کیا آپ کو بھی مچھر بہت زیادہ کاٹتے ہیں
دنیا بھر میں مچھروں کی 3 ہزار سے زائد اقسام ہیں جو ملیریا، ڈینگی اور زیکا وائرس وغیرہ کے پھیلنے کا سبب بنتی ہیں
سائنس دانوں کا دعوی ہے کہ مچھر کسی شخص کو زیادہ کاٹتے ہیں جب کہ کچھ لوگوں کو بالکل تنگ نہیں کرتے جس کی ایک سائنسی وجہ ہے۔ اسی طرح بیماریوں کا سبب بننے والی مادہ مچھر صرف اس وقت کاٹتی ہے جب وہ انڈے دینے کی حالت میں ہو۔
ایک مچھر پوری رات کا سکون غارت کرنے کے لیے کافی ہوتا ہے تاہم عمومی طور پر مشاہدہ کیا گیا ہے کہ ایک شخص مچھر سے تنگ ہے جب کہ اُسی کمرے میں موجود دوسرا شخص مچھر سے بےخبر پُر سکون نیند کے مزے اُڑا رہا ہوتا ہے۔
یہ ایک ایسا مشاہدہ جس کی ہر کوئی اپنی اپنی توجیح پیش کرتا ہے اور اس حوالے سے کئی قصے کہانیاں بھی مشہور ہیں جیسے انسانی جلد کی رنگت، پسینے کی بُو، خون کا گروپ اور بالوں کی ساخت مچھروں کو اپنی جانب متوجہ کرتی ہیں۔ تاہم سائنس دان ان توجیحات سے مطمئن نظر نہیں آتے۔
کچھ طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ مچھروں کی تمام ہی اقسام کاربن ڈائی آکسائیڈ کا بہترین اداراک رکھتی ہیں اور جیسے ہی جسم سے خارج ہونے والی کاربن ڈائی آکسائیڈ فضا میں پھیلتی ہے، مچھر اندھیرے کے باوجود اپنے شکار تک پہنچ جاتا ہے۔ اس کے علاوہ لیکٹک ایسڈ اور امونیا سے بھی مچھر اپنے شکار کو ٹارگٹ کرلیتا ہے۔
تاہم اب نئی تحقیق سے کچھ اور باتیں بھی سامنے آئی ہیں جن کا تعلق انسانی جسم پر پائے جانے والے جرثوموں کی مجموعی کیفیت سے ہے جسے سائنسی زبان میں ''مائیکروبایوٹا'' کہتے ہیں۔ ویب سائٹ ' دی کنورزیشن' پر رچرڈ ہاف پینی کے ایک مضمون میں بتایا گیا ہے کہ انسانی جلد بالوں پر مختلف الاقسام جرثوموں (بیکٹیریا) کی بڑی تعداد پائی جاتی ہے؛ اور مچھر ہماری جلد کو نہیں بلکہ ان ہی جرثوموں کی وجہ سے یا تو ہم پر حملہ آور ہوتے ہیں یا پھر ہمیں نظر انداز کردیتے ہیں۔
آپ کو یہ جان کر شاید حیرت ہو کہ انسانی کھال کے ہر ایک مربع انچ پر 10 لاکھ سے زیادہ بیکٹیریا پائے جاتے ہیں جو 300 یا اس سے بھی زیادہ اقسام کے ہوسکتے ہیں۔ یہ بیکٹیریا عام طور پر خود ہمارے لیے تو نقصان کا باعث نہیں بنتے لیکن مچھروں کو ہماری طرف متوجہ کرنے (یا نہ کرنے) کا موجب ضرور بن سکتے ہیں۔ بیکٹیریا سے انتہائی معمولی مقدار میں خارج ہونے والے بعض مادّے، بخارات کی شکل میں مچھروں تک پہنچتے ہیں اور ان کا حساس نظام انہیں بہ آسانی محسوس کرلیتا ہے۔ اسی کے ردِعمل میں وہ یا تو کسی شخص کو کاٹنے کےلیے اس پر بھنبھنانا شروع کردیتے ہیں یا پھر نظرانداز کرجاتے ہیں۔
کسی بھی انسان کا مائیکروبایوٹا پوری عمر کے دوران کم و بیش یکساں ہی رہتا ہے جسے مصنوعی طریقوں سے تبدیل کرنا کسی بھی طرح عقل مندی کا کام نہیں۔ اس لیے صرف اتنا ہی کہا جاسکتا ہے کہ اگر آپ کا مائیکروبایوٹا محفوظ ہے اور مچھروں کےلیے کوئی کشش نہیں رکھتا تو آپ خوش نصیب ہیں۔ اور اگر آپ کی کھال پر پائے جانے والے بیکٹیریا کا یہ مجموعہ ایسا ہے کہ مچھر اس کی سمت راغب ہوں، تو پھر ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔
ایک مچھر پوری رات کا سکون غارت کرنے کے لیے کافی ہوتا ہے تاہم عمومی طور پر مشاہدہ کیا گیا ہے کہ ایک شخص مچھر سے تنگ ہے جب کہ اُسی کمرے میں موجود دوسرا شخص مچھر سے بےخبر پُر سکون نیند کے مزے اُڑا رہا ہوتا ہے۔
یہ ایک ایسا مشاہدہ جس کی ہر کوئی اپنی اپنی توجیح پیش کرتا ہے اور اس حوالے سے کئی قصے کہانیاں بھی مشہور ہیں جیسے انسانی جلد کی رنگت، پسینے کی بُو، خون کا گروپ اور بالوں کی ساخت مچھروں کو اپنی جانب متوجہ کرتی ہیں۔ تاہم سائنس دان ان توجیحات سے مطمئن نظر نہیں آتے۔
کچھ طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ مچھروں کی تمام ہی اقسام کاربن ڈائی آکسائیڈ کا بہترین اداراک رکھتی ہیں اور جیسے ہی جسم سے خارج ہونے والی کاربن ڈائی آکسائیڈ فضا میں پھیلتی ہے، مچھر اندھیرے کے باوجود اپنے شکار تک پہنچ جاتا ہے۔ اس کے علاوہ لیکٹک ایسڈ اور امونیا سے بھی مچھر اپنے شکار کو ٹارگٹ کرلیتا ہے۔
تاہم اب نئی تحقیق سے کچھ اور باتیں بھی سامنے آئی ہیں جن کا تعلق انسانی جسم پر پائے جانے والے جرثوموں کی مجموعی کیفیت سے ہے جسے سائنسی زبان میں ''مائیکروبایوٹا'' کہتے ہیں۔ ویب سائٹ ' دی کنورزیشن' پر رچرڈ ہاف پینی کے ایک مضمون میں بتایا گیا ہے کہ انسانی جلد بالوں پر مختلف الاقسام جرثوموں (بیکٹیریا) کی بڑی تعداد پائی جاتی ہے؛ اور مچھر ہماری جلد کو نہیں بلکہ ان ہی جرثوموں کی وجہ سے یا تو ہم پر حملہ آور ہوتے ہیں یا پھر ہمیں نظر انداز کردیتے ہیں۔
آپ کو یہ جان کر شاید حیرت ہو کہ انسانی کھال کے ہر ایک مربع انچ پر 10 لاکھ سے زیادہ بیکٹیریا پائے جاتے ہیں جو 300 یا اس سے بھی زیادہ اقسام کے ہوسکتے ہیں۔ یہ بیکٹیریا عام طور پر خود ہمارے لیے تو نقصان کا باعث نہیں بنتے لیکن مچھروں کو ہماری طرف متوجہ کرنے (یا نہ کرنے) کا موجب ضرور بن سکتے ہیں۔ بیکٹیریا سے انتہائی معمولی مقدار میں خارج ہونے والے بعض مادّے، بخارات کی شکل میں مچھروں تک پہنچتے ہیں اور ان کا حساس نظام انہیں بہ آسانی محسوس کرلیتا ہے۔ اسی کے ردِعمل میں وہ یا تو کسی شخص کو کاٹنے کےلیے اس پر بھنبھنانا شروع کردیتے ہیں یا پھر نظرانداز کرجاتے ہیں۔
کسی بھی انسان کا مائیکروبایوٹا پوری عمر کے دوران کم و بیش یکساں ہی رہتا ہے جسے مصنوعی طریقوں سے تبدیل کرنا کسی بھی طرح عقل مندی کا کام نہیں۔ اس لیے صرف اتنا ہی کہا جاسکتا ہے کہ اگر آپ کا مائیکروبایوٹا محفوظ ہے اور مچھروں کےلیے کوئی کشش نہیں رکھتا تو آپ خوش نصیب ہیں۔ اور اگر آپ کی کھال پر پائے جانے والے بیکٹیریا کا یہ مجموعہ ایسا ہے کہ مچھر اس کی سمت راغب ہوں، تو پھر ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