پاک روس اکھ مٹکہ   دوسرا حصہ

پاک سوویت ہنی مون پینسٹھ کی جنگ کے بعد دو ڈھائی برس سے زیادہ نہ چل سکا۔

گذشتہ سنیچر کو پاک روس تعلقات کے بارے میں یہ بات ہوئی کہ کس طرح قیامِ پاکستان کے بعد بیس برس کے عرصے میں پاکستان اور سوویت یونین نے ایک دوسرے کو تولنے ٹٹولنے میں گذارے اور پینسٹھ کی جنگ کے بعد بھارت اور پاکستان کے مابین سوویت ثالثی نے ایوب حکومت کو سوچنے پر مجبور کیا کہ اور بھی ملک ہیں زمانے میں امریکا کے سوا۔

مگر پاک سوویت ہنی مون پینسٹھ کی جنگ کے بعد دو ڈھائی برس سے زیادہ نہ چل سکا اور جیسے ہی امریکا میں جانسن کے بعد رچرڈ نکسن کی حکومت آئی اور کچھ عرصے بعد ایوب حکومت زوال پذیر ہوئی تو نئی فوجی حکومت نے علاقائی صورتِ حال کو قومی مفاداتی نگاہ سے دیکھنے کے بجائے واشنگٹن اور تہران کی نگاہوں سے دیکھنا شروع کر دیا۔سوویت یونین نے خطے میں توازنِ طاقت برقرار رکھنے کے لیے کابل اور دلی سے اسٹرٹیجک تعلقات کو خصوصی اہمیت دینی شروع کی۔

انیس سو انہتر میں محدود سرحدی جھڑپوں کے سبب چین سوویت تعلقات میں نظریاتی کشیدگی نے ایک نیا رخ اختیار کیا۔چین کے نائب صدر اور دستِ راست لیو چاؤشی سوویت یونین کی تائید سے ماؤ کا تختہ الٹنے کی سازش پکڑے جانے پر سوویت یونین فرار ہوتے ہوئے مارے گئے۔اسی دور فوجی حکومت نے اپنے دو دوستوں مگر ایک دوسرے کے نظریاتی دشمنوں یعنی چین اور امریکا کو قریب لانے کے لیے پل کا کام کیا اور نکسن کے قومی سلامتی کے مشیر ہنری کسنگر کے بیجنگ کے خفیہ دورے کا اہتمام کیا۔ کریملن لیڈرشپ کو شائد لگا کہ پاکستان سوویت یونین کے دو دشمنوں کے بیچ دلالی کر رہا ہے اور سوویت یونین کا یورپ تا بحرالکاہل ناٹو ، سیٹو ، سینٹو اور اب چین کے ذریعے جغرافیائی گھیراؤ مکمل کیا جا رہا ہے۔

اس کا توڑ یہ سوچا گیا کہ شمالی ویتنام کی فوجی امداد دوگنی کردی جائے جہاں امریکا کے سینگ بری طرح الجھے ہوئے تھے۔بھارت جہاں مسز اندراگاندھی نے کانگریسی بابوں کو شکست دے کر اقتدار پر گرفت مضبوط کر لی تھی۔ان کے ساتھ خصوصی سٹرٹیجک پارٹنر شپ آگے بڑھائی جائے تاکہ چین اپنی شمال مشرقی سرحد پر کچھ مصروف ہو سکے۔اور کابل میں ریڈیو پختونستان کا والیوم تھوڑا سا اور بڑھا دیا جائے تاکہ مغربی پاکستان کو اپنی مغربی سرحد کی فکر بھی ہو۔

انیس سو ستر میں انتخابات سے پہلے مغربی اور مشرقی پاکستان کے درمیان پولرائزیشن کا عمل مکمل ہو چکا تھا۔ بھارت نے انیس سو پینسٹھ کی جنگ میں اپنی ناکامیوں اور پاکستان کی عسکری حکمتِ عملی کے کمزور پہلوؤں کا ناقدانہ جائزہ لیا اور فوجی ڈاکٹرائین کو نئی شکل دی۔بھارتی توشہ خانے میں پرانے امریکی اسلحے کی جگہ جدید سوویت اسلحہ نے لے لی۔پاکستان اس الیوژن میں مبتلا ہوتا چلا گیا کہ چین امریکا کے تعلقات کی بحالی میں کلیدی کردار ادا کر کے اب وہ اتنا محفوظ و معتبر ہو گیا ہے کہ بھارت کو کچھ برا سوچنے سے پہلے دس بار سوچنا پڑے گا۔

پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کو اس اعتماد نے مشرقی پاکستان میں وفاق سے بڑھتی بیزاریت کا درست تجزیہ کرنے سے بھی روکے رکھا۔چنانچہ حیرت کا پہلا جھٹکا آٹھ دسمبر انیس سو ستر کو لگا جب عوامی لیگ نے مشرقی پاکستان کے لیے مختص قومی اسمبلی کی ایک سو باسٹھ میں سے ایک سو ساٹھ سیٹیں جیت لیں اور مغربی پاکستان میں پیپلز پارٹی ایک سو تیس جنرل سیٹوں میں سے اسی سیٹیں جیت گئی۔

یوں انتخابات کرانے والوں کے اندازے ہوا میں اڑ گئے کہ مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ ، نیشنل عوامی پارٹی (بھاشانی ) اور جماعتِ اسلامی انیس بیس کے فرق سے آگے پیچھے کامیاب ہوں گی اور مغربی پاکستان پیپلز پارٹی ، نیپ ( ولی خان )، قیوم لیگ، کنونشن لیگ اور جماعت اسلامی و جمیعت علماِ اسلام میں بٹ بٹا کر رہ جائے گا۔یوں ایک کمزور مخلوط حکومت کے درمیان توازن برقرار رکھنے اور آئین سازی کا عمل خوش اسلوبی سے مکمل کرنے کے لیے یحییٰ خان کو اگلے پانچ برس کے لیے بطور منتخب صدر فائز رہنا پڑے گا۔


انتخابی نتائج اگرچہ اسٹیبلشمنٹ کی کنپٹی کے قریب سے گذر گئے مگر جنتا بدلے حالات کا ادارک کرنے کے بجائے '' نہیں نہیں ایسا نہیں ہو سکتا'' کی ذہنی حالت میں ہی رہی۔ چنانچہ منتخب نمایندوں کو بروقت اقتدار کی منتقلی نہ ہو سکی۔ مشرقی پاکستان جو پہلے ہی چھ نکات کے حق میں فیڈریشن کو کنفیڈریشن بنانے کے حق میں فیصلہ دے چکا تھا پھٹ پڑا۔ اس بغاوت کو فوجی آپریشن کے ذریعے دبانے کی کوشش کی گئی اور مغربی پاکستان کی غالب سیاسی قیادت نے موقع شناسی کے بجائے موقع پرستی میں پناہ لیتے ہوئے آپریشن کی سیاسی حمایت سے وفاق ٹوٹنے کی رفتار کو ٹربو لگا دیا۔

ظاہر ہے اس آپریشن کے نتیجے میں مشرقی پاکستان کے پناہ گزین جن میں پاکستانی ہندؤوں کی بھی ایک بڑی تعداد تھی سرحد پار مغربی بنگال اور آسام جا پہنچی۔بھارت کا دعویٰ تھا کہ ایک کروڑ کے لگ بھگ مہاجرین اس کے علاقے میں پہنچے ہیں۔پاکستان کا دعویٰ تھا کہ یہ تعداد چند لاکھ سے زیادہ کی نہیں اور انھیں پاکستان دوبارہ لینے کو تیار ہے۔بھارت نے انھی پناہ گزینوں میں سے مکتی باہنی کے لیے بھرتی ہونے والوں کو تربیتی سہولتیں دیں۔ پاکستانی انتظامیہ اس دوران تمام غیر ملکی نمایندوں کو مشرقی پاکستان سے نکال کر اپنے پاؤں پر ایک اور کلہاڑی مار چکی تھی۔ چنانچہ بین الاقوامی پریس نے کلکتہ میں بیٹھ کر یا پھر سرحدی علاقوںمیں پناہ گزینوں سے پوچھ پوچھ کر ہولناک روپورٹیں وائر کرنی شروع کر دیں۔یوں پاکستان کی بین الاقوامی تنہائی کی میز پر مشرقی پاکستان ایسا کیک بن گیا جسے کسی بھی وقت کھایا جا سکتا تھا۔

چینی قیادت نے پاکستان کو مشورہ دیا کہ مشرقی پاکستان کے مسئلے کو طاقت کے بجائے سیاسی طریقے سے حل کیا جائے۔سوویت صدر پڈ گورنی نے یحیی خان کو ذاتی خط لکھا جس میں یہی تلقین کی گئی کہ انتقالِ اقتدار کے لیے مذاکرات کا راستہ اپنایا جائے تاکہ انسانی المیے کی شدت کم سے کم ہو سکے۔

