وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بُزدار اور پرویز الٰہی

وزیر اعلیٰ بننے کے بعد عثمان بزدار کے خلاف آوازیں اُٹھنا شروع ہوگئیں، مگر عمران خان نے اس بات کا سختی نوٹس لیا۔


علی احمد ڈھلوں August 21, 2018
[email protected]

عمران خان کاپہلا '' قوم سے خطاب'' واقعی لاجواب تھا، پہلی بار کسی وزیر اعظم نے حقیقت پر مبنی خطاب کیا اور عوام کو اعتماد میں لینے کی بھرپور کوشش کی۔اوراب وزیر اعظم عوام سے کیے گئے وعدے پورے کرنے کے لیے کمر بھی کس چکے ہیں۔ اپنی ٹیم (کابینہ) کو بھی میدان میں اُتار چکے ہیں۔

پاکستان کے اہم اور بڑے صوبے پنجاب کے وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کا انتخاب بھی ہو چکا ہے اور پنجاب کابینہ کا جلد ہی اعلان بھی متوقع ہے۔ ان تمام مراحل میں سب سے اہم مرحلہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ کی نامزدگی کا تھا جو عمران خان کے لیے واقعی کٹھن تھا۔ پنجاب کے وارث کے لیے تحریک انصاف میں بہت سے سینئر رہنمائوں کی نظریں تھیں مگر عمران خان نے حقیقت میں سردار عثمان بزدارکی شکل میں ''بولڈ'' فیصلہ کیا، اور انتہائی پسماندہ علاقے سے وزیر اعلیٰ کا انتخاب کرکے جنوبی پنجاب کے عوام کے احساس محرومی کو ختم کرنے کی حقیر سی اور دلیرانہ کوشش کی۔

وزیر اعلیٰ بننے کے بعد عثمان بزدار کے خلاف آوازیں اُٹھنا شروع ہوگئیں ،مگر عمران خان نے اس بات کا سختی نوٹس لیا اور اپنے فیصلے پر قائم رہے۔ بادی النظر میں عثمان بزدار کی جگہ کوئی بھی وزیر اعلیٰ بنتا تو سوشل میڈیائی ٹیمیں اُس کے بھی سائے کا پیچھا کرکے دور کی کڑیاں ڈھونڈ لاتیں مگر میرے خیال میں عثمان بزدار پاکستان کا اصل چہرہ ہے جو غریبوں کا منتخب نمایندہ ہے۔ انتہائی سادہ، پڑھا لکھا، نہ پروٹوکول ، نہ سرکاری رہائش گاہیں اور نہ ملازمین کی لمبی چوڑی فہرستیں۔ان کے انتخاب سے تحریک انصاف نے یہ ثابت کیا ہے کہ یہ امیر کا نہیں بلکہ غریب کا بھی پاکستان ہے۔ اب انتہائی پرعزم عثمان بزدار کے سامنے بڑے بڑے چیلنجز ہیں۔تعلیم، صحت، پولیس، روزگار اور کرپشن جیسے مسائل اُن کے سامنے اژدھا بن کر کھڑے ہیں۔

میرے خیال میں 71سالوں میں پنجاب میں بحیثیت وزیراعلیٰ سب سے بہترین دور پرویز الٰہی کا تھا۔ اُس کے لیے جو سب سے بڑی خوبی تھی وہ بیوروکریسی کا انتخاب تھا۔ اُن کی کور ٹیم میںچیف سیکریٹری پنجاب سلمان صدیق، چیئرمین پی اینڈ ڈی سلیمان غنی اورپرنسپل سیکریٹری جی ایم سکندرشامل تھے۔ جب کہ دیگر بیوروکریٹس میں ڈی سی او لاہور خالد سلطان، سیکریٹری اطلاعات تیمور عظمت عثمان، انسپکٹر جنرل پولیس پنجاب احمد نسیم ، سینئر ممبر بورڈ آف ریونیو صفدر جاوید سید ،ایڈیشنل چیف سیکریٹری نجیب اللہ ملک، سیکریٹری خزانہ سہیل احمد، ڈائریکٹر جنرل ایل ڈی اے حسن نواز تارڑ، سیکریٹری قانون شیخ احمد فاروق اور سیکریٹری لوکل گورنمنٹ اخلاق احمد تارڑجیسے ایماندار آفیسرز شامل تھے۔میرے خیال میں اگر پرویز الٰہی کو اس سے پہلے کے ادوار میں بھی کام کرنے دیا جاتا تو یقینا آج کا پنجاب مختلف نظر آتا۔

