کرکٹ کو فکسنگ سے پاک کرنے کے لیے آپریشن کلین اَپ ضروری ہو گیا
صرف کھلاڑی قصور وار نہیں، بکیز کا محاسبہ کرنے کے لیے پورا سسٹم متحرک کرنا ہوگا
WASHINGTON:
کھیل نوجوانوں کو معاشرتی برائیوں سے محفوظ رکھنے کا بہترین ذریعہ ہیں مگر افسوس کی بات ہے کہ چند مفاد پرست عناصر نے ان مثبت سرگرمیوں کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، کھلاڑیوں کو فکسنگ پر آمادہ کرکے مقابلوں میں مرضی کے نتائج حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، دولت کی ریل پیل نے پلیئرز کو آسودہ حال تو کر دیا مگر ہوس کی بھوک بھی بڑھا دی ہے۔
پاکستانی کرکٹ کی تاریخ بھی کئی بار ایسے ہی الزامات سے داغدار ہو چکی، سلمان بٹ، محمد آصف اور محمد عامر تو ملزم سے مجرم بن کر جیل کی ہوا بھی کھا چکے، حال ہی میں آئی پی ایل سپاٹ فکسنگ سکینڈل نے بھارتی بورڈ کے نیک نامی کے دعوؤں کی قلعی کھول دی۔
کرکٹ سے بے پناہ لگاؤ رکھنے والے شائقین اس صورتحال پر خاصے رنجیدہ اور کھیل کا دامن کرپشن سے پاک رکھنے کا مطالبہ کرتے نظر آتے ہیں۔ بیشتر فکرمند ہیں کہ اسی طرح کے ڈرون حملے جاری رہے تو شریفوں کے کھیل کا مستقبل کیا ہوگا؟ کرکٹ کا حسن پامال کرنے والے بدعنوان عناصر کی حوصلہ شکنی کے لیے کیا اقدامات اٹھنا چاہئیں۔ ان سوالوں کے جوابات حاصل کرنے کے لیے کھیلوں سے وابستہ اہم شخصیات کو ''ایکسپریس فورم'' میں گفتگو کی دعوت دی گئی جس کا احوال قارئین کی نذر ہے۔
خالد محمود
( سابق چیئرمین پاکستان کرکٹ بورڈ)
معاشرے کے ہر شعبے کی طرح کھیلوں میں کرپشن کو ختم کرنے کے لیے بھی اچھائی اور قانون کی عملداری کے سنہرے اصول ہی معاون ثابت ہوسکتے ہیں، ہر کھلاڑی کو شک کے کٹہرے میں کھڑا کرنے سے کئی قومی ہیروز کی بے وجہ کردار کشی کا خدشہ ہوتاہے، ٹھوس شوہد اکٹھے کئے جانے کے بعد ہی کسی کو مجرم قرار دیا جاسکتا ہے، عام طور پر قیاس آرائی کو ہی حقیقت کا درجہ دے کر شور مچانا شروع کردیا جاتا ہے، حقائق کی سائنسی بنیادوں پر چھان بین ضروری نہیں سمجھی جاتی، میرے دور میں پاکستان ہی واحد ملک نہ تھا کہ جس کے کھلاڑی جوئے کے الزامات کا سامنا کر رہے تھے۔
بلکہ دنیائے کرکٹ کے کئی پلیئر زد میں آئے ہوئے تھے، ان میں متعدد نامی گرامی کرکٹر بھارتی کیپل دیو، اجے جدیجہ، پربھارکر اور آسٹریلوی ڈین جونز بھی شامل تھے۔ شین وارن، مارک وا نے تو تسلیم بھی کر لیا تھا کہ انہوں نے کسی کو موسم اور وکٹ کی صورتحال بتانے کی رقم وصول کی تھی، بہرحال وہ موسم کے ماہر تو تھے نہیں کہ انہیں کوئی رقم دیتا، یہی حال جنوبی افریقہ کے ہنسی کرونیئے، ہرشل گبز اور کئی انگلش کھلاڑیوں کا بھی تھا، ان دنوں پوری دنیا میں جوئے کا دوردورہ تھا، میں سمجھتا ہوں جب اتنا شور مچ جائے اور دھواں اٹھتا ہو تو کہیں نہ کہیں آگ بھی ضرور لگی ہوتی ہے۔
میں نے چیئرمین کرکٹ بورڈ کا عہدہ سنبھالا تو اس وقت کے حالات میں کرکٹ ایڈمنسٹریشن کا بہت بڑا چیلنج تھا، میرے سامنے دو ضروری چیزیں تھی، ایک یہ کہ میچ فکسنگ جیسی وبا کے بارے میں ہمیں مکمل معلومات ہونی چاہیے، وہ کھلاڑی جو جوئے میں ملوث ہیں ان کو پکڑا جائے اور ایسے اقدامات بھی کئے جائیں کہ پاکستانی کرکٹ اس لعنت سے محفوظ رہے، ان دو انتہاؤں کے درمیان ہی ہم نے اپنا راستہ بنانا تھا،بورڈ میں میرے کچھ ساتھی عہدیدار ایسے بھی تھے جو ضد کر رہے تھے کہ جن کھلاڑیوں پر جوئے کا الزام ہے انہیں یکسر فارغ کردیا جائے۔
کئی تو پوری ٹیم کو فارغ کرکے اپنے من پسند کلب سطح کے کرکٹرز کو شامل کرنے کے لیے پر تول رہے تھے لیکن میں نے اس تجویز سے اختلاف کیا، میرا مؤقف تھا کہ بدترین ملزم بھی شواہد کے بغیر مجرم قرار نہیں دیا جاسکتا، الزامات کو ثابت کئے بغیر کسی سے مجرموں جیسا سلوک شروع کردینا قانون اور اصول کے خلاف عمل ہوگا،کیا ہمارے نامور کھلاڑی کسی عام ملزم سے بھی گئے گزرے ہیں کہ انہیں صفائی کا موقع دیئے بغیر ہی بدنامی کا داغ لگا کر فارغ کر دیا جائے، تسلیم کرتا ہوں کہ میں نے جوئے کے الزام میں ملوث کھلاڑیوں کے بارے میں سخت مؤقف اختیار کیا اور صدر پاکستان سے ان کی جوڈیشل انکوائری کروانے کی درخواست بھی کی، تحقیقات کے دوران جہاں تمام کھلاڑی پیش ہوتے رہے وہاں میں بھی وقتاً فوقتاً عدالت جاتا رہا، میرا چونکہ قانونی پس منظر ہے۔
پاکستان سے قانون کی تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ ہارورڈ لاء سکول سے بھی ماسٹرز کیا، میں خود اپنے ذہن سے پرکھنا چاہتا تھا کہ کرکٹرز کے جوئے میں ملوث ہونے کے الزامات میں کتنی سچائی ہے، میرے عدالت میں بار بار جانے سے لوگوں نے بڑے غلط مطلب بھی نکالے، وہ شاید سوچ رہے تھے کہ میں کسی کو بلاوجہ سپورٹ کرکے بچانے کی کوشش کر رہا ہوں، تاہم میرا مقصد صرف اور صرف یہی تھا کہ اگر کوئی قصور وار ہے تو اس کو سزا ملے پوری ملکی کرکٹ داؤ پر نہ لگے، ان تمام مشکلات کے باوجود پاکستانی ٹیم نے ورلڈ کپ 1992ء کے بعد کسی میگاایونٹ میں دوسری بار بہترین کارکردگی دکھائی لیکن ٹورنامنٹ میں بنگلہ دیش کے خلاف میچ پر شکوک و شبہات کا اظہار کیا گیا تھا، اس کی انکوائری بھی ضرور ہونا چاہیے تھی۔
موقع ملتا تو ایسا ضرور کرتا تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے لیکن مجھے چیئرمین کے عہدے سے ہی ہٹا دیا گیا۔پاکستانی کرکٹرز سلمان بٹ، محمد عامر اور محمد آصف کے سپاٹ فکسنگ کیس کے بعد حال میں سامنے آنے والے آئی پی ایل سکینڈل پر خاصا ہوم ورک کرنے کے بعد ہی 3 بھارتی کرکٹرز پر ہاتھ ڈالاگیا،کھلاڑیوں کی فون کالز ٹریس ہوئیں،لیپ ٹاپ ڈی کوڈ کرنے کے علاوہ ویڈیو شواہد بھی اکٹھے کئے گئے، ایسا ہی منظم کام پی سی بی اور دنیا کے ہر کرکٹ بورڈ کو کرنا چاہیے، صرف اینٹی کرپشن یونٹ بنا دینا کافی نہیں، مختلف شعبوں کی خدمات حاصل کرکے باہمی تال میل اور پوری گرفت کے ساتھ ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے اقدامات کئے جائیں،آج تک جتنے بھی فکسنگ کے واقعات سامنے آئے زیادہ تر میں کھلاڑیوں کی پکڑ دھکڑ اور سزاؤں کو ہی کافی سمجھ لیا گیا۔
ان کی حوصلہ افزائی میں ملوث یا دانستہ غفلت برتنے والے آفیشلز کے خلاف کوئی کارروائی ضروری نہیں سمجھی گئی، دوسری طرف مکروہ دھندے کو کاروبار بنانے والے بکیز کے نیٹ ورک توڑنے پر کوئی توجہ نہیں دی جاتی، جوا مافیا کمائی کے لیے پلیئرز کو اپنے جال میں پھنساتے ہیں، بکیز کی ڈیمانڈ اور کھلاڑیوں کی سپلائی چین کو توڑے بغیر کرپشن کا راستہ روکنا ممکن نہیں،اس ضمن میں کرکٹ بورڈز اور قانون نافذ کرنے والے مختلف اداروں اور ایجنسیز میں معلومات کے تبادلے سمیت مختلف امور پر مشترکہ لائحہ عمل تیار کرنا چاہیے، صرف کھلاڑیوں ہی نہیں بلکہ بد عنوانی میں ملوث تمام افراد پر بلا تفریق قانون کے مطابق ہاتھ ڈالنا ہوگا، ہمارے ہاں تو بکیز سے رشتہ داریاں رکھنے والوں کو کھیل کی باگ ڈور سنبھالنے کے لیے بورڈ میں اہم ذمہ داریاں دیدی جاتی ہیں، ملک میں جس کے ہاتھ میں اقتدار ہو ، کرپشن کی کمائی پر اپنا حق سمجھتا ہے، قانون کو اپنے اشاروں پر چلانے کو کامیابی کی دلیل سمجھا جاتا ہے، کھیلوں کو کرپشن سے پاک کرنے والے دیانتدار لوگ کہاں سے آئیں گے؟
بھارتی کرکٹ بورڈ کے صدر سری نواسن نے بکیز کے سامنے بے بسی کا اظہار کرکے دراصل اپنی انتظامی خامیوں کا اعتراف کیا ہے، کسی کو بھی اداروں اور قانون سے بالا تر نہیں ہونا چاہیے، بی سی سی آئی مایوسی کی باتیں کرنے کے بجائے اپنا نظام موثر بنائے کیونکہ ابھی تک کرکٹ میں کرپشن کے کیس میڈیا اور پولیس کے ذریعے ہی سامنے آئے ہیں، کسی بورڈ کا کوئی کردار نظر نہیں آیا، فکسنگ کو بے نقاب کرنے کے سلسلے میں آئی سی سی بھی کوئی خاص کام نہیں کررہی، زیادہ تر معاملات کو ڈیل کرنے کے لیے سیاہ اور سفید خانے بنادیئے گئے ہیں، دہرے معیار کا مظاہرہ کرتے ہوئے گوری ٹیموں کی غلطیوں کو نظر انداز کردیا جاتا ہے، دوسری طرف ایشیائی ٹیمیں خاص طور پر پاکستان مسلسل نشانہ بنا ہوا ہے،کوئی میچ فکسنگ میں پکڑا جائے تو آئی سی سی آفیشلز مجرموں سے کوئی رعایت نہ برتنے کی بیان بازی کرتے ہیں، آئندہ مزید سخت اقدامات اٹھانے کا عزم بھی ظاہر کیا جاتا ہے مگر بعد ازاں کئی حقیقی مسائل نظر انداز کرنے کا سلسلہ اسی طرح جاری رہتا ہے۔
کھیل کا تقدس پامال ہونے سے بچانا ہے تو گورے کالے کی تفریق کئے بغیر کھلاڑیوں، آفیشلز اور بکیز کی سرگرمیوں پر نظر رکھی جائے، دنیا کے کئی ملکوں میں جوئے کو قانونی شکل دیدی گئی ہے، بھارت بھی ایسا ہی قدم اٹھانے پر غور کر رہا ہے، پاکستان میں تو ایسے کام کی نہ مذہب میںاجازت ہے اور نہ ہی معاشرت اخلاقیات میں اسے گوارا کیا جاتا ہے۔ کھلاڑیوں کے موبائل فون استعمال کرنے پر پابندی کوئی حل نہیں ، مینجمنٹ کو پلیئرز کی ایک ایک حرکت پر نظر رکھنا چاہیے، بورڈ کو اپنا انٹیلیجنس کا نظام بناکر صورتحال کو مانیٹر کرنا ہوگا، مجرم کو رنگے ہاتھوں پکڑنے کے ساتھ ساتھ کسی غلط الزام پر کھلاڑیوں کا دفاع کرنا بھی ٹیم مینجمنٹ کی ذمہ داریوں میں شامل ہوتا ہے، میرے دور میں کرکٹرز پر کئی غلط الزامات بھی لگے۔