مگر پچیس مارچ کے آپریشن سرچ لائٹ کے نتیجے میں مشرقی پاکستان میں جو عارضی خاموشی چھائی اسے مغربی پاکستان میں بیٹھی قیادت نے امن کی بحالی سمجھا اور دل میں یہ جانا کہ چین اور پڈگورنی کو کیا پتہ جو ہم جانتے ہیں۔انھیں کیا معلوم کہ ڈنڈا کتنے مسائل کا حل ہے۔اور پھر اگست انیس سو اکہتر میں خبر آئی کہ سوویت یونین اور بھارت کے درمیان دوستی اور تعاون کا پچیس سالہ معاہدہ طے پا گیا۔اور خبر آئی کہ اندراگاندھی نے ماسکو اور پھر مغربی دارلحکومتوں کا تفصیلی دورہ کر کے مشرقی پاکستان میں جنم لینے والے انسانی المئے سے آگاہ کر کے اعتماد میں لیا اور فوجی پلان کا ذکر کیے بغیر انسانی سطح پر مادی تعاون کی درخواست کی۔اور پھر نومبر کے تیسرے ہفتے میں خبر آئی کہ مشرقی پاکستان کے سرحدی علاقوں میں بھارت کی طرف سے مکتی باہنی کو فائر کور دینا شروع کر دیا گیا ہے اور پھر تین دسمبر کو خبر آئی کہ مغربی پاکستان کی سرحد پر بھی جنگ چھڑ گئی۔اور پھر خبر آئی کہ سلامتی کونسل میں سوویت یونین نے جنگ بندی کی ایک قرار داد ویٹو کر دی تاکہ بھارت کو مشرقی پاکستان میں اپنے عسکری اہداف مکمل کرنے کا موقع مل سکے۔اور پھر خبر آئی کہ دس دسمبر کو سلامتی کونسل میں پاکستانی مندوب ذوالفقار علی بھٹو نے جارحیت کے آگے کبھی نہ جھکنے کا جذباتی مونولاگ سنا کر اپنے نوٹس پھاڑے اور نیویارک کی روم جانے والی فلائٹ پکڑ لی۔

پاکستانی پریس میں چھپا کہ بھٹو نے کمال خوداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے پولینڈ کی پیش کردہ قرار داد پھاڑ دی۔ مگر پولینڈ کی قرار داد جسے ساتویں بحری بیڑے کو مشرقی پاکستان روانہ کرنے والے امریکا کی تائید بھی حاصل تھی اسے روسی ویٹو سے بچنے کے لیے سوویت مشورے سے مرتب کیا گیا تھا۔اس قرار داد کے ذریعے جو جنگ بندی ہونی تھی اس کا مقصد ایک ہی تھا کہ لڑائی رکتے ہی پاکستان اپنی فوجیں مشرقی پاکستان سے نکال لے اور بھارتی فوجیں جس مقام پر ہیں وہیں رک جائیں۔

مگر اس قرار داد کا مفہوم سمجھنے میں پنڈی کو دیر لگ گئی اور جنرل نیازی تک تو اس کی شائد ہوا تک نہ پہنچی۔اسی لیے جنرل نیازی نے چودہ دسمبر کو فرمایا کہ بھارتی ٹینک میری لاش پر سے گذر کے ہی ڈھاکا میں داخل ہو سکتے ہیں۔اگلی صبح تک پنڈی سے فیصلہ کن پیغام نیازی کی میز پر پہنچ گیا اور چند گھنٹے بعد جنرل اروڑا نے بمباری معطل کر کے ایک ہیلی کاپٹر ڈھاکا بھیج دیا تاکہ اس میں سوار بھارتی فوجی افسر اپنے پاکستانی ہم منصبوں کے ساتھ مل کر ایک مشترکہ مسودہ برائے دستخط تیار کر سکیں۔

سولہ دسمبر کو جیسے ہی پلٹن میدان میں بھارتی ہائی کمان کی مرتب کردہ دستاویز پر دستخط ہوئے اس کے چند گھنٹے بعد اندراگاندھی نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں وہ خبر دی جسے سنتے ہی تالیوں اور نعروں نے پارلیمنٹ کی چھت اڑا دی۔ماسکو سے خبر رساں ایجنسی تاس نے خبر ریلیز کی کہ سوویت یونین نے عوامی جمہوریہ بنگلہ دیش کی نئی حکومت کو تسلیم کرتے ہوئے مکمل تعاون کا یقین دلایا ہے۔دوسری جانب پنڈی میں موجود ذولفقار علی بھٹو کے علم میں آ چکا تھا کہ نکسن کی برزنیف سے ہاٹ لائن پر گفتگو ہو چکی ہے اور پھر نکسن کی اندراگاندھی سے بھی بات ہو چکی ہے۔مگر پاکستان کو اب یہ گیم بغیر اکے کے کھیلنی تھی۔بھٹو صاحب سوچ رہے تھے کہ سوویت یونین کو کھلم کھلا دشمنی کی سیڑھی سے ایک آدھ پائیدان نیچے کیسے لایا جا سکتا ہے۔ (باقی ماجرا اگلی قسط میں)۔

(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com پر کلک کیجیے)
Load Next Story