قربانی کمائی کا ذریعہ کیوں
ہر حکومت قربانی کے سلسلے میں قربانی کے خواہش مندوں کو کوئی رعایت یا سہولت دینے پر یقین نہیں رکھتی۔
قربانی مجبوری نہیں مگر سنت ابراہیمی ہے اور حضرت ابراہیمؑ کی اپنے صاحبزادے حضرت اسمٰعیلؑ کی قربانی اللہ کی راہ میں پیش کیے جانے کے بعد مسلمانوں نے ہر سال اپنی اپنی حیثیت کے مطابق سنت ابراہیمی پر عمل کا جو مذہبی سلسلہ شروع کر رکھا ہے وہ اللہ کو بہت پسند ہے اور صاحب استطاعت لوگ دل کھول کر عیدالاضحیٰ پر جانوروں کی قربانی کرتے ہیں، جس میں اللہ صرف نیت دیکھ کر قربانی قبول کرتاہے اور جانوروں کا گوشت تقسیم ہوجاتا ہے۔
صاحب حیثیت افراد کی سال میں ایک بار کی جانے والی اس قربانی سے ان غریبوں کو بھی کچھ گوشت میسر آجاتا ہے جو آج کی مہنگائی کے دور میں بازار سے گوشت نہیں خرید سکتے۔ گوشت تو دور کی بات اب تو سبزیاں اور دالیں بھی غریبوں کی پہنچ سے دور ہوچکی ہیں اور وہ کس طرح سے اپنا گزارا کر رہے ہیں یہ وہی جانتے ہیں حکومتیں اور ناجائز منافع خور نہیں، کیونکہ انھیں غریبوں کا کوئی خیال نہیں اور عوام خود ساختہ مہنگائی میں پس رہے ہیں۔
قربانی ہمارے مذہب میں نمائشی اقدام نہیں بلکہ جو بھی مسلمان مالی استطاعت کا حامل ہو اس پر حج کی طرح سے قربانی فرض ہے اور مالی حیثیت نہ رکھنے والوں کے لیے قربانی نہ کرنے پر کوئی گناہ نہیں۔ قربانی کو کئی سال سے ملک میں بعض اداروں نے مال کمانے اور قربانی کرنے والوں کو بری طرح لوٹنے کا ذریعہ بنا رکھا ہے، جس کے نتیجے میں ہر سال جانوروں کی قیمتیں بڑھانا معمول بن چکا ہے، جس کی وجہ سے لاکھوں ایسے افراد ہیں جو اپنے محدود مالی وسائل میں کچھ رقم جمع کرکے مویشی خریدنے منڈی جاتے ہیں تو جانوروں کی قیمتیں سن کر سر پکڑ لیتے ہیں اور مہنگے جانور کی خریداری کے لیے رقم نہ ہونے کی وجہ سے مایوس ہوکر لوٹ آتے ہیں اور اجتماعی قربانی میں حصہ لے لیتے ہیں یا پھر قربانی کا ارادہ ہی ترک کردیتے ہیں۔
قربانی جو مالی وسائل پر فرض ہے مگر اب نمائشی اور بچوں کی وجہ سے مجبوری بھی بن جاتی ہے۔ بچے جو اپنے والدین کی مجبوری نہیں دیکھتے وہ دوسروں کو دیکھ کر والدین کو مجبور کرتے ہیں کہ وہ جانور ضرور خرید کر لائیں ورنہ محلہ اور عزیزوں میں بے عزتی ہو جائے گی کہ یہ سال میں ایک قربانی بھی نہیں کرسکتے۔ بچوں کو مویشیوں کی مہنگائی سے سروکار نہیں ہوتا۔
موجودہ دور میں اجتماعی قربانی کا رجحان بڑھنے کی وجہ بھی مہنگے جانور ہیں اور آج کل درمیانی گائے یا بیل میں حصہ بھی دس ہزار روپے سے زائد رقم پر ہی مل سکتا ہے جب کہ اپنے طور پر پورا جانور قربان کرنے کی استطاعت بہت کم لوگوں کو ہوتی ہے۔ متوسط طبقہ بھی بمشکل ہی قربانی کر پاتا ہے، جب کہ محدود تنخواہ والے لوگ اور غریب تو قربانی کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔ محدود تنخواہ والے خاص کر سرکاری ملازم گزارا ہی مشکل سے کر رہے ہیں تو وہ قربانی کیسے کریں، یہ سوال اہمیت کا حامل ہے۔
