دادی سے کہانی سنے بغیر نیند نہیں آتی تھی
موجودہ پاکستان قدیم سندھ کی سرزمین پر واقع ہے , ون یونٹ کا زمانہ تخلیقی نقطۂ نگاہ سے انتہائی زرخیز تھا...
ISLAMABAD/KARACHI:
تاریخ کی سرگوشی، ثقافت کی نقرئی گھنٹیوں کی پکار، فضا میں ہمکتی قدیم دانش۔ ہاں، ہر پَل زندہ تھا۔
حتیٰ کہ مکالمے میں در آنے والا وقفہ بھی کہ اُس خوش گوار شام وہ، انکساری اور ملن ساری کے لبادے میں سانس لیتی علمیت کے ساتھ، روبرو تھے۔
اُن کا تعارف کروانا جوئے شیرلانے کے مترادف ہے کہ افسانہ نگاری، مضمون نویسی، کالم نگاری سمیت کئی جہتیں ہیں اُن کی، پر اصل حوالہ تو آوارگی ہے، جس نے اشعار کی بے انت دنیا میں نمو پائی۔ امداد حسینی جدید سندھی شاعری کا نمایاں اور معتبر نام ہیں۔
اُن کے جادوئی اشعار نے سندھی شاعری کے آہنگ، اسلوب اور ہیئت کی صورت گری میں کلیدی کردار ادا کیا۔ کلام سے جھلکتے نظریات تنازعات کا بھی سبب بنے، مگر مخالفین کی پروا کیے بغیر اُنھوں نے اپنا سفر جاری رکھا۔ پیشہ ورانہ کیریر میں وہ سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ سے منسلک رہے۔ سندھی ادبی بورڈ کے پرچے ''مہران'' کی ذمے داری بھی بہ خوبی سنبھالی۔
حالاتِ زندگی کی تفصیلات سامع کو امیرتیمور کے زمانے میں لے جاتی ہیں، جب اُن کے جد امجد نے ہرات سے نکل کر نئی زمینوں کا رخ کیا۔ ٹھکانا قدیم سندھ ٹھہرا۔ جس کی زرخیز ثقافت، اُجلی تاریخ آج کے سندھ کی زندگی سے بھی جھلکتی ہے۔ اُس زمانے میں ہرات، قندھار، بلوچستان، راجستھان اور کاٹھیاواڑ اِس مردم خیز علاقے کی سرحدوں میں شامل تھے۔ بہ قول امداد حسینی،''کشمیر سے یہاں تک کا پورا علاقہ قدیم سندھ تھا۔
موجودہ پاکستان قدیم سندھ ہی کی سرزمین پر واقع ہے۔'' ابتداً اجداد نے مٹیاری میں ڈیرا ڈالا۔ پھر ایک گروہ نے دریائے سندھ کے کنارے گاؤں آباد کیا، جو دو بار سیلابی ریلے کی نذر ہوا۔ اِسی مناسبت سے اُن کے جد امجد، وسیع ملوک شاہ کی سرپرستی میں آباد ہونے والا تیسرا گاؤں، ٹِھکڑ (تیسرا بچہ) کہلایا۔ اور وہیں 10مارچ 1940 کو سندھ کی معروف علمی و ادبی شخصیت اور خلافت تحریک کے مرکزی راہ نما، علامہ سید اسد اﷲ شاہ فدا کے پوتے، امداد حسینی نے آنکھ کھولی۔ سندھ اسمبلی کے پہلے اسپیکر، میران محمد شاہ اُن کے چچا تھے۔
دادا اور چچا کے برعکس اُن کے والد، سید فضل محمد شاہ سیاست سے دُور رہے، خود کو زمیں داری تک محدود رکھا۔ تھے تو وہ انتہائی رحم دل، مگر تربیت کی غرض سے، ضرورت کے پیش نظر سختی برتنے کے قائل تھے۔ ''والد کی مار آج بھی یاد ہے۔ اسکول سے بھاگنے پر سزا ملا کرتی تھی، مگر میں نے بھاگنا چھوڑا نہیں۔ آوارگی اوائل عمری ہی سے ساتھ ہے۔'' اسکول سے نکل کر وہ جنگلوں، جھیلوں کا رخ کرتے۔ ہوٹل میں دو آنے کی چائے پیتے۔ وہاں گانے سنتے۔ چھے آنے میں فلمیں دیکھتے۔ اور شام میں کتابیں اٹھائے گھر لوٹ آتے۔
کرکٹ، ہاکی اور فٹ بال کا تو ابتدائی زمانے میں تجربہ نہیں کیا، مگر علاقائی کھیل جم کر کھیلے۔ شرارتیں بھی خوب کیں، اور وہ بھی ایسی جن میں خاصا جوکھم ہوتا۔ وہ دوپہر یاد ہے، جب دریا میں ڈوبتے ڈوبتے بچے۔ وہ تو ایک بھلے مانس نے دیکھ لیا، جس نے فوراً دریا میں چھلانگ لگا دی۔ یوں جان بچی۔ یہ بات کسی طرح والد تک پہنچ گئی، جنھوں نے سزا دینے کے بجائے سبق دینے کا فیصلہ کیا۔ اُنھوں نے ہی امداد حسینی کو تیراکی سِکھائی۔
بٹوارے کے سمے سات برس کے تھے۔ وہ وقت یاد ہے، جب اُن کے بڑوں نے یہاں سے جانے والوں کو بڑی محبت سے رخصت کیا، اور آنے والوں کا کھلے دل سے استقبال کیا۔ پانچویں تک تعلیم گاؤں کے مکتب سے حاصل کی۔ پھر حیدرآباد کا رخ کیا۔ نورمحمد ہائی اسکول کا حصہ بن گئے۔ وہیں ہاسٹل کی زندگی کا تجربہ کیا۔
مکتب کے مانند ہاسٹل سے بھاگنے کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔ سزائیں اِس عمل سے باز نہیں رکھ سکیں۔ میٹرک کا مرحلہ طے کرنے کے بعد سچل سرمست کالج سے انٹر کیا۔ پھر سندھ یونیورسٹی سے سندھی ادب میں ماسٹرز کی سند حاصل کی۔ طلبا سیاست میں بھی متحرک رہے۔ جب ایوب دور میں شریف کمیشن نے سندھی اور دیگر علاقائی زبانوں کو پانچویں تک محدود کر دیا، تو ایک تحریک نے جنم لیا۔ سندھی ادبی سنگت کے پلیٹ فورم سے وہ اُس میں شامل ہوئے۔ اِسی تحریک کے نتیجے میں حکومت کو اپنا فیصلہ واپس لینا پڑا۔
