یوم آزادی اور عیدالاضحی
یوم آزادی پر کچھ منچلوں اور شہریوں نے جو رویہ اپنایا وہ کسی طرح ایک مہذب اور آزاد قوم کے شایان شان نہیں ہے۔
SWAT:
حسن اتفاق سے اس سال یوم آزادی اور عیدالاضحی ساتھ ساتھ وارد ہوئے ہیں۔ یوم آزادی ہمارا قومی اور عیدالاضحیٰ ہمارا دینی تہوار ہے۔ دونوں کا اپنا اپنا تشخص و احترام ہے۔ دیکھنے میں یہ آرہا ہے کہ ہم نے ان ایام کی روح اور تقاضوں کو پس پشت ڈال دیا ہے۔
یوم آزادی پر کچھ منچلوں اور شہریوں نے جو رویہ اپنایا وہ کسی طرح ایک مہذب اور آزاد قوم کے شایان شان نہیں ہے۔ بغیر سائلنسر کی شور مچاتی گاڑیاں، شاہراہوں پر ریسنگ، ون ویلنگ، کرتب بازیاں، اونچی آواز میں ریکارڈنگ، ٹریفک روک کر ڈانس و خرمستیاں اور غل غپاڑہ، یہاں تک کہ قومی پرچم بچھا کر اس پر رقص کرنا جنون و بے ہودگی کی انتہا اور افسوس ناک عمل ہے۔ اس قسم کی حرکات سے تمام شہری خاص طور پر بزرگ، بچے، خواتین اور بیمار افراد اذیت و ذہنی کوفت سے دوچار ہوئے۔
بدترین ٹریفک جام میں پھنسے شہریوں کی گاڑیوں کے ایندھن ختم ہوگئے، انجن گرم ہونے سے گاڑیاں بند ہوگئیں۔ ٹریفک میں پھنسے ہوئے شہریوں سے لوٹ مار بھی کی گئی۔ پہلے یوم آزادی پر رات 12 بجے دس سے پندرہ منٹ تک آتش بازی و ہوائی فائرنگ ہوا کرتی تھی لیکن اس مرتبہ یہ سلسلہ رات گئے تک مسلسل جاری رہا، جس کی وجہ سے شہری احتیاطی طور پر گھروں میں مبحوس رہنے پر مجبور ہوگئے۔ اس ہوائی فائرنگ کے نتیجے میں کراچی میں 33شہری زخمی ہوئے۔
ایک امتیازی سلوک یہ ہے کہ قومی دنوں کے موقعوں پر پاکستانی شہریوں کے لیے مزار قائد کے دروازے اس وقت تک بند رکھے جاتے ہیں جب تک کہ گورنر، وزیراعلیٰ اور وزرا مزار پر حاضری دے کر نہیں چلے جاتے ہیں۔ اس دوران ہزاروں شہری مزار کے اطراف کی شاہراہوں پر بیٹھے داخلے کی اجازت کے منتظر رہتے ہیں۔ اس مرتبہ تو سندھ کے نامزد گورنر بھی داخلے کی اجازت نہ ملنے پر گیٹ کے باہر سے فاتحہ خوانی کرکے چلے جانے پر مجبور ہوئے۔ کیا آزادی کے یہی تقاضے ہیں؟ جشن آزادی ایسے ہی منایا جاتا ہے؟ زندہ قوموں کی یہی نشانیاں ہوا کرتی ہیں؟ کیا اسلام یا جمہوریت کا یہی سبق ہے؟
دوسری جانب عیدالاضحیٰ پر قربانی کے جانوروں کی خرید و فروخت، شہروں میں قائم ان کی غیر قانونی منڈیوں اور گلی کوچوں میں موجود قربانی کے جانوروں سے زیادہ ان کے رکھوالوں کی وجہ سے شہریوں کو بہت سے مسائل کا سامنا ہے۔ بہت سی گلیاں قناتیں و دیگر رکاوٹیں لگا کر بند کردی جاتی ہیں، نوجوان رات دن شور شرابہ و غل غپاڑہ کرنے میں مشغول رہتے ہیں، تاش، لوڈو، شطرنج اور اونچی آواز میں ریکارڈنگ کا دور چلتا رہتا ہے۔
