کانگو وائرس نے ایک اور نوجوان کی جان لے لی
جانور کی کھال سے چپکے مخصوص چیچڑ کے کاٹنے سے کانگو وائرس انسانی خون میں شامل ہوجاتاہے،وٹرنری ماہرین
کراچی میں کانگو وائرس سے ایک نوجوان جاں بحق ہوگیا متوفی سلمان کو 2روز قبل جناح اسپتال لایاگیا تھا جہاں اس کے طبی ٹیسٹوں میں کانگو وائرس کی تصدیق کی گئی جب کہ 23سالہ نوجوان کی موت کی تصدیق جناح اسپتال انتظامیہ نے پیر کوکردی۔
کانگو وائرس عیدالاضحی کے موقع پر رپورٹ ہوتا ہے یہ وائرس جانوروںکی کھال سے چپکے ہوئے ایک مخصوص چیچڑ سے ہوتا ہے جو جانور کی کھال سے چپک کر جانورکا خون چوستا ہے اگر یہ چیچڑکسی انسان کوکاٹ لے توانسان بھی کانگو وائرس کا شکار ہوجاتا ہے ایسا جانور جس کی کھال سے خون رس رہا ہو شہری ہرگز نہ خریدیں۔
جانوروں کی منڈی جاتے وقت ہلکے رنگ کے اور مکمل آستیں والے کپڑے پہن کر جائیں ،کوشش کریں بچوںکو منڈی نہ لے کر جائیں ہلکے رنگ والے کپڑوں پر اگر یہ چیچڑ آجائے توصاف نظر آجاتا ہے گہرے رنگ کے کپڑے پہننے پرمخصوص چیچڑ نظر نہیں آتے شہری منڈی جاتے وقت موزے اور جوتے لازمی پہنیں وٹرنری ماہرین کا کہنا ہے کہ شہری منڈی میں منہ پر ماسک لگائیں۔
عیدالاضحی کے موقع پر ملک بھر سے بڑے پیمانے پر قربانی کے لیے جانورکراچی لائے جاتے ہیں ان میں سے کئی کانگو وائرس سے متاثرہ جانور بھی شامل ہوتے ہیں جو صحت مند جانوروں کو بھی متاثرکرتے ہیں بیمار جانوروں کے رابطے میں رہنے والے افرادکو بھی کانگو وائرس کے خدشات لاحق ہوتے ہیں لہٰذا احتیاط برتی جائے، کانگو وائرس سے متاثرہ افراد کو مسلسل بخار، قے ، چکر آتے ہیں ایسا کوئی جانور نہ خریدیں جو بیمار ہو ، سست ہو، جگالی کرنے والاصحت مند جانورخریدا جائے۔
واضح رہے کہ رواں سال کانگو وائرس سے8افراد جاں بحق ہوچکے ہیں۔
سرکاری اسپتالوں میں وائرس کی تشخیصی لیبارٹری موجود نہیں
محکمہ صحت سندھ کے لیے 17ارب روپے کا بجٹ مختص ہونے کے باوجود کراچی کے کسی بھی سرکاری اسپتال میں کسی بھی وائرس کی تشخیص کے لیے لیبارٹری موجود نہیں ہے کراچی میں ہر سال چکن گنیا، ڈنگی وائرس، انفلوئینزا،کانگو وائرس تواتر سے رپورٹ ہوتے ہیں،وائرس کی تصدیق اور تشخیص کے لیے کراچی میں کوئی لیباریٹری موجود نہیں ہیں ہر سال عیدالاضحی کے موقع پر کانگووائرس رپورٹ ہوتا ہے یہ وائرس جانوروں سے انسانوں میں منتقل ہوتا ہے۔
کانگو وائرس سے متاثرہ افراد کی تشخیص کے لیے متاثرہ مریض کے نمونے اسلام آباد بھیجے جاتے ہیں جس کی رپورٹ کئی دن بعد جاری کی جاتی ہے اس دوران وائرس سے دیگر صحت مند افراد بھی متاثر ہوجاتے ہیں۔