زمانۂ طالب علمی میں پیشہ ورانہ سفر کا آغاز کر دیا۔ سندھی لوک ادب سے، پچاس روپے ماہ وار پر، منسلک ہوگئے۔ دفتر کیا تھا، چھوٹا سا کمرہ تھا، جہاں ڈاکٹر نبی بخش بلوچ کی سرابرہی میں کام کرنے والا سندھی لغت کا عملہ بھی بیٹھا کرتا۔ دو برس بعد سندھی ادبی بورڈ میں لائبریرین ہوگئے۔ پھر ریسرچ فیلو کی حیثیت سے سندھالوجی کا حصہ بن گئے۔ اب سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ میں ذمے داری سنبھالی۔ 77ء میں ''مہران'' کے ایڈیٹر ہوگئے۔
ان کے ایک اداریے پر کیا جانے والا اعتراض وہاں سے رخصتی کا سبب بنا، جس کے بعد سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ کی جانب پلٹے، جہاں اپنی ''سیٹ'' کے حصول کے لیے خاصی تگ و دو کرنی پڑی۔ 2000 میں ریٹائرمینٹ کے وقت وہ محکمے میں سینئر سبجیکٹ اسپیشلسٹ (سندھی) کے منصب پر فائز تھے۔ اِس عرصے میں سندھی ادبی بورڈ کے اَن چارج سیکریٹری بھی رہے۔ ریٹائرمینٹ کے بعد پھر ''مہران'' کی ذمے داری سنبھالی، جسے چار برس نبھایا۔ گو لیفٹ کے آدمی ہیں، مگر نظریات کبھی سرکاری ملازمت میں رکاوٹ نہیں بنے کہ ہمیشہ توازن قائم رکھا۔
ادب دوستی کی کہانی میں پہلا کردار اُن کی دادی کا ہے، جن سے کہانی سنے بغیر اُنھیں نیند نہیں آتی تھی۔ پھر کتابوں سے نبھنے لگی، جن کی گھر میں فراوانی تھی۔ نانا، حافظ شاہ شاعر تھے۔ گھر میں شادی بیاہ کے موقعے پر اُن کی کافیاں گائی جاتیں۔ شاعر، سید ٹھکڑائی کی صحبت نے، جو اُن کے رشتے دار تھے، اظہار کے لیے اُکسایا۔ چوتھی جماعت میں تھے، جب خیال کو کافی کے قالب میں ڈھالا۔ تخلص کیا بلا ہے، اُس وقت نہیں جانتے تھے۔ جب جان گئے، تب بھی اِس کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ گاؤں میں باقاعدگی سے دوستوں کے ساتھ طرحی مشاعروں منعقد کیا کرتے۔
بہ قول اُن کے،''دیگر علاقوں میں اناج اُگا کرتا، جب کہ ٹِھکڑ میں شاعروں کی فصل اُگتی ہے۔ یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ مجھے یاد ہے، ہم روز مشاعرہ کرتے، اور اگلے دن کی 'طرح' دے کر اٹھتے۔'' ابتدائی تخلیقات حیدرآباد سے نکلنے والے بچوں کے ایک پرچے ''گلستاں'' میں شایع ہوئیں۔ رومانوی خطوط کی صورت اردو نثر کا تجربہ کیا۔ اردو کے انتخاب کا سبب یہ رہا کہ خطوط جس کے نام لکھے گئے، وہ پری وش سندھی نہیں جانتی تھی۔ کہتے ہیں،''دراصل یہ عشق کا تجربہ تھا، جس نے اردو نثر لکھوائی۔''
شعری سفر سبک روی سے جاری رہا، جسے ادبی سرگرمیوں نے مہمیز کیا۔ مشاعرے بھی پڑھے۔ تخلیقات اخبارات و جرائد کا حصہ بننے لگیں۔ اُس زمانے میں، اردو کے مانند، سندھی میں بھی جدیدیت کا شہرہ تھا۔ اُنھوں نے اِس فکر کے ساتھ قدم بڑھائے۔ اِس عمل کو وہ ترقی پسند فکر کا منطقی نتیجہ قرار دیتے ہیں۔ ''ترقی پسندی شاعر کی فطرت میں ہوتی ہے۔ اگر آپ کی فطرت میں ترقی پسندی، وطن پرستی، انسان دوستی، عاشقی، حسن پرستی، سُر، لے نہیں، تو آپ شاعر نہیں ہوسکتے۔''
کلام کی ندرت، اسلوب اور فکر نے جلد ہی قارئین کو گرویدہ بنا لیا۔ پہلے ہی مجموعۂ کلام نے اُن کی انفرادیت پر تصدیق کی مہر ثبت کر دی۔ کہتے ہیں،''میں نے شعوری طور پر نئی راہ اختیار نہیں کی۔ شاید لاشعوری طور پر قدم اُس راہ پر پڑ گئے۔ اُس زمانے میں شیخ ایاز، تنویر عباسی اور شمشیرالحیدری سمیت کئی بڑے نام تھے، جن کا کلام منفرد تھا۔ میں بھی اُن میں شامل ہوگیا۔ دراصل اس وقت نئی نسل کا تصور نہیں تھا۔ سب برابر تھے۔ ہر کسی کا اپنا مقام تھا۔''
انفرادیت کے دیگر پہلو تو اپنی جگہ، منفرد ترین پہلو یہ ہے کہ اُن کی شاعری میں انگریزی الفاظ کثرت سے ملتے ہیں۔ قاری کا ''ردھم''، ''چینج''، ''کار''، ''سگریٹ'' اور ''پارکر'' جیسے الفاظ سے سامنا ہوتا ہے، مگر خوبی یہ ہے کہ اجنبی زبان کے یہ الفاظ قطعی اجنبی نہیں لگتے۔ بہ قول اُن کے،''دیکھیں، انگریزی سے جان نہیں چُھڑائی جاسکتی۔ گاؤں کی عورتیں بھی، لہجے کے بدلاؤ کے ساتھ، انگریزی الفاظ استعمال کرتی ہیں۔ دراصل زندہ زبانیں، دیگر زبانوں کو الفاظ عطا بھی کر سکتی ہیں، اور ضرورت پڑنے پر لے بھی سکتی ہیں۔ اگر یہ فطرتی عمل رک جائے، تو زبان ختم ہوجائے گی۔ میرے نزدیک یہ تبادلہ جاری رہنا چاہیے۔''