جنہیں ہم نے دلائل سے غلط ثابت کیا۔ آج کل ٹوئنٹی 20کرکٹ کو جوئے کی نرسری قرار دیا جاتا ہے، میرے خیال میں کوئی فارمیٹ بھی کرپشن سے خالی نہیں، سارے کیس مختصر طرز کی کرکٹ میں سامنے نہیں آئے، نہ صرف کرکٹ بلکہ ہر کھیل کا دامن صاف رکھنے کے لیے صرف اور صرف سچائی اور قانون پر مبنی نظام کی تشکیل اور اس پر عمل درآمد ضروری ہے۔ ہمارا ایک بڑا مسئلہ یہ بھی ہے کہ بدعنوانی کا سیلاب معاشرہ سے رول ماڈل بہا کر لے گیا ہے، کامیابی کا تصور بدل چکا، برائی کے خلاف آواز اٹھانے کی کوئی جرات نہیں کرسکتا، ذوالقرنین حیدر نے کئی دعوے کئے مگر سیکیورٹی رسک کا بہانہ بنا کر کوئی ٹھوس بات سامنے نہیں لائے، راشد لطیف ، عامر سہیل اور سرفراز نواز نے تو خطرات کے باوجود زبان کھولنے کی جرات کرلی، وکٹ کیپر ایسا کیوں نہیں کرسکتے؟
مقبول بابری
(ماہر نفسیات)
ہمارے کرکٹرز کی بڑی تعداد غریب اور متوسط گھرانوں سے آتی ہے، ہزاروں میں سے چند ہی قومی سطح کی ٹیموں میں جگہ بنا پانے میں کامیاب ہوتے ہیں، انہیں پچپن میں ہی سمجھایا جاتا ہے کہ کھیل کو چھوڑو، تعلیم پر توجہ دے کر روشن مستقبل کی طرف قدم بڑھاؤ،کامیابی نہ ملی تو کسی کام کے نہیں رہو گے، معاشرے میں عزت کے تصورات کو بھی اکثر دولت کی فراوانی سے نتھی کردیا جاتا ہے، معاشی بے یقینی کی کیفیت میں مبتلا کھلاڑی کسی ایک منزل تک پہنچ جائیں تو بھی ناکامی کا خوف ان کا پیچھا نہیں چھوڑتا،بیشترکو یقین نہیں ہوتا کہ ان کی ٹیم میں جگہ کتنی دیر تک برقرار رہے گی، اگر ایک بار ڈراپ ہوگئے تو مستقبل میں آسائشوں سے محروم ہونا پڑے گا، معاشی مستقبل زیادہ سے زیادہ محفوظ بنانے کے لیے اچھائی برائی کا فرق خاطر میں لائے بغیر کمائی کے ہر طریقے میں کشش محسوس کرتے ہیں۔
اسی نفسیاتی کیفیت کا بکیز فائدہ اٹھاتے ہیں،کرکٹرز کو اس غیر یقینی صوتحال سے نجات دلانے کے لیے بہترین ذہنی تربیت، کوچنگ اور مینجمنٹ سے کام لیا جانا چاہیے، کھلاڑی اسی معاشرے کا حصہ ہیں جہاں لوگ روپے پیسے کی دوڑ میں اپنی قدروں کو پامال کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے،معاشرتی ماحول کو بہتر بناکر ہر شعبے میں بہتری کا خواب دیکھا جاسکتا ہے، تاہم قومی کرکٹ ٹیم کی کونسلنگ کرتے ہوئے میری کوشش ہوتی ہے کہ پلیئر کے انفرادی نفسیاتی مسائل اور اجتماعی کردار دونوں کے حوالے سے ایسا اعتماد پیدا کروں، عوام کی امنگوں پر پورا اترنے کا احساس ذمہ داری اور اپنی صلاحیتوں پر یقین پلیئر کو کئی منفی رجحانات سے دور رکھنے میں معاون ثابت ہوتا ہے جن میں سے سر فہرست مال دولت کے لیے اپنی وفاداریاں بیچ ڈالنا ہے، محمد عامر کے ساتھ چند سیشن ہوئے۔
فاسٹ بولرانتہائی باصلاحیت ہونے کے باوجود سینئرز کے دباؤ یا ان کے گلیمر سے متاثر ہوکر بہت بڑی غلطی کر بیٹھا جس کا اس نے اعتراف بھی کیا، آنے والے کرکٹرز کو فکسنگ سے آگاہی دینے کے لیے آئی سی سی کے ساتھ تعاون پر بھی آمادہ ہوئے، ہمیں مستقبل کے ٹیلنٹ کو ضائع ہونے سے بچانے کے لیے ڈومیسٹک سطح سے ہی کھلاڑیوں کو ذہنی طور پر مضبوط بنانا ہوگا، میرا خیال ہے کہ کرپشن میں ملوث کھلاڑی اپنے ضمیر کا قیدی بھی ہونے کی وجہ سے مستقبل اور ٹیم کی پرفارمنس دونوں کے لیے مہلک ثابت ہوتا ہے، بحالی کے سفر میں محمد عامر کی طرح ہر پلیئر کو اسی قید سے نجات دلانا ضروری ہوتا ہے کیونکہ غلط اقدام اٹھانے کے بعد سب سے مشکل کام خود کو معاف کرنا ہوتا ہے۔
ڈاکٹر خالد جمیل
(سربراہ شعبہ سپورٹس میڈیسن، میو ہسپتال)
جتنی میچ فکسنگ ہمیں منظر عام پر نظر آتی ہے، اس سے سو گنا دنیا بھر کے کھیلوں میں موجود ہے، کیونکہ عمومی طور بھی پکڑے جانے والے جرائم اصل تعداد کا چند فیصد ہی ہوتے ہیں، نوجوان ابھرتے ہوئے پلیئرز کی عمریں 18سے 25سال تک ہوتی ہیں، ذہنی بلوغت میں کمی کی وجہ سے عزت اور شہرت کے بجائے دولت کی بھوک بڑھ جائے تو چالاک بکیزکو اپنے کاروباری مقاصد حاصل کرنے کا موقع مل جاتا ہے،ہماری نظر میں بدعنوان عناصر ایک نیٹ ورک کے ساتھ بزنس کر رہے ہوتے ہیں۔
جس کے لیے انہیں کھلاڑیوں کا استعمال کرنا ہوتا ہے،بدقسمتی سے معاشی عدم تحفط کی وجہ سے ہمارے پلیئر بہت جلد ان کے جال میں پھنس جاتے ہیں، کسی ایک پلیئر کو ٹیم میں لیا جائے تو اس کی صلاحیتوں پر بھرپور اعتماد کرتے ہوئے مناسب مواقع دیئے جائیں،اسے غیر یقینی کیفیت سے نجات دلائے بغیر ایک مضبوط شخصیت اور کھلاڑی نہیں بنایا جاسکتا، کبھی میں پی سی بی کے ساتھ وابستہ تھا تو کئی پلیئر انجریز چھپاکر بھی کھیلتے تھے کہ کوئی اچھی کارکردگی دکھا کر ان کی جگہ پر مستقل قبضہ نہ جمالے، اس صورتحال میں کرکٹرز کو معاشی تحفظ دینے کے لیے بورڈ کی طرف سے سنٹرل کنٹریکٹ بہترین اقدام ہے لیکن ساتھ ساتھ کھلاڑیوں کی جسمانی، ذہنی، اخلاقی اور روحانی تربیت کے لیے مسلسل کورسز کا اہتمام بھی ہونا چاہیے۔
