پاک چین دوستی کی مشترک قدریں

پاکستان کو درپیش توانائی کے سنگین بحران کے لیے چین ترجیحی بنیادوں پر تعاون کے لیے تیار ہے، چینی وزیراعظم


Editorial May 22, 2013
پاکستان کو درپیش توانائی کے سنگین بحران کے لیے چین ترجیحی بنیادوں پر تعاون کے لیے تیار ہے، چینی وزیراعظم۔ فوٹو: اے ایف پی

چینی وزیراعظم لی کی چیانگ نے کہا ہے کہ پاکستان کو درپیش توانائی کے سنگین بحران کے لیے چین ترجیحی بنیادوں پر تعاون کے لیے تیار ہے۔ حالات کچھ بھی ہوں پاکستان سے اسٹرٹیجک شراکت داری کو مستحکم بنائیں گے، گرمجوشی سے استقبال کے لیے پاکستانی حکومت اور عوام کا شکر گزار ہوں، انھوں نے کہا چین پاکستان کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کی حمایت کرے گا ۔چینی وزیراعظم نے کہا کہ دو مختلف نظاموں کے باوجود پاک چین دوستی کی مشترک قدریں دنیا کے لیے ایک مثال ہے اور وہ پاکستانی عوام کے لیے دوستی کا پیغام لائے ہیں ۔

صدر زرداری نے پاک چین دوستی کے لیے اہم کردار ادا کیا ہے۔ چینی وزیراعظم پاکستان کے دو روزہ دورے پر اسلام آباد پہنچنے کے بعد ایوان صدر میں اپنے اعزاز میں دیے گئے ظہرانے سے خطاب کررہے تھے جس میں پاکستان مسلم لیگ ن کے سربراہ نواز شریف سمیت تمام بڑی سیاسی جماعتوں کے سربراہوں، دوسرے اہم پاکستانی اور چینی حکام نے شرکت کی ۔قبل ازیں معزز مہمان کے فقیدالمثال استقبال کے لیے وفاقی دارالحکومت کو خوبصورت بینروں اور جھنڈیوں سے سجایا گیا، صدر آصف زرداری، نگراں وزیراعظم میر ہزار خان کھوسو، مسلح افواج کے سربراہان اور دیگر اعلیٰ حکام نے ان کا استقبال کیا۔

اس حقیقت پر اب تاریخی مہر ثبت ہوچکی ہے کہ پاک چین تعلقات دوستی کا حوالہ ملکوں کے باہمی تعلقات ، سفارت کاری ، سیاسی ،اقتصادی ،تجارتی اور سماجی شعبوں میں اشتراک و تعاون کا دائمی استعارہ بن چکا ہے جس کا سبب اہل پاکستان اور چینی عوام کے مابین ایک اتفاق رائے اور یکجہتی و یگانگت کا وہ احساس ہے جس نے پاک چین دوستی کو سمندروں کی گہرائی اور کوہساروں کی سربلندی عطا کی ہے۔علاوہ ازیں دنیا کے دو مختلف اور متنوع نظام ہائے حیات کے ہوتے ہوئے پاکستان اور چین نے عالمی امن، مفاہمت، بین الاقوامیت ،انسان دوستی اور جنگ کے خلاف ایٹمی اسلحہ کی تحدید اور پر امن بقائے باہمی کے تناظر میں عالمی فورمز پر ہمیشہ اصولی موقف اپنایا ہے۔

چین کے نئے منتخب وزیراعظم بھارت کے دورے کے بعد پاکستان آئے ہیں انھوں نے پاکستان کے توانائی کے بحران کے خاتمہ کے لیے تعاون کی جو پیشکش کی ہے وہ اس امر کی شاہد ہے کہ چین کو پاکستان کی اقتصادی ترقی سے خصوصی دلچسپی ہے اور اپنے قیام کے دوران دو طرفہ ٹریڈ میں توسیع اور عالمی ایشوز پر ایک دوسرے کی ضرورتوں کو سمجھنے اور خطے میں افغان جنگ کے باعث ہونے والی تبدیلیوں کے حوالے سے تبادلہ خیال کریں گے ۔بلاشبہ چین کی سماجی اور اقتصادی ترقی ہمارے لیے ایک رول ماڈل ہے۔ چین ایک عظیم تہذیب کا وارث ملک اور اکیسویں صدی کی جدید سائنسی اور ٹیکنالوجیکل ترقی کے انقلابی اقدامات میں پیش پیش ہے۔

اس نے عالمی امور میں ایک غیر جانبدار اور اصولی ملک کے حوالہ سے دنیا کی سپر پاورز کی جنگ زرگری اور سرد جنگ کے پورے دورانئے میں اپنی امن پسندی ، انسان دوستی اور متوازن سفارت کاری کے ذریعے عالمی امن کے مشترکہ مفادات کی حمایت کی ہے۔دنیا کے معروضی حالات کا جبر دیکھئے کہ چینی وزیر اعظم کی آمد ایک ایسے وقت ہوئی ہے جب پاکستان کو داخلی طور پر دہشت گردی، توانائی کے سنگین مسائل سمیت خطے میں کشیدگی سے پیدا شدہ صورتحال کا سامنا ہے ، پاک چین دشمنوں نے چینی وزیراعظم کی آمد سے قبل کراچی کی بندرگاہ کے قریب چینی ماہرین کی گاڑی کو نشانہ بنانے کی شرم ناک کوشش کی جو ناکام بنادی گئی، واضح رہے کہ وفاقی وزیر داخلہ ملک حبیب خان نے معزز مہمان کی پاکستان آمد کے حوالہ سے پیشگی انتظامات کے تحت وزارت داخلہ کو ملک گیر سیکیورٹی کے فول پروف اقدامات کی ہدایت کی اور نیشنل کرائسزمنجمنٹ کی ہدایت پر پی ٹی اے نے وفاقی دارالحکومت میں بدھ کو سہ پہر تک موبائل فون سروس معطل رکھنے کا حکم بھی دیا۔ اس حقیقت سے حکمرانوں کو یہ ادراک ہوجانا چاہیے کہ دہشت گردوں کو کسی چیز کا احساس نہیں ۔