ترجمے کے میدان میں بھی طبع آزمائی کی۔ مرزا قلیچ بیگ کے ناول ''زینت'' کو بڑی مہارت سے اردو کے قالب میں ڈھالا، جسے اکیڈمی آف لیٹرز نے شایع کیا۔ مسکراتے ہوئے کہتے ہیں،''اُس ترجمے کے مجھے 350 روپے ملے تھے۔ اور جس نے پروف پڑھا، اُسے 500 روپے ملے۔'' شاعر، بھاگُوبھان کا طویل رزمیہ ''دُودُو چنیسر'' کا لوک ورثہ کے لیے اردو میں ترجمہ کیا، جو مشکل، مگر پُرتجسس عمل ثابت ہوا۔
فیض احمد فیض کے کلام کو بھی وہ سندھی کے قالب میں ڈھال چکے ہیں، جس کی اشاعت جلد متوقع ہے۔ یہ ذمے داری 2011 میں اٹھائی، جب ایک تقریب میں ظفر اﷲ پوشنی نے کلام فیض کا سندھی میں ترجمے کرنے کا خیال پیش کیا۔ اِس عمل کے دوران صنف کو مقدم رکھا۔ غزل کو غزل کے قالب میں ڈھالا، نظم کو نظم کے سانچے میں۔ ساتھ ہی سندھی ثقافت، تاریخ اور محاورے کو بھی پیش نظر رکھا۔
شناخت کا ایک حوالہ گیت نگاری بھی ہے۔ چار سندھی فلموں کے لیے اُنھوں نے گیت لکھے۔ چار عشروں سے زاید عرصے پر پھیلے اپنے ادبی سفر میں مضمون نگاری، کالم نویسی کا بھی تجربہ کیا۔ اُنھیں کتابی شکل دینے کا ارادہ تو ہے، مگر پہلے اُنھیں تلاش کرنا پڑے گا۔
سندھی شاعری کے مستقبل سے متعلق کہتے ہیں،''اُبھرتے ہوئے چند نام ایسے ضرور ہیں، جنھیں دیکھ کر روشن کل کی امید جنم لیتی ہے، مثلاً مسرور پیرزادہ، روبینہ ابڑو، مگر گروہ بندیوں کی وجہ سے ایسے شعرا کی تخلیقات تواتر سے سامنے نہیں آرہیں۔'' ون یونٹ کا زمانے، اُن کے نزدیک، تخلیقی نقطۂ نگاہ سے انتہائی زرخیز تھا۔ ''اُس کے بعد جو زوال آیا، اُس سے ہم تاحال نہیں نکل سکے۔ ہاں، کبھی کبھی محسوس ہوتا ہے کہ نکلنے کی کوشش ہورہی ہے۔''
سندھی اور اردو زبان و ادب کے درمیان پائے جانے والے فاصلے کی بابت کہتے ہیں،''ایک زمانے میں یہ دونوں زبانیں بہت قریب آگئی تھیں، مگر پھر گروہی مفادات اور سیاست رکاوٹ بن گئے۔ ڈاکٹر الیاس عشقی اردو اور سندھی، دونوں ہی زبانوں کا بڑا نام تھے، پروفیسر آفاق صدیقی تھے۔ اِن شخصیات کی تخلیقات تواتر سے شایع ہونی چاہییں۔ ادبی سرگرمیاں منعقد کی جائیں۔ پھر ہمیں عام لوگوں میں جانا چاہیے۔ میں لوگوں میں جاتا ہوں۔ وہ ایک دوسرے کو سمجھتے ہیں۔ اِس عمل کو پھیلانا چاہیے۔'' امداد صاحب کو ایسا کوئی سیاست داں نظر نہیں آتا، جو عوام کو قریب لانے میں کردار ادا کرسکے۔ ''اُن کا مفاد تو عوام کے اختلافات میں ہے۔ سیاست عبادت کا درجہ رکھتی ہے، مگر اِس کا حشر نشر کر دیا ہے۔ کراچی میں روزانہ درجنوں لوگ مر رہے ہیں، اور سندھ کے ہر دوسرے علاقے میں یہی ہو رہا ہے۔ اِس کا سبب کیا ہے، کیا اِس کے پیچھے کوئی ہے؟ جس 'گریٹ گیم' کا ہم ذکر سنتے ہیں، شاید یہ وہ ہی معاملہ ہے۔''
وہ تعلیم کی کمی کو ملک کا بنیادی مسئلہ قرار دیتے ہیں۔ ''فقط تعلیم ہی آپ کو مسائل کے اِس دلدل سے نکال سکتی ہے۔'' نوجوان شعرا کو مطالعہ کرنے، عام لوگوں سے ملنے کی نصیحت کرتے ہیں۔ اُجلے انسانوں سے ملاقات - چاہے اُن کا تعلق کسی بھی زبان، کسی بھی مذہب سے ہو - مسرت سے بھر دیتی ہے۔ چھوٹے بھائی کا انتقال زندگی کا کرب ناک ترین لمحہ تھا۔
کلاسیکی شاعری کے مداح ہیں۔ ہر صبح شاہ لطیف کا مطالعہ کرتے ہیں۔ سندھی افسانے میں جمال ابڑو، غلام ربانی اور حفیظ شیخ کو سراہتے ہیں۔ حلیم بروہی کا ناول ''اوڑھا'' بہت اچھا لگا۔ اردو شاعری میں غالب، فیض اور ساحر لدھیانوی کا نام لیتے ہیں۔ فکشن میں کرشن چندر، منٹو، عصمت اور بیدی کی تعریف کرتے ہیں۔ بیرونی ادب میں موپساں اور ہیمنگ وے کا نام لیتے ہیں۔ مطمئن ہونا، اُن کے نزدیک، جمود کی نشانی ہے، البتہ اِس بات کی خوشی ہے کہ انھوں نے ایک شاعر کی حیثیت سے زندگی گزاری۔