ہرسطح پر مسلسل کوشش سے ہی ہم کھیلوں کا دامن فکسنگ جیسی آلائشوں سے پاک رکھ سکتے ہیں۔ میڈیکل ، ایجو کیشن اور فٹنس کے پروگرام تشکیل دے کر کرکٹرز کو ہر پہلو سے ذہنی طور پر تیار کیا جائے تو مثبت نتائج حاصل ہوں گے، تاہم اس ضمن میں سفارش اور ذاتی پسند ناپسند کا کوئی عمل دخل نہیںہونا چاہیے، کوئی پکڑا جائے تو اس کے ساتھ ہرگز کسی قسم کی رعایت نہ برتی جائے، قانون سب کے لیے ایک ہو تب ہی جرائم کی شرح پر قابو پانے کی توقع کی جاسکتی ہے، کھلاڑی کا پروفیشنل ہونا بری بات نہیں لیکن کمائی کے لیے دھوکہ دہی سے شائقین کے جذبات کے ساتھ کھیلنا جرم ہے۔
اس کی سزا ضرور ہونا چاہیے۔ پاکستان میں ایم بی بی ایس کے بعد سپورٹس فزیشن کا 5سالہ کورس متعارف کروایا تھا، اب تک 25سپیشلسٹ تیار ہوئے جن میں چند پاکستان، دیگر غیر ملکوں میں کام کرہے ہیں، موقع دیا جائے تو کھلاڑیوں کے جسم میں ہونے والی کیمیائی تبدیلیوں کی اسٹڈی سے مدد لیتے ہوئے کارکردگی اور پریشر میں ثابت قدم رہنے کی صلاحیتوں میں اضافہ کے لیے کام کرسکتے ہیں، سپورٹس سائنس کے پاس جسمانی اور ذہنی دونوں طرح کے مسائل کا حل موجود ہے۔
میاں اسلم
(سابق آئی سی سی امپائر)
فکسنگ کی وبا پرانی ہے مگر اب کچھ زیادہ ہی تیزی سے پھیلاؤ دیکھنے میں آرہا ہے، بھارتی بورڈ حالیہ سکینڈل میں بے بس نظر آیا، دوسرے ملکوں میں بھی اخلاقی پابندیاں ہونے کی وجہ سے جوئے بازوں کے نیٹ ورک سرگرم ہیں لیکن ایک اسلامی ملک ہوتے ہوئے پاکستان میں ان کی کوئی گنجائش نہیں ہونا چاہیے، ہمارے کئی مسائل تو کرکٹ بورڈ کی غفلت کا نتیجہ ہیں، مختلف انتظامی امور میں ذمہ دار افراد کو آگے لانے کے بجائے چہیتوں کو نوازنے کی پالیسی اختیار کی جاتی ہے۔
سپاٹ فکسنگ سکینڈل کے دوران مینجمنٹ نے بھی غفلت کا مظاہرہ کیا مگر سزا صرف کھلاڑیوں کو ملی، بورڈ کی فوج ظفر موج کس لئے ہے، کھلاڑیوں کی حرکات پر نظر رکھنے کے بجائے ٹیم منیجر اپنی فیملی کے فوٹو سیشن کرواتے پھر رہے تھے، اہل اور ایماندار افراد کو آگے لایا جائے تو کھیل کا حسن پامال نہیں ہوگا، ٹیم کے ساتھ ایسے آفیشلز کو بھیجا جائے جو صرف فون کالز روک کر اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ بر آ نہ ہوجائیں بلکہ کرکٹرز کی ایک ایک حرکت پر نظر رکھیں، ان کے مزاج میں تبدیلیوں، میل ملاپ، اثاثوں میں اضافے اور خریداری میں خلاف معمول سرگرمیوں پر نظر رکھی جائے، یہاں تو بورڈ کے مختلف آفیشلز کی توجہ اپنی کرسیاں مضبوط بنانے پر ہوتی ہے، کرکٹرز کس حالت میں ہیں کسی کو فکر نہیں، لاہور کے ایک میدان میں بکیز سرگرم تھے، انہیں روکنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی گئی تو اعلیٰ سطح پر مسائل کیسے ختم کرسکیں گے؟
چوہدری اعجاز
(سابق سیکرٹری پنجاب کبڈی ایسوسی ایشن)
آج کے دور میں کسی کھیل کو کرپشن سے پاک قرار نہیں دیا جاسکتا، کوئی کھلاڑی عہدیداروں کی ملی بھگت کے بغیر فکسنگ کی جرات نہیں کرسکتا، ایماندار مینجمنٹ کسی پلیئر کی مشکوک چال ڈھال اور معیار سے کم تر کارکردگی کا فرق فوری طور پر محسوس کرلیتی ہے، اگر سب مل کر ہی ہر پہلو کو نظر انداز کرنے لگیں تو معاملات کیسے سدھریں گے، کھیل کو کرپشن سے پاک کرنے کے لیے آپریشن کلین اپ کی ضرورت ہے، مختلف سپورٹس میں آفیشلز کھلاڑیوں کی میچ فیس میں سے حصہ وصول کرکے کرپشن کا راستہ کھولتے ہیں۔
پلیئرز کو موقع دینے کی بھی رشوت مانگی جاتی ہے، غیر ملکی دوروں پر لے جانے کے الگ دام مقرر ہیں، اس صورتحال میں کھلاڑی کو کرپشن کے ذریعے کمائی کا موقع ملے تو فوری فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتا ہے، دنیا بھر کے کھیلوں پر ایک مافیا قابض ہوتا جارہا ہے، ہمارے ہاں بھی صورتحال مختلف نہیں، سپورٹس سے محبت کرنے والے درد مند لوگ آگے آئیں تو پلیئرز کو پرفارمنس اور ملک کی عزت کے سواکوئی چیز زیادہ پر کشش نہیں لگے گی، اگر سلسلہ ایسے ہی چلتا رہا تو کھیلوں کا بھی وہی حشر ہوتا رہے گا جودیگر شعبوں میں نظر آتا ہے، بھارت ایک بڑا ملک اور اس میں کمائی کے مواقع بھی زیادہ ہیں، اگر آئی پی ایل ٹیموں کے عہدیدار اپنے مفاد کے لیے مختلف امور سے دانستہ غفلت نہ برتتے تو کرکٹرز کو سپاٹ فکسنگ کی جرأت نہ ہوتی۔
