میاں صاحب اب بسم اﷲ کریں کرپٹ لوگوں کو پکڑیں
موجودہ حکمرانوں کا احتساب تو ان کی حکومت کے جانے کے بعد ہو گا لیکن جن کی حکومت جا چکی ہے ان کا احتساب آج ہونا ہے...
میاں شہباز شریف کو جو بات سب سے پہلے کہنی چاہیے تھی بلکہ پہلے سے بھی پہلے کہنی چاہیے تھی وہ گزرنے والے حکمرانوں کے احتساب کی تھی۔ موجودہ حکمرانوں کا احتساب تو ان کی حکومت کے جانے کے بعد ہو گا لیکن جن کی حکومت جا چکی ہے ان کا احتساب آج ہونا ہے بلکہ ضرور ہونا ہے۔ قوم کے تازہ زخموں سے رستا ہوا خون ابھی ٹھنڈا نہیں ہوا اس سے پہلے کہ یہ جم جائے اس کا تجزیہ لازم ہے بلکہ وہ سزا بھی لازم ہے جو اس تجزیے میں کسی کی نشاندہی پر اس کے نام سے نکلے گی۔ ہمارے ہاں اکثر حکمران ایک ہی طبقے سے آئے ہیں ان میں سے کوئی بھی کسی کا احتساب نہیں چاہتا۔ کسی گزشتہ حکمران کا احتساب گویا اپنا احتساب کرنا ہے۔ یہ سب ایک ہی ہوتے ہیں۔ نواب کالا باغ کسی دوست سے ناراض ہو گئے۔
گورنر کالا باغ کی ناراضگی نعوذ باللہ خدا کی ناراضگی تھی چنانچہ افسروں نے ان صاحب کے خلاف متوقع کارروائیوں کی ایک فہرست تیار کی وہ ایم این اے تھے۔ ایک افسر نے عرض کیا کہ جناب یہ کام بڑا آسان ہے اس سیاستدان کا بیٹا سرکاری ملازم ہے آپ حکم دیں اس کا بندوبست آسان ہے۔ نواب صاحب نے فوراً جواب دیا مگر یہ تو میرا بھتیجا ہے۔ چنانچہ یہ سب جنھیں اشرافیہ کہا جاتا ہے بھانجے بھتیجے ہوتے ہیں اور کسی کے خلاف کوئی کارروائی ایک فرد کے خلاف نہیں پورے خاندان کے خلاف ہوتی ہے جس کے برادرانہ رشتے کبھی فراموش نہیں کیے جا سکتے۔ عرض احتساب کی ہو رہی تھی میاں صاحبان جو اب حکمران بننے والے ہیں ابھی خاندانی اور قدیمی دوستیوں رشتہ داریوں تک نہیں پہنچے، یہ نئے ہیں ان کے بیٹے بھی جن حالات اور ماحول کی پیداوار ہیں اس میں تعلقات کاروباری زیادہ اور خاندانی کم ہوتے ہیں اس لیے مجھے امید ہے کہ میاں صاحب آنکھیں ماتھے پر رکھ کر احتساب کرنے کی حیثیت میں ہوں گے۔
میاں شہباز نے کہا ہے کہ مسائل زدہ عوام اپنی مشکلات کا حل چاہتے ہیں انھیں دھرنا سیاست سے دلچسپی نہیں ہے اور یہ وقت احتجاج کا نہیں تمام جماعتیں مل کر مشرف زرداری کے دیے ہوئے زخموں پر مرہم رکھیں۔ انھوں نے اس موضوع پر اور بھی بہت کچھ کہا ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ سابقہ حکمرانوں کی زیادتیوں کو بڑی شدت کے ساتھ محسوس کر رہے ہیں لیکن وہ کوئی میرے جیسے عام شہری نہیں ہیں اقتدار کی دنیا میں قدم رکھنے والے ہیں اور اقتدار بھی ایسا جو مطلق العنانی تک کہا جا سکتا ہے پھر جہانتک احتساب کا تعلق ہے اس میں تو وہ ایک تحریک کے لیڈر بن سکتے ہیں کیونکہ قوم کا ہر فرد خواہ وہ کسی بھی سیاسی جماعت کا ہے اپنے ظالموں سے بدلہ لینے پر تیار ہے۔
میں یہ سب ڈر ڈر کر کہہ رہا ہوں کیونکہ کسی بھی حکمران کے ہاتھ پائوں اتنے آزاد نہیں ہوتے جتنے میرے اور آپ کے ہیں۔ یہ کوئی حکومت نہیں کہ وہ سب دیکھ رہی ہو اسے ماضی میں ظلم کرنے والوں کا علم ہو اور یہ ظالم اس کے سامنے اس کی قلمرو میں دندناتے پھر رہے ہوں اور میاں صاحبان ان کے خلاف کوئی تندوتیز بیان جاری کر دیں۔ عام کارندوں کی بات تو کریں یا نہ کریں ہمارے سابق وزرائے اعظم کو تو ہماری اعلیٰ ترین عدالتیں الزام دے چکی ہیں ان میں سے کسی ایک کو پکڑ لیں، یہ بہت کمزور لوگ ہوتے ہیں اور جب اپنے سامنے سچ دیکھتے ہیں تو پھر پگھل جاتے ہیں اور سینہ چاک کر کے رکھ دیتے ہیں۔ یہ وہ روایتی سخت مزاج لوگ نہیں ہوتے کہ تھانیدار نیا نیا آیا تو علاقے کے بدمعاشوں کو پکڑ لیا اور انھیں گالیاں دیں اور پھر مارا پیٹا بھی، اس پر ایک بدمعاش نے عرض کیا کہ سرکار ہم بدمعاش لوگ ہیں اور نئے تھانیدار کا گالی وغیرہ کا حق تسلیم کرتے ہیں لیکن یہ مار کٹائی ایک زیادتی ہے۔
اس پر اس نے اس مشہور جملے کا اضافہ کیا کہ سائیں اتنا مارو جتنا خود بھی برداشت کر سکو۔ یہ جملہ سن کر تھانیدار پھر مشتعل ہو گیا اور مار پیٹ شروع کر دی۔ بدمعاش بدن سنبھالتا ہوا چل دیا ،ہلدی اور انڈا دودھ میں ڈال کر پی لیا اور شام کے وقت جب تھانیدار اپنی پرائیویٹ کچہری لگا کر بیٹھتا تھا تو بدمعاش بھی حاضر ہو گیا، سلام کیا اور تھانیدار کے موڑھے کے ساتھ لٹکا ہوا پستول اتار لیا اور پھر تھانیدار صاحب کے ساتھ وہی کچھ کرنا شروع کر دیا جو اس نے کیا تھا۔ لیکن ہمارے آج کے وزراء اعظم اور وزراء بزدل لوگ ہوتے ہیں کیونکہ یہ سب کرپٹ ہوتے ہیں اور رشوت خور کبھی بہادر نہیں ہوتا۔ انھوں نے ابھی سے عدالتوں سے معافیاں مانگنی شروع کر دی ہیں لیکن اصل وقت وہ ہوگا جب کوئی حکمران ان سابق حکمرانوں کو 'سابق' بنا دے گا۔ ان بدمعاش اور بدکردار لوگوں کی کرپشن صرف ان کی ذات تک نہیں ان کی آل اولاد تک پھیلی ہوئی ہے۔
حیرت ہوتی ہے کہ بیگمات بھی بیٹے بیٹیاں بھی سب ہر وقت ہر ایک سے رشوت طلب کرتے ہیں جیسے نذرانہ مانگ رہے ہوں اور یہ سب ان کے بزرگوں کا دیا ہوا حق ہو۔ جو لوگ کچی دیوار کی مرمت نہیں کروا پاتے تھے انھوں نے پرانے گھروں کو قلعے بنا لیا۔ راجہ رینٹل صاحب جن کے طفیل قوم لوڈشیڈنگ کا عذاب الیم جھیل رہی ہے اب صرف معافی پر جان چھڑوانا چاہتے ہیں۔ پھر یہ بڑے ہی نہیں ان کے ماتحت چھوٹے بڑے سرکاری کارندے جب یہ دیکھتے تھے کہ ان کے ذریعے یہ سب کارگزاری ہو رہی ہے تو پھر وہ بھی پاک و صاف کیسے رہتے اور کیوں رہتے، چنانچہ حقیقت ہے کہ چپڑاسی سے لے کر اعلیٰ ترین شخصیت تک کرپشن کی لوڈشیڈنگ میں شرابور رہے۔ ایک وقت تھا کہ دنیا بھر میں پاکستان کرپشن کی ایک مثال تھا۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کا نام ایک عالمی لطیفہ بن گیا تھا۔ ہماری وجہ سے لوگ اسلام کا اور پاکستان کا مذاق اڑاتے تھے۔
میاں شہباز شریف سے زیادہ کون ہے جو اس کرپشن کی انتہا اور رازوں تک پہنچ گئے ہیں اگر وہ اقتدار میں آنے کے بعد اپنے ملک کے ساتھ اس کرپشن کا بدلہ نہیں لیتے پائی پائی نہ سہی ڈالر ڈالر وصول نہیں کرتے تو پھر ان کو اگر کوئی خادم اعلیٰ کی جگہ کرپٹ لوگوں کا دوست اعلیٰ نہ کہے تو کیا کہے۔مجھے تو ان کی صفوں میں بھی کئی چھوٹے بڑے ملزم دکھائی دیتے ہیں لیکن وہ بسم اللہ کریں اللہ ان کی مدد کرے گا۔ ان کی والدہ ماجدہ کی دعائیں قوم کے بھی ساتھ ہیں اور اپنے بیٹے کے بھی ساتھ ہیں جو محض والدہ کے حکم پر سعودی عرب جانے پر رضا مند ہوا تھا۔ مجھے نہیں معلوم کہ یہ سطریں میاں صاحب تک پہنچیں گی یا نہیں لیکن ہر ایک کا فرض اس کا فرض ہے اور ہر ایک کی قبر اس کی قبر ہے۔