پینٹ شرٹ میں خود کو آرام دہ پانے والے امداد حسینی کو ساون کی رت بھاتی ہے۔ پلا مچھلی مرغوب غذا ہے۔ چالیس برس قبل شادی ہوئی۔ زوجہ، سحر امداد تدریس سے جُڑی رہیں۔ ادبی دنیا میں وہ سنجیدہ شاعرہ اور پختہ افسانہ نگار کے طور پر شناخت رکھتی ہیں۔ ایک شعری، ایک تنقیدی مضامین کا مجموعہ شایع ہوچکا ہے۔ امداد صاحب اپنی تخلیقات بیگم کو ضرور پڑھواتے ہیں۔ اُن ہی کی منظوری کے بعد اشاعت کے لیے دیتے ہیں۔ خدا نے ایک بیٹی، دو بیٹوں سے نوازا۔ بیٹی کی شادی ہوچکی ہے۔ شفیق والد ہیں۔ اولاد میں بھی ادبی ذوق منتقل ہوا۔ دونوں بیٹے کراچی میں مقیم ہیں، سو زیادہ وقت یہیں گزرتا ہے۔
سفر آوارگی، جس نے کرنیں کھوج نکالیں
شعری تخلیقات پر ایک نظر
''امداد آھے رول''(امداد آوارہ ہے) پہلا شعری مجموعہ تھا، جو 76ء میں شایع ہوا۔ فلیپ پر تنویر عباسی کی رائے درج تھی۔ اُس ''آوارگی'' کو ہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔ کہتے ہیں،''اُس وقت اُس کی قیمت پانچ روپے تھی۔ اب یہ نایاب ہوچکا ہے۔ آج کسی دوست کو فوٹو کاپی کروا کر دیتا ہوں، تو سو روپے خرچ ہوجاتے ہیں۔ (قہقہہ!)'' چالیس صفحات پر مشتمل، دوسرا مجموعہ ''شہر'' 2000 میں شایع ہوا، جو حیدرآباد کی بابت لکھی طویل نظم پر مبنی ہے۔ ''شہر'' سندھی میں لکھی جانے والی طویل نظموں میں نمایاں ترین ہے، جس میں اُنھوں نے حیدرآباد کی تاریخ، اِس کے کردار سمو دیے۔ پہلے اور دوسرے مجموعے کی اشاعت میں 34 برس کا فاصلہ ہے، جس کا سبب وہ اچھے پبلشرز کی کمی کو قرار دیتے ہیں۔
تیسرا مجموعہ ''ہوا جے سامھون'' (ہوا کے سامنے) بھی اُسی برس شایع ہوا، جو مختلف اصناف پر مشتمل تھا۔ 2013 میں چوتھا مجموعہ ''کرنیں جھڑو پَل'' (کرنیں جیسا پَل) منصۂ شہود پر آیا، جسے ہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔ اِس سے متعلق کہتے ہیں،''میرے دوست، اعجاز منگی اِسے سندھی ادبی بورڈ سے شایع کرنا چاہتے تھے۔ کمپوزنگ، پروف ریڈنگ کا مرحلہ بھی طے ہوگیا، مگر حکومت تبدیل ہونے کے بعد یہ معاملہ کھٹائی میں پڑ گیا۔ پانچ برس مسوّدہ پڑا رہا، جس کے بعد اِسے سندھی ادبی بورڈ نے شایع کیا۔ اِس کی اشاعت پر میں نے یہی کہا کہ چاہے کتنا ہی اندھیرا ہو، آپ روشنی کو روک نہیں سکتے۔ کرنیں اپنا راستہ تلاش کر لیتی ہیں۔ پیپلزپارٹی کی حکومت، جو پانچ سالہ رات پر محیط تھی، ختم ہوئی، تو یہ کتاب شایع ہوئی۔''
کلام کا بڑا حصہ غیرمطبوعہ ہے۔ اُسے یک جا کیا جائے، تو پانچ چھے مجموعے بن جائیں گے۔ شعر اردو میں بھی کہے۔ اُن کی اردو شعری تخلیقات اور سندھی سے ہونے والے تراجم پر مبنی کتاب ''دھوپ کرن'' کی اشاعت جلد متوقع ہے۔ کلام کے کچھ حصوں کا انگریزی میں بھی ترجمہ ہوا۔
''نظام لطیف'': جس نے شاہ
کے کلام کو زندہ رکھا
شاہ لطیف کے اثرات موضوع بنے، تو کہنے لگے،''شاعری انسانی ذہن کی اعلیٰ ترین سرگرمی ہے۔ زندہ شاعری کبھی تحریر تک محدود نہیں رہی۔ انسانیت کے اِس پیغام کو گیتوں کے ذریعے پھیلایا گیا۔ صوفی شعرا، خصوصاً شاہ لطیف اِس ضمن میں نمایاں ہیں۔ شاہ کو آنے والے وقت کا ادراک تھا۔
اُنھوں نے اپنی زندگی میں یہ انتظام کیا کہ اُن کا کلام، اُن کے سامنے گایا جاتا، جسے عام لوگ سنتے، اور اپنے اپنے علاقے میں جا کر گاتے۔ سندھ کے علاوہ آج ہندوستان میں بھی ایسے کئی علاقے ہیں، جہاں شاہ کا کلام باقاعدگی سے گایا جاتا ہے۔ شاہ نے یہ نظام محبت اور امن کے پیغام کو پھیلانے کے لیے وضع کیا، جس کے طفیل اُن کا کلام اَن پڑھ افراد تک بھی پہنچا۔ اور آج تک زندہ ہے۔''
افسانہ نگار امداد اور ''سانول''
افسانہ نگاری، سنجیدہ ناقدین کے نزدیک، اُن کی شناخت کا مستحکم حوالہ ہے۔ سلسلے کا آغاز اسکول ہی کے زمانے میں ہوا۔ پہلا مطبوعہ افسانہ حقیقی واقعات اور کرداروں کے گرد گھومتا تھا، جو سید امداد علی شاہ امداد ٹِھکڑائی کے نام سے چھپا۔ بعد کے برسوں میں ''سانول'' کے قلمی نام سے افسانے لگے۔
اِس نام کے چنائو کا ایک سبب تو یہ ہے کہ زوجہ اُنھیں سانول کہہ کر پکارتی تھیں۔ پھر اُس وقت بہ طور شاعر پہچان بنا چکے تھے۔ نہیں چاہتے تھے کہ ناقد اور قاری اُن کی تخلیق کو پرکھتے ہوئے اُن کی شعری حیثیت پیش نظر رکھیں۔ مطبوعہ افسانوں کی تعداد خاصی ہے، مگر فی الحال اُنھیں کتابی شکل نہیں دی گئی۔
کتاب میں کہیں لال رنگ نہ ہو!