اس لیے ہر آن ان سے خبردار رہنے کی ضرورت ہے۔ دنیا دہشت گردی ،انتہا پسندی ، اور مذہبی جنون و بالادستی کی پاور پالیٹکس میںالجھی ہوئی ہے، دہشت گردی اور خود ساختہ نظریات کے حامل عناصر اور ان کے نیٹ ورک سے عالمی امن کو خطرات لاحق ہیں ، جب کہ نائن الیون نے پاکستان کی معیشت کو ناقابل تلافی نقصان سے دوچار کردیا ہے۔چنانچہ پاک چین دوستی عصری تقاضوں کی روشنی میں دو طرفہ تجارتی روابط ، مشترکہ منصوبوں میں سرمایہ کاری اور اہم مصنوعات کے لیے دونوں ملک منڈیوں کے در کھولنے اور ایک دوسرے کی سماجی،تعلیمی، تکنیکی اور معاشی ترقی کے لیے پہلو بہ پہلو آگے بڑھتے جائیں۔ چین کے اقتصادی اور سماجی ترقی کے تجربات سے استفادے کے لیے بھی دو طرفہ اقدامات کو ادارہ جاتی حیثیت ملنی چاہیے جب کہ معاشی تعاون کے لیے مزید اقدامات ناگزیر ہیں ۔ پاک چین تجارتی معاہدات کے تحت انرجی اور انفرااسٹرکچر سے متعلق کئی منصوبے زیر تکمیل ہیں، چینی درآمدات سے پاکستان کی مارکیٹیں بھری پڑی ہیں، کیونکہ یہ مصنوعات سستی ہیں ۔

یہی صورت پاکستانی پروڈکٹس کی چینی منڈیوں اور تجارتی مراکز میں نظر آنی چاہیے۔لی چیانگ نے کہا کہ پاکستان سے تعلقات کے کئی امکانات ہیں ۔گزشتہ برس دوطرفہ تجارت کا حجم پہلی بار 12 ارب ڈالرسے بڑھ گیا جب کہ توقع ہے کہ آیندہ دو تین سالوں میں یہ حجم 15 ارب ڈالر تک پہنچ جائے گا۔ یہ خوش آیند اشارہ ہے اور پاکستانی ہم منصب سے بات چیت سے اندازہ لگایا گیا کہ چین پاکستان کو ان شعبوں میں ترجیحی بنیاد پر تعاون مہیا کرنے کو تیار ہے جن کے بغیر پاکستان کو ترقی کے لیے اشد محنت اور غیر ملکی سرمایہ کاری کی ضرورت پڑیگی ۔چنانچہ نگراں حکومت کے بعد نئی حکومت کو بھی ان دو طرفہ معاہدوں اور منصوبوں پر عمل درآمد سے قومی معیشت کو سہارا دینے میںبڑی مدد مل سکتی ہے۔ چینی حکومت کے تعاون و اشتراک سے مواصلات، تعلیم، الیکٹرانکس ، متبادل توانائی ، مشینری ، سرجری آلات، کھاد، ٹیکسٹائل، تیار ملبوسات سمیت پاک چین فری ٹریڈ ایگریمنٹ کے تحت تجارتی توسیع کے لیے اقدامات پر توجہ دینی چاہیے۔

چین نے پاکستان کے نئے معاشی حب گوادر بندرگاہ کی تعمیرکے لیے جو خدمات انجام دی ہیںعالمی طاقتیں اس پر رشک کرتی ہیں اس لیے پاکستان کو انتہائی احتیاط کے ساتھ اپنے محل وقوع پر حریصانہ نظر رکھنے والی قوتوں سے بچنے کی ضرورت ہے جو پاک چین دوستی کے گوادر پورٹ کو پسند نہیں کرتیں ۔ گوادر پورٹ کے فنکشنل ہونے سے کراچی پورٹ پر دبائو سے نجات مل سکتی ہے اور وسط ایشا تک اقتصادی رابطے کی راہ ہموار ہوجانے سے پاکستان کی معاشی ترقی کو مہمیز ملے گی۔گوادر پورٹ کے آپریشن کو ٹیک اوور کرنے کے بعد پاک چین اشتراک عمل کے نتیجہ میں آبنائے ہرمز سے گزرنے والے تیل کے اہم راستے پاکستان اور چین کے لیے بھی معاشی ثمرات میں اضافے کا باعث بنیں گے۔اس ساحلی علاقے کی نگرانی پاک چین بحریہ کی ذمے داری بننے سے بھارتی بحری عزائم کا راستہ بھی رک جائے گا۔چین درحقیقت پاکستانی دوستی کو اس لیے لائق توجہ اور باعث افتخار سمجھتا ہے کہ پاکستان وہ پہلا ملک تھا جس نے چین کی خود مختاری،جغرافیائی وحدت اور سالمیت کی مکمل حمایت کرتے ہوئے تائیوان سے ترک تعلق کرکے چین سے تجدید وفا کی تھی۔ اس بے غرض محبت والفت کو چین کیسے فراموش کرسکتا ہے ۔ دیکھا جائے تو دونوں ملکوں کے تعلقات پر کسی موسم کا اثر نہ ہوا ہے اور نہ آیندہ ہوگا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں

رائے

شیطان کے ایجنٹ

Nov 24, 2024 01:21 AM |

انسانی چہرہ

Nov 24, 2024 01:12 AM |