کھیل نوجوانوں کو معاشرتی برائیوں سے محفوظ رکھنے کا بہترین ذریعہ ہیں مگر افسوس کی بات ہے کہ چند مفاد پرست عناصر نے ان مثبت سرگرمیوں کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، کھلاڑیوں کو فکسنگ پر آمادہ کرکے مقابلوں میں مرضی کے نتائج حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، دولت کی ریل پیل نے پلیئرز کو آسودہ حال تو کر دیا مگر ہوس کی بھوک بھی بڑھا دی ہے۔
پاکستانی کرکٹ کی تاریخ بھی کئی بار ایسے ہی الزامات سے داغدار ہو چکی، سلمان بٹ، محمد آصف اور محمد عامر تو ملزم سے مجرم بن کر جیل کی ہوا بھی کھا چکے، حال ہی میں آئی پی ایل سپاٹ فکسنگ سکینڈل نے بھارتی بورڈ کے نیک نامی کے دعوؤں کی قلعی کھول دی۔
کرکٹ سے بے پناہ لگاؤ رکھنے والے شائقین اس صورتحال پر خاصے رنجیدہ اور کھیل کا دامن کرپشن سے پاک رکھنے کا مطالبہ کرتے نظر آتے ہیں۔ بیشتر فکرمند ہیں کہ اسی طرح کے ڈرون حملے جاری رہے تو شریفوں کے کھیل کا مستقبل کیا ہوگا؟ کرکٹ کا حسن پامال کرنے والے بدعنوان عناصر کی حوصلہ شکنی کے لیے کیا اقدامات اٹھنا چاہئیں۔ ان سوالوں کے جوابات حاصل کرنے کے لیے کھیلوں سے وابستہ اہم شخصیات کو ''ایکسپریس فورم'' میں گفتگو کی دعوت دی گئی جس کا احوال قارئین کی نذر ہے۔
خالد محمود
( سابق چیئرمین پاکستان کرکٹ بورڈ)
معاشرے کے ہر شعبے کی طرح کھیلوں میں کرپشن کو ختم کرنے کے لیے بھی اچھائی اور قانون کی عملداری کے سنہرے اصول ہی معاون ثابت ہوسکتے ہیں، ہر کھلاڑی کو شک کے کٹہرے میں کھڑا کرنے سے کئی قومی ہیروز کی بے وجہ کردار کشی کا خدشہ ہوتاہے، ٹھوس شوہد اکٹھے کئے جانے کے بعد ہی کسی کو مجرم قرار دیا جاسکتا ہے، عام طور پر قیاس آرائی کو ہی حقیقت کا درجہ دے کر شور مچانا شروع کردیا جاتا ہے، حقائق کی سائنسی بنیادوں پر چھان بین ضروری نہیں سمجھی جاتی، میرے دور میں پاکستان ہی واحد ملک نہ تھا کہ جس کے کھلاڑی جوئے کے الزامات کا سامنا کر رہے تھے۔
بلکہ دنیائے کرکٹ کے کئی پلیئر زد میں آئے ہوئے تھے، ان میں متعدد نامی گرامی کرکٹر بھارتی کیپل دیو، اجے جدیجہ، پربھارکر اور آسٹریلوی ڈین جونز بھی شامل تھے۔ شین وارن، مارک وا نے تو تسلیم بھی کر لیا تھا کہ انہوں نے کسی کو موسم اور وکٹ کی صورتحال بتانے کی رقم وصول کی تھی، بہرحال وہ موسم کے ماہر تو تھے نہیں کہ انہیں کوئی رقم دیتا، یہی حال جنوبی افریقہ کے ہنسی کرونیئے، ہرشل گبز اور کئی انگلش کھلاڑیوں کا بھی تھا، ان دنوں پوری دنیا میں جوئے کا دوردورہ تھا، میں سمجھتا ہوں جب اتنا شور مچ جائے اور دھواں اٹھتا ہو تو کہیں نہ کہیں آگ بھی ضرور لگی ہوتی ہے۔
میں نے چیئرمین کرکٹ بورڈ کا عہدہ سنبھالا تو اس وقت کے حالات میں کرکٹ ایڈمنسٹریشن کا بہت بڑا چیلنج تھا، میرے سامنے دو ضروری چیزیں تھی، ایک یہ کہ میچ فکسنگ جیسی وبا کے بارے میں ہمیں مکمل معلومات ہونی چاہیے، وہ کھلاڑی جو جوئے میں ملوث ہیں ان کو پکڑا جائے اور ایسے اقدامات بھی کئے جائیں کہ پاکستانی کرکٹ اس لعنت سے محفوظ رہے، ان دو انتہاؤں کے درمیان ہی ہم نے اپنا راستہ بنانا تھا،بورڈ میں میرے کچھ ساتھی عہدیدار ایسے بھی تھے جو ضد کر رہے تھے کہ جن کھلاڑیوں پر جوئے کا الزام ہے انہیں یکسر فارغ کردیا جائے۔
کئی تو پوری ٹیم کو فارغ کرکے اپنے من پسند کلب سطح کے کرکٹرز کو شامل کرنے کے لیے پر تول رہے تھے لیکن میں نے اس تجویز سے اختلاف کیا، میرا مؤقف تھا کہ بدترین ملزم بھی شواہد کے بغیر مجرم قرار نہیں دیا جاسکتا، الزامات کو ثابت کئے بغیر کسی سے مجرموں جیسا سلوک شروع کردینا قانون اور اصول کے خلاف عمل ہوگا،کیا ہمارے نامور کھلاڑی کسی عام ملزم سے بھی گئے گزرے ہیں کہ انہیں صفائی کا موقع دیئے بغیر ہی بدنامی کا داغ لگا کر فارغ کر دیا جائے، تسلیم کرتا ہوں کہ میں نے جوئے کے الزام میں ملوث کھلاڑیوں کے بارے میں سخت مؤقف اختیار کیا اور صدر پاکستان سے ان کی جوڈیشل انکوائری کروانے کی درخواست بھی کی، تحقیقات کے دوران جہاں تمام کھلاڑی پیش ہوتے رہے وہاں میں بھی وقتاً فوقتاً عدالت جاتا رہا، میرا چونکہ قانونی پس منظر ہے۔