کیا سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ گذشتہ تین دہائیوں میں اپنا کردار ادا کرسکا؟ ماہر تعلیم کی حیثیت سے وہ اِس سوال کا جواب کچھ یوں دیتے ہیں،''یہ ادارہ بڑے مقاصد کے لیے بنایا گیا تھا۔ اور کافی عرصے اُن مقاصد کو پورا بھی کیا، مگر پھر حکومتیں اِس پر اثر انداز ہونے لگیں۔ مثلاً جب ضیاالحق صاحب آئے، تو اُنھوں نے نصاب بدل دیا۔ یہ احکامات بھی جاری ہوئے کہ کتاب میں کہیں لال رنگ استعمال نہ ہو۔ یہ افسوس ناک بات تھی۔ جب یہ حکم آیا، تو میں نے کہا کہ خود اِس بندے کے خون کا رنگ کیا ہے؟''
یہیں سے نصاب کی زبوں حالی کا موضوع نکل آیا۔ کہنا ہے،''ہمارا نصاب وقت کی رفتار کے ساتھ نہیں چلا۔ مدرسوں، سرکاری اور پرائیویٹ اسکولز میں الگ الگ نصاب رائج ہے۔ پھر سفارش اور رشوت بھی ہے۔ حکومتوں کے مفادات ہیں۔ ہمارے زمانے میں اسلامیات کا مضمون ایک کتاب تک محدود تھا۔ اب دیگر مضامین میں بھی مذہبی مواد شامل ہوگیا ہے۔ غیرمسلم بھی اُنھیں پڑھنے پر مجبور ہیں۔ اِن سب باتوں پر ہمیں سنجیدگی سے سوچنا ہوگا۔''
تاریخ کی سرگوشی، ثقافت کی نقرئی گھنٹیوں کی پکار، فضا میں ہمکتی قدیم دانش۔ ہاں، ہر پَل زندہ تھا۔
حتیٰ کہ مکالمے میں در آنے والا وقفہ بھی کہ اُس خوش گوار شام وہ، انکساری اور ملن ساری کے لبادے میں سانس لیتی علمیت کے ساتھ، روبرو تھے۔
اُن کا تعارف کروانا جوئے شیرلانے کے مترادف ہے کہ افسانہ نگاری، مضمون نویسی، کالم نگاری سمیت کئی جہتیں ہیں اُن کی، پر اصل حوالہ تو آوارگی ہے، جس نے اشعار کی بے انت دنیا میں نمو پائی۔ امداد حسینی جدید سندھی شاعری کا نمایاں اور معتبر نام ہیں۔
اُن کے جادوئی اشعار نے سندھی شاعری کے آہنگ، اسلوب اور ہیئت کی صورت گری میں کلیدی کردار ادا کیا۔ کلام سے جھلکتے نظریات تنازعات کا بھی سبب بنے، مگر مخالفین کی پروا کیے بغیر اُنھوں نے اپنا سفر جاری رکھا۔ پیشہ ورانہ کیریر میں وہ سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ سے منسلک رہے۔ سندھی ادبی بورڈ کے پرچے ''مہران'' کی ذمے داری بھی بہ خوبی سنبھالی۔
حالاتِ زندگی کی تفصیلات سامع کو امیرتیمور کے زمانے میں لے جاتی ہیں، جب اُن کے جد امجد نے ہرات سے نکل کر نئی زمینوں کا رخ کیا۔ ٹھکانا قدیم سندھ ٹھہرا۔ جس کی زرخیز ثقافت، اُجلی تاریخ آج کے سندھ کی زندگی سے بھی جھلکتی ہے۔ اُس زمانے میں ہرات، قندھار، بلوچستان، راجستھان اور کاٹھیاواڑ اِس مردم خیز علاقے کی سرحدوں میں شامل تھے۔ بہ قول امداد حسینی،''کشمیر سے یہاں تک کا پورا علاقہ قدیم سندھ تھا۔
موجودہ پاکستان قدیم سندھ ہی کی سرزمین پر واقع ہے۔'' ابتداً اجداد نے مٹیاری میں ڈیرا ڈالا۔ پھر ایک گروہ نے دریائے سندھ کے کنارے گاؤں آباد کیا، جو دو بار سیلابی ریلے کی نذر ہوا۔ اِسی مناسبت سے اُن کے جد امجد، وسیع ملوک شاہ کی سرپرستی میں آباد ہونے والا تیسرا گاؤں، ٹِھکڑ (تیسرا بچہ) کہلایا۔ اور وہیں 10مارچ 1940 کو سندھ کی معروف علمی و ادبی شخصیت اور خلافت تحریک کے مرکزی راہ نما، علامہ سید اسد اﷲ شاہ فدا کے پوتے، امداد حسینی نے آنکھ کھولی۔ سندھ اسمبلی کے پہلے اسپیکر، میران محمد شاہ اُن کے چچا تھے۔
دادا اور چچا کے برعکس اُن کے والد، سید فضل محمد شاہ سیاست سے دُور رہے، خود کو زمیں داری تک محدود رکھا۔ تھے تو وہ انتہائی رحم دل، مگر تربیت کی غرض سے، ضرورت کے پیش نظر سختی برتنے کے قائل تھے۔ ''والد کی مار آج بھی یاد ہے۔ اسکول سے بھاگنے پر سزا ملا کرتی تھی، مگر میں نے بھاگنا چھوڑا نہیں۔ آوارگی اوائل عمری ہی سے ساتھ ہے۔'' اسکول سے نکل کر وہ جنگلوں، جھیلوں کا رخ کرتے۔ ہوٹل میں دو آنے کی چائے پیتے۔ وہاں گانے سنتے۔ چھے آنے میں فلمیں دیکھتے۔ اور شام میں کتابیں اٹھائے گھر لوٹ آتے۔
کرکٹ، ہاکی اور فٹ بال کا تو ابتدائی زمانے میں تجربہ نہیں کیا، مگر علاقائی کھیل جم کر کھیلے۔ شرارتیں بھی خوب کیں، اور وہ بھی ایسی جن میں خاصا جوکھم ہوتا۔ وہ دوپہر یاد ہے، جب دریا میں ڈوبتے ڈوبتے بچے۔ وہ تو ایک بھلے مانس نے دیکھ لیا، جس نے فوراً دریا میں چھلانگ لگا دی۔ یوں جان بچی۔ یہ بات کسی طرح والد تک پہنچ گئی، جنھوں نے سزا دینے کے بجائے سبق دینے کا فیصلہ کیا۔ اُنھوں نے ہی امداد حسینی کو تیراکی سِکھائی۔
بٹوارے کے سمے سات برس کے تھے۔ وہ وقت یاد ہے، جب اُن کے بڑوں نے یہاں سے جانے والوں کو بڑی محبت سے رخصت کیا، اور آنے والوں کا کھلے دل سے استقبال کیا۔ پانچویں تک تعلیم گاؤں کے مکتب سے حاصل کی۔ پھر حیدرآباد کا رخ کیا۔ نورمحمد ہائی اسکول کا حصہ بن گئے۔ وہیں ہاسٹل کی زندگی کا تجربہ کیا۔
مکتب کے مانند ہاسٹل سے بھاگنے کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔ سزائیں اِس عمل سے باز نہیں رکھ سکیں۔ میٹرک کا مرحلہ طے کرنے کے بعد سچل سرمست کالج سے انٹر کیا۔ پھر سندھ یونیورسٹی سے سندھی ادب میں ماسٹرز کی سند حاصل کی۔ طلبا سیاست میں بھی متحرک رہے۔ جب ایوب دور میں شریف کمیشن نے سندھی اور دیگر علاقائی زبانوں کو پانچویں تک محدود کر دیا، تو ایک تحریک نے جنم لیا۔ سندھی ادبی سنگت کے پلیٹ فورم سے وہ اُس میں شامل ہوئے۔ اِسی تحریک کے نتیجے میں حکومت کو اپنا فیصلہ واپس لینا پڑا۔
زمانۂ طالب علمی میں پیشہ ورانہ سفر کا آغاز کر دیا۔ سندھی لوک ادب سے، پچاس روپے ماہ وار پر، منسلک ہوگئے۔ دفتر کیا تھا، چھوٹا سا کمرہ تھا، جہاں ڈاکٹر نبی بخش بلوچ کی سرابرہی میں کام کرنے والا سندھی لغت کا عملہ بھی بیٹھا کرتا۔ دو برس بعد سندھی ادبی بورڈ میں لائبریرین ہوگئے۔ پھر ریسرچ فیلو کی حیثیت سے سندھالوجی کا حصہ بن گئے۔ اب سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ میں ذمے داری سنبھالی۔ 77ء میں ''مہران'' کے ایڈیٹر ہوگئے۔
ان کے ایک اداریے پر کیا جانے والا اعتراض وہاں سے رخصتی کا سبب بنا، جس کے بعد سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ کی جانب پلٹے، جہاں اپنی ''سیٹ'' کے حصول کے لیے خاصی تگ و دو کرنی پڑی۔ 2000 میں ریٹائرمینٹ کے وقت وہ محکمے میں سینئر سبجیکٹ اسپیشلسٹ (سندھی) کے منصب پر فائز تھے۔ اِس عرصے میں سندھی ادبی بورڈ کے اَن چارج سیکریٹری بھی رہے۔ ریٹائرمینٹ کے بعد پھر ''مہران'' کی ذمے داری سنبھالی، جسے چار برس نبھایا۔ گو لیفٹ کے آدمی ہیں، مگر نظریات کبھی سرکاری ملازمت میں رکاوٹ نہیں بنے کہ ہمیشہ توازن قائم رکھا۔
ادب دوستی کی کہانی میں پہلا کردار اُن کی دادی کا ہے، جن سے کہانی سنے بغیر اُنھیں نیند نہیں آتی تھی۔ پھر کتابوں سے نبھنے لگی، جن کی گھر میں فراوانی تھی۔ نانا، حافظ شاہ شاعر تھے۔ گھر میں شادی بیاہ کے موقعے پر اُن کی کافیاں گائی جاتیں۔ شاعر، سید ٹھکڑائی کی صحبت نے، جو اُن کے رشتے دار تھے، اظہار کے لیے اُکسایا۔ چوتھی جماعت میں تھے، جب خیال کو کافی کے قالب میں ڈھالا۔ تخلص کیا بلا ہے، اُس وقت نہیں جانتے تھے۔ جب جان گئے، تب بھی اِس کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ گاؤں میں باقاعدگی سے دوستوں کے ساتھ طرحی مشاعروں منعقد کیا کرتے۔
بہ قول اُن کے،''دیگر علاقوں میں اناج اُگا کرتا، جب کہ ٹِھکڑ میں شاعروں کی فصل اُگتی ہے۔ یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ مجھے یاد ہے، ہم روز مشاعرہ کرتے، اور اگلے دن کی 'طرح' دے کر اٹھتے۔'' ابتدائی تخلیقات حیدرآباد سے نکلنے والے بچوں کے ایک پرچے ''گلستاں'' میں شایع ہوئیں۔ رومانوی خطوط کی صورت اردو نثر کا تجربہ کیا۔ اردو کے انتخاب کا سبب یہ رہا کہ خطوط جس کے نام لکھے گئے، وہ پری وش سندھی نہیں جانتی تھی۔ کہتے ہیں،''دراصل یہ عشق کا تجربہ تھا، جس نے اردو نثر لکھوائی۔''
شعری سفر سبک روی سے جاری رہا، جسے ادبی سرگرمیوں نے مہمیز کیا۔ مشاعرے بھی پڑھے۔ تخلیقات اخبارات و جرائد کا حصہ بننے لگیں۔ اُس زمانے میں، اردو کے مانند، سندھی میں بھی جدیدیت کا شہرہ تھا۔ اُنھوں نے اِس فکر کے ساتھ قدم بڑھائے۔ اِس عمل کو وہ ترقی پسند فکر کا منطقی نتیجہ قرار دیتے ہیں۔ ''ترقی پسندی شاعر کی فطرت میں ہوتی ہے۔ اگر آپ کی فطرت میں ترقی پسندی، وطن پرستی، انسان دوستی، عاشقی، حسن پرستی، سُر، لے نہیں، تو آپ شاعر نہیں ہوسکتے۔''
کلام کی ندرت، اسلوب اور فکر نے جلد ہی قارئین کو گرویدہ بنا لیا۔ پہلے ہی مجموعۂ کلام نے اُن کی انفرادیت پر تصدیق کی مہر ثبت کر دی۔ کہتے ہیں،''میں نے شعوری طور پر نئی راہ اختیار نہیں کی۔ شاید لاشعوری طور پر قدم اُس راہ پر پڑ گئے۔ اُس زمانے میں شیخ ایاز، تنویر عباسی اور شمشیرالحیدری سمیت کئی بڑے نام تھے، جن کا کلام منفرد تھا۔ میں بھی اُن میں شامل ہوگیا۔ دراصل اس وقت نئی نسل کا تصور نہیں تھا۔ سب برابر تھے۔ ہر کسی کا اپنا مقام تھا۔''
انفرادیت کے دیگر پہلو تو اپنی جگہ، منفرد ترین پہلو یہ ہے کہ اُن کی شاعری میں انگریزی الفاظ کثرت سے ملتے ہیں۔ قاری کا ''ردھم''، ''چینج''، ''کار''، ''سگریٹ'' اور ''پارکر'' جیسے الفاظ سے سامنا ہوتا ہے، مگر خوبی یہ ہے کہ اجنبی زبان کے یہ الفاظ قطعی اجنبی نہیں لگتے۔ بہ قول اُن کے،''دیکھیں، انگریزی سے جان نہیں چُھڑائی جاسکتی۔ گاؤں کی عورتیں بھی، لہجے کے بدلاؤ کے ساتھ، انگریزی الفاظ استعمال کرتی ہیں۔ دراصل زندہ زبانیں، دیگر زبانوں کو الفاظ عطا بھی کر سکتی ہیں، اور ضرورت پڑنے پر لے بھی سکتی ہیں۔ اگر یہ فطرتی عمل رک جائے، تو زبان ختم ہوجائے گی۔ میرے نزدیک یہ تبادلہ جاری رہنا چاہیے۔''