ہر حکومت قربانی کے سلسلے میں قربانی کے خواہش مندوں کو کوئی رعایت یا سہولت دینے پر یقین نہیں رکھتی بلکہ قربانی کرنے والوں کی حوصلہ شکنی کرتی ہے، کیونکہ قربانی کے جانور مہنگے کرانے میں حکومتی ادارے اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ ہر چھوٹے بڑے شہر میں مویشی منڈیاں ضرور ہوتی ہیں اور بڑے شہروں میں خاص طور پر مویشی منڈیاں لگوائی جاتی ہیں اور ایشیا کی سب سے بڑی مویشی منڈی ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی میں سپر ہائی وے پر لگوائی جاتی ہے، جو سرکاری ادارہ لگواتا ہے۔
ہر بڑے شہر میں جو منڈیاں لگوائی جاتی ہیں وہ متعلقہ اداروں کی سال بھر کی کمائی کا ذریعہ بن چکی ہیں، کیونکہ وہاں جانور لانے والوں کو جگہ بہت مہنگی دی جاتی ہے اور جانوروں کی ضروریات پوری کرنے کے لیے مختلف اشیا کی فروخت کے اسٹال مہنگے کرایوں پر دیے جاتے ہیں۔ منڈیوں میں آنے والے اکثر جانور کھلے آسمان تلے بندھے ہوتے ہیں اور ان کے مالکان سائے کے لیے اپنے طور کوئی انتظام کرلیتے ہیں کیونکہ انھیں کئی روز منڈیوں میں رہنا ہوتا ہے۔
اندرون ملک سے ملک بھر کی مویشی منڈی میں جانور لانے والوں کو مذکورہ شہر میں داخل ہونے کے لیے مقررہ فیس ادا کرکے منڈی میں جگہ حاصل کرنے کے لیے بھاری کرایہ ادا کرنا پڑتا ہے۔ منڈی تک آنے میں جگہ جگہ ٹریفک اور ضلعی پولیس ان سے رشوت لیتی ہے۔ چھوٹی منڈیوں سے جانور خریدنے کے بعد وہاں کے بلدیاتی اداروں کو الگ فیس ادا کرنا پڑتی ہے۔
بڑی منڈیوں میں بھاری کرایوں پر جگہ لے کر مویشی مالکان کو جانوروں کے لیے گھاس، دانا، پانی مہنگے داموں خریدنا پڑتا ہے اور مہنگے کرائے ادا کرکے وہاں ہوٹل اور اسٹال قائم کرنے والے مویشی مالکان اور منڈی آنے والے گاہکوں کو ہر چیز مہنگے داموں پر فروخت کرتے ہیں۔ مویشی مالکان کو ان سرکاری طور پر قائم مویشی منڈیوں میں ہر سہولت رقم ادا کرکے خریدنا پڑتی ہے جس کی کسر وہ گاہکوں سے نکالنے کی کوشش کرتے ہیں اور جانور مہنگے داموں فروخت کرکے اپنی سال بھر کی آمدنی حاصل کرنے کے لیے سب کچھ کرنا پڑتا ہے۔
سرکاری منڈیاں کمائی کے لیے قائم کی جاتی ہیں اور وہ اندرون شہر چھوٹی منڈیاں قائم نہیں ہونے دیتے تاکہ شہر ہی میں شہریوں کو منڈی سے سستے جانور نہ مل سکیں اور قربانی کرنے والوں کو مجبوراً منڈی آنا پڑے اور مہنگے جانور خریدنا پڑیں۔ کراچی جیسے بڑے شہر میں صرف 8 منڈیوں کو اجازت دی گئی ہے۔ حکومت اگر مویشی منڈیوں کو کمائی کا ذریعہ نہ بنائے اور عیدالاضحیٰ کے احترام میں لوٹ کھسوٹ نہ کرے تو سنت ابراہیمی ادا کرنے والوں کو کم نرخوں پر جانور مل سکتے ہیں اور منڈیوں میں مویشی مالکان گاہکوں کے لیے اور گاہک مہنگے دام سن کر کبھی خالی ہاتھوں نہ لوٹیں۔
صاحب حیثیت افراد کی سال میں ایک بار کی جانے والی اس قربانی سے ان غریبوں کو بھی کچھ گوشت میسر آجاتا ہے جو آج کی مہنگائی کے دور میں بازار سے گوشت نہیں خرید سکتے۔ گوشت تو دور کی بات اب تو سبزیاں اور دالیں بھی غریبوں کی پہنچ سے دور ہوچکی ہیں اور وہ کس طرح سے اپنا گزارا کر رہے ہیں یہ وہی جانتے ہیں حکومتیں اور ناجائز منافع خور نہیں، کیونکہ انھیں غریبوں کا کوئی خیال نہیں اور عوام خود ساختہ مہنگائی میں پس رہے ہیں۔
قربانی ہمارے مذہب میں نمائشی اقدام نہیں بلکہ جو بھی مسلمان مالی استطاعت کا حامل ہو اس پر حج کی طرح سے قربانی فرض ہے اور مالی حیثیت نہ رکھنے والوں کے لیے قربانی نہ کرنے پر کوئی گناہ نہیں۔ قربانی کو کئی سال سے ملک میں بعض اداروں نے مال کمانے اور قربانی کرنے والوں کو بری طرح لوٹنے کا ذریعہ بنا رکھا ہے، جس کے نتیجے میں ہر سال جانوروں کی قیمتیں بڑھانا معمول بن چکا ہے، جس کی وجہ سے لاکھوں ایسے افراد ہیں جو اپنے محدود مالی وسائل میں کچھ رقم جمع کرکے مویشی خریدنے منڈی جاتے ہیں تو جانوروں کی قیمتیں سن کر سر پکڑ لیتے ہیں اور مہنگے جانور کی خریداری کے لیے رقم نہ ہونے کی وجہ سے مایوس ہوکر لوٹ آتے ہیں اور اجتماعی قربانی میں حصہ لے لیتے ہیں یا پھر قربانی کا ارادہ ہی ترک کردیتے ہیں۔
قربانی جو مالی وسائل پر فرض ہے مگر اب نمائشی اور بچوں کی وجہ سے مجبوری بھی بن جاتی ہے۔ بچے جو اپنے والدین کی مجبوری نہیں دیکھتے وہ دوسروں کو دیکھ کر والدین کو مجبور کرتے ہیں کہ وہ جانور ضرور خرید کر لائیں ورنہ محلہ اور عزیزوں میں بے عزتی ہو جائے گی کہ یہ سال میں ایک قربانی بھی نہیں کرسکتے۔ بچوں کو مویشیوں کی مہنگائی سے سروکار نہیں ہوتا۔
موجودہ دور میں اجتماعی قربانی کا رجحان بڑھنے کی وجہ بھی مہنگے جانور ہیں اور آج کل درمیانی گائے یا بیل میں حصہ بھی دس ہزار روپے سے زائد رقم پر ہی مل سکتا ہے جب کہ اپنے طور پر پورا جانور قربان کرنے کی استطاعت بہت کم لوگوں کو ہوتی ہے۔ متوسط طبقہ بھی بمشکل ہی قربانی کر پاتا ہے، جب کہ محدود تنخواہ والے لوگ اور غریب تو قربانی کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔ محدود تنخواہ والے خاص کر سرکاری ملازم گزارا ہی مشکل سے کر رہے ہیں تو وہ قربانی کیسے کریں، یہ سوال اہمیت کا حامل ہے۔