پاکستان سے قانون کی تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ ہارورڈ لاء سکول سے بھی ماسٹرز کیا، میں خود اپنے ذہن سے پرکھنا چاہتا تھا کہ کرکٹرز کے جوئے میں ملوث ہونے کے الزامات میں کتنی سچائی ہے، میرے عدالت میں بار بار جانے سے لوگوں نے بڑے غلط مطلب بھی نکالے، وہ شاید سوچ رہے تھے کہ میں کسی کو بلاوجہ سپورٹ کرکے بچانے کی کوشش کر رہا ہوں، تاہم میرا مقصد صرف اور صرف یہی تھا کہ اگر کوئی قصور وار ہے تو اس کو سزا ملے پوری ملکی کرکٹ داؤ پر نہ لگے، ان تمام مشکلات کے باوجود پاکستانی ٹیم نے ورلڈ کپ 1992ء کے بعد کسی میگاایونٹ میں دوسری بار بہترین کارکردگی دکھائی لیکن ٹورنامنٹ میں بنگلہ دیش کے خلاف میچ پر شکوک و شبہات کا اظہار کیا گیا تھا، اس کی انکوائری بھی ضرور ہونا چاہیے تھی۔
موقع ملتا تو ایسا ضرور کرتا تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے لیکن مجھے چیئرمین کے عہدے سے ہی ہٹا دیا گیا۔پاکستانی کرکٹرز سلمان بٹ، محمد عامر اور محمد آصف کے سپاٹ فکسنگ کیس کے بعد حال میں سامنے آنے والے آئی پی ایل سکینڈل پر خاصا ہوم ورک کرنے کے بعد ہی 3 بھارتی کرکٹرز پر ہاتھ ڈالاگیا،کھلاڑیوں کی فون کالز ٹریس ہوئیں،لیپ ٹاپ ڈی کوڈ کرنے کے علاوہ ویڈیو شواہد بھی اکٹھے کئے گئے، ایسا ہی منظم کام پی سی بی اور دنیا کے ہر کرکٹ بورڈ کو کرنا چاہیے، صرف اینٹی کرپشن یونٹ بنا دینا کافی نہیں، مختلف شعبوں کی خدمات حاصل کرکے باہمی تال میل اور پوری گرفت کے ساتھ ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے اقدامات کئے جائیں،آج تک جتنے بھی فکسنگ کے واقعات سامنے آئے زیادہ تر میں کھلاڑیوں کی پکڑ دھکڑ اور سزاؤں کو ہی کافی سمجھ لیا گیا۔
ان کی حوصلہ افزائی میں ملوث یا دانستہ غفلت برتنے والے آفیشلز کے خلاف کوئی کارروائی ضروری نہیں سمجھی گئی، دوسری طرف مکروہ دھندے کو کاروبار بنانے والے بکیز کے نیٹ ورک توڑنے پر کوئی توجہ نہیں دی جاتی، جوا مافیا کمائی کے لیے پلیئرز کو اپنے جال میں پھنساتے ہیں، بکیز کی ڈیمانڈ اور کھلاڑیوں کی سپلائی چین کو توڑے بغیر کرپشن کا راستہ روکنا ممکن نہیں،اس ضمن میں کرکٹ بورڈز اور قانون نافذ کرنے والے مختلف اداروں اور ایجنسیز میں معلومات کے تبادلے سمیت مختلف امور پر مشترکہ لائحہ عمل تیار کرنا چاہیے، صرف کھلاڑیوں ہی نہیں بلکہ بد عنوانی میں ملوث تمام افراد پر بلا تفریق قانون کے مطابق ہاتھ ڈالنا ہوگا، ہمارے ہاں تو بکیز سے رشتہ داریاں رکھنے والوں کو کھیل کی باگ ڈور سنبھالنے کے لیے بورڈ میں اہم ذمہ داریاں دیدی جاتی ہیں، ملک میں جس کے ہاتھ میں اقتدار ہو ، کرپشن کی کمائی پر اپنا حق سمجھتا ہے، قانون کو اپنے اشاروں پر چلانے کو کامیابی کی دلیل سمجھا جاتا ہے، کھیلوں کو کرپشن سے پاک کرنے والے دیانتدار لوگ کہاں سے آئیں گے؟
بھارتی کرکٹ بورڈ کے صدر سری نواسن نے بکیز کے سامنے بے بسی کا اظہار کرکے دراصل اپنی انتظامی خامیوں کا اعتراف کیا ہے، کسی کو بھی اداروں اور قانون سے بالا تر نہیں ہونا چاہیے، بی سی سی آئی مایوسی کی باتیں کرنے کے بجائے اپنا نظام موثر بنائے کیونکہ ابھی تک کرکٹ میں کرپشن کے کیس میڈیا اور پولیس کے ذریعے ہی سامنے آئے ہیں، کسی بورڈ کا کوئی کردار نظر نہیں آیا، فکسنگ کو بے نقاب کرنے کے سلسلے میں آئی سی سی بھی کوئی خاص کام نہیں کررہی، زیادہ تر معاملات کو ڈیل کرنے کے لیے سیاہ اور سفید خانے بنادیئے گئے ہیں، دہرے معیار کا مظاہرہ کرتے ہوئے گوری ٹیموں کی غلطیوں کو نظر انداز کردیا جاتا ہے، دوسری طرف ایشیائی ٹیمیں خاص طور پر پاکستان مسلسل نشانہ بنا ہوا ہے،کوئی میچ فکسنگ میں پکڑا جائے تو آئی سی سی آفیشلز مجرموں سے کوئی رعایت نہ برتنے کی بیان بازی کرتے ہیں، آئندہ مزید سخت اقدامات اٹھانے کا عزم بھی ظاہر کیا جاتا ہے مگر بعد ازاں کئی حقیقی مسائل نظر انداز کرنے کا سلسلہ اسی طرح جاری رہتا ہے۔
کھیل کا تقدس پامال ہونے سے بچانا ہے تو گورے کالے کی تفریق کئے بغیر کھلاڑیوں، آفیشلز اور بکیز کی سرگرمیوں پر نظر رکھی جائے، دنیا کے کئی ملکوں میں جوئے کو قانونی شکل دیدی گئی ہے، بھارت بھی ایسا ہی قدم اٹھانے پر غور کر رہا ہے، پاکستان میں تو ایسے کام کی نہ مذہب میںاجازت ہے اور نہ ہی معاشرت اخلاقیات میں اسے گوارا کیا جاتا ہے۔ کھلاڑیوں کے موبائل فون استعمال کرنے پر پابندی کوئی حل نہیں ، مینجمنٹ کو پلیئرز کی ایک ایک حرکت پر نظر رکھنا چاہیے، بورڈ کو اپنا انٹیلیجنس کا نظام بناکر صورتحال کو مانیٹر کرنا ہوگا، مجرم کو رنگے ہاتھوں پکڑنے کے ساتھ ساتھ کسی غلط الزام پر کھلاڑیوں کا دفاع کرنا بھی ٹیم مینجمنٹ کی ذمہ داریوں میں شامل ہوتا ہے، میرے دور میں کرکٹرز پر کئی غلط الزامات بھی لگے۔