پنجاب میں پرویزالٰہی دو مرتبہ وزیربلدیات رہ چکے تھے اور ان کو یہ وزارت چلانے کا بڑا تجربہ تھا، لیکن شہبازشریف کی وزارت اعلیٰ کے تحت انھوں نے وزیر بلدیات بننے سے صاف انکار کر دیا۔اس پر ان کو اسپیکرء پنجاب اسمبلی بننے کی دعوت دی گئی، جو مزید بدمزگی سے بچنے کے لیے انھوں نے قبول کر لی۔ وہ ضلع کونسل گجرات کے چیئرمین رہ چکے تھے۔ لہٰذا ہاوس چلانے میں ان کو کوئی مشکل پیش نہیں آئی۔لہٰذا یقینا اب بھی انھیں پنجاب کا ایوان چلانے میں کسی قسم کی دشواری کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔

2007 پنجاب کے خزانے میں 100 ارب روپے سرپلس تھے۔جب کہ2018 میں پنجاب پر 2000 ارب روپے کا قرض ہے۔پرویز الٰہی نے اپنی بیوروکریسی ٹیم پر اعتماد کا اظہارکیا۔پرویز الٰہی کی ٹیم پر کرپشن کے کوئی چارجز نہیں۔ کیوں کہ وہ خود کرپٹ اور کمیشن کھانے والے نہیں تھے۔ اب جب کہ عثمان بزدار کو وزیر اعلیٰ کا منصب ملا ہے تو یقینا انھیں چوہدری پرویز الٰہی کے وژن کو سامنے رکھ کر کام کرنا چاہیے۔ عثمان بزدار کو بیوروکریسی کے انتخاب میں ریٹائرڈ بیوروکریسی کی مدد بھی لینی پڑی تو وہ اس سے بھی اجتناب نہ کریں۔ اور سب سے ضروری یہ چیز ہے کہ کسی کو اپ گریڈ نہ کیا جائے ، کسی کو سینئر کی جگہ نہ لگایا جائے یا سینئر کو جونیئر کی جگہ نہ لگایا جائے۔میرٹ کا خیال رکھا جائے۔

شہباز شریف کی ناکامی کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے کہ انھوں نے جونئیر بیوروکریٹس کی ایک ٹیم بنائی اور سینئرز کو کھڈے لائن لگادیا۔ جو آرڈر شہباز شریف کے دور میں ہوئے ہیں عثمان بزدار اُن پر نظر ثانی کریں۔ یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ بیوروکریسی میں ہمیشہ ایک پراسس سے گزر کر اُس کی پروموشن ہوتی ہے ، جب وہ اگلے گریڈ میں جاتا ہے تو میچور ہو کر جاتا ہے۔ اس لیے اُس کی میچورٹی کا فائدہ اُٹھانا چاہیے بجائے اس کے کہ اُسے سائیڈ لائن کر دیا جائے کہ یہ بات نہیں مانے گا۔

عثمان بزدار کے لیے ایک تجویز یہ بھی ہے کہ وہ کبھی بھی مشاورت سے اجتناب نہ کریں، پنجاب میں جتنے بھی سینئر سیاستدان ہیں جو اُن کی اپنی ٹیم میں ہیں، جو پہلے وزراء و اسپیکر رہ چکے ہیں، اُن سے مشورہ کریں، کیوں کہ میرے خیال میں مشاورت کے عمل کو جاری رہنے ہی سے پنجاب ترقی کرے گا۔ انھیں اورنج ٹرین، پنجاب پولیس اور تعلیم و صحت کے حوالے سے بہت سے فیصلے کرنے ہیں، ان کے علاوہ انھیں لاہور میں کنسٹرکشن کے نام پر توڑ پھوڑ اور گرد وآلود کو ختم کرنے کے لیے بھی کام کرنے ہیں جس کے لیے انھیں پیشہ ورٹیم کی ضرورت ہے۔

یقین مانئے کہ پاکستان بحیثیت ریاست اس لیے کمزور ہوتا گیا کہ یہاں کی بیوروکریسی کرپٹ ہی نہیں قوم کے سر بھی چڑھی رہی، ہر افسر ہر ادارے کو قاعدے قانون کے بجائے ذاتی کمپنی سمجھ کر چلاتا رہا ہے۔ اس ڈگر پر چلتے ہوئے ریلوے اور پی آئی اے کا بیڑہ غرق ہوا ۔آپ تھوڑا سا غور کریں تو سمجھ آجائے گی کہ اس قدر عام کرپشن کی وجہ ہماری بیوروکریسی ہے ، جسے عرف عام میں افسر شاہی کہا جاتا ہے ، یہ افسر شاہی پاکستان میں کرپشن کی جڑ ہے جس نے ہر قسم کا قاعدہ قانون، ہر ضابطہ اصول اٹھا کر بالائے طاق رکھ دیا ہوا ہے ۔پرویز الٰہی اور عثمان بزدار کی شکل میں پنجاب میں The Best Combinationبن چکا ہے۔جو یقینا اسٹیٹس کو کو توڑنے کے لیے کام کرے گا اور صوبہ پنجاب یقینا ترقی کرے گا۔(انشاء اللہ)۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں