یہودی بستیوں کی تعمیر عالمی برادری چپ کیوں

مشرق وسطی میں امن کا قیام عالمی برادری کا ایک ایسا خواب ہے جو تاحال شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکا ہے...

اسرائیل فلسطین تنازعہ کو تاریخی پس منظر میں حل کرنے کے لیے کوششیں کی جائیں، پاکستان۔ فوٹو: اے ایف پی

مشرق وسطی میں امن کا قیام عالمی برادری کا ایک ایسا خواب ہے جو تاحال شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکا ہے ، فلسطینیوں کی اپنے حقوق اور آزادی کے لیے جدوجہد لازوال قربانیوں سے عبارت ہے، وہیں اسرائیل کی غاصبانہ پالیسیاں اور امریکا کی آشیر آباد اس مسئلے کے حل میں رکاوٹ ہیں ۔پاکستان نے مسئلہ فلسطین کے حل کے لیے ہمیشہ اپنی مخلصانہ کوششیں جاری رکھی ہیں ۔اسی سلسلے میں پاکستان نے بین الاقوامی برادری پر زور دیا ہے کہ اسرائیل فلسطین تنازعہ کو تاریخی پس منظر میں حل کرنے کے لیے کوششیں کی جائیں۔

منگل کو پاکستانی سفیر مسعود خان نے فلسطین کے بارے میں اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کمیٹی کو بتایا کہ ہم فلسطینیوں کی تکالیف اور درد کو سمجھتے ہیں کہ وہ کس کرب سے گزر رہے ہیں ان کے مسائل پر عالمی برادری کی مسلسل توجہ ضروری ہے، اس موقعے پر فلسطینی مذاکرات کار صائب ارکات نے اقوام متحدہ کے رکن ممالک سے مطالبہ کیا کہ وہ مسئلہ فلسطین پر اپنی پوزیشن واضح کریں ۔ مسعود خان نے کہا کہ امریکا، اقوام متحدہ،یورپی یونین، روس اور سیکیورٹی کونسل کو اس سلسلے میں کردار ادا کرنا چاہیے کیونکہ مسئلے کا حقیقی اور پائیدار حل ایک آزاد ، خودمختار،فلسطینی ریاست کے قیام میں مضمر ہے اور اس سلسلے میں عرب لیگ کی کوششیں قابل تعریف ہیں۔اگر ہم تاریخی تناظر میں دیکھیں تو 1967ء میں مشرقی بیت المقدس اور مغربی اردن پر اسرائیلی قبضے کے بعد سے ان علاقوں میں 100 سے زائد نئی بستیاں قائم کی گئی ہیں ۔


جن میں کم از کم نصف ملین یہودی آباد ہیں ۔ عالمی قوانین کے مطابق یہ بستیاں غیر قانونی تصور کی جاتی ہیں تاہم اسرائیلی حکومت انھیں جائز مانتی ہے اور ہٹ دھرمی کی پالیسی پر قائم ہے حالانکہ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بھی اسرائیل پر زور دے چکے ہیں کہ وہ مغربی کنارے میں یہودی بستیوں کی تعمیر بندکرے اگر تعمیر جاری رہتی ہے تو یہ عالمی قوانین کی خلاف ورزی کا تسلسل ہوگا ۔اسرائیل یہودی بستیوں کی تعمیر روک دیتا ہے تو اس سے تعاون کی فضا کو فروغ ملے گا ۔ لیکن اسرائیلی حکومت دنیا بھر سے یہودی کو لا کر ان بستیوں میں آباد کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے اور وہ اس طرح فلسطینی اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرنے کی سازش پر عمل پیرا ہے ۔

چند ماہ بیشتر امریکا کے صدر بارک اوباما مقبوضہ فلسطین کا دورہ کرچکے ہیں بظاہر یہ دورہ مسئلے کے حل کے لیے کیا گیا تھا لیکن بین السطور اس دورے کے دوران اس بات کا منظر عام پر آنا کہ'' امریکا اسرائیل کو تنہا نہیں چھوڑے گا '' مسئلے کے پائیدار حل میں رکاوٹ کا سبب نظر آتا ہے یہی وجہ ہے کہ امن مذاکرات بار بار تعطل کا شکار ہوجاتے ہیں جیسے امن کی کوششوں کو دھچکا لگتا ہے۔ پاکستان کا موقف اس سلسلے میں انتہائی واضح اور دوٹوک ہے کہ وہ بیت المقدس دارالحکومت رکھنے والی آزاد اورخودمختارفلسطینی ریاست کے قیام کے لیے فلسطینی عوام کی منصفانہ جدوجہد کی غیر متزلزل حمایت جاری رکھے گا،کیونکہ پاکستان اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ جب تک فلسطینیوں کے مسائل حل نہیں کیے جاتے مشرق وسطی میں امن کا قیام ممکن نہیں، پاکستان ، عرب لیگ اور عالمی برادری تنازعہ فلسطین کے سلسلے میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں اور فلسطینی عوام کے لیے قابل قبول حل کی غرض سے کی جانے والی تمام کوششوں کی حمایت کرتی ہے ۔
Load Next Story