ترجمے کے میدان میں بھی طبع آزمائی کی۔ مرزا قلیچ بیگ کے ناول ''زینت'' کو بڑی مہارت سے اردو کے قالب میں ڈھالا، جسے اکیڈمی آف لیٹرز نے شایع کیا۔ مسکراتے ہوئے کہتے ہیں،''اُس ترجمے کے مجھے 350 روپے ملے تھے۔ اور جس نے پروف پڑھا، اُسے 500 روپے ملے۔'' شاعر، بھاگُوبھان کا طویل رزمیہ ''دُودُو چنیسر'' کا لوک ورثہ کے لیے اردو میں ترجمہ کیا، جو مشکل، مگر پُرتجسس عمل ثابت ہوا۔
فیض احمد فیض کے کلام کو بھی وہ سندھی کے قالب میں ڈھال چکے ہیں، جس کی اشاعت جلد متوقع ہے۔ یہ ذمے داری 2011 میں اٹھائی، جب ایک تقریب میں ظفر اﷲ پوشنی نے کلام فیض کا سندھی میں ترجمے کرنے کا خیال پیش کیا۔ اِس عمل کے دوران صنف کو مقدم رکھا۔ غزل کو غزل کے قالب میں ڈھالا، نظم کو نظم کے سانچے میں۔ ساتھ ہی سندھی ثقافت، تاریخ اور محاورے کو بھی پیش نظر رکھا۔
شناخت کا ایک حوالہ گیت نگاری بھی ہے۔ چار سندھی فلموں کے لیے اُنھوں نے گیت لکھے۔ چار عشروں سے زاید عرصے پر پھیلے اپنے ادبی سفر میں مضمون نگاری، کالم نویسی کا بھی تجربہ کیا۔ اُنھیں کتابی شکل دینے کا ارادہ تو ہے، مگر پہلے اُنھیں تلاش کرنا پڑے گا۔
سندھی شاعری کے مستقبل سے متعلق کہتے ہیں،''اُبھرتے ہوئے چند نام ایسے ضرور ہیں، جنھیں دیکھ کر روشن کل کی امید جنم لیتی ہے، مثلاً مسرور پیرزادہ، روبینہ ابڑو، مگر گروہ بندیوں کی وجہ سے ایسے شعرا کی تخلیقات تواتر سے سامنے نہیں آرہیں۔'' ون یونٹ کا زمانے، اُن کے نزدیک، تخلیقی نقطۂ نگاہ سے انتہائی زرخیز تھا۔ ''اُس کے بعد جو زوال آیا، اُس سے ہم تاحال نہیں نکل سکے۔ ہاں، کبھی کبھی محسوس ہوتا ہے کہ نکلنے کی کوشش ہورہی ہے۔''
سندھی اور اردو زبان و ادب کے درمیان پائے جانے والے فاصلے کی بابت کہتے ہیں،''ایک زمانے میں یہ دونوں زبانیں بہت قریب آگئی تھیں، مگر پھر گروہی مفادات اور سیاست رکاوٹ بن گئے۔ ڈاکٹر الیاس عشقی اردو اور سندھی، دونوں ہی زبانوں کا بڑا نام تھے، پروفیسر آفاق صدیقی تھے۔ اِن شخصیات کی تخلیقات تواتر سے شایع ہونی چاہییں۔ ادبی سرگرمیاں منعقد کی جائیں۔ پھر ہمیں عام لوگوں میں جانا چاہیے۔ میں لوگوں میں جاتا ہوں۔ وہ ایک دوسرے کو سمجھتے ہیں۔ اِس عمل کو پھیلانا چاہیے۔'' امداد صاحب کو ایسا کوئی سیاست داں نظر نہیں آتا، جو عوام کو قریب لانے میں کردار ادا کرسکے۔ ''اُن کا مفاد تو عوام کے اختلافات میں ہے۔ سیاست عبادت کا درجہ رکھتی ہے، مگر اِس کا حشر نشر کر دیا ہے۔ کراچی میں روزانہ درجنوں لوگ مر رہے ہیں، اور سندھ کے ہر دوسرے علاقے میں یہی ہو رہا ہے۔ اِس کا سبب کیا ہے، کیا اِس کے پیچھے کوئی ہے؟ جس 'گریٹ گیم' کا ہم ذکر سنتے ہیں، شاید یہ وہ ہی معاملہ ہے۔''
وہ تعلیم کی کمی کو ملک کا بنیادی مسئلہ قرار دیتے ہیں۔ ''فقط تعلیم ہی آپ کو مسائل کے اِس دلدل سے نکال سکتی ہے۔'' نوجوان شعرا کو مطالعہ کرنے، عام لوگوں سے ملنے کی نصیحت کرتے ہیں۔ اُجلے انسانوں سے ملاقات - چاہے اُن کا تعلق کسی بھی زبان، کسی بھی مذہب سے ہو - مسرت سے بھر دیتی ہے۔ چھوٹے بھائی کا انتقال زندگی کا کرب ناک ترین لمحہ تھا۔
کلاسیکی شاعری کے مداح ہیں۔ ہر صبح شاہ لطیف کا مطالعہ کرتے ہیں۔ سندھی افسانے میں جمال ابڑو، غلام ربانی اور حفیظ شیخ کو سراہتے ہیں۔ حلیم بروہی کا ناول ''اوڑھا'' بہت اچھا لگا۔ اردو شاعری میں غالب، فیض اور ساحر لدھیانوی کا نام لیتے ہیں۔ فکشن میں کرشن چندر، منٹو، عصمت اور بیدی کی تعریف کرتے ہیں۔ بیرونی ادب میں موپساں اور ہیمنگ وے کا نام لیتے ہیں۔ مطمئن ہونا، اُن کے نزدیک، جمود کی نشانی ہے، البتہ اِس بات کی خوشی ہے کہ انھوں نے ایک شاعر کی حیثیت سے زندگی گزاری۔
پینٹ شرٹ میں خود کو آرام دہ پانے والے امداد حسینی کو ساون کی رت بھاتی ہے۔ پلا مچھلی مرغوب غذا ہے۔ چالیس برس قبل شادی ہوئی۔ زوجہ، سحر امداد تدریس سے جُڑی رہیں۔ ادبی دنیا میں وہ سنجیدہ شاعرہ اور پختہ افسانہ نگار کے طور پر شناخت رکھتی ہیں۔ ایک شعری، ایک تنقیدی مضامین کا مجموعہ شایع ہوچکا ہے۔ امداد صاحب اپنی تخلیقات بیگم کو ضرور پڑھواتے ہیں۔ اُن ہی کی منظوری کے بعد اشاعت کے لیے دیتے ہیں۔ خدا نے ایک بیٹی، دو بیٹوں سے نوازا۔ بیٹی کی شادی ہوچکی ہے۔ شفیق والد ہیں۔ اولاد میں بھی ادبی ذوق منتقل ہوا۔ دونوں بیٹے کراچی میں مقیم ہیں، سو زیادہ وقت یہیں گزرتا ہے۔
سفر آوارگی، جس نے کرنیں کھوج نکالیں
شعری تخلیقات پر ایک نظر