سنت ابراہیمی کا مذہبی تہوار بھی ہلہ گلہ، موج مستی، خودنمائی، بڑائی و تکبر اور نمود و نمائش کے تہوار کی حیثیت اختیار کرتا جارہا ہے۔ قربانی قرب اور رضائے الٰہی حاصل کرنے کا ذریعہ ہے جس میں ایثار، اطاعت، عبدیت، عاجزی اور فرمانبرداری کا فلسفہ پنہاں ہے، جس کے لیے واضح فرمان ہے کہ ''اللہ کے پاس قربانی کے جانور کا گوشت پہنچتا ہے نہ ہی خون، البتہ اس کے پاس تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے۔
اللہ نے ان جانوروں کو تمہارے زیر حکم کردیا ہے تاکہ تم اللہ کی راہ میں ان کی قربانی کرکے اللہ کی بڑائی بیان کرو کہ اس نے تمہیں قربانی کرنے کی توفیق بخشی۔'' قربانی کے لیے خوبصورت اور صحت مند جانور خریدنا، قربانی کے دن تک اس کی اچھی طرح دیکھ بھال اور خیال کرنا، قربانی کے بنیادی تقاضوں میں شامل ہے۔ جس کا خیال ہمیشہ رکھا جاتا تھا، مگر اب اس میں کاروباری لوٹ کھسوٹ، نمود و نمائش کا عنصر غالب آچکا ہے۔
بیوپاری حضرات جانوروں کی قیمت، اہمیت و حیثیت میں اضافہ کرنے کے لیے انھیں دودھ، دہی، اصلی گھی، بادام، پستہ اور کاجو جیسی غیر فطری غذاؤں پر پال کر انھیں قالینوں، تختوں اور بینکوئٹس میں سجاکر لاکھوں میں فروخت کرتے ہیں۔ جو جانوروں اور انسانوں دونوں کے ساتھ ظلم و زیادتی کے مترادف ہے۔ اس ملک میں بچوں اور عام شہریوں کو مطلوبہ مقدار میں دودھ، دہی اور اصلی گھی میسر نہیں، بادام پستہ اور کاجو تو دور کی بات ہے۔ پھر یہ نعمت خداوندی کا ضیاع اور اسراف نہیں تو اور کیا کہلائے گا؟ اس مرتبہ سپر ہائی وے کی مویشی منڈی کے ایک وی آئی پی بلاک میں موجود ایک بیل جسے ''فخر پاکستان'' کا نام دیا گیا ہے، کی قیمت ایک کروڑ روپے بتائی جاتی ہے جب کہ بکروں کی قیمتیں بھی دس دس لاکھ تک بتائی جاتی ہیں، یہ فخر کا مقام ہے یا فکر کا مقام ہے؟
منڈی میں بڑی تعداد ایسے لوگوں کی ہوتی ہے جو جانوروں کی خریداری کے لیے نہیں بلکہ اپنے خاندان اور دوستوں کے ہمراہ محض تفریح طبع کے لیے کئی کئی بار یہاں کا رخ کرتے ہیں، جس کی وجہ سے دہشت گردی کا کوئی بھی واقعہ رونما ہوسکتا ہے۔ میڈیا اس کی کوریج اور گلیمر پیدا کرکے مزید چار چاند لگا دیتا ہے۔ میڈیا، والدین، بزرگوں اور علما کو جو کردار ادا کرنا چاہیے وہ اسے نباہ نہیں پا رہے، بلکہ یہ کہا جائے کہ والدین و بزرگوں کا کردار تقریباً ختم کردیا گیا ہے، وہ اس سلسلے میں خاموش رہنے میں ہی اپنی عزت و عافیت سمجھتے ہیں۔ جس کی وجہ سے عمومی طور پر قربانی کی اصل روح و فلسفہ پس پشت چلا گیا ہے۔
کراچی میں قربانی کے جانوروں کو گھروں کی بالائی منزل پر غیر فطری ماحول میں پالنے، پھر عید کے موقع پر انھیں کرینوں کے ذریعے نیچے اتارنے کے کرتبوں کا سلسلہ گزشتہ کئی سال سے جاری تھا، جس میں کرین میں لٹکے جانوروں کا نگہبان فاتحانہ انداز میں ان جانوروں کی پشت پر سوار ہوتا تھا۔ میڈیا کے ذریعے اس کرتب بازی کے مناظر تمام شہریوں، متعلقہ حکومتی اداروں، این جی اوز، انسانی حقوق کے علمبرداروں اور علما کرام تک پہنچتے رہے ہیں مگر جانوروں کے ساتھ اس غیر فطری عمل اور زیادتی پر کسی طرف سے کوئی ردعمل دیکھنے میں نہیں آیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ اب جانوروں کے ساتھ ان کرتب بازیوں اور زیادتیوں کا سلسلہ دیگر شہروں تک دراز ہوگیا ہے۔