ماہرین طب کا کہنا ہے کہ محکمہ صحت سندھ طبی مسائل کوترجیحی بنیاد پرحل کرنے کیلیے سنجیدہ نہیں یہی وجہ ہے کہ عوام کو ہر سال مختلف وائرس اور متعدی بیماریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے متاثرہ افرادکی اکثریت اپنے علاج کیلیے نجی اسپتالوں کارخ کرنے پرمجبور ہوتی ہے۔
کانگو وائرس عیدالاضحی کے موقع پر رپورٹ ہوتا ہے یہ وائرس جانوروںکی کھال سے چپکے ہوئے ایک مخصوص چیچڑ سے ہوتا ہے جو جانور کی کھال سے چپک کر جانورکا خون چوستا ہے اگر یہ چیچڑکسی انسان کوکاٹ لے توانسان بھی کانگو وائرس کا شکار ہوجاتا ہے ایسا جانور جس کی کھال سے خون رس رہا ہو شہری ہرگز نہ خریدیں۔
جانوروں کی منڈی جاتے وقت ہلکے رنگ کے اور مکمل آستیں والے کپڑے پہن کر جائیں ،کوشش کریں بچوںکو منڈی نہ لے کر جائیں ہلکے رنگ والے کپڑوں پر اگر یہ چیچڑ آجائے توصاف نظر آجاتا ہے گہرے رنگ کے کپڑے پہننے پرمخصوص چیچڑ نظر نہیں آتے شہری منڈی جاتے وقت موزے اور جوتے لازمی پہنیں وٹرنری ماہرین کا کہنا ہے کہ شہری منڈی میں منہ پر ماسک لگائیں۔
عیدالاضحی کے موقع پر ملک بھر سے بڑے پیمانے پر قربانی کے لیے جانورکراچی لائے جاتے ہیں ان میں سے کئی کانگو وائرس سے متاثرہ جانور بھی شامل ہوتے ہیں جو صحت مند جانوروں کو بھی متاثرکرتے ہیں بیمار جانوروں کے رابطے میں رہنے والے افرادکو بھی کانگو وائرس کے خدشات لاحق ہوتے ہیں لہٰذا احتیاط برتی جائے، کانگو وائرس سے متاثرہ افراد کو مسلسل بخار، قے ، چکر آتے ہیں ایسا کوئی جانور نہ خریدیں جو بیمار ہو ، سست ہو، جگالی کرنے والاصحت مند جانورخریدا جائے۔
واضح رہے کہ رواں سال کانگو وائرس سے8افراد جاں بحق ہوچکے ہیں۔
سرکاری اسپتالوں میں وائرس کی تشخیصی لیبارٹری موجود نہیں
محکمہ صحت سندھ کے لیے 17ارب روپے کا بجٹ مختص ہونے کے باوجود کراچی کے کسی بھی سرکاری اسپتال میں کسی بھی وائرس کی تشخیص کے لیے لیبارٹری موجود نہیں ہے کراچی میں ہر سال چکن گنیا، ڈنگی وائرس، انفلوئینزا،کانگو وائرس تواتر سے رپورٹ ہوتے ہیں،وائرس کی تصدیق اور تشخیص کے لیے کراچی میں کوئی لیباریٹری موجود نہیں ہیں ہر سال عیدالاضحی کے موقع پر کانگووائرس رپورٹ ہوتا ہے یہ وائرس جانوروں سے انسانوں میں منتقل ہوتا ہے۔
کانگو وائرس سے متاثرہ افراد کی تشخیص کے لیے متاثرہ مریض کے نمونے اسلام آباد بھیجے جاتے ہیں جس کی رپورٹ کئی دن بعد جاری کی جاتی ہے اس دوران وائرس سے دیگر صحت مند افراد بھی متاثر ہوجاتے ہیں۔
ماہرین طب کا کہنا ہے کہ محکمہ صحت سندھ طبی مسائل کوترجیحی بنیاد پرحل کرنے کیلیے سنجیدہ نہیں یہی وجہ ہے کہ عوام کو ہر سال مختلف وائرس اور متعدی بیماریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے متاثرہ افرادکی اکثریت اپنے علاج کیلیے نجی اسپتالوں کارخ کرنے پرمجبور ہوتی ہے۔