''امداد آھے رول''(امداد آوارہ ہے) پہلا شعری مجموعہ تھا، جو 76ء میں شایع ہوا۔ فلیپ پر تنویر عباسی کی رائے درج تھی۔ اُس ''آوارگی'' کو ہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔ کہتے ہیں،''اُس وقت اُس کی قیمت پانچ روپے تھی۔ اب یہ نایاب ہوچکا ہے۔ آج کسی دوست کو فوٹو کاپی کروا کر دیتا ہوں، تو سو روپے خرچ ہوجاتے ہیں۔ (قہقہہ!)'' چالیس صفحات پر مشتمل، دوسرا مجموعہ ''شہر'' 2000 میں شایع ہوا، جو حیدرآباد کی بابت لکھی طویل نظم پر مبنی ہے۔ ''شہر'' سندھی میں لکھی جانے والی طویل نظموں میں نمایاں ترین ہے، جس میں اُنھوں نے حیدرآباد کی تاریخ، اِس کے کردار سمو دیے۔ پہلے اور دوسرے مجموعے کی اشاعت میں 34 برس کا فاصلہ ہے، جس کا سبب وہ اچھے پبلشرز کی کمی کو قرار دیتے ہیں۔
تیسرا مجموعہ ''ہوا جے سامھون'' (ہوا کے سامنے) بھی اُسی برس شایع ہوا، جو مختلف اصناف پر مشتمل تھا۔ 2013 میں چوتھا مجموعہ ''کرنیں جھڑو پَل'' (کرنیں جیسا پَل) منصۂ شہود پر آیا، جسے ہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔ اِس سے متعلق کہتے ہیں،''میرے دوست، اعجاز منگی اِسے سندھی ادبی بورڈ سے شایع کرنا چاہتے تھے۔ کمپوزنگ، پروف ریڈنگ کا مرحلہ بھی طے ہوگیا، مگر حکومت تبدیل ہونے کے بعد یہ معاملہ کھٹائی میں پڑ گیا۔ پانچ برس مسوّدہ پڑا رہا، جس کے بعد اِسے سندھی ادبی بورڈ نے شایع کیا۔ اِس کی اشاعت پر میں نے یہی کہا کہ چاہے کتنا ہی اندھیرا ہو، آپ روشنی کو روک نہیں سکتے۔ کرنیں اپنا راستہ تلاش کر لیتی ہیں۔ پیپلزپارٹی کی حکومت، جو پانچ سالہ رات پر محیط تھی، ختم ہوئی، تو یہ کتاب شایع ہوئی۔''
کلام کا بڑا حصہ غیرمطبوعہ ہے۔ اُسے یک جا کیا جائے، تو پانچ چھے مجموعے بن جائیں گے۔ شعر اردو میں بھی کہے۔ اُن کی اردو شعری تخلیقات اور سندھی سے ہونے والے تراجم پر مبنی کتاب ''دھوپ کرن'' کی اشاعت جلد متوقع ہے۔ کلام کے کچھ حصوں کا انگریزی میں بھی ترجمہ ہوا۔
''نظام لطیف'': جس نے شاہ
کے کلام کو زندہ رکھا
شاہ لطیف کے اثرات موضوع بنے، تو کہنے لگے،''شاعری انسانی ذہن کی اعلیٰ ترین سرگرمی ہے۔ زندہ شاعری کبھی تحریر تک محدود نہیں رہی۔ انسانیت کے اِس پیغام کو گیتوں کے ذریعے پھیلایا گیا۔ صوفی شعرا، خصوصاً شاہ لطیف اِس ضمن میں نمایاں ہیں۔ شاہ کو آنے والے وقت کا ادراک تھا۔
اُنھوں نے اپنی زندگی میں یہ انتظام کیا کہ اُن کا کلام، اُن کے سامنے گایا جاتا، جسے عام لوگ سنتے، اور اپنے اپنے علاقے میں جا کر گاتے۔ سندھ کے علاوہ آج ہندوستان میں بھی ایسے کئی علاقے ہیں، جہاں شاہ کا کلام باقاعدگی سے گایا جاتا ہے۔ شاہ نے یہ نظام محبت اور امن کے پیغام کو پھیلانے کے لیے وضع کیا، جس کے طفیل اُن کا کلام اَن پڑھ افراد تک بھی پہنچا۔ اور آج تک زندہ ہے۔''
افسانہ نگار امداد اور ''سانول''
افسانہ نگاری، سنجیدہ ناقدین کے نزدیک، اُن کی شناخت کا مستحکم حوالہ ہے۔ سلسلے کا آغاز اسکول ہی کے زمانے میں ہوا۔ پہلا مطبوعہ افسانہ حقیقی واقعات اور کرداروں کے گرد گھومتا تھا، جو سید امداد علی شاہ امداد ٹِھکڑائی کے نام سے چھپا۔ بعد کے برسوں میں ''سانول'' کے قلمی نام سے افسانے لگے۔
اِس نام کے چنائو کا ایک سبب تو یہ ہے کہ زوجہ اُنھیں سانول کہہ کر پکارتی تھیں۔ پھر اُس وقت بہ طور شاعر پہچان بنا چکے تھے۔ نہیں چاہتے تھے کہ ناقد اور قاری اُن کی تخلیق کو پرکھتے ہوئے اُن کی شعری حیثیت پیش نظر رکھیں۔ مطبوعہ افسانوں کی تعداد خاصی ہے، مگر فی الحال اُنھیں کتابی شکل نہیں دی گئی۔
کتاب میں کہیں لال رنگ نہ ہو!
کیا سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ گذشتہ تین دہائیوں میں اپنا کردار ادا کرسکا؟ ماہر تعلیم کی حیثیت سے وہ اِس سوال کا جواب کچھ یوں دیتے ہیں،''یہ ادارہ بڑے مقاصد کے لیے بنایا گیا تھا۔ اور کافی عرصے اُن مقاصد کو پورا بھی کیا، مگر پھر حکومتیں اِس پر اثر انداز ہونے لگیں۔ مثلاً جب ضیاالحق صاحب آئے، تو اُنھوں نے نصاب بدل دیا۔ یہ احکامات بھی جاری ہوئے کہ کتاب میں کہیں لال رنگ استعمال نہ ہو۔ یہ افسوس ناک بات تھی۔ جب یہ حکم آیا، تو میں نے کہا کہ خود اِس بندے کے خون کا رنگ کیا ہے؟''
یہیں سے نصاب کی زبوں حالی کا موضوع نکل آیا۔ کہنا ہے،''ہمارا نصاب وقت کی رفتار کے ساتھ نہیں چلا۔ مدرسوں، سرکاری اور پرائیویٹ اسکولز میں الگ الگ نصاب رائج ہے۔ پھر سفارش اور رشوت بھی ہے۔ حکومتوں کے مفادات ہیں۔ ہمارے زمانے میں اسلامیات کا مضمون ایک کتاب تک محدود تھا۔ اب دیگر مضامین میں بھی مذہبی مواد شامل ہوگیا ہے۔ غیرمسلم بھی اُنھیں پڑھنے پر مجبور ہیں۔ اِن سب باتوں پر ہمیں سنجیدگی سے سوچنا ہوگا۔''