ملک میں جانوروں کے تحفظ سے متعلق کئی قوانین و ادارے موجود ہیں لیکن ان کے حقوق و تحفظ کے لیے کوئی کرتا دھرتا دکھائی نہیں دیتا ہے۔ The Pakistan prevention of cruelty to Animal Act 1890 واضح کرتا ہے کہ "if any person carries or consign for carriage any animal in such manner or position as to subject to un-neccessary pain or suffer or other ill treatment shall be punished with five or imprisonment or both۔
لیکن یہ قانون بہت قدیم و بوسیدہ ہوچکا ہے، اس میں جرمانے اور سزا کی شرح بھی انتہائی کم ہے، جس کی وجہ سے نہ تو اسے خاطر میں لایا جاتا ہے نہ کبھی کسی کو اس قانون کی خلاف ورزی پر سزا ہوئی ہے۔ اس سال کے اوائل میں سینیٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹی نے ترمیمی بل The prevention of cruelty to animal (Ammendment) Bill 2018 پاس کیا ہے، جس میں جانور کو مارنے پر 3 لاکھ روپے، جانوروں پر بھاری سامان لادنے پر 2 لاکھ روپے، جانوروں کو لڑانے پر 3 لاکھ روپے اور بیمار جانور کو اس کے رحم و کرم پر چھوڑ دینے پر 2 لاکھ روپے جرمانے کے علاوہ سزاؤں میں بھی اضافہ کیا گیا ہے، جو ایک خوش آیند اقدام ہے لیکن اس کا موثر اطلاق بھی ہونا چاہیے۔
حسن اتفاق سے اس سال یوم آزادی اور عیدالاضحی ساتھ ساتھ وارد ہوئے ہیں۔ یوم آزادی ہمارا قومی اور عیدالاضحیٰ ہمارا دینی تہوار ہے۔ دونوں کا اپنا اپنا تشخص و احترام ہے۔ دیکھنے میں یہ آرہا ہے کہ ہم نے ان ایام کی روح اور تقاضوں کو پس پشت ڈال دیا ہے۔
یوم آزادی پر کچھ منچلوں اور شہریوں نے جو رویہ اپنایا وہ کسی طرح ایک مہذب اور آزاد قوم کے شایان شان نہیں ہے۔ بغیر سائلنسر کی شور مچاتی گاڑیاں، شاہراہوں پر ریسنگ، ون ویلنگ، کرتب بازیاں، اونچی آواز میں ریکارڈنگ، ٹریفک روک کر ڈانس و خرمستیاں اور غل غپاڑہ، یہاں تک کہ قومی پرچم بچھا کر اس پر رقص کرنا جنون و بے ہودگی کی انتہا اور افسوس ناک عمل ہے۔ اس قسم کی حرکات سے تمام شہری خاص طور پر بزرگ، بچے، خواتین اور بیمار افراد اذیت و ذہنی کوفت سے دوچار ہوئے۔
بدترین ٹریفک جام میں پھنسے شہریوں کی گاڑیوں کے ایندھن ختم ہوگئے، انجن گرم ہونے سے گاڑیاں بند ہوگئیں۔ ٹریفک میں پھنسے ہوئے شہریوں سے لوٹ مار بھی کی گئی۔ پہلے یوم آزادی پر رات 12 بجے دس سے پندرہ منٹ تک آتش بازی و ہوائی فائرنگ ہوا کرتی تھی لیکن اس مرتبہ یہ سلسلہ رات گئے تک مسلسل جاری رہا، جس کی وجہ سے شہری احتیاطی طور پر گھروں میں مبحوس رہنے پر مجبور ہوگئے۔ اس ہوائی فائرنگ کے نتیجے میں کراچی میں 33شہری زخمی ہوئے۔