جنہیں ہم نے دلائل سے غلط ثابت کیا۔ آج کل ٹوئنٹی 20کرکٹ کو جوئے کی نرسری قرار دیا جاتا ہے، میرے خیال میں کوئی فارمیٹ بھی کرپشن سے خالی نہیں، سارے کیس مختصر طرز کی کرکٹ میں سامنے نہیں آئے، نہ صرف کرکٹ بلکہ ہر کھیل کا دامن صاف رکھنے کے لیے صرف اور صرف سچائی اور قانون پر مبنی نظام کی تشکیل اور اس پر عمل درآمد ضروری ہے۔ ہمارا ایک بڑا مسئلہ یہ بھی ہے کہ بدعنوانی کا سیلاب معاشرہ سے رول ماڈل بہا کر لے گیا ہے، کامیابی کا تصور بدل چکا، برائی کے خلاف آواز اٹھانے کی کوئی جرات نہیں کرسکتا، ذوالقرنین حیدر نے کئی دعوے کئے مگر سیکیورٹی رسک کا بہانہ بنا کر کوئی ٹھوس بات سامنے نہیں لائے، راشد لطیف ، عامر سہیل اور سرفراز نواز نے تو خطرات کے باوجود زبان کھولنے کی جرات کرلی، وکٹ کیپر ایسا کیوں نہیں کرسکتے؟
مقبول بابری
(ماہر نفسیات)
ہمارے کرکٹرز کی بڑی تعداد غریب اور متوسط گھرانوں سے آتی ہے، ہزاروں میں سے چند ہی قومی سطح کی ٹیموں میں جگہ بنا پانے میں کامیاب ہوتے ہیں، انہیں پچپن میں ہی سمجھایا جاتا ہے کہ کھیل کو چھوڑو، تعلیم پر توجہ دے کر روشن مستقبل کی طرف قدم بڑھاؤ،کامیابی نہ ملی تو کسی کام کے نہیں رہو گے، معاشرے میں عزت کے تصورات کو بھی اکثر دولت کی فراوانی سے نتھی کردیا جاتا ہے، معاشی بے یقینی کی کیفیت میں مبتلا کھلاڑی کسی ایک منزل تک پہنچ جائیں تو بھی ناکامی کا خوف ان کا پیچھا نہیں چھوڑتا،بیشترکو یقین نہیں ہوتا کہ ان کی ٹیم میں جگہ کتنی دیر تک برقرار رہے گی، اگر ایک بار ڈراپ ہوگئے تو مستقبل میں آسائشوں سے محروم ہونا پڑے گا، معاشی مستقبل زیادہ سے زیادہ محفوظ بنانے کے لیے اچھائی برائی کا فرق خاطر میں لائے بغیر کمائی کے ہر طریقے میں کشش محسوس کرتے ہیں۔
اسی نفسیاتی کیفیت کا بکیز فائدہ اٹھاتے ہیں،کرکٹرز کو اس غیر یقینی صوتحال سے نجات دلانے کے لیے بہترین ذہنی تربیت، کوچنگ اور مینجمنٹ سے کام لیا جانا چاہیے، کھلاڑی اسی معاشرے کا حصہ ہیں جہاں لوگ روپے پیسے کی دوڑ میں اپنی قدروں کو پامال کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے،معاشرتی ماحول کو بہتر بناکر ہر شعبے میں بہتری کا خواب دیکھا جاسکتا ہے، تاہم قومی کرکٹ ٹیم کی کونسلنگ کرتے ہوئے میری کوشش ہوتی ہے کہ پلیئر کے انفرادی نفسیاتی مسائل اور اجتماعی کردار دونوں کے حوالے سے ایسا اعتماد پیدا کروں، عوام کی امنگوں پر پورا اترنے کا احساس ذمہ داری اور اپنی صلاحیتوں پر یقین پلیئر کو کئی منفی رجحانات سے دور رکھنے میں معاون ثابت ہوتا ہے جن میں سے سر فہرست مال دولت کے لیے اپنی وفاداریاں بیچ ڈالنا ہے، محمد عامر کے ساتھ چند سیشن ہوئے۔
فاسٹ بولرانتہائی باصلاحیت ہونے کے باوجود سینئرز کے دباؤ یا ان کے گلیمر سے متاثر ہوکر بہت بڑی غلطی کر بیٹھا جس کا اس نے اعتراف بھی کیا، آنے والے کرکٹرز کو فکسنگ سے آگاہی دینے کے لیے آئی سی سی کے ساتھ تعاون پر بھی آمادہ ہوئے، ہمیں مستقبل کے ٹیلنٹ کو ضائع ہونے سے بچانے کے لیے ڈومیسٹک سطح سے ہی کھلاڑیوں کو ذہنی طور پر مضبوط بنانا ہوگا، میرا خیال ہے کہ کرپشن میں ملوث کھلاڑی اپنے ضمیر کا قیدی بھی ہونے کی وجہ سے مستقبل اور ٹیم کی پرفارمنس دونوں کے لیے مہلک ثابت ہوتا ہے، بحالی کے سفر میں محمد عامر کی طرح ہر پلیئر کو اسی قید سے نجات دلانا ضروری ہوتا ہے کیونکہ غلط اقدام اٹھانے کے بعد سب سے مشکل کام خود کو معاف کرنا ہوتا ہے۔
ڈاکٹر خالد جمیل
(سربراہ شعبہ سپورٹس میڈیسن، میو ہسپتال)
جتنی میچ فکسنگ ہمیں منظر عام پر نظر آتی ہے، اس سے سو گنا دنیا بھر کے کھیلوں میں موجود ہے، کیونکہ عمومی طور بھی پکڑے جانے والے جرائم اصل تعداد کا چند فیصد ہی ہوتے ہیں، نوجوان ابھرتے ہوئے پلیئرز کی عمریں 18سے 25سال تک ہوتی ہیں، ذہنی بلوغت میں کمی کی وجہ سے عزت اور شہرت کے بجائے دولت کی بھوک بڑھ جائے تو چالاک بکیزکو اپنے کاروباری مقاصد حاصل کرنے کا موقع مل جاتا ہے،ہماری نظر میں بدعنوان عناصر ایک نیٹ ورک کے ساتھ بزنس کر رہے ہوتے ہیں۔
جس کے لیے انہیں کھلاڑیوں کا استعمال کرنا ہوتا ہے،بدقسمتی سے معاشی عدم تحفط کی وجہ سے ہمارے پلیئر بہت جلد ان کے جال میں پھنس جاتے ہیں، کسی ایک پلیئر کو ٹیم میں لیا جائے تو اس کی صلاحیتوں پر بھرپور اعتماد کرتے ہوئے مناسب مواقع دیئے جائیں،اسے غیر یقینی کیفیت سے نجات دلائے بغیر ایک مضبوط شخصیت اور کھلاڑی نہیں بنایا جاسکتا، کبھی میں پی سی بی کے ساتھ وابستہ تھا تو کئی پلیئر انجریز چھپاکر بھی کھیلتے تھے کہ کوئی اچھی کارکردگی دکھا کر ان کی جگہ پر مستقل قبضہ نہ جمالے، اس صورتحال میں کرکٹرز کو معاشی تحفظ دینے کے لیے بورڈ کی طرف سے سنٹرل کنٹریکٹ بہترین اقدام ہے لیکن ساتھ ساتھ کھلاڑیوں کی جسمانی، ذہنی، اخلاقی اور روحانی تربیت کے لیے مسلسل کورسز کا اہتمام بھی ہونا چاہیے۔
ہرسطح پر مسلسل کوشش سے ہی ہم کھیلوں کا دامن فکسنگ جیسی آلائشوں سے پاک رکھ سکتے ہیں۔ میڈیکل ، ایجو کیشن اور فٹنس کے پروگرام تشکیل دے کر کرکٹرز کو ہر پہلو سے ذہنی طور پر تیار کیا جائے تو مثبت نتائج حاصل ہوں گے، تاہم اس ضمن میں سفارش اور ذاتی پسند ناپسند کا کوئی عمل دخل نہیںہونا چاہیے، کوئی پکڑا جائے تو اس کے ساتھ ہرگز کسی قسم کی رعایت نہ برتی جائے، قانون سب کے لیے ایک ہو تب ہی جرائم کی شرح پر قابو پانے کی توقع کی جاسکتی ہے، کھلاڑی کا پروفیشنل ہونا بری بات نہیں لیکن کمائی کے لیے دھوکہ دہی سے شائقین کے جذبات کے ساتھ کھیلنا جرم ہے۔
اس کی سزا ضرور ہونا چاہیے۔ پاکستان میں ایم بی بی ایس کے بعد سپورٹس فزیشن کا 5سالہ کورس متعارف کروایا تھا، اب تک 25سپیشلسٹ تیار ہوئے جن میں چند پاکستان، دیگر غیر ملکوں میں کام کرہے ہیں، موقع دیا جائے تو کھلاڑیوں کے جسم میں ہونے والی کیمیائی تبدیلیوں کی اسٹڈی سے مدد لیتے ہوئے کارکردگی اور پریشر میں ثابت قدم رہنے کی صلاحیتوں میں اضافہ کے لیے کام کرسکتے ہیں، سپورٹس سائنس کے پاس جسمانی اور ذہنی دونوں طرح کے مسائل کا حل موجود ہے۔
میاں اسلم
(سابق آئی سی سی امپائر)
فکسنگ کی وبا پرانی ہے مگر اب کچھ زیادہ ہی تیزی سے پھیلاؤ دیکھنے میں آرہا ہے، بھارتی بورڈ حالیہ سکینڈل میں بے بس نظر آیا، دوسرے ملکوں میں بھی اخلاقی پابندیاں ہونے کی وجہ سے جوئے بازوں کے نیٹ ورک سرگرم ہیں لیکن ایک اسلامی ملک ہوتے ہوئے پاکستان میں ان کی کوئی گنجائش نہیں ہونا چاہیے، ہمارے کئی مسائل تو کرکٹ بورڈ کی غفلت کا نتیجہ ہیں، مختلف انتظامی امور میں ذمہ دار افراد کو آگے لانے کے بجائے چہیتوں کو نوازنے کی پالیسی اختیار کی جاتی ہے۔
سپاٹ فکسنگ سکینڈل کے دوران مینجمنٹ نے بھی غفلت کا مظاہرہ کیا مگر سزا صرف کھلاڑیوں کو ملی، بورڈ کی فوج ظفر موج کس لئے ہے، کھلاڑیوں کی حرکات پر نظر رکھنے کے بجائے ٹیم منیجر اپنی فیملی کے فوٹو سیشن کرواتے پھر رہے تھے، اہل اور ایماندار افراد کو آگے لایا جائے تو کھیل کا حسن پامال نہیں ہوگا، ٹیم کے ساتھ ایسے آفیشلز کو بھیجا جائے جو صرف فون کالز روک کر اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ بر آ نہ ہوجائیں بلکہ کرکٹرز کی ایک ایک حرکت پر نظر رکھیں، ان کے مزاج میں تبدیلیوں، میل ملاپ، اثاثوں میں اضافے اور خریداری میں خلاف معمول سرگرمیوں پر نظر رکھی جائے، یہاں تو بورڈ کے مختلف آفیشلز کی توجہ اپنی کرسیاں مضبوط بنانے پر ہوتی ہے، کرکٹرز کس حالت میں ہیں کسی کو فکر نہیں، لاہور کے ایک میدان میں بکیز سرگرم تھے، انہیں روکنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی گئی تو اعلیٰ سطح پر مسائل کیسے ختم کرسکیں گے؟
چوہدری اعجاز
(سابق سیکرٹری پنجاب کبڈی ایسوسی ایشن)
آج کے دور میں کسی کھیل کو کرپشن سے پاک قرار نہیں دیا جاسکتا، کوئی کھلاڑی عہدیداروں کی ملی بھگت کے بغیر فکسنگ کی جرات نہیں کرسکتا، ایماندار مینجمنٹ کسی پلیئر کی مشکوک چال ڈھال اور معیار سے کم تر کارکردگی کا فرق فوری طور پر محسوس کرلیتی ہے، اگر سب مل کر ہی ہر پہلو کو نظر انداز کرنے لگیں تو معاملات کیسے سدھریں گے، کھیل کو کرپشن سے پاک کرنے کے لیے آپریشن کلین اپ کی ضرورت ہے، مختلف سپورٹس میں آفیشلز کھلاڑیوں کی میچ فیس میں سے حصہ وصول کرکے کرپشن کا راستہ کھولتے ہیں۔
پلیئرز کو موقع دینے کی بھی رشوت مانگی جاتی ہے، غیر ملکی دوروں پر لے جانے کے الگ دام مقرر ہیں، اس صورتحال میں کھلاڑی کو کرپشن کے ذریعے کمائی کا موقع ملے تو فوری فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتا ہے، دنیا بھر کے کھیلوں پر ایک مافیا قابض ہوتا جارہا ہے، ہمارے ہاں بھی صورتحال مختلف نہیں، سپورٹس سے محبت کرنے والے درد مند لوگ آگے آئیں تو پلیئرز کو پرفارمنس اور ملک کی عزت کے سواکوئی چیز زیادہ پر کشش نہیں لگے گی، اگر سلسلہ ایسے ہی چلتا رہا تو کھیلوں کا بھی وہی حشر ہوتا رہے گا جودیگر شعبوں میں نظر آتا ہے، بھارت ایک بڑا ملک اور اس میں کمائی کے مواقع بھی زیادہ ہیں، اگر آئی پی ایل ٹیموں کے عہدیدار اپنے مفاد کے لیے مختلف امور سے دانستہ غفلت نہ برتتے تو کرکٹرز کو سپاٹ فکسنگ کی جرأت نہ ہوتی۔