ہر حکومت قربانی کے سلسلے میں قربانی کے خواہش مندوں کو کوئی رعایت یا سہولت دینے پر یقین نہیں رکھتی بلکہ قربانی کرنے والوں کی حوصلہ شکنی کرتی ہے، کیونکہ قربانی کے جانور مہنگے کرانے میں حکومتی ادارے اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ ہر چھوٹے بڑے شہر میں مویشی منڈیاں ضرور ہوتی ہیں اور بڑے شہروں میں خاص طور پر مویشی منڈیاں لگوائی جاتی ہیں اور ایشیا کی سب سے بڑی مویشی منڈی ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی میں سپر ہائی وے پر لگوائی جاتی ہے، جو سرکاری ادارہ لگواتا ہے۔
ہر بڑے شہر میں جو منڈیاں لگوائی جاتی ہیں وہ متعلقہ اداروں کی سال بھر کی کمائی کا ذریعہ بن چکی ہیں، کیونکہ وہاں جانور لانے والوں کو جگہ بہت مہنگی دی جاتی ہے اور جانوروں کی ضروریات پوری کرنے کے لیے مختلف اشیا کی فروخت کے اسٹال مہنگے کرایوں پر دیے جاتے ہیں۔ منڈیوں میں آنے والے اکثر جانور کھلے آسمان تلے بندھے ہوتے ہیں اور ان کے مالکان سائے کے لیے اپنے طور کوئی انتظام کرلیتے ہیں کیونکہ انھیں کئی روز منڈیوں میں رہنا ہوتا ہے۔
اندرون ملک سے ملک بھر کی مویشی منڈی میں جانور لانے والوں کو مذکورہ شہر میں داخل ہونے کے لیے مقررہ فیس ادا کرکے منڈی میں جگہ حاصل کرنے کے لیے بھاری کرایہ ادا کرنا پڑتا ہے۔ منڈی تک آنے میں جگہ جگہ ٹریفک اور ضلعی پولیس ان سے رشوت لیتی ہے۔ چھوٹی منڈیوں سے جانور خریدنے کے بعد وہاں کے بلدیاتی اداروں کو الگ فیس ادا کرنا پڑتی ہے۔
بڑی منڈیوں میں بھاری کرایوں پر جگہ لے کر مویشی مالکان کو جانوروں کے لیے گھاس، دانا، پانی مہنگے داموں خریدنا پڑتا ہے اور مہنگے کرائے ادا کرکے وہاں ہوٹل اور اسٹال قائم کرنے والے مویشی مالکان اور منڈی آنے والے گاہکوں کو ہر چیز مہنگے داموں پر فروخت کرتے ہیں۔ مویشی مالکان کو ان سرکاری طور پر قائم مویشی منڈیوں میں ہر سہولت رقم ادا کرکے خریدنا پڑتی ہے جس کی کسر وہ گاہکوں سے نکالنے کی کوشش کرتے ہیں اور جانور مہنگے داموں فروخت کرکے اپنی سال بھر کی آمدنی حاصل کرنے کے لیے سب کچھ کرنا پڑتا ہے۔
سرکاری منڈیاں کمائی کے لیے قائم کی جاتی ہیں اور وہ اندرون شہر چھوٹی منڈیاں قائم نہیں ہونے دیتے تاکہ شہر ہی میں شہریوں کو منڈی سے سستے جانور نہ مل سکیں اور قربانی کرنے والوں کو مجبوراً منڈی آنا پڑے اور مہنگے جانور خریدنا پڑیں۔ کراچی جیسے بڑے شہر میں صرف 8 منڈیوں کو اجازت دی گئی ہے۔ حکومت اگر مویشی منڈیوں کو کمائی کا ذریعہ نہ بنائے اور عیدالاضحیٰ کے احترام میں لوٹ کھسوٹ نہ کرے تو سنت ابراہیمی ادا کرنے والوں کو کم نرخوں پر جانور مل سکتے ہیں اور منڈیوں میں مویشی مالکان گاہکوں کے لیے اور گاہک مہنگے دام سن کر کبھی خالی ہاتھوں نہ لوٹیں۔