ایک امتیازی سلوک یہ ہے کہ قومی دنوں کے موقعوں پر پاکستانی شہریوں کے لیے مزار قائد کے دروازے اس وقت تک بند رکھے جاتے ہیں جب تک کہ گورنر، وزیراعلیٰ اور وزرا مزار پر حاضری دے کر نہیں چلے جاتے ہیں۔ اس دوران ہزاروں شہری مزار کے اطراف کی شاہراہوں پر بیٹھے داخلے کی اجازت کے منتظر رہتے ہیں۔ اس مرتبہ تو سندھ کے نامزد گورنر بھی داخلے کی اجازت نہ ملنے پر گیٹ کے باہر سے فاتحہ خوانی کرکے چلے جانے پر مجبور ہوئے۔ کیا آزادی کے یہی تقاضے ہیں؟ جشن آزادی ایسے ہی منایا جاتا ہے؟ زندہ قوموں کی یہی نشانیاں ہوا کرتی ہیں؟ کیا اسلام یا جمہوریت کا یہی سبق ہے؟
دوسری جانب عیدالاضحیٰ پر قربانی کے جانوروں کی خرید و فروخت، شہروں میں قائم ان کی غیر قانونی منڈیوں اور گلی کوچوں میں موجود قربانی کے جانوروں سے زیادہ ان کے رکھوالوں کی وجہ سے شہریوں کو بہت سے مسائل کا سامنا ہے۔ بہت سی گلیاں قناتیں و دیگر رکاوٹیں لگا کر بند کردی جاتی ہیں، نوجوان رات دن شور شرابہ و غل غپاڑہ کرنے میں مشغول رہتے ہیں، تاش، لوڈو، شطرنج اور اونچی آواز میں ریکارڈنگ کا دور چلتا رہتا ہے۔
سنت ابراہیمی کا مذہبی تہوار بھی ہلہ گلہ، موج مستی، خودنمائی، بڑائی و تکبر اور نمود و نمائش کے تہوار کی حیثیت اختیار کرتا جارہا ہے۔ قربانی قرب اور رضائے الٰہی حاصل کرنے کا ذریعہ ہے جس میں ایثار، اطاعت، عبدیت، عاجزی اور فرمانبرداری کا فلسفہ پنہاں ہے، جس کے لیے واضح فرمان ہے کہ ''اللہ کے پاس قربانی کے جانور کا گوشت پہنچتا ہے نہ ہی خون، البتہ اس کے پاس تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے۔
اللہ نے ان جانوروں کو تمہارے زیر حکم کردیا ہے تاکہ تم اللہ کی راہ میں ان کی قربانی کرکے اللہ کی بڑائی بیان کرو کہ اس نے تمہیں قربانی کرنے کی توفیق بخشی۔'' قربانی کے لیے خوبصورت اور صحت مند جانور خریدنا، قربانی کے دن تک اس کی اچھی طرح دیکھ بھال اور خیال کرنا، قربانی کے بنیادی تقاضوں میں شامل ہے۔ جس کا خیال ہمیشہ رکھا جاتا تھا، مگر اب اس میں کاروباری لوٹ کھسوٹ، نمود و نمائش کا عنصر غالب آچکا ہے۔
بیوپاری حضرات جانوروں کی قیمت، اہمیت و حیثیت میں اضافہ کرنے کے لیے انھیں دودھ، دہی، اصلی گھی، بادام، پستہ اور کاجو جیسی غیر فطری غذاؤں پر پال کر انھیں قالینوں، تختوں اور بینکوئٹس میں سجاکر لاکھوں میں فروخت کرتے ہیں۔ جو جانوروں اور انسانوں دونوں کے ساتھ ظلم و زیادتی کے مترادف ہے۔ اس ملک میں بچوں اور عام شہریوں کو مطلوبہ مقدار میں دودھ، دہی اور اصلی گھی میسر نہیں، بادام پستہ اور کاجو تو دور کی بات ہے۔ پھر یہ نعمت خداوندی کا ضیاع اور اسراف نہیں تو اور کیا کہلائے گا؟ اس مرتبہ سپر ہائی وے کی مویشی منڈی کے ایک وی آئی پی بلاک میں موجود ایک بیل جسے ''فخر پاکستان'' کا نام دیا گیا ہے، کی قیمت ایک کروڑ روپے بتائی جاتی ہے جب کہ بکروں کی قیمتیں بھی دس دس لاکھ تک بتائی جاتی ہیں، یہ فخر کا مقام ہے یا فکر کا مقام ہے؟
منڈی میں بڑی تعداد ایسے لوگوں کی ہوتی ہے جو جانوروں کی خریداری کے لیے نہیں بلکہ اپنے خاندان اور دوستوں کے ہمراہ محض تفریح طبع کے لیے کئی کئی بار یہاں کا رخ کرتے ہیں، جس کی وجہ سے دہشت گردی کا کوئی بھی واقعہ رونما ہوسکتا ہے۔ میڈیا اس کی کوریج اور گلیمر پیدا کرکے مزید چار چاند لگا دیتا ہے۔ میڈیا، والدین، بزرگوں اور علما کو جو کردار ادا کرنا چاہیے وہ اسے نباہ نہیں پا رہے، بلکہ یہ کہا جائے کہ والدین و بزرگوں کا کردار تقریباً ختم کردیا گیا ہے، وہ اس سلسلے میں خاموش رہنے میں ہی اپنی عزت و عافیت سمجھتے ہیں۔ جس کی وجہ سے عمومی طور پر قربانی کی اصل روح و فلسفہ پس پشت چلا گیا ہے۔
کراچی میں قربانی کے جانوروں کو گھروں کی بالائی منزل پر غیر فطری ماحول میں پالنے، پھر عید کے موقع پر انھیں کرینوں کے ذریعے نیچے اتارنے کے کرتبوں کا سلسلہ گزشتہ کئی سال سے جاری تھا، جس میں کرین میں لٹکے جانوروں کا نگہبان فاتحانہ انداز میں ان جانوروں کی پشت پر سوار ہوتا تھا۔ میڈیا کے ذریعے اس کرتب بازی کے مناظر تمام شہریوں، متعلقہ حکومتی اداروں، این جی اوز، انسانی حقوق کے علمبرداروں اور علما کرام تک پہنچتے رہے ہیں مگر جانوروں کے ساتھ اس غیر فطری عمل اور زیادتی پر کسی طرف سے کوئی ردعمل دیکھنے میں نہیں آیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ اب جانوروں کے ساتھ ان کرتب بازیوں اور زیادتیوں کا سلسلہ دیگر شہروں تک دراز ہوگیا ہے۔
ملک میں جانوروں کے تحفظ سے متعلق کئی قوانین و ادارے موجود ہیں لیکن ان کے حقوق و تحفظ کے لیے کوئی کرتا دھرتا دکھائی نہیں دیتا ہے۔ The Pakistan prevention of cruelty to Animal Act 1890 واضح کرتا ہے کہ "if any person carries or consign for carriage any animal in such manner or position as to subject to un-neccessary pain or suffer or other ill treatment shall be punished with five or imprisonment or both۔
لیکن یہ قانون بہت قدیم و بوسیدہ ہوچکا ہے، اس میں جرمانے اور سزا کی شرح بھی انتہائی کم ہے، جس کی وجہ سے نہ تو اسے خاطر میں لایا جاتا ہے نہ کبھی کسی کو اس قانون کی خلاف ورزی پر سزا ہوئی ہے۔ اس سال کے اوائل میں سینیٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹی نے ترمیمی بل The prevention of cruelty to animal (Ammendment) Bill 2018 پاس کیا ہے، جس میں جانور کو مارنے پر 3 لاکھ روپے، جانوروں پر بھاری سامان لادنے پر 2 لاکھ روپے، جانوروں کو لڑانے پر 3 لاکھ روپے اور بیمار جانور کو اس کے رحم و کرم پر چھوڑ دینے پر 2 لاکھ روپے جرمانے کے علاوہ سزاؤں میں بھی اضافہ کیا گیا ہے، جو ایک خوش آیند اقدام ہے لیکن اس کا موثر اطلاق بھی ہونا چاہیے۔