم کے خطاب پر تبصرہ کرتے ہوئے یہ بات بھی کی کہ مخالفین سے دو دو ہاتھ کرنے کے لیے وزیراعظم نے کڑے اور بے رحم احتساب کا اشارہ کیا ہے، ان حلقوں کے مطابق احتساب اگر بلاامتیاز ہو تو کسی کو شکایت نہ ہوگی مگر انتقام سے خود حکومت کی توجہ اپنے انقلابی پروگرام سے ہٹ سکتی ہے، پھر بدقسمتی ہوگی کہ مفاد پرست عناصر انتشار اور منتقمانہ سیاست کا پینڈورا بکس بھی کھولیں گے۔
اس لیے تدبر کا تقاضا ہے کہ وزیراعظم کی ٹیم اپنے اصل ہدف پر نگاہ رکھے، اور ماضی کے بکھیڑوں میں الجھنے کے بجائے اپنا نیا سفر شروع کرے، احتساب کے لیے نیب کو مضبوط بنانے کا فیصلہ خوش آیند ہے، لہٰذا جو لوگ ملکی دولت کی لوٹ کھسوٹ میں ملوث ہیں ان کا احتساب ضرورہونا چاہیے، لیکن جو معاملات عدلیہ اور احتسابی اداروں سے متعلق ہیں، انھیں آزادانہ طور پر اپنا کام کرنے دیا جائے، نیب کی اب تک کی کارروائی شفافیت کے ساتھ جاری ہے۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ نومنتخب وزیراعظم عمران خان نے 9 بج کر 36 منٹ پر قوم سے اپنا پہلا خطاب شروع کیا، شہریوں کے مطابق عمران خان نے روایات کے برعکس قوم سے پوائنٹس کی بنیاد پر فی البدیہہ خطاب کیا، غیر روایتی خطاب دور تک اثر چھوڑ گیا ہے، وزیراعظم عمران خان کی تقریر کا ہیش ٹیگ ٹویٹر پر ٹاپ ٹرینڈ بنا رہا، سوشل میڈیا صارفین تجزیوں و تبصروں میں اپنی رائے کا اظہار کرتے رہے۔
فیس بک یوزرز کے مطابق وزیراعظم کا خطاب غیر روایتی، بے لاگ اور عوام سے مکالمے کے انداز میں تھا، ایک ٹویٹ میں متوازن تبصرہ کچھ یوں کیا گیا وزیراعظم عمران خان کے قوم سے خطاب میں ایک بات واضح ہوگئی کہ ان کا وژن محض اقتدار پر مسلط رہنا نہیں بلکہ اس پاک سرزمین کے مسائل حل کرنا، اس کے عوام کو اس کا کھویا ہوا مقام واپس دلانا ہے۔
دریں اثنا 21 رکنی وفاقی کابینہ نے پیر کو اپنے عہدوں کا حلف لیا، حلف اٹھانے والی کابینہ میں 16 وفاقی وزرا اور 5 مشیر شامل ہیں، حلف برداری کی تقریب ایوان صدر میں ہوئی، صدر مملکت ممنون حسین نے وزراء سے حلف لیا۔ سیاسی مبصرین اور موقر معاصرین نے وفاقی کابینہ کی تشکیل کے پہلے مرحلہ پر کچھ تحفظات کا اظہار کیا ہے، بنیادی بات یہ ہے کہ وزیراعظم ایک غیر روایتی طرز سیاست کے موئید ہیں، وہ سماج کی کایا پلٹنے میں گہری دلچسپی لے رہے ہیں، اس لیے ان کے تصور اور عملی ایجنڈے کی تکمیل میں وفاقی کابینہ کی شمولیت اہمیت کی حامل ہے۔
وزیراعظم کی کابینہ کو اہلیت، بااختیاریت اور فیصلہ سازی میں مہارت دکھانا ہوگی، وہ ''اسٹیٹس کو'' کو ماضی کا قصہ بنائیں، وزیراعظم نے عبوری طور پر وزارت داخلہ کا پورٹ فولیو اپنے پاس رکھا ہے، جو محل نظر ہے، تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ملک دہشتگردی کی ہولناکیوں کے گہرے تجربات اور حوادث سے گزرا ہے، اس وزارت کے پاس نادرا اور پاسپورٹ سمیت داخلی امن وسلامتی کے صد ہا معاملات ہیں، اس لیے حکومت وہ غلطی نہ کرے جس کی ن لیگ حکومت اور قوم کل وقتی وزیر خارجہ اور وزیر دفاع سے گریز کی صورت میں بھاری قیمت ادا کرچکی ہے، یہ بحث بھی قابل غور ہے کہ وزیراعظم نے خارجہ امور کے بڑے تناظر پر کوئی واضح پالیسی کا اعلان نہیں کیا، اور بعض اہم حساس معاملات پر حکومتی انداز نظر سامنے نہیں لایا گیا۔
ملک کے فہمیدہ مفکر اور سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ گڈ گورننس کے لیے ضروری ہے کہ وفاقی کابینہ سمیت صوبائی کابینائیں ایک پیج پر ہوں، کیونکہ 18 ویں ترمیم کے بعد صوبائی حکومتوں کے پاس کرنے کو بہت سارے کام ہیں، پی ٹی آئی کے لیے اہم سوال ان الیکٹیبلز اور آزاد ارکان کا ہے جو اہم وزراتی عہدوں پر فائز ہونے کے نتیجہ میں اقتدار کے مزے نہیں لوٹ سکیں گے کیونکہ عمران کا پروگرام ان کے لیے ٹیسٹ کیس بن گیا ہے، قوم ان سے نتائج کی توقع رکھتی ہے، ایگزیکٹو کی طاقت منتشر نہیں ہونی چاہیے اور نہ روڈ میپ سے انحراف کی کوئی گنجائش رکھی جائے۔ وفاقی کابینہ حکومت کے ایجنڈے کی تکمیل کا کلیدی کارواں ہے، سارا سفر وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی دور اندیشی، تعلقات کار، یک جہتی اور سیاسی و نظریاتی ہم آہنگی کا تقاضا کرتا ہے۔
وزیراعظم نے بلاشبہ ایک قابل عمل پروگرام کی ابتدا کی ہے، روڈ میپ ابھی کاغذ پر ہے، عمران خان نے اپنے قول وفعل سے اس ''معاہدہ عمرانی'' میں اپنا رنگ بھرنا ہے۔ قوم انقلاب، تبدیلی اور سیاسی جدلیات کے فیصلہ کن دوراہے پر آگئی ہے، یہ قوم کے لیے سنہری گھڑی ہے۔ تحریک انصاف پر تاریخ کی نگاہ خاص ہے۔ اللہ جل شانہ سے دعا ہے کہ ہمارے نئے حکمرانوں کو قومی امنگوں کی صحیح ترجمانی کرنے اور تبدیلی کے عمل کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